بینردیکھ کرآنکھیں چھلک اٹھیں
’’ہم اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہیں‘‘سوچا، ان اہل تجارت کی کیا دلچسپی ہے مسلح افواج کے ساتھ ! یہ بازار میں بیٹھے لوگ جو ہر وقت کیلکولیٹر پر جمع اور تفریق کرتے رہتے ہیں اور زیادہ دلچسپی ضرب دینے میں رکھتے ہیں، انہیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ افواج پاکستان کے حق میں بینر لگائیں! لیکن جس بازار سے گزریں جڑواں شہروں میں بینر بہار دکھا رہے ہیں۔
اس خدا کی قسم ! جو عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کی حفاظت کرنے والا ہے، سینکڑوں بار یہ سطرسنی ہوگی ع
عدو شری بر انگیز کہ خیر ما درآن باشد
مخالف شر انگیزی کرتا ہے لیکن خدا اس میں ہمارے لیے خیر کا سامان رکھ دیتا ہے۔ سینکڑوں بار یہ مصرع سنا، بیسیوں بار لکھا لیکن مفہوم اب سمجھ میں آیا۔ میڈیا گروپ سے غلطی ہوئی یا اس نے غلط حساب (Miscalculate)کیا، جو کچھ ہوا، اللہ نے اس میں خیر کا سامان رکھا۔ اس سانحہ سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ قوم سارے گناہوں کے باوجود ایک گناہ نہیں کرسکتی۔ وہ اپنی مسلح افواج سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے اور یہ محبت ترک نہیں کرسکتی۔
یہ جو پوری قوم بیک آواز اپنی افواج قاہرہ کی ہم نوائی میں رطب اللسان ہے ، یہ جو ہرشخص ،ہر گروہ ، ہر کمیونٹی، عقیدے ، زبان اورزمین سے قطع نظر کسی ابہام ، کسی دورنگی کے بغیر اپنے عساکر کا ساتھ دے رہی ہے تو دشمن کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو خاکم بدہن ، نقصان پہنچانے سے پہلے اسے ایک ایک پاکستانی سے ٹکر لینا پڑے گی!
دشمن کون ہے؟ جو دشمن ملک سے باہر ہیں، انہیں سب جانتے ہیں۔ جو ہمارے جرنیل کو شہید کرنے کے بعد بڑہانکتا ہے کہ ہمارا اگلا ہدف آرمی چیف ہے اور پشاور کا کور کمانڈر ۔اس دشمن کو بھی سب جانتے ہیں جو علی الاعلان کہتے ہیں اور پچاس بار کہہ چکے ہیں کہ ہماری دشمنی پاکستانی فوج کے ساتھ ہے ، ان کی رو سیاہی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، یہ تو دشمن ہیں ہی ، لیکن اصل دشمن وہ ہیں جو ہماری صفوں کے درمیان ہیں۔ اصل دشمن وہ ہیں جو یہ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ پاکستانی افواج کے شہید (نعوذباللہ) شہید نہیں، اصل دشمن وہ ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ، پیس زون دے دو ، علاقہ خالی کردو، فوج کو وہاں سے واپس بلالو۔ اصل دشمن وہ ہیں جو دہشت گردوں کو ہماری مقدس افواج کے ساتھ ، ایک سطح پر ، بٹھانا چاہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں دونوں اپنی بندوقیں نیچے کرلو، اصل دشمن وہ ہیں جو مذاکرات کے مخالفین پر شراب نوشی، قادیانیوں کی ہم نوائی اور ڈالر لینے کی تہمت لگاتے پھرتے ہیں۔ مذاکرات کی حمایت کرنے والے محب وطن ہیں تو مخالفت کرنے والے شراب نوش کیسے ہوگئے ؟ یہ عقل کے اندھے خود اس ملک کے دشمن ہیں۔ جب دشمن علی الاعلان کہتا ہے کہ ہمارا اگلا ٹارگٹ آرمی چیف اور پشاور کا کور کمانڈر ہے تو میڈیا کی صف میں گھسے ہوئے یہ بھیڑیے ، جنہوں نے بکریوں کی کھالیں اوڑھی ہوئی ہیں، اس دشمن سے لاتعلقی کا اعلان کیوں
نہیں کرتے؟ یہ ان کی شان میں قصیدے کیوں لکھتے ہیں؟ ان کی زبانوں اور ان کے قلم سے ہماری افواج قاہرہ کے حق میں لفظ تو کیا حرف تک نہیں نکلتا۔ لاریب! یہ ہمارے دشمن ہیں۔ بلاشک و شبہ دہشت گردوں کی پشتیبانی کرنے والے ہمارے شہیدوں کے پاک لہو سے غداری کرنے والے ہیں۔
ہماری مسلح افواج کے دشمن ہمیشہ خائب و خاسر ہوئے۔ انہیں خدا کے ازلی ابدی اٹل نظام نے اس دنیا ہی میں رسوا کیا۔ اس شخص کا انجام دیکھیے جس نے بیس کروڑ افراد میں یہ جسارت کی کہ ہمارے شہیدوں کو شہید ماننے سے انکار کیا، اس شخص کو اس کے اپنے حواریوں نے مسترد کردیا ،وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ ہوچکا ہے۔ اب اس کے ہمدرد بھی ایسی ذومعنی تحریریں زیب اشاعت کررہے ہیں جو گونگلوئوں (شلغم) سے مٹی اتار رہی ہیں!
