میں اکثر حیران ہوتی ہوں کہ انسان اتنا نادان کیسے ہو سکتا ہے کہ جان بوجھ کر خسارہ اکٹھا کرے مگر ایسا ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر ہوتا ہے۔
میں جب میڈیسن سے فارغ ہوئی تو ہاؤس جاب ختم ہوتے ہی مجھے دیس نکالا مل گیا۔ میں اپنے دل کے سرور عاقب جو میرا فرسٹ کزن تو تھا ہی مگر بچپن ہی سے ہمارے مابین ایک تعلق خاص بھی رہا تھا۔ ہمارے بڑے ہونے پر بنا کسی بدمزگی یا رکاوٹ کے ہم دونوں شریک سفر ہوئے۔ عاقب کی ہمراہی میں زندگی پھولوں کی رہ گزر رہی کہ میں زمین پر کب، عاقب کی بنائی ہوئی کہکشاں پر چلتی تھی۔ عاقب ڈاؤ میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کرتے ہی امریکہ چلے گئے تھے اور جیسے ہی میرا ہاوس جاب مکمل ہوا، فون پر نکاح اور پھر فوری رخصتی۔ اس زمانے میں امریکہ کے ویزے کا حصول بھی آسان تھا۔ میں نے فلوریڈا میں مزید پڑھا اور بہترین anesthesiast بن گئ۔
مجھے آج بھی کراچی سے فلوریڈا کا طویل ترین سفر یاد ہے۔ میکے کو چھوڑنے کا دکھ تو تھا ہی پر اس سے کہیں زیادہ خوشی اپنے محبوب سے ملنے کی تھی۔ عجیب سفر تھا کبھی روتی تھی تو کبھی عاقب کے تصور سے خود ہی لجاتی کانپتی اور کبھی پورے بدن میں سنسناہٹ پھیل جاتی۔ مارے ہیجان کے پورے سفر میں کچھ کھایا پیا ہی نہیں گیا اور جب فلوریڈا ائرپورٹ پر اتری تو بھوک اور نقاہت سے برا حال تھا۔ عاقب نے والہانہ استقبال کیا۔ ان کا اپارٹمنٹ ائرپورٹ سے بہت دور نہیں تھا، دسویں منزل پر وہ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ پھولوں سے معطر و رنگین میرا منتظر تھا۔ اس وقت مجھے کب معلوم تھا کہ یہاں اصلی پھول اتنے مہنگے ملتے ہیں جو بے حساب خوش رنگ تو ہوتے ہیں مگر خوشبو سے عاری۔
عاقب نے ہسپتال سے ہفتے کی چھٹیاں لیں تھیں اور ان دس دنوں کو ہم دونوں نے بھر پور سرشاری سے جیا۔ فلوریڈا تو پھر فلوریڈا تھا مجھے تو یقین واثق ہے کہ عاقب کی سنگت میں صحرائے گوبی بھی جنت نظیر ہوتا۔ ساری بات ہی دل کی خوشی کی ہے۔ تار سے تار جڑ جائے یا سر سے سر مل جائیں تو زندگی حسین و رنگین ۔ ہم دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کی شخصی آزادی کا احترام کیا اور ایک دوسرے کو اسپیس دی۔
فلوریڈا کا موسم اور سمندر کراچی جیسا ہے سو یہاں زیادہ اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ۔ جب گھر والے بےطرح یاد آتے ہم دونوں سمندر کی ہمراہی میں سکون پاتے۔ سمندر ہمیشہ ہمارے لیے مادر مہربان ہی رہا۔ یہاں ہم دونوں جان توڑ محنت کر رہے تھے اور ہم نے اپنا معیار زندگی بلند نہیں کیا تھا بلکہ دسترخوان لمبا کر دیا تھا۔ عاقب پر انکے بھائی بہنوں کی ذمہ داری تھی اور مجھے ابن کا دیرینہ خواب پورا کرنا تھا یعنی ایک صاف ستھرے علاقے میں ایک کشادہ گھر۔
