پاکستان میں آئے دِن ٹریفک کے حادثات ایک عام معمول کی بات ہے ہم سب تھوڑا سا افسردہ ہوکر بُھول جاتے ہیں اور سرکار اپنے معمول کے بیانات دیکر بُھول جاتی ہے ۔ اِن حادثات کی روک تھام پر نہ پہلے کبھی تسلی سے غور و فِکر کیا گیا ہے نہ کُوئی مُستقبل قریب میں اِمکان نظر آتا ہے ۔ حادثات کی کئی اقسام اور وُجوہات ہیں۔ آج کی پوسٹ میں حادثات کی اقسام کی بجائے میرا مقصد ایک بُنیادی پہلو کو ڈسکس کرنا ہے اور وُہ ہے ڈرائیونگ لائسینس کا ایک مضبُوط اور آزاد وفاقی ادارہ جیسے نادرا کا قیام مُمکن بنانا۔
ہمارے مُلک میں ٹریفک دائیں ہاتھ کی ہے اور بیشتر قوانین بھی برطانیہ کی نوآبادی رہنے کی وجہ سے برطانوی ہی ہیں ۔ اِس لئے میری ناقص رائے میں ہمیں برطانوی ڈرائیونگ لائسینس کا نِظام زیادہ سُوٹ کریگا ۔
برطانیہ میں ڈرائیونگ لائسینس DVLA یعنی ڈرائیونگ اینڈ وہیکل لائسینسنگ اتھارٹی نامی ادارہ ایشو کرتا ہے ، یہی ادارہ گاڑیوں کی رجسٹریشن وغیرہ کرتا ہے اور یہی ادارہ گاڑیوں سے متعلقہ ٹیکسز جیسا کہ روڈ ٹیکس بھی لیتا اور ریگولیٹ کرتا ہے ۔
برطانوی ڈرائیونگ لائسینس میں لرنر یعنی پروژنل لائسینس بنوانے کے بعد آپ کا ایک ڈرائیونگ تھیوری ٹیسٹ ہوتا ہے جو کہ آپ مارکیٹ میں موجود ریکمینڈڈ کتابوں یا ویڈیوز سے تیار کرسکتے ہیں اُس میں مُختلف سوالات ہوتے ہیں جیسا کہ موٹرویز اورہائی ویز کے متعلقہ قوانین ، ٹریفک کے مُختلف سائنز ، سپیڈ لمٹس ، راستہ دینے کے قوانین وغیرہ ہوتے ہیں ۔ کُل پچاس میں سے پینتالیس سوالات آپ نے پاس کرنے ہوتے ہیں اگر آپ یہ کمپیوٹر پر ٹیسٹ پاس کرلیں تو اُس کے بعد دو تین ویڈیوز آپ کو دِکھائی جاتی ہیں جِن کو hazard tests کا نام دِیا جاتا ہے اِن ویڈیوز میں آپ کو گاڑی چلتی نظر آتی ہے آپ کو ہر اُس جگہ پر جہاں پوٹینشل hazard ہو وہاں ماؤس سے کِلک کرنی ہوتی ہے اگر آپ یہ دونوں ٹیسٹ پاس کرلیں تو اُس کے بعد دو سال کے اندر اندر آپ کو عملی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے ۔
اِس عملی ڈرائیونگ ٹیسٹ میں آپ ایک ایسی گاڑی لیکر ٹیسٹ پر جاتے ہیں جِسمیں ڈبل کنٹرول لگا ہوتا ہے یعنی بریک اور کلچ آپ کے ایگزامنر کی طرف بھی لگا ہوتا ہے ۔ آپ سے گاڑی کے متعلق کُچھ بُنیادی معلومات جیسا کہ فوگ لائٹس ، گاڑی کے اندر لگے نظام وغیرہ کے سوالات پُوچھے جاتے ہیں ۔
آپ کا ایگزامنر آپ کے ساتھ بیٹھے گا اور کُوئی چالیس پچاس منٹس آپ کو وُہ مُختلف سڑکوں پر لے جائیگا اور ایک ٹیسٹ پیپر پر آپ کی ڈرائیونگ کو پہلے سے طے شُدہ قوانین کی نظر میں چیک کرتا جائیگا ۔اگر آپ نے کُوئی بڑی غلطی نہ کی تو چند چھوٹی غلطیاں جیسا کہ مڑتے وقت سگنل نہ دینا جیسی مائنر غلطیاں معاف کردی جائیں گی اور آپ کا لائسینس جلد ہی آپ کے گھر پُہنچ جائیگا ۔
یہ لائسینس دو سال تک پروبیشنل ہوتا ہے یعنی اِس میں کُل چھے پوائنٹس ہوتے ہیں اور دو سال کے بعد بارہ ہوتے ہیں ۔ پولیس آپ کو غلطی پر تین پوائنٹ کم از کم لگاتی ہے پوائنٹس چھے یا بارہ پُورے ہُوئے تو آپ کا لائسینس کینسل ۔ اب آپ پھر سے لرنر ، ڈرائیونگ تھیوری اور ایک پرولانگ ڈرائیونگ ٹیسٹ دیں گے ۔
