اس بات سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ نعت لکھنا ایک مشکل فن ہے۔دراصل یہ ایسا فن ہے جو تلوارکی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔
عبدالکریم ثمرؔ کہ مطابق ’’سرکارِدوعالم ؐکی شانِ اقدس میں ذرا سی بے احتیاطی اور ادنیٰ سی لغزشِ خیال و الفاظ ایمان و عمل کو غارت کر دیتی ہے‘‘
محسنؔ نقوی کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
کتنا مشکل ہے فاصلہ رکھنا
’’نعت‘‘کو’’ حمد‘‘ سے جدا رکھنا
نعت لکھنے کا فن در اصل ایک ایسا فن ہے جو محبتِ رسولؐ کی ترجمانی کرتا ہے جس کے دل میں جتنا جزبہ اور عشق ہوتا ہے وہ اسی کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔
نعیم ؔ اختر کہتے ہیں
سیرت نبیؐ کی کیسے سمائے گی نعت میں
جب تک نبیؐ سے عشق بڑھایا نہ جائے گا
اس شعر سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ جب تک رسولؐ سے گہری محبت اور عقدت نہیں ہوگی تو کوئی شاعر نعت نہیں لکھ سکتا ہے۔نعت ایسی لکھی گئی ہو جو رسولؐکی شایانِ شان ہو۔نعتیہ کلام میں رسولؐ کی سیرت کی ہمہ جہت خوبیاں اور پہلوئوں کی ترجمانی ہونا لازم ہے۔
نعت گوئی کاپہلا مرحلہ یہ ہے کہ شاعر نبیؐ کریم کی شان کو بیان کرتے وقت بہت محتاط رہے اور غلو سے کام نہ لے اگر وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتا ہے تو وہ متاعِ ایمان کھو دے گا۔
ڈاکٹرسرورؔ مارہروی ایک اعلیٰ فکر کے شاعر ہیں کیوں کہ آپ نے اپنی کتاب ’’متاعِ سرورؔ‘‘ میں جو حمد و نعت،سلام و منقبت کا نذرانہ پیش کیا ہے وہ آپ کے عقیدے ،عشقِ رسولؐ اور عشقِ آلِ رسولؐ کی ترجمانی کرتا ہے۔
جو دل عشقِ نبیؐ میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اور عشقِ نبیؐ ہی اس کی زندگی کے لئے عزّت و شہرت، راحت و کامرانی کا ذریعہ بنتا ہے۔ڈاکٹرسرورؔ مارہروی نے اس بات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
نقشِ پائے رسولِؐ عرب مل گیا
ڈھونڈتا تھا میں جس کو وہ اب مل گیا
عزّتیں،دولتیں،راحتیں،حشمتیں
جس کو وہ مل گئے اس کو سب مل گیا۔
اور ایک جگہ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں
جس پہ ان کا کرم ہوگیا
محترم محترم ہوگیا
ہر گدائے درِ مصطفیٰؐ
روکشِ شاہِ جمؔ ہوگیا
بے شک اس بات میں کوئی شک نہیں جس کو عشقِ نبیؐ کی دولت نصیب ہوتی ہے اس کے قدموں میں دنیا کی ہر نعمت سجدہ ریز نظر آتی ہے اور یہ وہ دولت ہوتی ہے جو اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ڈاکٹرسرور ؔ مارہروی کے مندرجہ ذیل نعتیہ اشعار اس بات کے ضامن ہیں۔
آگیا لب پہ نامِ نبیؐ
دردِدل میرا کم ہوگیا
مصرعِ نعتِ سرورؔ مجھے
زادِ راہِ عدم ہوگیا
عاصیو !گناہوں کا خوف ہے بجا لیکن
سب کو بخش وائیں گے میرے مصطفیٰؐ لوگو
