ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کا اجمالی جائزہ
ڈاکٹر وزیر آغا نے جب اپنی ادبی زندگی کا آغا ز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ ایک نو وارد ادیب کی حیثیت سے وہ اس تحریک کے مثبت پہلوؤں سے متاثر بھی ہوئے اور وہ اثرات ان کی ابتدائی نگارشات میں نظر بھی آتے ہیں۔ مثلاً ان کی پہلی نظم ’دھرتی کی آواز‘ اور نظم ’ننھے مزدور‘ میں طبقاتی امتیاز اور کشمکش کو ظاہر کیا گیاہے، اسی طرح ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا:
’دولت کی ناروا تقسیم نے انسان کو طبقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے اوریوں جنگ، قحط، بادشاہت اور سرمایہ داری کو معرض وجود میں لاکر فرد اور سماج کو ایک ایسی غلط روش پر گامزن کردیا ہے کہ آج انسان اس کے خلاف پورے عزم اور شد ت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘
لیکن ترقی پسند تحریک زندگی کی ایک قاش کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے پر مُصر تھی جبکہ وزیر آغا پوری زندگی کے بھید کو سمجھنے کی جستجو میں تھے۔ اس لئے ان کے لئے محض خارجی عوامل کی بنیادوں پر لکھتے چلے جانا ممکن نہ تھا اور وہ پوری زندگی کے اسرار کو سمجھنے کی دھن میں مگن ہوگئے۔ ان کی تخلیقات کی طرح ان کی تنقید بھی اسی جستجو سے عبارت ہے۔
وزیر آغا شروع میں نصیر آغا کے قلمی نام سے ’ادبی دنیا‘ میں مضامین لکھتے رہے۔ ’محبت کا تدریجی ارتقا‘ ان کا پہلا مضمون تھا جو ان کے نام کے ساتھ شائع ہوا۔ 1954 میں ان کی پہلی کتاب ’مسرت کی تلاش‘ شائع ہوئی۔ اس کتاب کے ساتھ وزیر آغا کے ہاں دو فکری تجسس نمایاں ہوئے۔ ایک زندگی کو اس کی ’کلیت‘ (TOTALITY) میں دیکھنے کی خواہش دوسرا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور جستجو۔یہی دو تجسس آگے چل کر پھیلاؤ کی صورت اختیار کر گئے۔مسرت کی ماہیت کی تلاش میں انہوں نے ’اردو ادب میںطنز و مزاح‘ لکھی۔ اس کتاب کو لکھتے وقت وزیر آغا انسان کے دو طبعی رجحانات سے آشنا ہوئے۔ ایک تشدد اور دفاع کا اور دوسرا پھیلاؤ اور آفاقیت کا۔ آرتھر کوئسلر کے خیال میں ہنسی اور طنز پہلے رجحان کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں جب کہ ’المیہ‘ دوسرے رجحان میں سامنے آتاہے۔ یہ در اصل ’عام طنز و مزاح‘ اور ’تخلیقی فن پارے‘ کا بنیادی فرق ہے۔ وزیر آغا نے ’عام طنز و مزاح‘ سے ہٹ کر انشائیہ نگاری شروع کی اور نمائش دنداں کے مقابلے میں زیر لب تبسم اور داخلی شگفتگی و تازگی پر زور دیا تاکہ جذبے کا اخراج نہ ہو بلکہ مسرت ہماری رگ و پے میں سرایت کر جائے۔ تخلیقی سطح پر اب گویا مسرت کی ماہیت کی تلاش اور پوری زندگی کی جستجو کے سفر ایک ہوگئے تھے۔
’نظم جدید کی کروٹیں‘ کے مضامین میں ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف شعرا کی اصل بنیادیں دریافت کیں۔ فیض کے بارے میں وزیر آغا کا مضمون ’انجماد کی ایک مثال‘ خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور ترقی پسندوں کی طرف سے نظریاتی بنیادوں پر (ادبی بنیادوں پر نہیں) اس کی مخالفت کی گئی۔ تاہم اس کتاب کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ مشہور ہونے والا مضمون میرا جی کے بارے میں تھا۔ ’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی۔۔ ‘اس مضمون کو سنجیدہ ادبی حلقوںنے سراہا جبکہ مخالفین نے وزیر آغا کی اصطلاح ’دھرتی پوجا‘ کو بطور الزام وزیر آغا کے ماتھے پر سجادیا۔ انہیںدھرتی پوجا کی تبلیغ کا مجرم قرار دیا گیا۔ قطع نظر اس سے کہ مخالفین کے الزام کا تجزیہ کیا جائے تو وزیر آغا ’ارض وطن‘ سے محبت کے مجرم ہی قرار پاتے ہیں، اس مضمون کی اصل اہمیت یہ تھی کہ وزیر آغا کا فکری سفر صاف آگے کو بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی تک ان کاادبی تصور یہ تھا کہ جس طرح مجسمہ ساز پتھر سے مجسمہ نہیں تراشتابلکہ پتھر سے فاضل مواد کو ہٹاکر اس میں موجود تخلیق کوآشکار کرتاہے۔ اسی طرح ادیب بھی دو چیزوں کے بُعد میں نیا ربط تلاش کرتاہے۔ یہ زندگی میں کلیت دیکھنے کی ہی ایک صورت ـتھی، لیکن میراجی کے بارہ میں اپنے مضمون میں وزیر آغا نے ثنویت کے انوکھے تصور سے آگاہی حاصل کی۔
ایک حدیث قدسی ہے! ’’میں ایک مخفی خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں‘‘ نور کے مقابلے میں اگر تاریکی نہ ہو تو نور کی پہچان ممکن نہیں۔ یزداں اور اہر من، ین اور یانگ، پرش اور پرکرتی، آدم اور حوا —— ان سب کے باہمی ربط اور اختلاف سے زندگی کی ایک نئی صورت ابھری۔ ثنویت کا یہ تصور وزیر آغا کی شہرہ آفاق تصنیف ’اردو شاعری کا مزاج‘ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آیا، گویا کائنات میں یکسریکتائی کا عالم نہیں بلکہ ہر پارٹیکل کا اینٹی پارٹیکل موجود ہے اور دونوں کی بقا کا انحصار ایک دوسرے کے وجود پر ہے۔
’اردو شاعری کا مزاج‘ کا بنیادی نظریہ ہیگل کی جدلیات،THESIS‘اور ANTITHESIS کے تصادم اور ملاپ سے SYNTHESIS کے وجود میں آنے کے نظریے پر قائم تھا۔ مارکس نے معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے اسے اپنایا مگر وزیر آغا نے اسے ادبی اور ثقافتی تناظر میں منطبق کیا۔ ہیگل نے ثنویت کے دونوں پہلوؤں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔دونوں کو ایک دوسرے کا حریف قرار دینے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ دیا ۔ یہ بہت بڑی حقیقت تھی مگر اس سے مروجہ اخلاقیات کو شدید دھچکا پہنچا اور مذہبی دنیا میں ایک کہرام برپا ہوا۔ ثنویت کی دونوں متضاد حقیقتیں ٹکراتی ہیںاور ان میں ملاپ بھی ہوتاہے اور پھر دونوں کے مضبوط اجزا مل کر ایک تیسری صورت(SYNTHESIS) اختیار کر لیتے ہیں۔ گویا ہر SYNTHESIS ایک نئی ثنویت کا آغاز ہے۔ وزیر آغا نے اسی بنیاد پر ’اردو شاعری کامزاج‘ میں بر صغیر کی ثقافتی اورادبی تاریخ کا جائزہ لیا۔ آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ سے ’ہندی آریائی‘ تہذیب نے جنم لیا اور گیت کی ادبی صنف کو فروغ ملا۔ مسلمانوں کی آمد سے مسلم ہندی تہذیب مرتب ہونے لگی اورغزل کی ادبی صنف کو فروغ ملا اور پھر جب انگریزوں نے یہاں کانظام حکومت سنبھالا تو نظم کی صنف ابھر کر سامنے آئی (مغربی تہذیب اور ہماری تہذیب کا ٹکراؤ تو شاید ابھی بھی جاری ہے)۔
