ہوائی اڈے مسافروں سے اٹ گئے ہیں‘ فرانس سے باہر جانے والے کسی جہاز میں ایک نشست بھی دستیاب نہیں!
ان مسافروں میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔ نقاب اوڑھنے والی عورتیں بھی ہیں اور وہ بھی جنہوں نے صرف سکارف کیے ہوئے ہیں۔ چادروں میں ملبوس بھی اور جینز پہننے والی بھی۔ تراشیدہ مُو بھی اور دوپٹوں والی بھی۔ باریش مرد بھی اور کلین شیو بھی۔ کوٹ پتلون والے بھی اور عرب‘ پاکستانی اور ملائشین لباس پہننے والے بھی۔
یہ لوگ فرانس چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جس ملک میں ان کے پیارے رسولؐ کی توہین کی جا رہی ہے‘ جس ملک کے رہنے والے اُس اخبار کو خریدنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں جس نے پہلے صفحے پر گستاخانہ خاکے محض اس ضد میں دوبارہ شائع کیے ہیں کہ پونے دو ارب مسلمانوں میں سے دو نے… جی ہاں… صرف دو نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا ہے‘ جس نے ساٹھ ہزار سے بڑھا کر اشاعت نصف کروڑ سے زیادہ کر لی ہے اور جو چھ زبانوں میں اس توہین کی تشہیر کر رہا ہے‘ اُس ملک میں ہم نہیں رہیں گے‘ ہم اُس ملک کی معیشت کے لیے کیوں ریڑھ کی ہڈی بنیں؟ ہم اُس ملک کے کارخانوں‘ بازاروں‘ دفتروں اور کمپنیوں کو کیوں زندگی مہیا کریں جس نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔
فرانس کے مسلمانوں نے جب ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو فرانس کی حکومت کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ ساٹھ لاکھ افراد… ساٹھ لاکھ‘ جن میں ہنرمند بھی ہیں اور پروفیسر بھی‘ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور بھی اور کھیتوں میں محنت کرنے والی لیبر بھی۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے ایگزیکٹو بھی اور مقامی سیاست میں اثرو رسوخ رکھنے والے کارکن بھی چلے گئے تو ایک خطرناک خلا پیدا ہو جائے گا۔ فرانس کے صدر نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ ملک چھوڑ کر نہ جائو۔ یہ تمہارا ملک ہے‘ لیکن مسلمانوں کا ترجمان ایک ہی جواب دیتا تھا کہ پہلے توہینِ رسالت کے خلاف قانون پاس کرو‘ باقی باتیں اس کے بعد ہوں گی۔
یہ ایک خیالی تصویر ہے۔ ایسا نہیں ہوا۔ کاش ایسا ہوتا!
سچی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان‘ اصلی مجنوں نہیں! محض چوری کھانے والے مجنوں ہیں! آج ا گر دنیا بھر کے مسلمان اور ان کے حکمران یہ فیصلہ کر لیں کہ مغرب ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی دل آزاری کے خلاف بھی قانون بنائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس قانون سازی کو نہیں روک سکتی‘ لیکن ہم اتنی غیرت کہاں سے لائیں؟ اگر کوئی ہمارے والد کو گالی دے تو ہم اس سے زندگی بھر کے لیے ہر قبیل کا تعلق ختم کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بھی اس کے گھر جانے سے منع کر دیتے ہیں۔ ہمارے لیے اُس کے گھر کا کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے‘ لیکن ہماری بے غیرتی کی انتہا ہے کہ جس ملک میں منظم اور مکروہ توہین کا سلسلہ جاری ہے‘ وہاں ساٹھ لاکھ مسلمان آرام سے زندگی گزار رہے ہیں‘ کوئی نہیں کہتا کہ میں یہاں نہیں رہوں گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ یہ ساٹھ لاکھ اگر فرانس سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کر بھی لیں تو جائیں کہاں؟ مسلمان ملکوں میں امیر ترین ممالک شرقِ اوسط میں واقع ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے جو بچے وہاں پیدا ہوئے‘ وہیں پلے بڑھے‘ وہیں تعلیم حاصل کی‘ عربی‘ مادری زبان کی طرح فرفر بولتے ہیں‘ وہیں ملازمتیں کر رہے ہیں اور مقامی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ انہیں بھی شہریت نہیں دی جاتی۔ کفیل سسٹم کیا ہے؟ غلامی کی جدید قسم! تاجر کے نام پر دکان کا انتقال ہو سکتا ہے نہ مکان کا‘ ٹیکسی چلانے والا ٹیکسی کا مالک نہیں ہو سکتا‘ جو کچھ بھی کمائے گا‘ آدھا کفیل کو دے گا جو گھر بیٹھے آرام سے کھاتا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پاسپورٹ بھی کفیل کے قبضے میں ہے۔ سینکڑوں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں کہ پیچھے وطن میں ماں‘ باپ یا بیوی کی وفات ہو گئی لیکن شرقِ اوسط میں کام کرنے والا تاجر یا سرکاری ملازم یا مزدور تین یا چار گھنٹے کی پرواز کے باوجود جنازے پر نہیں پہنچ سکتا‘ اس لیے کہ پاسپورٹ کفیل کے پاس ہے اور کفیل ملک سے باہر‘ یورپ یا امریکہ میں اُس پیسے سے سیرو تفریح اور عیاشی کر رہا ہے جو پیسہ اس ’’غلام‘‘ نے کما کر پیش کیا ہے۔ فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت شمالی افریقہ کے عرب ملکوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد الجزائر‘ مراکش‘ تیونس اور لیبیا کے باشندوں کی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حکمران دنیا کے امیر ترین افراد میں گنے جاتے ہیں۔ ہوا میں اڑنے والے جہازوں کو انہوں نے اپنے تعیش کے لیے طلسمی اڑن کھٹولوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ ان جہازوں میں پورے پورے محلات بنے ہوئے ہیں۔ خواب گاہیں ایسی کہ پرستان بھی رشک کریں۔ ڈرائنگ روم‘ غسل خانے‘ برآمدے اور دالان یہاں تک کہ غلام گردشیں بھی موجود ہیں۔ نہیں معلوم سوئمنگ پول ہیں یا نہیں لیکن بجرے (Yachts) ان کے ایسے ایسے سمندر کے سینے پر تیر رہے ہیں کہ سارا مغرب رشک کرتا ہے۔ موڈ میں آئیں تو پورے پورے جزیرے خرید لیتے ہیں۔ اتوار کو شاپنگ کرنی ہو اور لندن کے گراں ترین سٹور کا مالک چھٹی کے دن سٹور کھولنے سے معذرت کرلے تو پورا سٹور خرید لیتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ مہنگے ہوٹل میں مرضی کا کمرہ… یعنی پورا فلور۔ نہ مل سکے تو دوسرے دن دوپہر سے پہلے سٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں ہوٹل کی پوری چین کے حصص کریش ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایک رات کی ہم آغوشی کے لیے کروڑوں ڈالر پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں (یقین نہ آئے تو دو ہفتے پہلے کے اخبارات دیکھیے)۔ ان کی گاڑیاں‘ ان کے غسل خانوں کی ٹونٹیاں‘ ان کے کمروں کے کُنڈے‘ چابیاں اور تالے خالص سونے کے ہیں۔ تو کیا حرمتِ رسولؐ کی خاطر یہ متحد ہو کر اعلان نہیں کر سکتے کہ فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کو ہم ملازمتیں بھی دیں گے اور شہریت بھی؟ اس کے بعد یہی پیشکش یہ جرمنی‘ ہالینڈ اور برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو کریں۔ اس کے ساتھ ہی پچپن اسلامی ممالک‘ فرانس سے اپنے سفیر اور سفارتی عملہ واپس بلا لیں۔ فرانس کے سفیر کو چوبیس گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیں۔ فرانس سے ہر قسم کی تجارت بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیں۔ تمام معاہدے ختم کردیں۔ فرانس کے جہازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کریں۔ یہ قلم کار دعوے سے کہتا ہے کہ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر‘ بندوق کی ایک گولی چلائے بغیر‘ بارود کا ایک دھماکہ کیے بغیر… فرانس میں توہینِ اسلام کے خلاف قانون سازی کردی جائے گی۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ یورپ اور امریکہ کی‘ جاپان اور آسٹریلیا کی آنکھیں کھل جائیں گی! لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوگا؟
تخت و تاج کو ذرا سا بھی خطرہ ہو تو عرب لیگ کا اجلاس بلا لیا جاتا ہے۔ اقتدار کو طول دینا ہو تو ابوظہبی اور دبئی کا رُخ کرتے ہیں اور این آر او کا لائسنس ہاتھ میں لیے خراماں خراماں وطن واپس آتے ہیں۔ حکومت کے راستے میں دور سے بھی سرخ بتی چمکتی دکھائی دے تو ہوائی جہاز تیر کی طرح شرق اوسط کا رُخ کرتے ہیں لیکن حرمتِ رسولؐ پر ناپاک حملے ہو رہے ہیں اور مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے! ع
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“