دل بہت اداس تھا اس شام۔
یہ اداسی کیوں تھی ، یہ مجھے بھی نہیں معلوم تھا۔ ہوتا ہے ناں کہ کبھی کبھی دل یونہی دُکھی ہوجاتا ہے، بغیر کسی وجہ کے۔ جیسے کبھی خوشی بھی ہوتی ہے بس یونہی، بغیر کسی وجہ کے،
مجھے تو یہ درد، یہ اداسی مزہ دیتی ہے۔ پتہ نہیں میرا یہ اول جلول سا فلسفہ کسی کی سمجھ بھی آئے یا نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ درد کا اپنا ایک مزہ ہے اپنی خوبصورتی ہے۔ اندر کہیں جب گھنے بادل چھائے ہوں تو ہی بہترین فن تخلیق پاتا ہے۔ شاعر اپنی بہترین شاعری کرتا ہے، مصور حزن و ملال کے رنگوں سے زندگی سے قریب تر تصویر بناتا ہے، موسیقار بہترین، دل میں اتر جانے والی دُھنیں تخلیق کرتا ہے۔
اور نجانے کیسے میرے ہاتھ خود بخود کار کے میوزک پلئیر پر چلے گئے اور ایک آواز میرے کانوں میں رس گھولنے لگی
“ شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم
آبھی جا آبھی جا آج میرے صنم
شام غم کی قسم
درد کو جب درد کا ساتھ مل جائے تو شاید درد کا درماں ہونے لگتا ہے۔ یوں لگا جیسے میری اداسی کو زباں مل گئی ہو۔
اور اس شام ہی نہیں ، جب بھی طلعت محمود کو سنا یوں لگا جیسے دل کے زخموں پر کوئی پھولوں سے تھپکی دے رہا ہے۔ طلعت کی ملکوتی، دل کو چھوتی، ریشم سی ملائم ، کانپتی درد بھری اور کانوں میں شہد گھولتی آواز جب بھی سنی دل کو یوں سکون ملا ہے کہ روح تک سرشار ہوگئی۔
اردو گائیکی اور خصوصا غزل گائیکی میں طلعت کا انداز سب سے منفرد ہے۔ دوسرے گلوکار بھی اپنی جگہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور ہر ایک کا اپنا مقام ہے اور کچھ تو طلعت محمود سے کہیں بڑھ کر بھی ہیں لیکن مجھے جو سکون طلعت کی آواز میں ملتا ہے وہ کچھ میرا دل ہی جانتا ہے۔
وہ آواز جسے کانپتی ہوئی آواز کہہ کر رد کردیا گیا ، وہی کانپنا اس آواز کی خوبی بن گیا۔ طلعت کا سریلا پن، آواز کی مٹھاس، لہجے کا درد اور پھر یہ سب جب خوبصورت ترین کلام سے مل جاتے ہیں تو جو چیز تخلیق پاتی ہے اسے وہی سرِاہ سکتے ہیں جو اس آواز کے دیوانے ہیں اور یہ دیوانے آج بھی کم نہیں ۔
شاعروں اور اہل علم کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہونے والے طلعت محمود کے والد بھی گاتے تھے لیکن عارفانہ کلام یعنی حمد ونعت کے علاوہ کچھ اور گانے کے سخت خلاف تھے اور جب انہوں نے طلعت کا گانے کا شوق دیکھا تو صاف کہہ دیا کہ گانا بند کرو یا میرے گھر سے نکل جاؤ۔ طلعت ایک فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے، یعنی گھر سے نکل گئے۔
طلعت گھر سے نکلے اور ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئے جہاں سولہ سال کی عمر میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو پر پہلا گانا ریکارڈ کروایا۔دو سال نہیں گذرے تھے کہ ایچ ام وی ریکارڈنگ کمپنی نے ان سے معاہدہ کرلیا اور پہلا ریکارڈ ان کا گیت “ سب دن ایک سمان نہیں “ منظر عام پر آیا۔
ہمارے بہت پیارے دوست معراج جامی صاحب کے برادر بزرگ فیاض ہاشمی فلمی شاعری کا بہت بڑا نام ہیں ۔ فیاض ہاشمی ہی کا گیت “ تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی” طلعت کو شہرت کی ان بلندیوں پر لے گئی جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ 1944 کی بات ہے۔ اس وقت اس گیت کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ طلعت کی اگلی منزل کلکتہ تھی جہاں انہوں نے تپن کمار کے نام سے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اور شاید یہیں انہیں مشہور موسیقار انل بسو اس مل گئے جو انہیں بمبئی لے آئے اور ان سے فلم “آرزو” میں “ اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو” گوایا۔ مجروح سلطان پوری کے اثر انگیز بول، انل بسو اس کی دلآویز موسیقی ، طلعت کی دل میں اترتی آواز اور دلیپ کمار کی حزن و ملال سے پر اداکاری۔ یہ ابتداء تھی ایسے کئی اور دل کو چھو لینے والے نغموں کی جو طلعت کے پرسوز گلے سے نکلنے والے تھے۔