وزیر آغا نے صرف ہیگل کے نظام فکر کو ادبی اور ثقافتی سطح پر منطبق کرکے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس سے آگے کا سفر بھی کیا۔ ’اردو شاعری کامزاج‘ میں ہیگل کے DIALECTICS سے ہٹ کر دو نئے اور اہم نکات سامنے آئے۔ ایک یہ کہ عناصر کے ٹکراؤ اور ملاپ کے بعد SYNTHESIS کے وجود میں آنے سے پہلے ’کچھ عرصہ کے لئے پیچھے ہٹنے کا عمل‘ ہوتاہے۔ دوسرا یہ کہ پیچھے ہٹنے کی حالت میں ایک ’جست‘ وجود میں آتی ہے۔ جیسے جمپ لگانے والا پہلے تھوڑا سا پیچھے کو ہٹتاہے اور پھر آگے کی طرف جمپ لگاتا ہے۔ ’پیچھے ہٹنے اور پھر جست بھرنے‘ کے اہم نکات نے آگے چل کر وزیر آغا کے تنقیدی نظام فکر میں اہم کردار ادا کیا۔
’اردو شاعری کامزاج‘ کے بعد وزیر آغا کے متفرق مضامین جرائد میں چھپتے رہے۔ یہ مضامین مختلف مجموعوں میں یکجا کئے گئے۔ ان مجموعوں میں ’تنقید اور احتساب‘ ’نئے مقالات‘ ،’تنقید اور مجلسی تنقید‘ ،’نئے تناظر‘، ’دائرے اور لکیریں‘ اور ’انشائیہ کے خدو خال‘ شامل ہیں۔ تنقیدی مضامین کے ان مجموعوں میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے اب تک کے ادبی موقف کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور عملی تنقید کے عمدہ نمونے پیش کئے۔
’انشائیہ کے خدو خال‘ کے مضامین طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں انشائیہ کی صنف کے خدو خال کو نمایاں کرنے اور ان کی تفہیم کے لئے قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ اس مجموعے کا ایک مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘ ایک اعلیٰ درجے کامضمون ہے۔ اس میں انشائیہ کے خلاف محاذ کھولنے کے اصل پس منظر، مخالفین کی اصل حقیقت اور انشائیہ کی قابل قدر پیش رفت کو مربوط اور مدلل طریقے سے پیش کیا گیاہے۔ اس کتاب کو اگر انشائیہ کی بوطیقا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
متفرق مضامین کے مجموعوں سے ہٹ کر ’اردو شاعری کا مزاج‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’تخلیقی عمل‘ بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں انہوں نے یہ موقف پیش کیا کہ مخالف عناصر کے متصادم ہونے سے پہلے انجماد یا خلا پیدا ہوتاہے جس کی وجہ سے مخالف عنصر اس کی طرف لپکتا ہے۔ اس کی مثال ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول ایسے ہی ہے جیسے ہوا کا دباؤ کم ہو جائے تو باہر سے ہوائیں امڈ آتی ہیں۔ اس کے بعد دونوں عناصر میں ٹکراؤ اور ملاپ کی صورت بنتی ہے۔ وزیر آغا اس جست کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے کائنات ’عدم‘ کے اندر سے برآمد ہوئی تھی۔ گویا وزیر آغا کے نزدیک ایسے تخلیقی عمل سے گزر کرآ نے والی تخلیق نہ تو ایسی موجود حقیقت ہے جسے فنکار نے محض دریافت کیا ہے اور نہ ہی وہ مختلف چیزوں کا آمیزہ ہے بلکہ ایک بالکل نئی چیز ہے۔
اپنے موقف کی وضاحت میں وزیر آغا نے مذہبی روایات، اساطیر اورکوزہ گروں کے تخلیقی عمل تک کا گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور بڑی محنت سے انہیں اپنے موقف پر منطبق کردکھایاہے۔ ’تخلیقی عمل‘ کے اپنے موقف کو ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’تصورات عشق و خرد‘ میں زیادہ وسعت کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ شاید اسی لئے اقبالیات پر لکھی گئی بے شمار ایک جیسی کتابوں کے ہجوم میں یہ کتاب الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں وزیر آغا نے مخالف قوتوں کے ٹکراؤ کے بعد پیدا ہونے والی ’بے ہیئتی‘ کو مزید واضح کیا ہے۔ تخلیقی عمل میں ’بے ہیئتی‘ کی حالت کی مثال اس شخص سے دی گئی تھی جسے کسی اندھے کنویں میں بند کردیا جائے اور وہ روشنی کی جھلک پانے کے لئے بے چین ہو۔ جیسے ہی اسے کنویں سے رہائی ملے اور دور سے روشنی نظر آئے وہ دیوانہ وار اس روشنی کی طرف جائے گا —— ’تصورات عشق و خرداقبال کی نظر میں‘ اس تمثیل کو زیادہ بامعنی اور واضح کردیتی ہے۔ حضرت یوسف ؑ کو حضرت یعقوبؑ کی بینائی کادرجہ حاصل ہے۔ حضرت یوسفؑ کا اندھے کنویں کی قید سے باہر آنا دراصل حضرت یعقوبؑ کی بینائی کا واپس آناہے۔ وزیر آغا کے بقول تخلیقی عمل کے دوران ہر تخلیقی کار کو ’بینائی‘ حاصل ہوتی ہے ۔ یہ ’بینائی‘ وہ جست ہے جو بے ہیئتی سے نکلنے کا ذریعہ بھی ہے اور اس کا ثمرہ بھی!
’تصورات عشق و خرد‘ کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی قابل ذکر تنقیدی کتاب ’تنقید اورجدید اردوتنقید‘ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں مغربی تنقید کا جائزہ لیا گیاہے اور ساختیات و مابعد ساختیات جیسے تازہ ترین موضوعات پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں اردو تنقید کا جائزہ لیا گیاہے۔ محمد حسن، خلیل الرحمن اعظمی اور محمد علی صدیقی تک ناقدینِ اردو کا ذکر کیا گیاہے۔
اردو تنقید ایک عرصہ تک مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید، عمرانی تنقید،ادبی تنقید وجودی تنقید کے خانوں میں تقسیم رہی ہے۔ اب اس میں ساختیاتی اور پس ساختیات تنقید کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ اس طرح کسی ایک نظریے کی عینک پہن کر فن پارے کو دیکھا جاتاہے جو فن پارہ اپنے پسندیدہ نظریے سے ہم آہنگ ہو اسے عظیم قرار دے دیا جاتا ہے اور جو فن پارہ اپنے نظریے کے مطابق نہ ہو اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔تنقید کے مختلف دبستان در اصل دریا سے نکالی گئی نہریں ہیں۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ بہت محدود ہو جاتے ہیں۔ وزیر آغا نے یک رخی تنقید کے مقابلے میں امتزاجی تنقید کا رستہ اختیار کیا ہے۔ یوں وہ اپنی الگ نہر نکالنے کی بجائے تمام دریاؤں کو سمندر میں گرنے دیتے ہیں ’تنقید اور جدید اردو تنقید‘ میںامتزاجی تنقید کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔
آخر میں مجھے ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک ادھوری کتاب کا ذکر کرنا ہے۔ ’’ آشوب آگہی‘‘ سلسلے کے چند مضامین ’’اوراق‘‘ میں شائع ہوئے تھے اور انہیں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاحال وزیر آغا نے اپنی یہ ادھوری کتاب مکمل نہیں کی مگر اسی تسلسل میں انہوں نے ’’اوراق‘‘ کا ایک اداریہ لکھا اور ایک مضمون ایک ادبی تنظیم کی تقریب میں پڑھا (یہ مضمون بھی بعد میں اوراق کے اداریہ میں شامل کر لیا گیا) میں اسی مضمون کا ایک حصہ ’’ آشوب آگہی‘‘ کے تسلسل میں پیش کرنا چاہتا ہوں:
’’مسکراہٹ ہمیشہ منفی نوعیت کی کھسیانی مسکراہٹ نہیں ہوتی اس کا ایک روپ وہ معنی خیز مسکراہٹ بھی ہے جو مونا لیزا کے لبوں پر نمودار ہو تو اپنی تخلیقی صلاحیت کے احساس سے منور ہو جائے اور گوتم کے ہونٹوں پر آئے تو پہچان اور عرفان سے عبارت دکھائی دے۔ہرمن ہیسے نے گوبند کے لمحۂ انکشاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک روز اپنے دوست سدھیارتھ کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے تھا کہ یکایک اس نے دوست کے چہرے میں سینکڑوں چہروں کو گذرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ گذرنے کے باوجود گذر نہیں رہے تھے۔ اس نے مچھلی کا کھلا ہوا منہ دیکھا اور پھر مچھلی کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایک نوزائیدہ بچے کا چہرہ دیکھا جس پر لاتعداد جھریاں تھیں پھر اس نے ایک قاتل کو دیکھا جو کسی کے پیٹ میں چھرا گھونپ رہا تھا۔