ہم سبھوں نے اپنا بچپن پاکستان کواٹر کے تنگ سے آنگن میں مل جل کر گزارا تھا پھر ہم بچوں کے قدرے بڑے ہونے پر ابن یاسین آباد اور تایا ابو واٹر پمپ شفٹ ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کے گھر ضرور دور ہو گئے مگر دل ایک ہی لے پر دھڑکتے تھے۔ دونوں بزرگوں نے تا عمر رزق حلال کو عین عبادت جانا اور بہتیرے مواقع ہوتے ہوئے بھی کبھی حرام کے دام پر فریب میں گرفتار نہیں ہوئے۔ دونوں کی عمر بھر کی کمائی ہم بچے ہی تھے۔ تایا کہ چار بچے عاقب، ریحانہ باجی، رخسانہ اور زاہد اور ابن کی کل کائنات ان کی دو بیٹیاں یعنی میں اور انجم۔ ابھی تایا ابو اور ابن ریٹائر نہیں ہوئے تھے مگر ہم دونوں میاں بیوی کی شدید آرزو تھی کہ ہم لوگ ان لوگوں کی زندگیوں میں کچھ آسانی اور فراغت کا سامان کر سکیں۔
پانچ سال تک ہمارا اپنا خاندان شروع کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ میں اس سے پہلے ابن کی آرزو کو مجسم حقیقت کرنا چاہتی تھی اور بفضل خدا تعالیٰ اس میں سرخرو ٹھہری اور گلشن اقبال ڈسکو موڑ سے آگے ابن کے لیے دو سو گز پر آشیانہ تعمیر کروا دیا۔ پھر اگلے سال اوپر کی منزل بنوا کر تایا ابو کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی وہیں منتقل ہو جائیں۔ یوں یہ چاروں پھر اکٹھے ہو گئے اور ہم لوگ ذہنی طور پر پرسکون۔ اسی کی دھائی کے اخیر میں انجم کی شادی ایک یادگار تقریب تھی جس میں خاندان بھر نے بھر پور شرکت کی ۔ پاکستان کے دو مہینوں کا وہ ٹرپ خوشگوار یادوں کا البم تھا۔ انجم بیاہ کر ساؤتھ افریقہ گئ۔ تایا ابو کے گھر بس اب زاہد تھا اور اسے بھی ایم ایس کرنے جرمنی جانا تھا۔ رخسانہ باجی لاہور اور رخسانہ ملیر میں تھی اور اپنی گرہستی نبھاتی تھی۔
اپنی دونوں بیٹوں کی وجہ سے میں نے ہسپتال کی مصروفیت خاصی کم کر لی تھی، ہفتے میں محض تین دن جاتی تھی۔ اس بیچ ابن امی اور تایا ابو اور تائی جان نے فلوریڈا کا ایک ایک چکر لگایا مگر پردیس میں بزرگوں کا دل کب لگتا ہے۔ جہاں تایا ابو اور ابن کو مسجد کے ساتھیوں اور دوستوں کی یاد نے مضطرب رکھا وہیں امی اور تائی کو گھر میں لگے بوٹوں اور دانہ چگنے کے لیے پابندی سے آتی چڑیاؤں کی یاد بیکل کئے رکھتی تھی ۔ دونوں نے اقرار تو کبھی نہیں کیا مگر وہ معزز خواتین خاندانی سیاست اور گوسپ بھی بہت مس کرتی تھیں۔ پاکستان کی ہما ہمی کے بعد فلوریڈا کی ساکن زندگی میں انہیں اپنا آپ عضو معطل لگتا تھا لہزا وہ لوگ بمشکل دو مہینے مارے باندھنے رہنے کے بعد وآپس کراچی چلے گئے۔ سچ ہے سکون اور مزہ اپنے ہی موسم اور مٹی میں ہے۔
گو فلوریڈا کا موسم کراچی جیسا ہی ہے جو کہیں یہ لوگ نیویارک یا شکاگو کی سردی سے آگاہ ہو جاتے تو یقیناً دوسرے ہفتے ہی رخت سفر باندھ لیتے۔