ہاں! ہماری مسلح افواج فرشتوں پر مشتمل نہیں۔ وہ گوشت پوست کے انسان ہیں، لیکن خدا کی قسم! وہ بیس کروڑ افراد میں بہترین انسان ہیں اس لیے کہ وہ ہمہ وقت شہادت کے لیے سربکف ہیں۔ ہمارے دشمن ، ہمارے اعلانیہ اور ہمارے نہفتہ دشمن جان لیں کہ ہمارے فوجیوں کی مائیں مصلّوں پر بیٹھی ہیں۔ ان کی بہنیں صبح و شام ان کے حق میں تسبیح خوانی کرتی ہیں۔ ان کی بیویاں انہیں خدا کے اور موت کے اور جنت کے سپرد کرچکی ہیں۔ ان کے بچے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ مجاہدوں کے لخت جگر ہیں۔ کیا آج تک کسی دہشت گرد کی ماں نے کہا ہے کہ میرا ایک بیٹا اور ہوتا تو میں اسے بھی دہشت گرد بناتی ؟ پاکستان کی افواج کے شہیدوں کی مائیں دہشت گردوں کی خودکش جیکٹوں کے سامنے ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہیں کہ میرے اور بیٹے ہوتے تو وہ بھی پاکستان کی خاطر قربان کردیتی !
پہاڑوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں اور میڈیا میں بیٹھے ہوئے ان کے ایجنٹوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کا سابقہ کس قوم سے پڑا ہے۔ یہ وہی مائیں ہیں جن کے بیٹے چونڈہ کے کارزار میں ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش کے مغربی ساحلوں تک ، یہ واحد فوج ہے جس سے اسلام کے دشمن لرزہ براندام ہیں۔ اسی لیے انہوں نے دہشت گردوں کو خرید کر اس فوج کے پیچھے لگادیا۔ دشمن کو معلوم ہے کہ یہی فوج ہے جس نے شیوا جی کے جانشینوں کو نکیل ڈالی ہوئی ہے، ورنہ رام رام کرنے والے یہ سبزی خور مشرق وسطیٰ کے میدان میں دندنا رہے ہوتے۔ یہ فوج مقدس ہے، اس کے سپاہی اور اس کے افسر اکل حلال سے اپنے بچوں کے منہ میں چوگ ڈالتے ہیں۔ معصوم تاجروں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے والے دہشت گرد اور ان کے ہم نوا اکل حلال کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔
گائوں کا وہ بزرگ یاد آرہا ہے جس کے ایک عزیز نے کوئی غلط کام کیا تھا۔ کسی نے کہا کہ ہم اس عزیز کو مزہ چکھا دیں گے۔ بزرگ اٹھا اوربولا۔ ہاں۔ ہمارے عزیز سے غلطی ہوئی ہے لیکن تم یہ نہ سمجھنا کہ وہ اکیلا ہے۔ اس سے پہلے کہ تمہارے ہاتھ اس کی طرف بڑھیں ، ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے۔ ہاں ! ہماری فوج کے افراد سے غلطیاں ہوئیں لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہماری فوج مصیبت کے وقت تنہا رہ جائے گی! جو ہاتھ ہماری فوج کی طرف بڑھیں گے ہم وہ ہاتھ کاٹ ڈالیں گے۔ جو میلی آنکھ ہمارے لشکروں کی طرف اٹھے گی ہم وہ آنکھ نکال دیں گے:
سرِ شام جب مری سرحدوں پہ سپاہ تھی
ترا اسم قلعہ تھا ذات شہر پناہ تھی
ترے آسمان مری فصیل کے برج تھے
تری خلق روئے زمیں پہ میری گواہ تھی
مرے لشکروں کو دعائیں میرے نبیؐ کی تھیں
مری بستیوں پہ ترے کرم کی نگاہ تھی
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“