لائل پور شہر کی ادبی شناخت کا پر وقار چہرہ
ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہین جن سے ملاقات کرنے کے بعد زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم میں مدد ملتی ہے اور زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات نمو پاتے ہیں۔ایسے لوگوں کا وجود اللہ کریم کا بہت بڑا انعام سمجھا جاتا ہے ۔ خار زارِ حیات میں اہلِ زمانہ کے لیے ایسے لوگ شجرِ سایہ دار ثابت ہوتے ہیں جو آبلہ پا مسافروں کو آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتے ہیں ۔۔بندے کا حسن اخلاق اور لوگوں سے ملنساری ہی اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ۔۔۔عام طور پر دیکھا گیا ہے لوگوں کے مختلف مقامات پر مختلف روپ ہوتے ہیں ۔۔۔ عام لوگوں سے ان کے تعلقات عامیانہ سے ہوتے ہیں اور خواص کے ساتھ ان کے تعلقات خاص ہوتے ہیں ۔۔ایسے لوگ دو رنگی کا شکار ہوتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔لیکن کچھ لوگ ہر میدان کے ” ہیرو ” ہوتے ہیں ۔۔۔۔پڑھے لکھوں میں آعلیٰ پائے کے پڑھے لکھے ، مزدوروں میں ایک عام سے انسان ، چھوٹے دکان داروں قصاب ، سبزی فروش ، سیلون ، سائیکل مکینک ، میڈیکل سٹور ، چائے فروش، موچی اور خاکروب میں بیٹھ کر ایک عام عاجز سا انسان اور بڑے شاعروں ،ادیبوں میں ایک آعلیٰ پائے کے ادیب و دانشور ۔۔۔۔۔۔ اور اپنے پیشے میں یکتا و یگانہ مہارت رکھے ہوۓ ۔۔۔۔۔۔اور یہ ہیں’ اپنے شہر فیصل آباد کے ایک علمی ، ادبی خانوادے کے چشم و چراغ محترم ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی صاحب ۔۔۔۔۔جو ہر میدان کے شہسوار اور ہیرو ہیں ۔۔۔۔۔
ان کی گل افشانیٔ گفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔ وہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار ہیں’ جن کی علم دوستی اور ادب پروری کو ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔
۔۔۔ان سے جب بھی سر راہ یا کسی تقریب میں ملاقات ہوئی تو وہ ایک شعلہ جوالہ اور ہمہ دم متحرک ہنستے مسکراتے ، قہقہے بکھیرتے ایک زندہ دل شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔وہ گرم دم جستجو اور گرم دم گفتگو قسم کے انسان ہیں۔وہ اتنے خود اعتماد ہیں کہ اپنے آپ کو فاختہ کی طرح ناتواں سمجھتے ہوئے بھی شہبازوں پر چپٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔دوستوں کے ساتھ ان کی وابستگی اتنی پختہ ہے کہ ہر جگہ دوستوں کو اپنے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں۔مثلا اگر وہ کسی پر حملہ آور ہو رہے ہیں تو دوستوں کو بھی حملے میں شریک کرنا چاہیں گے ۔اگر شاخ بدل رہے ہیں تو دوستوں کو بھی شاح بدلنے کا اشارہ دیں گے۔اندھیرے اجالے کی جنگ میں وہ اجالے کا مورچہ سنبھالتے ہیں۔مخولیوں کا جواب انتہائی نرم دلی سے دیتے ہیں۔وہ بھی صرف زیر لب مسکرا کر۔۔۔ لیکن اس وقت ان کی مسکراہٹ
مونا لیزا کی خیالی مسکراہٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔۔ وہ ہمت و شجاعت کا کوہ ہمالیہ ہیں ۔شوگر کی زیادتی کی وجہ سے دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک جسم کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں اور مصنوعی ٹانگیں ہی زندگی کا سہارا بن کر رہ گئی ہیں ۔اس کڑے امتحان میں بھی ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ، بشاشت اور چمک پھیلی رہتی ہیں۔ ان کی اہلیہ ایک سال قبل سرطان کی بیماری کی وجہ سے داغ مفارقت دے گئیں ۔چاروں بیٹیاں اپنے اپنے گھر سدھار گئیں ۔اس لاچارگی اور تنہائی میں تن تنہا زندگی بسر کرنا کس قدر کٹھن ہے، یہ وہی جانتے ہیں جو ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی ایک باہمت انسان ہے ۔جو اپنی پریشانیوں اور دکھوں سے گھبراتا نہیں ہے۔ وہ اپنی پریشانیوں کو قہقہوں اور مسکراہٹوں میں اڑا دیتا ہے ۔۔اتنا باہمت ، حوصلہ مند ، صابر شاکر ، راضی برضا انسان دیکھ کر قرون اولی کے لوگ یاد آ جاتے ہیں ۔وہ انبیاء یاد آ جاتے ہیں جن کی زندگیاں مصائب سے دوچار رہیں لیکن زبان پر اللہ سے شکوہ اور شکایت نہ آئی ۔ہر وقت ربی یاد اور اسی مالک ارض و سماں کا شکر بجا لانے کو زندگی کا حاصل سمجھا۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر زیدی کو بڑے بڑے وظائف اور بڑی بڑی دعائیں ازبر ہیں۔
