دعا پبلی کیشنز ،لاہور کی بنیاد جنوری ۱۹۹۹ء میں رکھی گئی ۔ادارے کی بنیاد ڈالنے میں وصی شاہ اور زاہد شیخ شامل تھے ۔ شراکت داری کی شکل میں یہ ادارہ وجود میں آیا تھا ۔ وصی شاہ تقریباً گیارہ سال ادارے کے ساتھ وابستہ رہے۔ زاہد شیخ کی سرپرستی میں ادارہ روز بروز نئی او ر معیاری کتب چھاپ رہا ہے۔ اس ادارے نے علم و ادب کے حوالے سے نمایاں خدمات سرانجام دیں ہیں ۔ ادارے نے تحقیق ،تنقید اور اقبالیات پر بیش بہا کتب شائع کیں ہیں ۔ ادارے نے محققین کے لیے مواد کی فراہمی کاطریقہ کار سہل بنادیا ہے۔ یہ ادارہ مواد کی فراہمی سے لے کر تحقیق مکمل ہونے تک ریسرچ اسکالر کے ساتھ راہنمائی کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ دعا پبلی کیشنز نے خود کو تحقیق کے لیے پیش کیا ہے۔ تحقیق ہونے کے بعد خوبیوں کے ساتھ حامیوں کو کھلے دل سے نا صرف قبول کیا ہے ۔بلکہ درستی کی حامی بھی بھری ہے۔ یہ ادارہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کسی بھی ادارے کا مضبوط کردار سربراہ ہوتا ہے۔ ادارہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری سربراہ کے بہترین اخلاق کا ضامن ہوتا ہے۔زاہد شیخ کے مشفقانہ مزاج کی بدولت ادارہ ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ جس طرح سرکاری اشاعتی مراکز میں مختلف عہدوں پر موجود عملہ معلومات تک رسائی میں معاون کردار ادا کرتا ہے ۔ اس طرح غیر سرکاری اشاعتی ادارے میں جنرل مینجر،مارکٹنگ مینجراور آفس بوائے کی موجودگی ادارے کو استحکام بخشتی ہے۔ کیوں کہ ادارہ اکیلا ترقی نہیں کرسکتا۔جب تک ادارے میں موجود افراد کا تعاون شامل نہ ہو۔
اقبالیات سے مراد وہ تمام سوانحی ،تشریحی اور تنقیدی مواد ہے جو علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کے فکر و فن کو سمجھنے اور سمجھانے کی غرض سے وجود میں آیا ہے۔ دعا پبلی کیشنز نے پچھلے تین چار سال سے اقبالیات پر جو کام کیا ہے ۔وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اقبالیات کے میدان میں حمیرا جمیل کو کلام اقبال اردو کی پہلی خاتون شارح بنادیا۔ کم عمری میں اس اعزازسے نوازا جانا خوش قسمتی سے کم نہیں۔ اقبالیات جیسے وسیع موضوع پر اس ادارے کے کام کو کو کہیں کسی جگہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چند باتیں توجہ طلب ہیں۔ شہر لاہور کے علاوہ دیگر شہروں کے غیر سرکاری اشاعتی اداروں میں ایک دو کے علاوہ شاید ہی کو ئی ریسرچ اسکالر کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو۔ مواد کی عدم دستیابی شروع ہی اُس وقت ہوتی ہے ۔جب ادارے معلومات کی فراہمی سے گریز کرتے ہیں۔ادارے کا چھوٹا بڑا ہونا معنی خیز نہیں۔معنی خیز یہ ہے محقق اور تحقیق سے ڈر کیسا؟ جہاں سرکاری ادارے تحقیق سے نہیں ڈرتے۔آخر کیا وجہ ہے نجی اشاعتی ادارے تذبذب کا شکار ہیں۔حالاں کہ اعلیٰ اور بہترین موضوعات پر کتب کی اشاعت غیر سرکاری اشاعتی مراکز کا خاصہ ہے۔شاید یہ وجہ ہوسکتی ہے۔ غیر سرکاری اشاعتی ادارے کاروباری نقطہ نظر سے سوچتے ہیں۔ ریسرچ کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ میری یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے ۔میں پاکستان بھر کے تمام نجی اشاعتی مراکز پر تحقیقی سطح کا کام کروں ۔ لیکن جونہی کام کرنے کی نوبت آئی۔ ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے پہل سوچا اس موضوع پر کام ہوچکا ہوگا۔ مزید جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوا صرف ایک تحقیقی مقالہ موجود ہے۔ وہ بھی اداروں کے تعارف تک محیط ہے۔ جب دعا پبلی کیشنز جیسا ادارہ تحقیق جیسے مشکل مرحلے میں شامل ہوسکتا ہے۔وہاں بقایا ادارے تحقیق سے متنفر کیوں ہیں؟
سنگ میل پبلی کیشنز پر تحقیقی کام ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہوسکتا ہے ریسرچ یہاں تک محدو دہو؟ریسرچ کے دائرے میں تمام نجی ادارے شامل ہیں۔ کیوں کہ جب مقصد کتب چھاپنا ہے۔پھر تحقیق محض ایک ادارے تک کیسے رک سکتی ؟نجی اشاعتی اداروں کو محققین کی علمی و ادبی تشنگی دور کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے چاہیں۔
بطور تخلیق کار مجھے پروان چڑھانے میں سب سے مضبوط حصہ دعا پبلی کیشنز مطلب غیر سرکاری اشاعتی ادارے کا ہے۔کسی تحریر کو لکھ دینا ہی بہت نہیں ہوتا ۔اصل خوش اُس وقت ملتی ہے ۔جب وہ طباعت کے مراحل سے گزر کر کتابی صورت میں قارئین تک پہنچے ۔اور وہ پڑھ کر قیمتی رائے سے نوازیں۔ میں حکومت وقت کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہوں گئی ۔علم و ادب کے فروغ میں نجی اشاعتی مراکز کا کردار اہم ہے۔ ان اداروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ خدمات کے اعتراف میں اعزازی شیلڈ اور اسناد سے نوازا جانا چاہیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...