ساقی فاروقی کی "پاپ بیتی" کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں ایک دلچسپ سوانح عمری ساقی فاروقی کی آپ بیتی "پاپ بیتی" ہے۔ اسے جنوری ۲۰۰۸ء کو اکادمی بازیافت، کراچی نے شائع کیا۔ کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے یہ خودنوشت کراچی کے ادبی مجلّے "مکالمہ" اور بمبئی کے رسالے "نیا ورق" میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔
ساقی فاروقی کی شخصیت ادبی حلقوں میں نہایت متنازعہ ہے۔ انہوں نے تمام معاصرین کے چٹکی کاٹی ہے اور اس لیے ہر ایک سے ان کی ان بن رہتی ہے۔ بے تکلفی، آزادی اور دل آزادی کو پہنچی ہوئی صاف گوئی کی وجہ سے ان کی قمبولیت بےحد ہے۔ مشفق خواجہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"ساقی فاروقی نے اقبال کے بعد شاعروں میں سے فیض، ارشد اور میراجی کو رعایتی نمبر دے کر پاس کردیا ہے اور باقی سب شاعروں کو "چھٹ بھئے" اور چپڑقناتی کہ کر ان کو عزت افزائی کی ہے۔ ترقی پسند شاعروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس انفرادی لہجہ نہیں ہے۔ یہ سب ایک ہی جیسی باتیں ایک ہی جیسے انداز میں کہتے ہیں"۔
جب کہ خالد احمد نے ساقی کو اردو کا "خودکش بمبار" کہا ہے
“He is the suicide-bomber of Urdu literature who has survived. There was nothing for it but to et the bomber’s jacket and pack it with INT and ball-bearings of honest opinion and walk into the place of a strangely arrested post. 1947 Urdu literature and its calcified practitioners”
شاعری میں ساقی فاروقی کے موضوعات انتہائی منفرد اور انوکھے ہیں۔ انہیں بچپن ہی سے جانوروں سے رغبت رہی ہے اس لیے حیوانات ان کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ عام زندگی میں ان کا حلیہ بھی کافی دلچسپ اور انوکھا ہے گلے میں موتیوں کی مادئیں ٹکائے پھرتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ان کے اس نرالے انداز کو اپنے مخصوص لیجے میں یوں بیان کیا ہے۔
"ساقی اپنی آسٹرئین بیگم کو پیار سے گنڈی اور اپنے (Rotlweiler ) کتے کو کامریڈ کے نام سے پکارتے تھے۔ کتا اپنے نام اور ساقی کے پیار کی تاب نہ لاکر جابحق ہوگیا۔ مینڈک، کتے، بلے، خرگوش، مکڑے وغیرہ پر بہت خوبصورت اور خیال انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ چار ٹانگوں سے کم کے کسی ذی روح سے ساقی محبت نہیں کرتے۔ جب سے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی ٹانگیں ٹٹول کر گنتے ہیں کہ کہیں اپنے بارے میں کسی مغالطے میں تو مبتلا نہیں رہے ہیں۔ چھ سات برس پہلے تک گلے میں رنگ برنگ موتیوں اور منکوں کی مالا پہن کر ساقی گھن گرج کے ساتھ شعر پڑھتے تو لوگ شاعری سے چکا چوند ہوکر موتی گننے لگتے"۔
جانوروں سے ان کی بے پنا محبت اور رغبت کو ان کی خودنوشت کے ابتدائی حصہ میں دیکھا جاسکتا ہے جب وہ اپنے بچپن کا حال بیان کرتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی شخصیت کی تعمیر میں بچپن کے ان واقعات کا خاصہ اثر ہے۔ وہ اپنے گھر میں مختلف "بلیوں" کو دیکھتے اور پھر ان کو جس بے رحمی کے ساتھ بوریوں میں بند کرکے مارا جاتا یہ سب ان کے ننھے سے دماغ پر نقش ہوکر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی سطح پر جانوروں کی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"میرے دل میں حیوانات کی محبت جنوں سے کم نہیں۔ اس کے تین اسباب ہیں، (الف) بچپن ہی سے جانوروں میں پلا بڑھا (ب) بلوں کو تالاب میں میں زندہ دفن کرنے کے خلاف شدید ردعمل (ج) اب قاضی محمد التافات بنی صدیقی ورٹریزی سرجرن تھے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے تین کتے پالے۔ ہٹلر (ایشین) چرچل (بل ڈاگ) اور شاباش (ٹیریز)۔ اماں کی بے لوث محبت کے بعد ان تینوں "بھل مانس" کی خالص دوستی، لڑکپن کی یادوں کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اول اول کے دکھ سکھ، آخر آخر تک زندہ رہتے ہیں"۔
انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے مجموعے "سرخ گلاب" اور بدرمنیر کو تین مرحوم ہم عصروں کے نام مسٹر کمریڈر (کنا) مسٹر رام راج (بلا) اور مسٹر ٹم ٹام (کچھوا) کے نام انتساب کی اہے۔ کئی نظمیں خرگوش، کتے، بلے اور مینڈک پر لکھی ہیں جو منفرد بھی ہیں اور فکر انگیز بھی۔
