ڈاکٹر شبّیر احمد قادری ۔۔۔تحقیق کا درخشاں حوالہ اور جامع علمی شخصیت
* دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھنے والے یگانہ روزگار فاضل ادیب *
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
فیصل آباد کے قابل فخر فرزند ‘ نابغہ روزگار محقق، نقاد ، ماہر لسانیات اور جی سی یونیورسٹی سے شعبۂ اردو کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر شبّیر احمد قادری اپنی تینتیس سالہ مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوۓ ہیں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر شبّیر احمد قادری، فیصل آباد کی ادبی تاریخ کے مورخ ہیں جنہوں نے فیصل آباد کی ادبی تاریخ اپنے سامنے بنتی ، مرتب ہوتی دیکھی ہے۔۔
دیانت کا پیکر ، شرافت کا مجسمہ ، اسلاف کی علمی رفعتوں کا وارث ، علمی تحقیق کے میدان کا روشن مینار ،ہمدرد و مشفق استاد ، رفقائے کار کے لیے تقلیدی نمونہ ، طلبہ کا مخلص خیر خواہ ، یونیورسٹی کی شان کا مظہر ، فکر اقبال کے ماتھے کا حسین جھومر ، عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھلا ہوا غیور جسد ، خودی اقبال کا نگہبان ،ازلی و ابدی صداقتوں کا امین ، دین مصطفوی کے فروغ کے لیے کسی بے کسی، بے بسی اور بےچارگی سے نا آشنا ،اردو زبان و ادبیات کی ترویج و ترقی کے لیے انتھک اور انمول صف اول کا راہنما ، اعلی پایہ کی تعلیمی و تحقیقی صلاحیتوں کا مالک ،ملت اسلامیہ میں اعلی اسلامی اقدار کے احیاء کا علمبردار ،اردو زبان وادبیات کے ظاہری اور معنوی حسن و جمال کے اضافہ کے لیے ہر وقت کوشاں رہنے والا نابغہ روزگار استاد پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد قادری ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں قدرت کاملہ نے دل و دماغ کی اعلی صلاحیتوں سے وافر مقدار میں نواز رکھا ہے۔۔
ڈاکٹر صاحب اول و آخر ایک معلم ہیں ، انہیں اس منصب پر فخر بھی ہے اور اس کے تقاضوں کا احساس بھی ،ان سے کئی مرتبہ سنا کہ اساتذہ کی جس صف میں ہم کھڑے ہیں اس کے آخری سرے پر جناب رسالت مآب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ۔وہ اپنے مخاطب کے قلب و ذہن کے قریب تر ہو کر مافی الضمیر کے ابلاغ کا سلیقہ رکھتے ہیں وہ اپنے طلبہ کو درس نصاب کے ساتھ ساتھ اخلاق واحیا کا درس دیتے ہیں ،وفا کا ترانہ اگر محبت کے ساز پر سنا جائے تو قلب میں اتر ہی جاتا ہے۔علمی متانت و سنجیدگی کے باوصف مزاح کی حس لطیف آپ کو وافر ملی ہے ۔بے تکلف احباب میں ادبی چٹکلے بیان کر کے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں ۔کسی دوست کے ساتھ چھیڑ خانی کا موڈ ہو تو بائیں آنکھ نیم وا اور زیر لب مسکراہٹ ہوتی ہے ،اور کبھی کھلکھلائیں تو چشم نیم باز کلی اور غنچہ دہن پھول بن جاتا ہے ۔اردو زبان کی تاریخ ، گرامر میں آپ ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔
یہ ہیں ڈاکٹر شبّیر احمد قادری ، جنھوں نے فیصل آباد کے مقامی روزنامہ ” عوام ” سے ١٩٨٧ سے” شعرو ادب “کے عنوان ایک ھفتہ وار ادبی صفحہ شروع کیا جو کم و بیش پندرہ سال تواتر سے چھپتا رہا۔ ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کی زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی درخشاں مثال ہے ۔تاریخ ،ادب ،اور مذاہب عالم کے اہم موضوعات پر ڈاکٹر شبّیر احمد قادری کے خیالات قارئین کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہیں ۔ایک ہفت اختر شخصیت کی حیثیت سے ڈاکٹر شبّیر احمد قادری نے جس موضوع پر بھی قلم تھام کر لکھنے کا قصد کیا ید بیضا کا معجزہ دکھایا،اپنے عمل اور آہنگ سے انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سنگ و خشت سے جہاں کبھی پیدا نہیں ہو سکتے بل کہ جہان تازہ کی نمود کی خاطر افکار تازہ کی تونگری بے حد ضروری ہے۔ اردو ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے لیے انھوں نے مقدور بھر مساعی کیں ۔عملی زندگی میں قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھنا ، حریت ضمیر سے جینا اور حریت فکر کا علم بلند رکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔اس وقت پوری دنیا میں ڈاکٹر شبّیر احمد قادری سے اکتساب فیض کرنے والے ان کے لاکھوں شاگردان موجود ہیں ۔اردو ، پنجابی اور انگریزی زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس یگانہء روزگار فاضل نے تینوں زبانوں کی ہر صنف ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