میری دونوں بیٹیاں حفصہ اور صفیہ اسکول جانے لگی تھیں اور زندگی ان کے اسکول، قرآن کلاس، اسپورٹس، میوزک کلاس اور میرے ہسپتال میں تیزی سے بہتی چلی جا رہی تھی۔ قد نکالتی بچیاں عاقب کو بےچین کر رہی تھیں کہ یہاں کا آزاد ماحول ان کے لیے آزار تھا۔
عاقب اب وطن واپسی کے لیے پر تول رہے تھے۔
میں پاکستان وآپس نہیں جانا چاہتی تھی کہ پاکستان میں حالات خوشگوار نہیں تھے۔ سیاسی، معاشیاتی اور معاشرتی مسائل عروج پر تھے اور کیا حکومت کیا عوام عجیب گھٹن زدہ رویہ اور حبس کی کفیت تھی۔ مذہبی منافرت اور عدم برداشت اپنی انتہا پر، کوئی کسی کو سننے یا برداشت کرنے کا روادار ہی نہ تھا۔ عمومی مزاج بھی روبہ زوال،
جھوٹ جائز،
دو نمبری کمال،
دھوکہ حلال،
رشوت ناگزیر اور وقت کی بے توقیری
گویا بس منہ زبانی مسلمان۔ مسلم وصف ڈھونڈے سے بھی ناپید، بظاہر عبادت پر زور مگر وہ بھی روح سے خالی۔ دین صرف بدنی عبادت تک محدود و مقسوم رہ گیا تھا اس کا خانگی یا آپسی کے معاملات و معاشرت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نماز بھی پنج وقتہ اور سودی کاروبار بھی زوروں پر۔ حج اور روزہ بھی اور ساتھ ساتھ انتہا کی قطع رحمی اور منافقت بھی روا۔ عجیب ڈب کھڑبہ معاشرہ تشکیل پا گیا تھا جس میں لوگ رواداری اور معافی کو اضافی سمجھنے لگے تھے۔
مگر ہمارا آب و دانہ پاکستان کا لکھا جا چکا تھا اور بہانہ بنا تایا ابو کا اسٹروک۔ پنچانوے میں ہم چاروں واپس پاکستان آ گیے۔
حفصہ چودہ سال اور صفیہ گیارہ سال کی تھی۔ شروع میں بچیوں کو قدرے مشکل ہوئی مگر بچپنے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بڑی لچک ہوتی ہے سو وہ دونوں ہم میاں بیوی سے پہلے ہی ماحول میں ضم ہو گئیں۔ عاقب کو ہسپتال میں بہت ٹف ٹائم ملا ہسپتال کہ عملے کی ہڈیوں میں ہڈ حرامی بیٹھی ہوئی تھی اور اوور ٹائم گویا حق، خاصا کچھ عاقب کو صرف نظر کرنا پڑا کچھ عملے نے بھی سمجھ لیا کہ he really mean business
سو اگر نوکری بچانی ہے تو بڑے صاحب کی تو ماننی پڑے گی۔ اس طرح کچھ کام چل ہی پڑا۔ پاکستان آ کر میں نے بھی ہفتے میں چار دن ہسپتال جوائن کر لیا اور ایک دن ایدھی سینٹر کے مرکز خواتین جو سرسید ٹاؤن میں تھا وہاں والنٹیر شروع کر دیا۔
تایا ابو کے لیے عاقب نے دن کے وقت دیکھ بھال کے لیے میل نرس رکھ لیا تھا اور رات میں وہ خود ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ تائی امی، امی اور ابن بھی بہت بڑا سہارا تھے۔ اس طرح مل جل کر وہ مشکل وقت گزار لیا گیا اور تایا ابو بہت بہتر ہو گئے اور سہاروں کے محتاج نہیں رہے۔ ان کی بحالی صحت کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ساتھ عاقب کی انتھک محنت اور باقی لوگوں کی کوشش اور خلوص بھی شامل تھا۔ بچیاں یہاں رشتوں کے درمیان بہت خوش تھیں۔
