مجھے اردو ادب میں ہر اس شخص سے محبت ہے جو خود کو ہمہ وقت ادبی مصروفیات میں الجھائے رکھے۔بلکہ یہ کہنا چاہوں گا کہ ہر وہ شخص جو جنون کی حد تک کسی فکر یا آرٹ سے منسلک ہو وہ میرے لیے ہمیشہ سے اہم رہا ہے،ڈاکٹر طارق ہاشمی کا شمار اسی قبیلے میں ہوتا ہے۔میری ان کے ساتھ دوستی اس زمانے سے ہے جب ان کی پہلی کتاب"دل دسواں سیارہ ہے" منظر عام پر آ چکی تھی اور اب یہ زمانہ آیا کہ ان کی دسویں کتاب"ادب،علامت اور جمالِ متن"کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تحریر لکھ رہا ہوں بلکہ جدید تھیوری کے بقول تحریر خود کو مجھ سے لکھوا رہی ہے۔اس دوران کوئی پچیس تیس سال کا عرصہ بھی چپکے سے گزر گیا۔سچ پوچھیں تو میں پہلے پہل طارق ہاشمی کی شاعری کا اسیر تھا بعد میں جب ان کی کتابیں "جدید نظم کی تیسری جہت"،اردو غزل:نئی تشکیل" اور "اردو نظم اور معاصر انسان" جیسی علمی،ادبی اور تحقیقی کتابیں پڑھیں تو مجھ پر ان کی شخصیت اور علم دوستی کے نئے در بھی وا ہونا شروع ہو گئے۔طارق ہاشمی کی ایک اور کتاب"شعریات خیبر،عصری تناظر" جب پڑھی تو بے اختیار میں نے انھیں پیار سے فاتح شعریاتِ خیبر کہنا شروع کر دیا تھا۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی کی مرتب کردہ کتاب"ادب،علامت اور جمال متن"کئی حوالوں سے اہم ہے۔ہمارے ہاں علامت نگاری کے نظری مباحث اور نظم و نثر میں اس کی صورت حال پر کچھ بہت زیادہ سرمایہ موجود نہیں ہے،اگر ہے بھی تو مختلف رسائل کے ملبے تلے دب چکا ہے۔ماضی میں اس ذخیرے کو کھوجنے اور کھودنے کا فرہادی کام اشتیاق احمد نے انجام دیا جو کتابی صورت میں بعنوان"علامت کے مباحث" کتاب سرائے والوں نے شائع کر دیا تھا۔اب دوسرا بڑا کام ڈاکٹر طارق ہاشمی نے متعارف کرایا ہے۔ان مضامین کی مجموعی خوبی پر اگر بات کی جائے تو یہاں مصنفین نے اس موضوع کو علامت نہیں بنایا بلکہ ممکنہ حد تک وضاحتی اسلوب میں پیچیدہ مباحث کی تفہیم کرائی ہے۔علامت کے نظری مباحث پر ایڈمنڈولسن اور رینے گینوں کے دو تراجم بھی شامل ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ کتاب میں ایک مضمون بھی ایسا نہیں جو مطلع برائے بیت کی ذیل میں آئے،ہر مضمون حاصل کتاب کا درجہ رکھتا ہے۔