(Last Updated On: )
کردار
بوڑھی : بس کی ایک بوڑھیا مسافر
کنڈیکٹر : بس کا کنڈیکٹر
ڈرائیور : بس کا ڈرائیور
بس کے چند مسافر …
(منظر : ایک بس کے اندر کا منظر۔ رات کا وقت ہے۔ مسافر اپنے اپنے سیٹ پر بیٹھے یا تو سورہے ہیں یا اونگھ رہے ہیں۔ اگلی سیٹ پر ڈرائیور بیٹھا بس چلا رہا ہے۔ آخر سیٹ پر بیٹھا کنڈیکٹر خراٹے لے رہا ہے۔ اس سے دو سیٹ آگے ایک بوڑھی عورت بیٹھی جاگ رہی ہے۔ وہ بے چینی سے کبھی کھڑکی کے باہر دیکھتی ہے تو کبھی مڑ کر کنڈیکٹر کو دیکھنے لگتی ہے۔)
بوڑھی : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) بیٹا! کنڈیکٹر۔
کنڈیکٹر : (چونک کر) کون؟ کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
کنڈیکٹر : (جھلا کر) اماں! تمہارا دماغ توخراب نہیں ہوگیا! ابھی تو منماڑ بھی نہیں آیا تو مالیگائوں کہا ںسے آئے گا۔!
بوڑھی : بیٹا پھر یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
کنڈیکٹر : اسٹاپ کہاں ہے اماں! ابھی تو بس چل رہی ہے۔
بوڑھی : اب کونسا اسٹاپ آنے والا ہے۔
کنڈیکٹر : اماں انکائی آنے والا ہے۔ لیکن وہاں بس نہیں رکتی ہے… صرف منماڑ میں بس رکے گی۔
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں کب آئے گا۔؟
کنڈیکٹر : اماں! منماڑ کے بعد والا اسٹاپ مالیگائوں ہی ہے۔
بوڑھی : اچھا اچھا۔
کنڈیکٹر : تم ایولہ سے بیٹھی ہوں نا؟
کنڈیکٹر : ۔اماں ابھی ایولہ چھوڑے ہوئے بس کو ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا ہے۔ مالیگائوں آنے میں دیڑھ دو گھنٹہ لگیں گے۔
بوڑھی : اچھا بیٹا! رات کاوقت ہے۔ میرے پاس گھڑی بھی نہیں ہے۔ اس لئے اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ کونسا اسٹاپ آرہا ہے۔
ایک مسافر : اماں تم اطمینان رکھو! بلکہ میں کہوں گا تم ایک آدھ گھنٹہ سو جائو۔ مالیگائوں آجائے گا تو بس رک جائے گی کنڈیکٹر ، میں یا کوئی مسافر تمہیں جگادے گا ۔
بوڑھی : اس بڑھاپے میں نیند کہاں آتی ہے بیٹا!
مسافر : اگر تمہیں نیند نہیں آرہی ہے تو کم سے کم دوسروں کی نیند تو خراب مت کرو۔ خود نہیں سورہی ہو تو کم سے کم دوسروں کو تو سونے دو۔
بوڑھی : سوجائو بیٹا! میں کب چاہتی ہوں کہ میری وجہ سے دوسروں کی نیند خراب ہو۔
مسافر : ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔
(مسافر سونے کی کوشش کرتا ہے بوڑھی آنکھ بند کرتی ہے پر کھول کربے چینی سے چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھرآنکھ بند کرکے سیٹ سے پشت لگا دیتی ہے۔ پھر اپنے بازو والے مسافر کو اٹھاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا! یہ بس مالیگائوں رکے گی نا۔
بازووالا : (آنکھ ملتے ہوئے) اماں یہ بس جلگائوں جارہی ہے۔
بوڑھی : یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔
بازووالا : پھر اتنا نہیں جانتی کہ یہ بس مالیگائوں سے ہوکر جلگائوں جائے گی اور مالیگائوں بھی رکے گی۔
بوڑھی : اطمینان نہیں ہورہا ہے نا بیٹا۔