پھر 9/11 کا حادثہ ہوا جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو خون میں نہلا گیا۔ پہلی بار میں نے دل سے امریکہ سے اپنے خاندان کی بخیر و عافیت واپسی پر سجدہ شکر ادا کیا۔ ہم لوگ بروقت اس پرائے دیس سے نکل گئے تھے۔ اس سانحے کے بعد وہ بے مہر زمین مسلمانوں کے لیے تنگ نظر اور کوہ تاہ دل ثابت ہوئی اور عاقب کے کافی سارے دوست اور کولیگ زخم خوردہ اپنے ملک لوٹ آئے۔
زندگی کسی بھی تغیر اور حادثات سے ماورا اپنے اوقات کار پر چلتی ہے کہ کسی کے آنے یا جانے سے اس کی رفتار میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ کون ہانپتا کانپتا اس کے ساتھ ہے اور کون جینے کی کوشش میں ہار گیا اس سے قطعی بےنیاز و لاپروا۔ گزرتے سالوں میں ایک ایک کرکے ہمارے سروں سے بزرگوں کا چھتنار سائیہ اٹھتا گیا۔ کان ان کی شفیق آوازوں اور بدن ان کے ریشمی لمس کو ترستے رہے مگر جانے والے کب لوٹتے ہیں یہ بھی غنیمت کہ کبھی کبھار خواب میں ملاقات ہو جاتی ہے۔
ایدھی سینٹر میں ایک ضعیفہ تھیں آسیہ خاتون نامی اور وہ خاتون سنٹر کی ابتدائی باسیوں میں سے تھیں۔ نہ کبھی ان کا کسی سے جھگڑا مشاہدہ میں آیا اور نہ ہی کبھی ان کی تلخ نوائی کی کوئی شکایت درج ہوئی، بہت لیے دئے اور خاموش طبع ، ممکنہ حد تک صاف ستھرا لباس اور انتہائی عبادت گزار۔ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کی مریض تھیں مگر اب کچھ عرصے سے دل کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ میری ان سے بہت اچھی سلام دعا تھی مگر نہ انہوں نے کبھی اپنی بپتا سنائی اور نہ ہی میں نے کبھی جاننے کی کوشش کی ۔ یہاں ہر عورت آزردہ و سوختہ تھی سو چھیڑ چھاڑ کر کے ان کے زخموں سے کھرنڈ کیا اتارنا؟
جب تدارک ممکن نہ ہو تو بیتی کو نہ دھرانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ان بے بسوں کو ایسی کسمپرسی میں امید کا جگنو تھمانا سخت خطرناک کیوں کہ انسانی ذہن اپنے آپ کو بہلانے اور اپنے دگرگوں حالات سے سمجھوتے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال ہی لیتا ہے۔ انسان میں جینے کی خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ ناموافق حالات کو سہارنے اور ہر ماحول اور سانچے میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فائل کی رو سے آسیہ خاتون بھی اولاد کی ڈسی ہوئی تھیں مگر جو بات انہیں دیگر خواتین سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کی مصالحت پسند طبیعت اور شکر گزار رویہ۔ شکر گزاری ایسی صفت ہے جو فی زمانہ تیزی سے مفقود ہے۔