طلعت کی شخصیت بھی ان کی آواز کی طرح سلجھی ہوئی، صاف ستھری اور باوقار تھی۔ اور جب یہ خوبصورت آواز اور شخصیت یکجا ہوں تو بھلا بالی ووڈ کی فلمی دنیا انہیں کیسے نظر انداز کردیتی اور جب دونوں طرف آگ برابر لگی ہو یعنی طلعت کو بھی اداکاری کا شوق ہو تو پھر انہیں فلموں میں آنے سے کون روک سکتا تھا چنانچہ کئی فلموں میں اداکاری کی اور ہیرو بھی بنے۔
بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور کانن بالا، کانن دیوی، بھارتی دیوی سے لے کر ثریا، مدھو بالا، شیاما، مالا سنہا ، نادرہ اور نوتن وغیرہ تک کے ساتھ ہیرو آئے۔ لیکن فلموں میں طلعت زیادہ مقبول نہیں ہوئے چنانچہ پھر انہوں نے ساری توجہ گانے پر ہی رکھی اور یہ ان کا اپنے پر ستاروں پر بڑا احسان تھا۔
طلعت کے زمانے میں محمد رفیع، مکیش، کشور، ہیمنت کمار، مناڈے وغیرہ کی دھوم تھی اور یہ سارے نام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، ایسے میں اپنے لیے ایک الگ جگہ بنانا طلعت محمود کا ہی کمال تھا۔
غزل طلعت کا خاص میدان ہے۔ انہیں شہنشاہ غزل بھی کہتے ہیں گو کہ مہدی حسن نے غزل کو ایک الگ ہی مقام دیا اور صحیح معنوں میں وہی شہنشاہ سوز اور شہنشاہ غزل کہلاتے ہیں ۔ لیکن طلعت کا اپنا ایک انداز ہے جو ان کے چاہنے والوں کے جی کو بھاتا ہے۔ غزل کے علاوہ، گیت، اور نظمیں وغیرہ بھی گائیں ۔ وہ محمد رفیع کی طرح ور سٹائل یا کشور کی طرح شوخ نہیں تھے اور ان کا انداز بہت محدود اور مخصوص تھا لیکن ان کے پرستار انہیں اسی وجہ سے چاہتے ہیں اور جو درد اور گھمبیرتا طلعت کی آواز میں ہے اسی کے دیوانے ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ طلعت نے کتنے گیت گائے لیکن میں تو ان کا جو بھی گانا سنتا ہوں بس سنتا ہی رہ جاتا ہوں۔ اور طلعت کے گیت میں گھنٹوں سن سکتا ہوں۔ یہ واحد گلوکار ہیں جنہیں میں کسی بھی وقت سن سکتا ہوں اور کبھی بھی سن کر اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
یوں تو طلعت کے گانے سنیل دت، بھارت بھوشن، دیوآنند، راج کپور وغیرہ بھی فلمائے گئے ہیں لیکن دلیپ کمار پر فلمائے گئے ان کے گیتوں کی بات ہی الگ ہے۔ ٹریجیڈی کنگ اور شہنشاہ سوز کے ملاپ نے ہندی سنیما کے خوبصورت ترین حزنیہ گیت جنم دیے ہیں۔
اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل کے علاوہ۔ اے میرے دل کہیں اور چل،،، شام غم کی قسم، سینے میں سلگتے ہی ارمان، ،،یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی، ۔۔ہم درد کے ماروں کا، ،،ملتے ہی آنکھیں دل ہوا۔۔ یہ سارے گیت دلیپ کمار پر فلمائے گئے۔ اس کے علاوہ سنیل دت پر فلمایا ہوا “ جلتے ہیں جن کے لیے تیری آنکھوں کے دئیے” اور “ اتنا نا مجھ سے تو پیار بڑھا” اور ایسے کئی گیت ہیں جو جب بھی سنے جائیں کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
طلعت محمود نہ تو محمد رفیع ہیں، نہ مہدی حسن جیسا گا سکتے ہیں، نہ کشور کمار یا مکیش یا مناڈے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ طلعت محمود ہیں اور ان جیسا کوئی نہیں۔
نوشاد کو طلعت کی آواز بہت پسند تھی لیکن وہ طلعت محمود کی سگریٹ نوشی سے بہت نالاں رہتے تھے اور آخر چڑ کر انہوں نے طلعت سے گوانا بند کردیا۔ یہی سگریٹ نوشی جس نے طلعت کے گلے میں سوز پیدا کیا تھا گلے کی سوزش کا سبب بن گئی اور اسی نے ہم سے ایک بہت ہی سریلا، میٹھا، درد بھری ریشمی آواز والا گلوکار چھین لیا۔
میرے نوجوان دوست حیران ہورہے ہونگے کہ میں آج یہ کس کا ذکر لے بیٹھا۔ انہیں شاید میری بات سمجھ نہ آئے۔ تو ان کو میرا مشورہ ہے کہ کبھی ذرا تنہائی میں بیٹھ کر یہ چند ایک گیت سنیں اور مجھے بتائیں کہ ان کے دل کا کیا حال ہے۔
بے چین نظر بے تاب جگر یہ دل ہے اسی کا دیوانہ
ہم درد کے ماروں کا اتنا سا ہے افسانہ
زلفوں کی سنہری چھاؤں تلے
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
میرا قرار لے جا مجھے بے قرار کرجا
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
میں دل ہوں اک ارمان بھرا
تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی
جائیں تو جائیں کہاں
زندگی دینے والے سن
ہم سے آیا نہ گیا تم سے بلایا نہ گیا
ابھی اور بہت سے گیت ہیں ۔ آپ یہ سن لیں تو پھر خود ہی مزید کی تلاش میں نکل جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...