جس قدر ایمان میں پختگی ہوتی ہے، اسی قدر امتحان و آزمائش میں شدت ہوتی ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام شدید ترین آزمائشوں سے گزرے۔ قوموں کی نفرت و عداوت، ظلم و زیادتیوں کو برداشت کیا ، مختلف صبر آزما حالات سے دو چار ہوئے۔ وہ ہر امتحان میں کھرے اترے، صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رہے اور ساری دنیا کے لئے مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے کی بہترین مثال قائم کرگئے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی: ’’اور (اے حبیب مکرمﷺ) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔ بے شک اللہ تعالی ان لوگوں کو اپنی معیت (خاص) سے نوازتا ہے، جو متقی ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر زیدی ہمہ وقت ربی یاد میں مستغرق رہتے ہیں ۔۔ایسے زندہ دل ، باغ و بہار اور نادر و نایاب لوگ بہت کم یاب ہو گئے ہیں ۔
۔۔۔۔اللہ تعالی ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور درازئ عمر سے نوازا۔۔۔۔ آمین
ساحر ہوشیار پوری کے یہ اشعار ڈاکٹر حامد زیدی کے نام!
کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے
زندگی ایک سلگتی سی چتا ہے ساحرؔ
شعلہ بنتی ہے نہ یہ بجھ کے دھواں ہوتی ہے
💞 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞
زندہ دلان فیصل اباد کے بلند پایہ شاعر، ادیب، دانشور اور حضرت گیسو بندہ نواز کے خانوادہ کے چشم و چراغ
ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی 10 مارچ 1962ء کو فیصل آباد کے ایک سادات گھرانے میں پروفیسر سید مظفر حسین زیدی ولد مولوی سید محمد اسلم زیدی کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی سید مظفر حسین زیدی اپنے وقت کے ایک نامور ماہر تعلیم اور ریاضی کے منجھے ہوئے استاد تھے۔انہوں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج فیصل آباد میں تقریبا 12 سال بطور پرنسپل خدمات سر انجام دیں اور گریڈ 20 سے ریٹائر ہوئے ۔ابتدائی تعلیم لیبارٹری ہائی سکول فیصل آباد سے حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان 1977ء میں پاس کیا ، بعد ازاں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور پروفیشنل لائن میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے 1981ء میں بی ایس سی زوالوجی کے ساتھ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں دوبارہ داخلہ لے لیا اور اور یہیں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔27/دسمبر 1981ء میں آپ نے ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی “یونیورسٹی اف ایگریکلچر فیصل آباد کے “شعبہ ویٹرنری میڈیسن ہسبینڈری” میں داخلہ لے لیا اورزرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈاکٹر اف ویٹرنری میڈیسن کی ڈگری حاصل کی ۔حصول تعلیم کے بعد آپ کی پہلی تقرری فیصل آباد میں محکمہ اینیمل ہسبینڈری لیاقت علی خان روڈ فیصل آباد میں بطور ویٹنری آفیسر ہوئی ۔یہاں آپ نے بطور ویٹنری آفیسر آٹھ سال تک اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیں ۔ بعد ازاں آپ کا تبادلہ پولٹری پروڈکشن کمالیہ میں بطور ماہر امراض پولٹری ہوگیا یہاں آپ نے 10 سال تک اپنی خدمات سر انجام دیں۔اس کے بعد آپ کی ٹرانسفر پولٹری پروڈکشن سیالکوٹ میں ہو گئی ۔یہاں رہ کر آپ کو مختلف شہروں میں بطور ویٹرنری ڈاکٹر کے خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔وہاں فیلڈ میں کام کرتے ہوۓ قیام کے دوران آپ کے تعلق خاطر جنڈیالہ شیر خان کے ایک بڑے زمیندار رانا غضنفر علی خان سے ہوئے۔ جو آپ کی پیشہ ذمہ داریوں کو بہ احسن سر انجام دینے پر بہت خوشی کا اظہار کیا کرتے اور آپ کو ہر ہفتے اپنے ہاں دعوت پر مدعو کیا کرتے تھے اور خوب تواضع کیا کرتے تھے ۔سیالکوٹ میں آپ نے چار سال خدمات سر انجام دیں۔یہاں آپ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں خوبصورت یادیں چھوڑیں ۔اس کے بعد آپ کی ٹرانسفر فیصل آباد میں پولٹری پروڈکشن کے محکمہ میں ہو گئی اور یہیں سے آپ نے 9/ مارچ 2022ء کو ریٹائرمنٹ لی ۔