آج کل جیسی ان کی طبیعت تھی اس میں ایدھی ہوم کا غل غپاڑے والا ماحول ان کے لیے بالکل بھی سود مند نہیں تھا سو میں نے عاقب سے بات کی ان کو اپنے گھر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آسیہ خاتون بڑی مشکلوں سے مانی مگر ہمارے گھر آنے کے بعد اپنا صاف ستھرا کمرہ اور نرم آرام دہ بستر دیکھ کر ان کی آنکھوں کی نمی اور چہرے پہ پھیلا تشکر ان کے اطمنان کا مظہر تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ آسیہ خالہ بھی مجھ پرکھلتی چلی گئیں ۔ ان کہانی بہت درد انگیز تھی۔
آسیہ خالہ اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش باش تھیں۔ چاہنے والا شریک سفر، پھول سا بچہ اور اپنی چھت۔ دل کی چاہت اور آنکھوں کے خواب بس یہی تو ہوتے ہیں۔
مگر آسیہ خالا کا خوشیوں بھرا سفر مختصر تھا کہ خالو جلدی داغ مفارقت دے گئے اور آسیہ خالا نے نویں جماعت میں زیرِ تعلیم بیٹے اکبر کو اپنے پروں تلے ایسا سمیٹا کہ اکبر، صغیر ہی رہ گیا اکبر ہو ہی نہ سکا۔ آسیہ خالا نے اپنی ہڈیاں گھس کر اکبر کو سونے کا نوالہ کھلایا۔ فارمیسی کی ڈگری لیکر اکبر فائزر Fizer میں ملازم ہوا اور ہر ماں کے من پسند خواب کو آسیہ خالہ نے اکبر کے سر پر شتابی سے سہرا سجا کر مجسم کر ڈالا۔ آسیہ خالہ نے اپنی من چاہی مراد تو پالی پر بدقسمتی کی تپتی دھوپ نے انہیں اپنے ہی شجر کی چھاؤں سے محروم رکھا۔ ان کی زندگی کا پر خار سفر نہ صرف جاری تھا بلکہ اب مزید کٹھن و دشوار ہو چلا تھا کہ بہو درپہ آزار تھی۔ گھر گرہستی کے ساتھ پوتا پوتی کی ذمہ داری ان کے ناتواں وجود کے لیے گراں بار تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اکبر اپنی بیوی بلقیس کی آنکھوں سے دیکھتا اور اسی کی سکھائی بولتا تھا۔
آسیہ خالہ کے میاں نے اچھے وقتوں میں پاپوش گیارہ نمبر میں گھر بنا لیا تھا۔ خالہ نے میاں کے گزرنے کے بعد ایک کمرہ اور ایک باتھ روم اپنے حصے میں رکھ کر صحن میں دیوار اٹھوا دی اور گھر کرائے پر چڑھا دیا، محلے کے بچوں کو قرآنی تعلیمات دینے کے ساتھ ساتھ چٹنی اچار بھی بنایا کرتیں۔ اکبر کی شادی تک انہوں نے اسی طرح تنگی ترشی میں گزارا کیا۔ پیسے کو دانتوں سے پکڑ کر اور پائی پائی جوڑ کر اکبر کی شاندار بری تیار کی۔ بلقیس اکبر کے دوست کی بہن تھی اور خالہ نے بڑے مان اور چاؤ سے بیٹے کی چاہ کو عزت کی چادر سے ڈھک کر اپنے آنگن کی رونق بنایا تھا مگر خالہ کی بری تقدیر آنگن کے کونے میں کھڑی مسکراتی تھی۔ خالہ بہو کی بد کلامی و ترش روئی تو جیسے تیسے برداشت کر رہی تھیں مگر جو چرکا انہیں اب لگنے والا تھا وہ تو ان کے قیاس و گمان میں بھی نہیں تھا۔