وہ 23 جولائی 1960ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔والد گرامی کا نام علم الدین ہے ۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی ایے ، ایم ایے اردو کیا۔پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اردو اور پی ایچ ڈی اردو کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ انھوں نے “حافظ لدھیانوی کی نثر اور شاعری” کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھا ۔ نگران ڈاکٹر ریاض مجید تھے ۔درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔گورنمنٹ کالج جڑانوالہ ( ضلع فیصل آباد) سے 1987 ء میں ملازمت کا آغاز کیا ۔ 1995ء میں گورنمنٹ کالج ، فیصل آباد میں تبادلہ ہوا ۔( اس کالج کو 2002 ء میں یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ) ، 33 سال تدریسی فرائض ادا کرنے کے بعد 22 جولائی 2020ء کو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ جہاں انھوں نے صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر یونیورسٹی کی جانب سے ایک کتاب بعنوان: ” عہد بے مثال _ شبیر احمد قادری ٫ شائع کی گئی ۔ اس کے مرتبین ڈاکٹر محمد افضل حمید ، ڈاکٹر ماجد مشتاق اور ڈاکٹر عبد العزیز ملک تھے ۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی چند تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ” تحریک و تاریخ پاکستان ” سحر حلال اور ساحر قدوائی”
” نعت رنگ ” — اہل علم کی نظر میں ” ,” فرزند اردو – سید روح الامین ” ” اوراق گل”
” اقبالیات سید نور محمد قادری “( بالاشتراک: سید روح الامین)
” منتخبات سید نور محمد قادری ” ( بالاشتراک : سید روح الامین)
” ارمغان ڈاکٹر شاہد حسن رضوی ” ( بالاشتراک: سید روح الامین)
” تلازمات”(زیر طبع) ، ” تذکرہ نگاری اور اردو تذکروں کی نمایاں جہات” ، ( زیر طبع) ، ” نعت کے رنگ”( زیر طبع) ، ” کتب مینار”( زیر ترتیب) ۔
علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں درجنوں ایوارڈ اور اعزازات بھی مل چکے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان کی جانب سے انھیں فیچر رائٹنگ پر پاکستان میں پہلے نیشنل اکسیلینس ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا ۔ یہ ایوارڈ لیاقت آڈیٹوریم ، راولپنڈی میں منعقدہ پروقا تقریب میں عطا کیا گیا ۔ علاوہ ازیں ٹیلنٹ ایوارڈ، بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ، میرٹ ایوارڈ ، ڈسٹکنشن ایوارڈ اور متعدد اعترافی سرٹیفیکیٹس وغیرہ قابل ذکر ہیں
وہ چیئرمین شعبہ اردو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ، فیصل آباد کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ تحقیقی مجلہ ” تصدیق” ( ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد سے وائ کیٹگری میں منظور شدہ) شعبہ اردو رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد کے چیف ایڈیٹر ہیں ، اس سے پہلے وہ تحقیقی مجلہ ” زبان و ادب” ( ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد سے وائ کیٹگری میں منظور شدہ) شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے مدیر رہے ۔ تحقیقی مجلہ ” فکر اقبال” ( اقبال چیئر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد) کے مینجنگ ایڈیٹر ہیں ۔ ادبی رسالہ ” اکائ ” فیصل آباد کے مدیر اعلیٰ اور
ادبی رسالہ” سخن” فیصل آباد کے مدیر ہیں ۔ ادبی رسالہ” سخنور” فیصل آباد ( مدیر : آصف سردار آرائیں) کی مجلس عاملہ کے ممبر ہیں ۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے مجلہ ” روشنی” (” Beacon” ) کے بھی مدیر اور نگران رہے ۔
