ڈاکٹر سلیم اختر بھی چل بسے۔
ڈاکٹر سلیم اختر(11مارچ 1934۔30 دسمبر 2018)
نقاد ،افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، اقبال شناس، ادبی مؤرخ، معلم، محقق،
مختصر سوانح :
سلیم اختر 11 مارچ 1934
کو لاہورمیں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی عبد الحمید ملٹری اکاؤنٹس (CMA) میں ملازم تھے۔ اس لیے جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے والد قاضی عبد الحمید بیوی بچوں کے ہمراہ انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو انبالہ، پونہ، لاہور، فورٹ سنڈیمن، (بلوچستان) اور راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ انہوں نے میٹرک فیض الاسلام ہائی اسکول راولپنڈی سے 1951ءمیں کیا۔ ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے اور ڈپلومہ آف لائبریری سائنس، ایم اے (اردو)، پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب لاہور سے کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔[
ملازمت:
ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں کی۔ وہاں آٹھ سال رہنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ 1994ء میں یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھا تے رہے۔
ادبی خدمات:
ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں جو نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پہچان تین حوالوں سے ہوتی ہے۔ بطور نقاد، افسانہ نگار اور استاد۔ ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخ میں ایک اہم حوالہ تصور کی جاتی ہے جسے شہرتِ دوام حاصل ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر افسانہ نگاری میں بھی ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی کہانیوں میں خاصا تنوع اور تلون موجود ہے۔ ابتدائی دور میں ان کے یہاں رومانی اور جذباتی قسم کے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ ایک محبوبہ ایک طوائف، سویٹ ہارٹ اور کٹھ پتلیوغیرہ کا موضوع رومانی ہے۔ کلب، ڈانس، شراب، شباب، جذباتی محبت… یہ سب کچھ ان کی کہانیوں میں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک رومانی رویہ ترقی پسندوں جیسا بھی ان میں پایا جاتا ہے اور وہ ہے صورت حال کو بدلنے کی خواہش۔ ہم مرکز دائرے، دو راستے ایک پل اور مچھر طبقاتی نظام کی بدولت وجود میں آنے والے اقتدار پر لکھے گئے افسانے ہیں۔ ان میں چھوٹی بڑی مجبوریاں، گھٹن اور اجتماعی رویوں کی مختلف شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ افسانوی مجموعوں اور ناولوں کے علاوہ تنقید، تحقیق اور دیگر کئی موضوعات پر ڈاکٹر سلیم اختر کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)،انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، فکر اقبال کا تعارف، اقبال اور ہمارے فکری رویے، کلام نرم و نازک، شادی جنس اور جذبات، ہماری جنسی اور جذباتی زندگی، عورت جنس اور جذبات، عورت جنس کے آئینے میں، مرد جنس کے آئینے میں وغیرہ شامل ہیں۔
تخلیقات:
افسانہ:
نرگس اور کیکٹس (مجموعہ افسانہ)
کڑوے بادام
آدھی رات کی مخلوق
مٹھی بھر سانپ
کاٹھ کی عورتیں
چالیس منٹ کی عورت
ناولٹ:
ضبط کی دیوار
آپ بیتی:
نشان جگر سوختہ
نفسیات:
شادی جنس اور جذبات
ہماری جنسی اور جذباتی زندگی
عورت جنس اور جذبات
تین بڑے نفسیات دان
عورت جنس کے آئینے میں
مرد جنس کے آئینے
خوشگوار اور مطمئن زندگی گزارئیے
تخلیق اور لاشعوری محرکات
سفر نامہ:
اک جہاں سب سے الگ
عجب سیر کی
تنقید:
اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ
اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ
انشائیہ کی بنیاد
نظر اور نظریہ
کلام نرم و نازک
ادب اور کلچر
ادب اور لاشعور
اُمراؤ جان ادا کا تجزیاتی مطالعہ
باغ و بہار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
مراۃالعروس کا تجزیاتی مطالعہ
چھ افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ
شعور اور لا شعور کا شاعر: غالب
جوش کا نفسیاتی مطالعہ
نفسیاتی تنقید
افسانہ: حقیقت سے علامت تک
شرحِ ارمغانِ حجاز
پاکستانی شاعرات: تخلیقی خدو خال
نگاہ اور نقطے
تخلیق،تخلیقی شخصیات اور تنقید
عابد علی عابد شخصیت اور فن
تنقیدی اصلاحات
بنیاد پرستی
افسانہ اور افسانہ نگار
مغرب میں نفسیاتی تنقید
تنقیدی دبستان
داستان اور ناول
لسانیات:
اُردو زبان کیا ہے؟
اقبالیات:-
فکر اقبال کا تعارف
اقبال کا نفسیاتی مطالعہ
اقبال: شخصیت،افکار، تصورات
اقبال کا ادبی نصب العین
فکرِ اقبال کے منور گوشے
اقبال کی فکری میراث
اقبال شناسی کے زاویے
ایران میں اقبال شناسی کی روایت
اقبال اور ہمارے فکری رویے
کلیات:
مجموعہ ڈاکٹر سلیم اختر (تنقیدی و تحقیقی مقالات)
اعزازات:
ڈاکٹر سلیم اختر کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکاردگی سے نوازا گیا۔