بلقیس کے سر پر امریکہ جانے کی دھن سمائی تھی اور لاٹری ویزہ جیتنے کے بعد اس نے امریکہ جانے کی بات کو مرنے جینے کا مسئلہ بنا کر اکبر کا قافیہ تنگ کردیا۔ کانوں کے کچے اور عقل کے آدھے ادھورے اکبر نے قیامت یہ ڈھائی کہ بالا ہی بالا گھر کے کاغذات پر خالہ کا انگوٹھا لگوا کر گھر کا سودا کر دیا۔ انہیں دنوں خالہ کی کزن کی بیٹی کی نواب شاہ میں شادی تھی اور اکبر نے اس پرفیکٹ ٹائمنگ کو کیش کیا اور گھر کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں سمیت امریکہ پرواز کر گیا۔ خالہ جب ڈیڑھ مہینے بعد اپنے گھر لوٹیں تو اپنے ہی گھر سے دھتکاری گئ۔ وہ دکھیا دروازے پر ہی چکرا کر گر گئی۔ برسوں کے ساتھ کی دیوار کے پڑوسی ان کو اپنے گھر لے گے۔ محلے والے خود حیران تھے کہ اکبر نے سب کو یہی تاثر دیا تھا کہ یہ سارا معاملہ خالہ کی رضا اور خوشنودی سے ہو رہا ہے اور وہ امریکہ جاتے ہی خالہ کے ویزے کی کوشش کرے گا۔ جب تک خالہ نواب شاہ میں اپنی کزن کے گھر رہیں گی۔ حقیقت جان کر ہر شخص انگشت بداماں تھا۔ خالہ کو سنبھلنے میں تین چار دن لگے، غیرت مند انسان تھیں اور تمام عمر کسی کا احسان نہیں اٹھایا تھا۔ بیوگی اور عسرت کو بھی بڑی محنت اور کاوش سے بھرم کی چادر سے ستر پوش ہی رکھا تھا سو پانچویں دن خاموشی سے اپنے کپڑوں کی گٹھری لیکر سہراب گوٹھ ایدھی سنٹر چلی آئیں۔ نارتھ کراچی کے سیکٹر ١١cمیں خواتین کا ایدھی مرکز بننے کے بعد یہاں کی اولین مکین ٹھہریں۔
بڑے صبر اور استقلال سے انہوں نے بیٹے کے دھوکے کو برداشت کیا۔ بڑھاپے میں جب انسان اپنے بچوں کی محبت کے حصار میں محفوظ ہوتا ہے ایسے وقت میں اکبر نے ان کے سر سے ان کے میاں کی بنائی ہوئی پناہ گاہ چھین کر انہیں تپتی دھوپ میں کھڑا کر دیا تھا۔ مجھے ان کی چپ اور خالی آنکھیں ہولایا کرتی تھیں اور ان کی خاموشی کی بکل میں چھپی آہ سے ڈر لگتا تھا۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ اکبر مکافات عمل سے نہیں بچ سکتا۔ حیرت بھی تھی کہ کوئی بیٹا اپنی ماں کی پونجی پر کیسے شب خون مار سکتا ہے؟
بجائے سہارا بننے کے ماں کے پیروں تلے زمین کیسے کھینچ سکتا ہے؟
مگر یہ دنیا ہے اور یہاں سب ممکن ہے۔
خالہ کی زندگی نے وفا نہیں کی اور میرا گھر فقط چھ سال ہی خالہ کی ذات سے فیضیاب رہا۔ انہوں نے اپنی آخری سانسوں میں عاقب اور مجھ سے ایک وعدہ لیا، بڑا سفاک وعدہ۔
وقت ایک شان استغنا سے انسانوں کو نوازتا، روندتا گزرتا چلا جاتا ہے۔ آسیہ خالہ کو گزرے تیسرا سال تھا کہ اتوار کی ڈھلتی دوپہر میرے دروازے پر اس شخص نے دستک دی جس سے کم از کم میں اپنی زندگی میں کبھی بھی ملنا نہیں چاہتی تھی۔ عاقب نے دروازہ کھولا اور آنے والے کو بیٹھک میں بیٹھا کر کمرے میں آئے تو ان کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر میں لرز گئ۔
کیا ہوا عاقب سب خیر تو ہے نا؟
میں نے پریشانی سے پوچھا۔ جواب میں عاقب کے لبوں سے سرسراتا ہوا ایک لفظ نکلا
اکبر!!!