یہ تو تعارف تھا برطانوی لائسینسنگ سسٹم کا ۔اب پاکستان میں ڈرائیونگ لائسینس جاری کرنے کی اتھارٹی ٹریفک پولیس کے پاس ہے اور ہر صُوبہ اپنا لائسینس جاری کرتا ہے پنجاب میں پہلے ہر ضلع اپنا لائسینس جاری کرتا تھا ۔ شہباز شریف کے چند اچھے کاموں میں ایک پنجاب کی سطح پر ڈرائیونگ لائسینس کو سینٹرلائیز کرنا بھی ہے یعنی اب تمام لائسینس پنجاب میں لاہور سے فائنل بن کر آتے ہیں جبکہ ٹیسٹ متعلقہ اضلاع میں ہی ہوتا ہے ۔
میرا یہ ماننا ہے کہ پُورے پاکستان میں ڈرائیونگ لائسینس اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ایک ہی وفاقی ادارہ بنایا جائے جو یہ سارے کام خُود ہی دیکھے اور ڈرائیونگ ٹیسٹ کو ہائیلی امپروو کیا جائے ۔ جو ڈرائیور بعد ازاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتا پکڑا جائے اُس کی گاڑی یا موٹر سائیکل ضبط کیا جائے کیونکہ خالی جُرمانہ کرنے کے بعد ڈرائیور کو دوبارہ وُہی گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دینے کی کیا تُک بنتی ہے ؟ یہی سوال میرا ہیلمٹ کے استعمال سے بھی ہے ایک بندہ بغیر ہیلمٹ کے بائیک چلا رہا ہے آپ نے جُرمانہ کرکے اُس کو دوبارہ وُہی بائیک چلانے کی اجازت دے دی ؟ بلے بھئی آپ کی راکٹ سائنس ۔۔۔۔۔
اُس کا موٹر سائیکل تھانے میں بند کریں اور اُس سے تھانے میں پارکنگ کی بھی فِیس لی جائے یہی اِس کا حل ہے اور یہاں برطانیہ میں موٹر سائیکلز کا لائسینس حاصِل کرنا سب سے زیادہ مُشکل ہوتا ہے ۔
ایک مخصُوص مُدت کا وقت دِیا جائے کہ لوگ اپنے پُرانے لائسینس نئے ٹیسٹ کے تحت پاس کریں اور اگر نہیں کرپاتے تو گھر بیٹھیں ۔ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں اُن کا ڈرائیونگ تھیوری ٹیسٹ اُن سے سوال کر کے اُن کا جواب کمپیوٹر میں ڈالا جاسکتا ہے ۔اور کمپیوٹر خُود ہی خُود کار طریقے سے پاس یا فیل کریگا یعنی مکمل شفافیت کے ساتھ ۔
اِس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں چلنے والی ہر گاڑی یا موٹر سائیکل کی آن روڈ ڈرائیونگ انشورنس ہونی چاہئیے تاکہ حادثے کی صُورت میں گاڑی کا نُقصان پُورا ہوسکے یہ نہیں کہ ڈرائیورز آپس میں سڑک پر لڑتے پھریں ۔ پولیس کے پاس ہر گاڑی کی نمبر پلیٹ ریڈ کرنے والے ANPR کیمرے ہونے چاہئیں جو ایک سیکنڈ میں گاڑی کی مکمل معلومات اُن کی سکرین پر دِکھا سکیں ۔
ہر گاڑی جو تین سال سے زیادہ پُرانی ہے اُس کی MOT کا ایک جاندار سسٹم ہونا چاہئیے جو کہ عام گیراج والوں کے پاس ہوسکتا ہے اور وُہ وفاقی ادارے کی دِی گئی ہدایات کی روشنی میں کریں گے اور غلط پاس کرنے کی صُورت میں کِسی مکینکل فالٹ کی وجہ سے ہُوا حادثہ اُن کا کاروبار بند کرا دیگا ۔
یقین کریں یہ کُوئی مہنگا سسٹم نہیں ہے بس محنت اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اِس سے آپ حادثات میں فرق دیکھیں گے ۔ کئی لوگ حادثات کی وجہ سڑکوں کو قرار دیتے ہیں تسلی رکھیں ہر ہونے والا حادثہ سڑک پر موجود ڈرائیور کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اب چاہے وُہ ڈرائیور آپ ہوں یا کُوئی دُوسرا ڈرائیور ۔
اِس کو ایک پوسٹ میں مکمل نہیں کیا جاسکتا باقی تفصیلات پھر کبھی لیکن آج کی پوسٹ ڈرائیونگ لائسینس کو ایک وفاقی ادارے کے ذِمے لگانے سے متعلق ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...