حلقہ اربابِ ذوق فیصل آباد کے سات سال تک سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری رہے اور موجودہ تنظیم کے رکن مجلس عاملہ ہیں ۔ ” مجلس اقبال” فیصل آباد کے جوائنٹ سیکرٹری رہے ۔ اب پاکستان رائٹرز گلڈ فیصل آباد ریجن کے خازن ہیں ۔ وہ پی ایچ ۔ ڈی اردو کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کی جانب سے منظور شدہ سپروائزر ہیں ۔
” نبا ٹی وی٫ اور ٫ “فیصل آباد ٹی وی فیصل آباد ” پر بیسیوں اہل قلم کے انٹرویوز ریکارڈ اور ٹیلی کاسٹ کر چکے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان فیصل آباد میں کمپئر اور نیوز ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ پنجاب آرٹس کونسل فیصل آباد کی سکروٹنی کمیٹی کے سینئر رکن ہیں ۔ متعدد ادبی نگارشات کے اردو اور پنجابی میں تراجم کر چکے ہیں جو معتبر ادبی رسائل میں شائع ہوۓ ۔ شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی جانب سے خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک کتاب ” عہد بے مثال —- شبیر احمد قادری” 2020 ء میں شائع کی گئ ۔ فیصل آباد کی معروف ادبی تنظیم ” نقیبی کاروان ادب ” کے چیئرمین آزاد نقیبی کی جانب سے 2023 ء میں” ڈاکٹر شبیر احمد قادری ادبی ایوارڈ” کا اجرا بھی کیا گیا ہے ۔ جو ہر سال منتخب اہل قلم کو پیش کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی زیرِ نگرانی اب تک ایک درجن سکالرز پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں ۔ وہ ایم فل اردو کے ایک سو سے زیادہ تحقیقی مقالوں کے نگران رہے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کی جانب سے منظورکردہ کئ تحقیقی مجلوں میں ان کے کم و بیش چالیس تحقیقی مقالات چھپ چکے ہیں ، ادبی مضامین کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔
نصف درجن کتابیں اور سیکڑوں تحقیقی و ادبی مضامین ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں ۔
سہ ماہی ادبی رسالہ ” ورثہ” نیویارک – دہلی اور کراچی کی مجلس ادارت کے سینئر رکن ہیں ” نعت رنگ” ( مدیر: سید صبح رحمانی) ” ارمغانِ حمد” کراچی اور ” جہان حمد” کراچی کی مجلس مشاورت کا حصہ ہیں اس کے ساتھ کئ ادبی رسالوں کی مجلس مشاورت کا حصہ ہیں ۔ اپنے فیس بک پیج پر دس برسوں سے ” کتب مینار” کے زیر عنوان علمی و ادبی کتابوں اور رسائل و جرائد کا تعارف پیش کر رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہے اور کئ رسائل بھی اس سلسلے کو شائع کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر شبّیر احمد قادری نے انسانی ہمدردی، بے لوث محبت ،بے باک صداقت ، انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنا مطمحِ نظر بنایا ۔انھوں نے ہوس ِزرسے اپنا دامن کبھی آ ٓلودہ نہ ہونے دیا ۔حریت فکر و عمل اور حریتِ ضمیر کو زادِ راہ بنانے والے اس مرد ِ حق پرست نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے مہیب سناٹوں ،سفاک ظلمتوں اور ہوائے جورو ستم میں بھی حوصلے ،اُمید اور وفا کی شمع فروزاں ر کھی۔
ڈاکٹر شبّیر احمد قادری ایک درویش منش اور فرشتہ صفت انسان ہیں ۔وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہتے ہوئے انھوں نے زندگی بھر دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا ۔ ایک وسیع المطالعہ دانش ور کی حیثیت سے عالمی ادبیات پر ان کی گہری نظر ہے ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے پوری توجہ سے مطالعہ کیا ہے ۔اُردو ادب کی تحریکوں کو وہ جمود کے خاتمے کے لیے بہت مفید سمجھتے ہیں ۔انھوں نے رومانوی تحریک ،ترقی پسند تحریک اور حلقہء ارباب ِ ذوق کے زیرِ اثر تخلیق ہونے والے ادب کو بہت اہم سمجھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اردو ادب کی ان تحریکوں سے اردو ادب کی ثروت میں جواضافہ ہواوہ اپنی مثال آپ ہے۔