سرکارِدوعالم حضرت محمدؐکی ذاتِ مبارک سراپا نور ہے اس لئے آپؐ کا ذکر ہوگا تو لفظِ نور کا آنا بھی لازمی ہے۔ڈاکٹرسرورؔمارہروی نے بھی اپنی کتاب ’’متاعِ سرورؔــ‘‘ میں جو نعتیں تحریر کی ہیں اس میں لفظ’’ نور‘‘ کی جگہ جگہ ترجمانی ملتی ہے،جو ان کے کلام کی نورانی کیفیت میں اضافہ کا باعث ہے اور ان سے ان کی عقیدت و محبت بھی جھلکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار
زمیں اور فلک پہ چمکا وہی نورِ احمدیؐ ہے
جو اُجالا بن کے پھیلا وہی نورِ احمدیؐ ہے
نہ ملے ہیں آپ ؐکے سے یہ خلوص بھی کسی میں
نہیں جن کا کوئی سایا وہی نورِ احمدیؐ ہے
سرِعرش جگمگاہٹ سے ہوئی ہیں آنکھیں خیرہ
کہ فرشتوں نے جو دیکھا وہی نورِاحمدیؐ ہے
کہ ہزاروں سال پہلے سے تھا عرشِ حق کی زنیت
وہی روشنی کا ہالہ وہی نورِاحمدیؐ ہے
ہیں اُسی کا صدقہ سرورؔ مہ و آفتاب وانجم
کہ جہاں میں جس کا چرچہ وہی نورِ احمدیؐ ہے
وہ نعت کے مطلع میں اس طرح لفظ’’ نور‘‘ کا استعمال کرتے ہیں
نور سے نور کا جب ملن ہو گیا
سِدرۃُ المُنتہیٰ بھی مگن ہوگیا
سچ ہے یہ ازل سے تھی مرضیِٔ خدا لوگو
دیکھ لیں جہاں والے نورِ مصطفیٰؐ لوگو
یہ سب اشعار ان کی شاعرانہ صلاحیت کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے کہ کس طرح انہوں نے لفظِ’’ نور‘‘ کو اپنے کلام میں پرو کر اپنے کلام میں ایک انوکھا رنگ بھر دیا ہے جو دوسرے شاعروں کے کلام میں کم نظر آتا ہے۔
ڈاکٹرسرورؔ مارہروی نعت گوئی کو توشۂ آخرت سمجھتے ہیں اوراسے راہِ عدم کی کامیابی کی دلیل مانتے ہیں۔
مصرعِٔ نعت سرورؔ مجھے
زادِ راہِ عدم ہوگیا
وہ کہتے ہیں نام محمدؐ کا ورد ہماری بخشش کا سامان ہے۔اس لئے ہم کو کثرت کے ساتھ دُرود و سلام پڑھنا چاہئے۔
پڑھے جو دُرود و سلامِ محمدؐ
اُسے بخشوائے گا نامِ محمدؐ
مری مشکلیں ہوگئیں ساری آساں
پڑھا جب دُرود و سلامِ محمدؐ
جو عشقِ نبیؐ میںڈوبا ہوا ہوتا ہے اس کی صبح و شام تصوّر میں کوچۂ مصطفیٰ ؐ میں ہوتی ہے۔اور اس کی زندگی کا نصب العین ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح ان کے روضہ کی زیارت ہو جائے۔ڈاکٹرسرورؔمارہروی نے اس بات کو بہت ہی انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔
میں تصوّر میں چلا ہوں سوئے ختم المرسلیںؐ
پیرہن میں بس گئی ہے بُوئے ختم المرسلیںؐ
بس اسی اُمّید میں زندہ ہیں سرورؔ آج تک
دیکھنا ہم چاہتے ہیں کوُئے ختم المرسلیںؐ
ان کے عشق کی انتہا دیکھیں کہ جب بھی دعا مانگتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دعا مانگتے ہیں کہ کبھی بھی سرکار کا دامانِ محبت ان سے دور نہ ہو اور وہ اسی طرح محبت میں ڈوبے رہیں۔
ہر لمحہ یہ مانگی ہے دُعا میں نے اے سرورؔ
ہاتھوں سے کبھی چھوٹے نہ دامانِ محمدؐ
اور وہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا مانگتے ہیں کہ میرے خدا مجھے یہ توفیق دے کہ میں پیامِ سرکارِ دوعالم عام کر سکوں۔
خدا اتنی توفیق سرورؔ کو دینا
کہ پھیلائے ہر سوُ پیامِ محمدؐ
المختصر مجموعی طور پر ڈاکٹر سرورؔ مارہروی کی نعتیہ شاعری انتہائی متاثر کن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ عقیدت و محبت نعتیہ ادب میں ان کا نام ہمیشہ جاوداں رکھے گی۔
"