شِعْر و سُخَن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر فیصل آباد کی صحت افزا۔ پُر اسرار اور رومان پرور فضا میں کئی نابغۂ روزگار ہستیوں نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر حامد رضا زیدی نے اس وقت شعر لکھنے کا آغاز کیا جب وہ سکول میں ابتدائی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے۔ اللہ کریم نے انھیں علم و دب کے جس ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا اس کے اعجاز سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ سکول کی تعلیم کے دوران وہ اردو زبان کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ کر چکے تھے اور عالمی کلاسیک میں بھی ان کی دلچسپی کا آغاز ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر حامد رضا زیدی کے اساتذہ اور سکول میں ان کے تمام ہم جماعت طالب علم اس شاہین بچے کی تخلیقی فعالیت اور اعلا ادبی ذوق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی شاعری بچوں کے مقبول رسائل۔ مقامی اور قومی ادبی مجلات کی زینت بنتی رہیں جنھیں قارئین نے بہت سراہا۔ ڈاکٹر حامد رضا زیدی نے پرورشِ لوح و قلم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ وطن۔ اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ ایک زیرک۔ فعال۔ مستعد اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اور ہر قسم کی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بے لوث محبت۔ بے باک صداقت۔ ایثار۔ حریتِ ضمیر سے جینے اور انسانی ہمدردی پر مبنی اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچانے کا عزم کیے رکھا۔
ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی نے 1981ء میں جب یونیورسٹی فیصل اباد میں داخلہ لیا تو وہاں کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے فعال ممبر کی حیثیت سے خوب کام کیا۔اس کے علاوہ مورننگ اینجل ایک میوزیکل گروپ بنا ہوا تھا اس میں بھی مختلف قسم کے ملی نغمے پڑھے جاتے تھے۔اس میں اپ نے اپنے ہونے کا احساس دلایا اور بھرپور شرکت کرتے رہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنی مادر علمی زرعی یونیورسٹی فیصل اباد ہونے والے مباحثوں، تقاریر اور میگزین کے ذریعے اپنی ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ 1981ء میں ہی انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں جانا شروع کیا۔اور پھر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں جانا شروع کیا تو لکھنے کا شوق مزید بڑھتا چلا گیا ۔اسی دور میں ان کے ہم عصر ادیبوں میں اے ایچ- عاطف ،ثنا اللہ ظہیر ، ارشد جاوید، شاہد اشرف ، شبیر احمد قادری ،ساغر شہزاد ، ریاض احمد قادری اور عارف عسکری جیسے لکھاریوں سے شناسائی ہوئی ۔یہ سب ان کے ہم عصر تھے ۔عارف عسکری کے بڑے بھائی دلاور عسکری کی ان دنوں کالموں کی ایک کتاب “دوڑ پیچھے کی طرف” منظر عام پر آئی تھی۔تو اس کی رونمائی بھی انہی احباب نے کروائی تھی ۔اس کے بعد حامد رضا زیدی کا قلم بے تکان لکھتا چلا گیا۔آپ نے نظم، غزل ،رباعی اور چومصرعہ لکھنے کی طرف خاص توجہ دی۔ان دنوں آپ اپنی خود نوشت یعنی آپ بیتی سلسلہ روز شب ترتیب دے رہے ہیں۔ جس میں آپ نے اپنے حالات و واقعات سے متعلق اہم انکشافات زیر بحث لائے ہیں ۔اس میں آپ نے اپنی 40 سالہ باقاعدگی سے لکھی جانے والی ڈائری سے واقعات کشید کیے ہیں جو آپ کے تلخ اور شیریں یادوں کی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