اسی لمحے اس نے قاتل کو پابجولا ںحالت میں اس طور دیکھا کہ جلّاد اس کا سر قلم کر رہا تھا۔ اس نے ایسی لاتعداد صورتوں کا نظارہ کیا جو ایک دوسری کے ساتھ محبت اور نفرت کے لاکھوں رشتوں میں منسلک تھیں۔ وہ بیک وقت ایک دوسری کو ختم بھی کر رہی تھیں اور اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جنم بھی لے رہی تھیں یہ تمام صورتیں رُکتی تھیں، چلتی تھیں کھلتی اور مرجھاتی تھیں۔ ایک دوسری میں ضم ہوتی تھیں اور ان سب پر شیشے کا ایک لطیف اور مہین سا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ یہ غلاف در اصل سدھیار تھ کی ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔مسکراہٹ جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہ مسکراہٹ ہی زندگی کا حاصل ہے لیکن یہ مسکراہٹ صرف اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان ’’دیکھنے ‘‘ پر قادر ہو جاتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری کو اگر ان کے فکری ارتقاء کے تسلسل میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جس نوجوان نے اس صدی کی پانچویں دہائی میں مسرت کی تلاش شروع کی تھی چار دہائیوں کے اپنے فکری سفر میں اس نے اسے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ مسرت جو جاننے اور پہچاننے کے عمل سے پیدا ہو تی ہے ڈاکٹر وزیر آغا کا نصیب ہے کیونکہ بلاشبہ وہ ’’دیکھنے ‘‘ پر قادر ہیں۔
کل اور جزو کا فرق۔۔ کل میں جزو اور جزو میں کل کا منظر۔ کل کے روبرو جز کا اپنا تشخص برقرار رکھنا۔ یہ سارے مراحل زندگی کو سمجھنے کی وزیر آغا کی کوشش تھے اس عہد میں جب کہ ساختیاتی فکر نے ساختیہ کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے اور دوسری طرف طبعیات میں QUARKS کی دریافت کے ساتھ ایٹم کے پارٹیکلز کی ماہیئت کے بارے میں نئے سرے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیر آغا کو گویا اپنے تصورات کو اپنے ہی سوالات کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقعہ مل گیا ہے۔
ساختیاتی فکر کے حوالے سے اور اردو تنقید کے وسیلے سے ڈاکٹر وزیر آغا کی سب سے بڑی عطایہ ہے کہ انہوں نے دوسرے ساختیاتی دانشوروں کی طرح مغربی لکیر کی فقیری نہیں کی اور اس کی دانشورانہ چکا چوند سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے اور اس کی خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ اس کے اس عیب کو بھی واضح کیا ہے کہ اس ڈسپلن نے تخلیق کارکو یکسر نظر انداز کر کے انتہا پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ ساختیاتی فکر سے مناسب حد تک استفادہ کے باوجود وزیر آغا مصنف ، تصنیف اور قاری کے رشتوں میں توازن قائم کرتے ہیں۔
جدید اردو تنقید ایک عرصہ تک وزیر آغا کی فکر اور تنقید سے رہنمائی حاصل کرتی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