انسانیت کا وقار ،سر بلندی ،انسانیت نوازی ،علم دوستی ،ادب پروری ،دردمندوں اور ضعیفوں سے محبت ہمیشہ ان کا دستور العمل رہا ہے ۔ایک عظیم محبِ وطن کی حیثیت سے انھوں نے اہلِ وطن کی بے لوث خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایااور کبھی اپنا دامن ہوسِ زر سے آلودہ نہ ہونے دیا۔انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی کو وہ لین دین کے بجائے صرف دین ہی دین سمجھتے ہیں ۔فروغِ گُلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا میں انھوں نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔وہ جانتے ہیں کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہوتے ہیں اس کے
باوجود انھوں نے طلوع ِ صبح ِ بہاراں کی اُمید میں حوصلے اور عزم صمیم کی شمع فروزاں رکھی ۔ان کے اس انداز فکر کے اعجاز سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی اور روشنی کاسفر جاری رہا ۔وہ چاہتے ہیں کہ ارض وطن پر وہ فصلِ گُل اُترے جو خزاں کے مسموم اثرات سے محفوظ ہو ۔ان کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ منزل پر ان لوگوں نے غاصبانہ طور پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے جو سرے سے شریکِ سفر ہی نہ تھے۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کے نتیجے میں سمے کے سم کے ثمر نے سارا سماں مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھا دیاہے۔وہ پورے عزم کے ساتھ نشیبِ زینہء ایام پر عصا رکھتے ہوئے بے ثمر رتوں میں بھی شاخِ تمنا پر کامرانی کے گل ہائے رنگ رنگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ وطن محض چمکتی ہوئی سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارتوں کا نام ہر گز نہیں بل کہ یہ تو اہلِ وطن کے اجسام اور روحوں سے عبارت
ہے۔اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ نرم دِل اور نرم خُو ہیں ۔وہ اپنے ملنے والوں کی باتیں بڑے تحمل سے سُنتے اور دھیمے لہجے میں ان کو جواب دیتے اور ان کو مطمئن کر دیتے ہیں ۔
نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر انھوں نے بھر پور توجہ دینے کی تلقین کی۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ نئی نسل ہی روشنی کا سفر جاری رکھے گی،ان کی صلاحیتوں پر انھیں کامل یقین ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی امیدوں کا یہ چمن جس کو انھوں نے اپنے خُونِ جگر سے سینچا ہے، سدا پھلا پھولا رہے۔اپنی زندگی کے حسین شب و روز دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت میں صرف کرنے کے بعد وہ بے حد مطمئن و مسرور رہتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی دردِ دل ہے جو شخص دُکھی انسانیت کے رنج و کرب کو دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتا وہ انسان نہیں بل کہ سادیت پسندی کا مریض اور درندہ ہے ۔ وہ دِل دریا کو سمندر سے بھی گہرا سمجھتے ہیں ،اس کی غواصی کر کے وہ زندگی گزارنے کے طریقوں کا گوہرِ مراد حاصل کرنے میں کام یاب رہے ہیں ۔اُن کی زندگی شمع کی صورت گزری ،مہیب سناٹوں کے خاتمے اور سفاک ظُلمتوں کو کافور کرنے کے سلسلے میں اُن کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔
ممتاز صحافی محترم ظہیر قریشی کے فرزند ارجمند’ احمد ثبات قریشی رقم طراز ہیں۔
“محترم شبّیر احمد قادری نے گورنمٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد اپنی مادرِ حقیقی کی کوکھ سے وابستگی اور محبت کے بعد یہاں سے ذیادہ محبتیں اورچاہتیں سمیٹی ہیں۔یہ ان کا مادر علمی بھی ہے، یہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں وہیں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ کم و بیش 45 سالہ رفاقت۔ اس طویل رفاقت کے بعد 22 جولائی 2020ءکو شبیر احمد قادری صاحب نے اُس محبت بھری گود کو الوداعی سلام پیش کیا ۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری کو ممتاز نعت گو شاعر، محقق اور نقاد ڈاکٹر ریاض احمد قادری یوں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