شہر فیصل آباد سے متعلق ممتاز شاعر اور استاد ڈاکٹر محمود رضا سید ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ان کے ایک بڑے بھائی سید احمد رضا زیدی اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ اسلام اباد میں چیف آف دی آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے ہیں اور وہیں سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لی ۔وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بھی بہترین براہ راست کمنٹیٹر رہے ہیں ۔ان کے چچا سکندر ایاز سید اردو کے قادر الکلام شاعر تھے جن کے دو شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ان کے پھوپھا ڈاکٹر احسن زیدی بھی اردو کے معروف شاعر اور استاد تھے۔
والدہ مرشد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی اپنی والدہ ماجدہ سے بے پناہ عقیدت و الفت رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنی والدہ ماجدہ کو باقاعدہ اپنا مرشد مانا ہوا تھا۔اور انہی کی قدم بوسی کو وہ اپنی زندگی کا سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں ۔انہوں نے ماں کی عظمت کے حوالے سے بے شمار نظمیں لکھی ہیں جو زبان زد عام ہیں ۔تو اکثر مشاعروں میں اپنی والدہ کے حوالے سے نظم ثنا کر داد سمیٹتے رہتے ہیں ۔
چند اشعار قارئین کی نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کے قدموں کو سدا چوم کے گھر سے نکلوں
یہ میرا فرض ہے جو روز ادا کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب توں بعد اے بس اوہدا ناں
جس نوں سارے کہندے ماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں منافق نہیں بہروپ جو ہر دم بدلوں
میرا باہر بھی ہے بالکل میرے اندر جیسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ خالی لیے جانا ہے سبھی کو واپس کوئی جیسے بھی رہے حال سکندر جیسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ماں کی وفات پر انہوں نے یہ اشعار لکھے تھے ۔
وہ جس کا عکس میرے دل کے ائینے میں ہے
اسی کے غم میں گریبان اپنا چاک کیا
اس سے میں بھولنا چاہوں تو کس طرح بھولوں
خود اپنے ہاتھ سے جس کو سپرد خاک کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیگر اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو چاہنا لیکن حدود میں رہ کر
کسی کی چاہتوں میں دائرے بھی لازم ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کی جس سے رضا وہی بے وفا نکلا
وفا کی دوش پہ یہ تجربے بھی لازم ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سید حامد رضا زیدی کی پہلودار شخصیت میں شاعر اور نثر نگار مختلف حیثیتوں میں نمایاں ہے ۔وہ اردو ادب کی بیشتر اصناف میں بھرپور حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ان کی علمی ادبی خدمات کا دائرہ چالیس برسوں پر محیط ہے۔وہ نثر و نظم کے میدان میں اپنی اہمیت ثابت کرا چکے ہیں۔زندگی نشاط و غم اور کیف و الم سے عبارت ہے اور ایک جیتی جاگتی زندگی میں المیہ و طربیہ لمحات سے ہر شخص گزرتا ہے ۔ایک جینون تخلیق کار کی تخلیقات میں دیکھا جائے تو سارے رنگ پائے جاتے ہیں۔مجموعی طور پر ان کی شاعری میں زندگی کی رمق دمق اور تاب و توانائی ہے اور انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو پروقار لہجے میں پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر حامد رضا زیدی ایک کثیر المطالعہ، وسیع النظر، کشادہ ذہن ، پختہ نظر اور تازہ کار تخیل کے حامل ایک باشعور تخلیق کار ہیں ۔اپنے گرد و پیش ، قریب و بعید ، زندگی کے داخلی اور خارجی عوامل ،گوناگوں تجربات ،روزمرہ در پیش واقعات ،خوشگوار و نا خوشگوار حالات و سانحات ،مختصر یہ کہ حیات و ممات سے متعلق لوازمات جن سے وہ گزرتے رہے ہیں جنہیں وہ جھیلتے رہے ہیں ،کم و بیش ان تمام کیفیات کو اور ان سے پیدا شدہ نتائج کے ساتھ اپنے اشعار میں سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔ڈاکٹر حامد رضا زیدی ایک صاحب فہم و ادراک شاعر ہیں ۔اپنی شاندار اور جاندار ماضی کے عظیم الشان ورثہ کے امین ہیں۔