بازووالا : اطمینان رکھو۔۔ اماں! یہ بس مالیگائوں ضرور رکے گی۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
(سیٹ پر سر رکھ کر سونے کی کوشش کرتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد بس کے اندرکی بتی جلتی ہے۔ بس رک جاتی ہے۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا ہوا جاگتا ہے۔ کھڑکی کے باہر جھانکتا ہے اور آواز لگاتا ہے۔ )
کنڈیکٹر : اے منماڑ آگیا۔ منماڑ! ہے کوئی منماڑ میں اترنے والا۔
(ایک مسافر اٹھتا ہے۔ اپنا بیگ لیکر بس سے اتر جاتا ہے۔ بوڑھی چونک کر اٹھتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
کنڈیکٹر : نہیں اماں مالیگائوں نہیں آیا۔
بوڑھی : پھر یہ بس کیوں رک گئی ہے؟ یہ کونسا اسٹاپ ہے؟
ایک مسافر : اماں یہ منماڑ ہے۔
بوڑھی : مالیگائوں کب آئے گا؟
دوسرامسافر: اماں! مالیگائوں اس کے بعد کااسٹاپ ہے۔
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آئے تو مجھے بتادینا۔
پہلا مسافر : اماں فکر مت کرو! مالیگائوں آئے گا تو ہر کوئی تمہیں بتادے گا کہ مالیگائوں آگیا ہے۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
کنڈیکٹر : (آواز لگاکہ) ہے کوئی۔۔ مالیگائوں، دھولیہ، جلگائوں (بس میں کوئی نہیں چڑھتا ہے ۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ اندر کی بتی بجھ جاتی ہے۔سارے مسافر پھر سوجاتے ہیں۔ بوڑھی اپنے پیچھے والی سیٹ کے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا سنو!
مسافر : کیا بات ہے اماں؟
(مسافر آنکھیں ملتا بوڑھی کی طرف دیکھتا ہے۔)
بوڑھی : مالیگائوں کتنی دیر میں آئے گا؟
مسافر : اماں میںتو سورہا تھا۔ پتہ نہیں بس کونسے اسٹاپ پر رکی تھی اور اس وقت کہاں ہے؟
بوڑھی : بیٹاابھی منماڑ پر رکی تھی۔
مسافر : تو اماں! ایک گھنٹہ بعد مالیگائوں آجائے گا۔ رات کا وقت ہے اگر ڈرائیور نے تیز بس چلائے تو ممکن ہے 45منٹ بعد بھی مالیگائوں آجائے۔
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آجائے تو مجھے جگادینا۔
مسافر : اچھا اماں! میں جاگا رہا تو مالیگائوں آنے پر آپ کو جگادوں گا۔
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا۔
مسافر : اماں تم سوجائو۔ اور مجھے اور دوسرے مسافروں کو بھی سونے دو…
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(کہہ کر سیٹ سے پشت لگا کر آنکھیں بند کردیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گہرے گہرے خراٹے لینے لگتی ہے۔ بس چلتی رہتی ہے۔ وقت گزرتا ہے…کچھ وقفہ کے بعد بس کے اندر کی بتیاں جلتی ہیں۔ بس رک جاتی ہے ۔ کنڈیکٹر آنکھیں ملتا اٹھتا ہے۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر آواز لگاتا ہے۔)
کنڈیکٹر : مالیگائوں آگیا۔ مالیگائوں۔ ہے کوئی مالیگائوں اتر نے والا؟