“شبّیر احمد قادری ادیبوں شاعروں کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔اصل میں ان کی فیملی یہی ادیب شاعر بن چکے تھے۔ یہ ان کے اہلِ خامہ بھی تھے اور اہل ِخانہ بھی۔ شبّیر احمد قادری نے اپنی زندگی کا سب سے زیادہ وقت انہی میں گزارا تھا۔ حتی ٰ کہ تمام رات بھی وہ شعرائے کرام میں بیٹھے رہتے تو انہیں کبھی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ وہ سب کے گھروں میں جاتے رہتے تھے۔ فیصل آباد کی دو ادبی نسلیں ان کے سامنے پروان چڑھیں۔ وہ ان تمام بزرگ شعرائے کرام کے جنازوں میں شریک ہوئے جو ان 42 سالوں کے دوران انتقال فرماگئے۔ ان کی یاد میں تقاریب منعقد کیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ادبی ایڈیشن شائع کئے۔ ان کی برسیوں پر مکمل اشاعت اور پروگرامز کا اہتمام کیا ان کی اتنی زیادہ ادبی خدمات ہیں کہ
آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
1995 میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد تشریف لے آئے تو زیادہ کھل کھلا کر ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔انہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال جو ایک صدی کا چوتھا حصہ بنتا ہے ، گورنمنٹ کالج کو دئے۔ ان کی ان ربع صدی کی خدمات کا احاطہ ہی ناممکن ہے۔2002 میں یہ ادارہ کالج سے یونیورسٹی میں بدل گیا تو ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوگیا اور انہوں نے ایم فل کی کلاسز کی تدریس ، مقالہ جات کی نگرانی اور سیمینارز کے انعقاد میں قائدانہ کردارادا کیا ۔ اپنی تعلیمی استعداد میں بھی مسلسل اضافہ کیا۔اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔۔وہ اپنے اساتذہ کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ آپ ان کے مودب ترین شاگرد ہیں ۔ پروفیسر عصمت اللہ خان مرحومؒ شبیر احمد قادری کا استاد ہونے پر انتہائی نازاں تھے اور ان کا نام فخر سے لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ریاض مجیدؔ سے تو ان کا تعلق انتہائی مثالی رہا ہے۔وہ ان کے ایم اے اردو کے مقالہ “سرور بجنوری حیات و خدمات”، ایم فل اردو کے مقالہ ” خلیق قریشی کی علمی و ادبی خدمات ” اور پی ایچ ڈی کے مقالہ “حافظ لدھیانوی۔۔حیات و فن ” کے نگران مقالہ ہو کر پاکستان میں منفرد اعزاز بنا چکے ہیں۔ یہ ایسا ریکارڈ ہے جو شاید ہی کبھی ٹوٹے کہ ایک ہی استاد ایم اے ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے کا نگران ہو
بقول احمد فراز
؎ ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فرازؔ
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا۔
وہ 22 جولائی 2020 کو اپنی سروس مکمل کرکے اپنی ہی مادرعلمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے ریٹائر ہوۓ ہیں۔جہاں انہوں نے اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ بھی کام کیا۔ اپنے کلاس فیلوز اور ہم عصر رفقائے کار کے ساتھ بھی کام کیا اور اپنے بعد میں آنے والی نسل یعنی شاگردوں کے ساتھ بھی کام کیا۔ کم و بیش تین نسلوں کے ساتھ کام کرنے کا بھی تجربہ ایک منفرد ریکارڈ ہے ۔ میرا اور ان کا تعلق 42 سال سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے میں ان کے نقشِ قدم پر چلتا رہا وہ ہمیشہ مجھ سے آگے رہے۔ آج وہ ایک مستند محقق، ثقہ ادیب، مسلمہ دانشور، صاحب الرائے نقاد اور نامور دانشور کے طور پر مقام و اعزاز حاصل کر کے فن کی معراج پر پہنچ چکے ہیں اور بامِ عروج پر پہنچ کر ریٹائر ہو رہے ہیں میں انہیں وہیں سے کھڑا حیرت سے دیکھ رہا ہوں جہاں وہ 1978ء میں مجھے ملے تھے۔ وہ بڑے سے بھی بڑے قادری بن گئے اور میں چھوٹے سے بھی چھوٹا۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری آپ کی عظمت کو سلام”۔
اک فرد خوش خصال ہےشبیر قادری
اک عہد لازوال ہےشبیر قادری
اک انجمن ہے آپ جو خود اپنی ذات میں
وہ صاحب کمال ہےشبیر قادری
خوش پوش خوش مزاج خوش بخت خوش مذاق
اک پیکرِ جمال ہے شبیر قادری
تحقیق نقدونظر اور تدریس علم و فن
ہر جا پہ با کمال ہے شبیر قادری
عظمت میں جو مثال بھی اپنی ہے خود ریاضؔ
وہ مرد بے مثال ہے شبیر قادری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