ڈاکٹر زیدی کے باطن میں ظرافت کا مادہ بہت خوب ہے۔ اکثر ایسے فقرے بول جاتے ہیں کہ آپ چاہے جتنا بھی سنجیدہ مزاج کیوں نہ ہوں ، بغیر ہنسے، قہقہے لگائے نہیں رہ سکتے۔ محفل کو زعفران زار بنانا ان کی طبیعت کا خاصہ ہے ۔سماجی کاموں میں دلچسپی لینے کے باعث انہیں ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہیں سے وہ اپنی شاعری کا کچا مال حاصل کرتے ہیں۔ بے تکلف گفتگو کے دوران مسکراتے ہوئے ان کے اندر کا آدمی باہر کو جھانکتا ہے جو ایک اعلیٰ خوبی ہے۔اپنے زعم میں رہنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیشتر اوقات انگریزی لباس ٹائی کے ساتھ زیب تن کرتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ ساری زندگی انگریزی لباس پہننے کو ترجیح دی ۔۔سفر کے دوران وہ دلچسپ ہم سفر بھی ہیں۔ ان کے ہمراہ راستے کی دوری کا تھکان بالکل نہیں ہوتا۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی سفر کو نکلے اور منہ چڑھاتی ہوئی منزل آگئی۔کبھی کبھی منزلوں کے جلد آ جانے سے بھی ذہن و دل میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی تمام عمر نگاہیں منزلوں کی منتظر رہتی ہیں۔سفر میں وہ نہ ڈاکٹر رہتے ہیں نہ شاعر ، بس ہم سفر۔۔۔۔ اور ایسا ہونا ان کے بڑے پن کی علامت ہے۔ خوش مزاج ہونے کے ساتھ خوش لباس اور خوش خوراک ان کی شاندار خوبیاں ہیں۔مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے اور سفر کرنے کے کئی مواقع ملے اور میں نے یہی محسوس کیا کہ وہ ایک نرم دل انسان ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فرشتہ صفت ہیں بلکہ وہ “انسان صفت” ہیں اور انسان صفت ہونا بڑا مشکل ہے۔انسان کے امتحانات بڑے سخت ہوتے ہیں۔ایک تو جیتا جاگتا دھڑکتا دل اس پر آزمائشیں ، کبھی کبھی اتنے سخت کہ آدمی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ایسی صورت حال میں آدمیت کے میزان پر جو دنیا اپنے ہاتھوں میں تھامے رہتی ہے کھرا اترنا ناممکن نہیں تو نہایت مشکل امر ہے۔
ڈاکٹر حامد زیدی وقت کا نباض ہے اور وقت نے بھی ان کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کامیابیاں بطور انعام دیتا رہا ہے۔ ان کامیابیوں نے انہیں اور محنت کش اور سادہ بنا دیا ہے مگر شعری شعور ان کا اتنا پختہ ہے کہ ان کے مضامین کو پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے ۔اکثر و بیشتر شاعری کی کتابیں مطالعے میں رکھتے ہیں۔
انسان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتا ہے لیکن اس جان لیوا مسافت میں اس کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ آزمائش و ابتلا کے مسموم ماحول میں طوفانِ حوادث کے تیز و تند بگولے خزاں رسیدہ بُور لدے چھتناروں کے زرد پتوں۔ کمہلائے ہوئے پھولوں۔ مرجھائے ہوئے شگوفوں اور سُوکھی ڈالیوں کو اُڑا لے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک شانِ استغنا کے ساتھ صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں اور دِل میں اُمید بہار لیے اسی شجر سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیتے ہیں۔ مستقبل میں کامرانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ وہ فصلِ گُل کے بارے میں اس قدر پُر عزم ہوتے ہیں کہ انھیں اندیشۂ زوال کبھی یاس و ہراس اور اضمحلال و اضطراب کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔ اس کے بعد ہر انسان زینۂ ایام پر عصا رکھتے وقت کی تہہ میں اُتر جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہی فطری انجام ہے لیکن لفظ باقی رہ جاتے ہیں ۔ڈاکٹر حامد رضا زیدی کو اللہ تعالی نے جس امتحان سے دوچار کیا ہے ۔وہ اللہ تعالی کے منتخب شدہ انسان ہیں ۔ جس کو اللہ تعالی نے اس ازمائش سے دوچار کیا ہے ۔۔وہ ایک درویش صفت انسان ہیں ، اپنے ملنے والے سے بھرپور محبت اور مسکراہٹ سے معانقہ کرنا اس کا نام پوچھنا ،اور اکثر دوسرے کا ہاتھ یا پیشانی پکڑ کر عقیدت و الفت سے بوسہ دینا اپنے لیے ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ۔ان کا وجود شہر فیصل آباد میں کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔۔۔اللہ تبارک و تعالی ایسے درویش منش انسان کو سلامت رکھے جو نہ صرف اہل فیصل آباد بلکہ پورے پاکستان کو بستر علالت پر پڑا ہوا بھی دعاؤں میں یاد رکھے ہوۓ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