(ایک دومسافر اپنا سامان لیکر بس سے اتر جاتے ہیں ایک دو مسافر بس میں چڑھ کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بوڑھی خراٹے لے رہی ہے۔ کنڈیکٹر ڈبل بیل دیتا ہے بس چل دیتی ہے۔ بس کے اندر کی بتی بجھ جاتی ہے تھوڑی دیر بعد… بوڑھی بس کو لگنے والے جھٹکے سے اچانک چونک کر اٹھتی ہے اور گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگتی ہے۔ پھر بازو والے مسافر کو جگاتی ہے۔)
بوڑھی : بیٹا کیا مالیگائوں آگیا؟
بازو والا : (نیند میں) پتہ نہیں اماں! مالیگائوں آیا یا نہیں مجھے علم نہیں ہے میں تو سورہا تھا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
بازو والا : کسی اور مسافر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔
(سامنے والی سیٹ کے مسافر کو جھنجھوڑ تی ہے)
مسافر : (چونک کر) کیا بات ہے؟
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آیا؟
مسافر : پتہ نہیں اماں۔ مالیگائوں آیا یا نہیں آیا۔میں نہیں جانتا۔ میں تو سورہا تھا۔ تم کنڈیکٹر سے پوچھ لو۔
بوڑھی : بیٹا وہ بھی تو سورہا ہے۔
مسافر : تو ڈرائیور سے پوچھ لو۔ وہ تو جاگ رہا ہے۔ اسے تو پتہ ہوگا کہ مالیگائوں آیا یا نہیں۔
بوڑھی : اچھا بیٹا۔ (آواز لگا کر) اے ڈرائیور بیٹے اے ڈرائیور بیٹے۔
ڈرائیور : (پیچھے مڑکر)جی ماں جی
بوڑھی : بیٹا مالیگائوں آگیا؟
ڈرائیور : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ بس اب دھولیہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مالیگائوں سے 15,10کلومیٹر آگے آگئی ہے۔
بوڑھی : (کلیجہ تھام کر) ہائے! مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے مجھے بتایا نہیں۔
(بوڑھی کی چیخ سن کر سارے مسافر جاگ اٹھتے ہیں۔)
پہلا مسافر : کیا بات ہے اماں مالیگائوں آکر چلا گیا؟
بوڑھی : ہاں بیٹا! ڈرائیور تو کہہ رہا ہے مالیگائوںآکرجاچکا ہے۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آکر چلا گیا اور کسی نے بھی تمہیں نہیں جگایا اماں!
بوڑھی : (روہانسی آواز میں) ہاں بیٹا۔
دوسرا مسافر : کنڈیکٹر نے بھی نہیں؟
بوڑھی : نہیں بیٹا۔
پہلا مسافر : (غصے سے) یہ تو کنڈیکٹر کی لاپرواہی ہے۔ کہاں ہے کنڈیکٹر؟
دوسرا مسافر : سو رہا ہے۔
پہلا مسافر : جگائو اسے؟
پہلا مسافر : (کنڈیکٹر کو جگاتے ہوئے) کنڈیکٹر صاحب ذرا نیند سے جاگنا تو…
کنڈیکٹر : (آنکھ ملتے ہوئے) کیا بات ہے۔؟
مسافر : مالیگائو ں آگیا؟
کنڈیکٹر : مالیگائوں تو کب کا آکر جا چکا ہے۔ تھوڑی دیر میں دھولیہ آئے گا۔
دوسرا مسافر : مالیگائوں آیا تو تم نے اس بوڑھیا کو کیوں نہیں جگایا۔؟
کنڈیکٹر : آئی شپت۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا ہے۔
پہلا مسافر : اس بوڑھی کو مالیگائوں میں اتر نا تھا۔ اب اس کا کیا کیا جائے۔؟
کنڈیکٹر : اسے ہم دھولیہ میں اتار دیں گے۔ وہ وہاں سے کوئی بس پکڑ کر مالیگائوں چلی جائے گی۔
دوسرامسافر : یہ بالکل غلط بات ہے۔ آدھی رات کو یہ بوڑھی عورت دھولیہ اتر کر اکیلی کس طرح مالیگائوں جائے گی۔ یہ ساری بس کے لوگوں سے کہہ چکی تھی کہ مالیگائوں آئے تو اسے جگا دیا جائے لیکن سب سورہے تھے کسی نے اسے نہیں جگایا۔