اور میں ساری جان سے سن ہو گئ۔
جب میں چائے بنا رہی تھی تو میں نے سوچا تھا کہ اکبر کی خود غرضی پر اسے خوب لتاڑوں گی پر جب بیٹھک میں داخل ہوئی تو اکبر کی اجڑی اور دلگیر حالت دیکھ کر گنگ رہ گئی گویا
“وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغِ ستم نکلے”
عاقب اس کی روداد غم سے قطعی لاتعلق ہونٹ بھینچے پر شکن پیشانی کے ساتھ تنے ہوئے
بیٹھے تھے۔ وہ ہوسٹن Houston میں اپنی تباہ حالی کی رواد سنا رہا تھا، ٩/١١ کی قیامت صغریٰ کے بعد اس کی گروسری اسٹور جلا دی گئی تھی۔ امریکہ پہنچ کر جب یہ میاں بیوی کمانے کی مشین بنے تو بچے بالکل ہی برباد ہو گئے ، بیٹا نشئی اور بیٹی مادر پدر آزاد۔ اکبر دو سال پہلے امریکہ سے لٹ لٹا کر پاکستان پہنچا تھا۔ اس نے بڑے جتن اور قرض کے بوجھ تلے دب کر جو مکان خریدا تھا وہاں بجلی کی ناقص وائرنگ کے سبب شارٹ سرکٹ ہوا اور گھر خاک کا ڈھیر۔ شکر کے جانی نقصان نہیں ہوا کہ وہ لوگ اس وقت تک اس گھر میں شفٹ نہیں ہوئے
تھے۔ سو وہ بے خانماں اور مقروض تو تھا ہی ساتھ ساتھ اب گھر بیچنے والے کے ساتھ تھانہ کچہری کا ٹنٹا بھی شروع تھا۔
میرا جی تو چاہا کہ کہوں
اکبر آہوں اور آنسوؤں کے جزیرے پر بنے مکان کبھی پائدار نہیں ہوتے، ان کا مقدر ڈوبنا ہی ہوتا ہے۔ تم نے ماں کو بےگھر کیا تھا اب تمہیں مکان تو شاید میسر آ جائے پر تا حیات گھر کو ترسوں گے۔
پر وہ اس قدر ٹوٹا بکھرا ہوا تھا کہ میں بات کو پی گئ۔ شرمسار کو اور رسوا کیا کرنا؟
اس کو تو تقدیر ویسے ہی رگید رہی تھا اور مکافات عمل کا پہیہ پوری قوت سے گردش میں تھا۔ بچے یہاں رہنے کو راضی نہیں تھے اور بیوی کا تنتنا ہنوز سلامت تھا صرف اکبر تھا جو احساس ندامت اور زیاں سے آزردہ تھا۔
ماں کی تلاش میں ایدھی ہوم پہنچا اور وہاں سے ہمارے گھر تک۔ وہ عاقب سے اپنی ماں کی آخری آرام گاہ کا سوالی تھا اور عاقب نے اس کو خالہ کی وصیت سنا کر کہ خالہ نے مرتے وقت ہم دونوں سے حلفیہ وعدہ لیا تھا کہ
” اگر کبھی اکبر ان کو پوچھتا ہوا آئے تو اس کو بتا دینا کہ اماں نے تم کو معاف کیا،
مگر اسے میری قبر کا نشان ہرگز ہرگز نہیں دینا۔”
یہ کہتے ہوئے عاقب نے قبرستان کا پتہ بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ مجھ سے اکبر کا تڑپنا کلسنا نہیں دیکھا جاتا، وہ ہفتے عشرے بعد چکر لگاتا ہے مگر عاقب پتھر کی مورت بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ خالہ نے جاتے جاتے اکبر کو زندہ درگور کر دیا وہ جب تک جیتا رہے گا اپنی ہی ضمیر کے ہاتھوں سنگسار ہوتا رہے گا۔
میں اکثر حیران ہوتی ہوں کہ انسان اتنا نادان کیسے ہو سکتا ہے کہ جان بوجھ کر خسارہ اکٹھا کرے مگر ایسا ہوتا ہے اور اکثر ہوتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...