میں ڈرامہ ارتغل غازی دیکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہ نہایت طویل ہے ۔لیکن اس شہرہ آفاق ڈرامے کے سر سری نظر سے چند مناظر دیکھے تو جیسے اس نے اپنے سحر میں جکڑ لیا ۔لہذا پچھلے چار ماہ اس کے ٹرانس میں مبتلا رہا ہوں ۔اس دوران ضروری کام کاج کے علاوہ دوسری کوئی مصروفیت مجھے اس ڈرامے سے دُور نہ کر سکی ۔ ایک اجنبی زبان( ترکی) میں اس کے بول اور دوسری اجنبی زبان یعنی انگریزی میں ترجمہ ہونے کے باوجود اس کی دلچسپی کم نہ ہوئی ۔اب جب کہ ا س کے تمام سیزن دیکھ ڈالے ہیں تو بھی میرے ذہن ودل پر اسی طرح قابض ہے ۔اس کی کہانی ،اس کے کردار، اس کے مناظر، اس کے ایکشن، اس کا ماحول، ان کا رہن سہن اور اس دور کے حالات و واقعات نے جیسے دل و دماغ میں گھر کر لیا ہے ۔آج تک کسی فلم ،ڈرامہ یا کتاب نے مجھے اس حد تک متاثر نہیں کیا کہ سوتے جاگتے اسی کے متعلق سوچتا رہوں ۔یہ کام ارتغل غازی ڈرامے نے کر دکھایا ہے۔اتنے لمبے عرصے تک اپنے سحر میں جکڑے رکھنے کا کریڈٹ اس ڈرامے کے خالق (پروڈیوسر)، ہدایت کار،ڈرامہ نگار اور ساری ٹیم کو جاتا ہے ۔کیونکہ ڈرامے کی کامیابی میں تمام ٹیم نے اہم کردار اد اکیا ہے ۔جہاں اداکاروںنے اداکاری کے بہترین جوہر دکھائے ہیں وہاں عکس بندی کرنے والوںنے اپنی مہارت کا بہترین ثبوت پیش کیا ہے ۔ انہوں نے ڈرامے کے سین کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کی بھی ایسی فلم بندی کی ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھتا ہے ۔ مثلاً آسمان پر محوِ پرواز پرندے، اُڑتے ہوئے بادل، تاروں بھرا آسمان ، چاند کی ضوفشانی،حسین وادیاں،گھنے جنگل،بہتے جھرنے ، سرسبز میدان اور نیلا آسمان ناظرین کی تسکینِ طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ کہانی در کہانی کے ذریعے مسلسل دلچسپی اور تجسّس موجود رہتا ہے ۔ بعض اوقات یہ تجسس اس قدر غالب آجا تا ہے کہ کئی قسطیں دیکھنے کے بعد بھی اسے بند کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ یوں سیکڑوں اقساط ہونے کے باوجود یہ ناظرین کو اپنی دلچسپی کے حصار سے نکلنے نہیں دیتا ۔یہی اس ڈرامے کی کامیابی کا ثبوت ہے ۔یونہی اس نے پوری دنیا میں دھوم نہیں مچائی ہے ۔ اس نے ہر عمر اور طبقہ فکر کے افراد کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کیا ہے ۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب اس ڈرامے کے دیوانے ہیں ۔ یہاں آسٹریلیا میں عرب بڑی تعداد میں مقیم ہیں انہوں نے بھی اسے بڑے شوق سے دیکھا ہے ۔ ہمیں بھی عرب دوستوں نے ہی اس کے بارے میں بتایا تھا۔ اس ڈرامے کے آگے ہالی وڈ،بالی وڈ اور دیگر ممالک کی فلمیں بھی کچھ نہیں ہیں ۔حالانکہ ہالی ووڈ کی فلموں کا بجٹ اور انہیں سمجھنے والا انگریزی داں طبقہ اس سے کہیں بڑا ہے ۔