پہلا مسافر : دوسرے مسافروں کو تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کنڈیکٹر صاحب! یہ تمہاری ڈیوٹی تھی تمہیں تو اس بوڑھی کو جگانا چاہئے تھا۔
کنڈیکٹر : میں نیند میں تھا۔ مالیگائوں آیا تو اس کے بارے میں بھول ہی گیا۔
دوسرا مسافر : جو کچھ بھی ہوا ہے ۔ غلطی تم سے ہوئی ہے اس لیے اس غلطی کو تمہیں ہی سدھارنا پڑے گا۔ اس بڑھیا کو مالیگائوں پہنچا نا پڑے گا۔
کنڈیکٹر : لیکن بس تو مالیگائوں سے 15کلو میٹر دور آگئی ہے۔
پہلامسافر : بس کو واپس مالیگائوںکی طرف موڑو۔ اوراس بڑھیا کو مالیگائوں پہونچاو۔ آدھی رات کو یہ اکیلی بڑھیا بھلا کہاں جائے گی۔
دوسرا مسافر : بس کو مالیگائوں کی طرف موڑو۔
تیسرا مسافر : غلطی تمہاری ہے۔ تمہیں اس کو سدھار نا پڑے گا۔
چھوتھا مسافر : بس کو مالیگائوں لے جایا جائے بھلے ہمارا وقت برباد ہوجائے۔ لیکن اس بڑھیا کو ہم آدھی رات کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔
کنڈیکٹر : (بس ڈرائیورسے) کیا کیا جائے؟
ڈرائیور : تم کہو تو میں بس کو مالیگائوں کی طرف موڑتا ہوں۔ غلطی سچ مچ ہمار ی ہے اور یہ انسانیت کا تقاضہ بھی ہے۔ اتنی رات کو ہم اس بوڑھیا کو اکیلے دھولیہ کے بس اسٹینڈ پر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر جب بس کے سار ے مسافر کہہ رہے ہیں کہ بڑھیا کو مالیگائوں لے جایا جائے بس کو واپس مالیگائوں کی طرف موڑ دیا جائے تو ہمیں بھی سب کی با ت مان لینی چاہئے۔
کنڈیکٹر : ٹھیک ہے۔ بس کو مالیگائوں کی طرف موڑ لو۔ ہم بڑھیا کو مالیگائوں چھوڑ کر واپس اپنا سفر شروع کریں گے۔
ڈرائیور : ٹھیک ہے۔
(بس کو موڑ تا ہے۔)
بوڑھی : (روتے ہوئے) مالیگائوں آکر چلا گیا اور مجھے کسی نے نہیں بتایا۔
پہلا مسافر : اماں! روومت! بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔ تمہاری لیے بس واپس مالیگائوں جارہی ہے۔
بوڑھی : ٹھیک ہے بیٹا! اس بار مالیگائوں آئے تو بتانا۔
مسافر : اماں ہر کوئی تمہیں بتائے گا مالیگائوں آگیا ہے۔ تم اطمینان رکھو۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!
(بس چلتی ہے تھوڑی دیر بعد بس کے اندر بتی جلتی ہے اور بس رک جاتی ہے۔)
کنڈیکٹر : لو اماں! مالیگائوں آگیا۔
بوڑھی : اچھا بیٹا!(اپنی گود میں رکھی تھیلی کھولتی ہے )
کنڈیکٹر : اماں اپنا سامان سمیٹو اور جلدی سے بس سے اترو۔ تمہارے لیے 15کلو میٹر سے واپس آئی ہے تمہارا مالیگائوں آگیا ہے اب جو کرنا ہے وہ کرو۔
بوڑھی : ہاں بیٹا وہی تو کررہی ہوں جو مجھے مالیگائوں آنے پر کرنا تھا۔
کنڈیکٹر : اماں! مالیگائوں آنے پر تمہیں کیا کرنا تھا؟
بوڑھی : مالیگائوں آنے پر مجھے دوا کی ایک خوراک پینی تھی۔ میری بیٹی نے مجھ سے کہا تھا۔ مالیگائوں آنے پر یاد سے دھیان سے دوا کی ایک خوراک لے لینا۔ وہی کر رہی ہوں۔
(دوا کی خوراک لیتی ہے۔)
کنڈیکٹر : تو مالیگائوں میں تمہیں دوا پینی تھی؟
بوڑھی : ہاں بیٹا!
کنڈیکٹر : تمہیں جانا کہاں ہے؟
بوڑھی : مجھے دھولیہ جانا ہے بیٹا!
سب : (ایک ساتھ ) تم کو دھولیہ جانا ہے……
(پردہ گرتا ہے)