خاص بات یہ ہے ارتغل غازی ڈرامے میں فحش مناظر، گانے ، ڈانس اور ایسا مواد موجود نہیںہے جو عام طور پر کسی بھی ڈرامے یا فلم کی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ حتٰی کہ جنگی کہانیوں میں بھی بہانے بہانے سے گلیمر شامل کر لیا جاتا ہے ۔اس کے بجائے ارتغل غازی میں دینی اور روحانی تعلیم و تبلیغ کا اہتمام ہے ۔ وہ اس خوبی سے شامل کیا گیا ہے کہ ناظر نہ صرف اس سے دین کا علم حاصل کرتا ہے بلکہ اس کی رُوحانی تسکین و تشفی بھی ہوتی ہے ۔میں نے پہلی مرتبہ کسی ڈرامے میں اس طرح دینی تعلیم دیتے دیکھا ہے اور اس سے بہت متاثر ہوا ہوں ۔ اس کی وجہ ابن عربی اور دیگر علما ¿ کی تقریر ِدل پذیر بھی تھی اور ڈرامے میں اس کا موقع محل اور محلّ وقوع بھی ۔کہانی کی ضرورت کے مطابق اسلامی تاریخ سے موضوع منتخب کیا گیا۔اللہ کے نیک بندے کبھی کسی ندی کے کنارے بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے، کبھی کسی درخت تلے اور کبھی سر سبز وادی میں صدائے توحید بلند کرتے نظر آتے ۔ویسے بھی اللہ کے کلام میں جو تاثیر ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔
تیرھویں صدی کی تاریخ،سلجوقی حکومت کا زوال، منگولوں کا وحشیانہ جنون اور ان سب سے بڑھ کر اس دور کے خانہ بدوش قبائل کا رہن سہن بھی انتہائی ِ دلچسپی کا باعث رہا ۔گویا تاریخ ، معاشرت، نفسیات، قبائلی رسم و رواج ، اسلامی روایات،جذبہ جہاد ،منتقم مزاجی، خوردو نوش ، ملبوسات ، کھیل کود اور دیگر بے شمار موضوعات پر یہ ایک بہترین ڈاکومنٹری بھی ہے جس میں سیکھنے اور جاننے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ یوں تو اس ڈرامے کے ہدایت کار، اداکار، کیمرہ مین، میک اپ مین سمیت تمام شعبوں نے اس کی کامیابی میں بے مثل کردارا دا کیا ہے مگر میں اس کے ڈرامہ نگار Mehmat Bozdag ( جو اس ڈرامے کے پرو ڈیوسر بھی ہیں )سے سب زیادہ متاثر ہوں ۔ ایک قلم کار اور مصنف کی حیثیت سے میں بخوبی جانتا ہوں کہ اتنی طویل کہانی میں اس طرح گرفت قائم رکھنا کہ کہیں اس میں جھول نظر نہ آئے انتہائی مہارت کا کام ہے ۔ نہ صرف کہانی کا تسلسل قائم رہتا ہے بلکہ کوئی قسط ایسی نہیں ہے جس میں دلچسپی او رتجسّس کم ہوا ہو ۔ یہ ہر لحاظ سے کمالِ ہنر ہے ۔ قلم کار نے اس دور کے حالات و واقعات، مسائل اور ان کی نفسیات اس طرح ڈوب کر بیان کی ہے کہ کوئی گوشہ تشنہِ تکمیل نہیں رہا ۔اس سے ان کا وسعتِ علم اور خوبیِ بیان مترشح ہے ۔
اس ڈرامے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ بڑی فلم انڈسٹری، مشہور و معروف اداکار اوربڑا بجٹ ثانوی حیثیت رکھتا ہے اصل شے معیار ہے جو کم بجٹ فلم یا ڈرامے میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ترکی جیسے ملک کے ڈرامے اب ہالی وڈ کے فلمی ستارے بھی ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے بڑی کامیابی کیا ہو گی ۔اس ڈرامے نے دنیا بھرکے ڈرامہ اور فلم سازوں کے لیے ایک نیا معیار اور ٹرینڈمقرّر کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں اس معیار پر کون پور ااُترتا ہے ۔ ارتغل غازی ڈرامہ نے بہرحال ایک تاریخ رقم کردی ہے ۔جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