ساقی کی خودنوشت "پاپ بیتی" اپنی نوعیت کی انوکھی اور دلچسپ تصنیف ہے۔ ساقی نے اسے یادوں کی بازیافت اور بازگشت کہا ہے۔ مختصر دیباچہ میں ادبی مجلّے "مکالمہ" کے مدیر مبین مرزا کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس خوشنوشت کو منظر پر لانے والے بھی یہی لوگ یعنی معین مرزا، راشد اشرف اور صفات علوی ہیں۔ "پاپ بیتی" کی ترکیب اردو ادب کے عظیم نثار مشتاق احمد یوسفی صاحب کی اس ترکیب سے اشفاق نقوی نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ اشفاق نقوی نے اپنی خودنوشت کا نام "پاپ بیتی" رکھا جسے "نیولائن، کیولری گراونڈ لاہور سے شایع کرایا گیا۔ سن اشاعت نامعلوم ہے۔ اس بات کی طرف اجمل کمال نے بھی اشارہ کیا ہے۔
"اس سے پہلے تقریباً اسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت "پاپ بیتی" (ذیلی عنوان: "ایک اور طرح کی آپ بیت") لاہور سے شائع ہوچکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک مشہور فقرے سے اٹھیا ہے اس لیے پڑھنے والوں کے لیے اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی کہ یوسفی لنگر سے ان دونوں عاجزوں میں سے کس نے پہلے لقمہ گیری کی اور کون چبانے ہوئے نوالے کا سزاوار ٹھہرایا"۔
ساقی نے اس کتاب کو اپنے تمام دوستوں اور اپنے تمام دشمنوں کے نام انتساب کیا ہے۔ مغربی ادب میں روسو کی آپ بیتی کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنی بے لگام زندگی کے بارے میں بڑی بے باکی سے اظہار کیا۔ خود ہمارے ہاں سوانحی ناولوں کے ذریعے زندگی کے کئی ناقابل بیان واقعات کو رنگ آمیزی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ ممتاز مفتی کا سوانحی ناول "علی پور کا ایلی" اس کی اہم مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ بیتی میں مصنف بہت کچھ بتاکربھی بہت کچھ چھپا جاتا ہے۔ اگر وہ بے باکی اور روانی سے سب کچھ بھی بتانے کا دعوٰی کرے تب بھی قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس نے بننے کی کوشش کی ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھ جائے تو سوانحی ناول کودنوشت کا بہتر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی زندگی کے اہم حصے ملازمت اور معاشی جدوجہد کو "زرگزشت" میں دکھایا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اہم اور منفرد تجربہ ہے کہ تخلیق کار نے صرف چار پانچ برسوں کے حالات و واقعات کو اپنے مخصوص اسلوب اور مزاحیہ رنگ میں پیش کیا ہے۔ یہ مکمل سوانحی سرگزشت تو نہیں، لیکن ایک عام آدمی کی زندگی کی ایسی کہانی ہے جو معاشی ودو میں مصروف ہے۔ اور اس کے حالات پانچ برسوں سے سرمو نہیں بدلتے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنی سوانح کوبیان کرنے کی بالواسطہ کوشش اوقات زیادہ کامیاب رہتی ہے۔ "پاپ بیتی" میں ساقی فاروقی کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کا طرز زندگی مختلف ہے۔ رب العزت نے ہر فرد کو انیق بنایا ہے۔ اور اس انفرادیت کو وہ اس زندگی میں برتتا ہے جو اس کے حصے میں آئی ہے۔ آپ بیتی کی اہم بات یہی ہے کہ فرد پر کچھ بیتی ہو اور بیتی کو بیان کرنے کا حوصلہ اگر ساقی فاروقی جیسا ہو تو کیا کہنے۔ ساقی کو دوسروں کو چڑانے میں مزہ آتا ہے ان کی مثال اس شریر بچے کی ہے جو گلی سے گزرتے ہوئے دوسروں کے چٹکی کاٹنے کو اپنے دن کا حاصل سمجھتا ہے۔ ان کی آپ بیتی کا طریقِ کار ذرا مختلف ہے۔ وہ اس بارے میں خود یوں رقمطراز ہیں:
"اب تک قاری کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں تاریخ واریخ کو پشت ڈال کے خیال ی زنجیر کا تعاقب کرتا ہوں اور کڑیاں بناتا چلا جاتا ہوں"۔
اس طرح خیال کی زنجیر کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ میں کردار، واقعات اور ان سے جڑی ہوئی یادیں تازہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ان کرداروں میں ماں باپ، قرابت دار، معاصرین شعراء اور قدمائی روایت سب کی جھلک نظر آتی ہے۔ بالخصوص ماں کا وجود ساقی کے لئے ہمیشہ سایہ رحمت رہا۔ اُنہوں نے دل کھول کر اس کا اعتراف کیا اور اس اعتراف کو تحریر کی ایسی خوبصورت شکل عطا کی ہے کے اس اسلوب نے تحریر کی تاثیر کو دُگنا کردیا۔ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
"ایک زمانے میں اماں خدمت گاروں کی نگہ داری کیا کرتی تھیں مگر ان کے ہاتھ کے بنے شامی کباب "ساگ گوشت" ماش کی دال اور مٹر قیمہ، چینی کے ڈونگوں میں شور مچا رہتے تھے کہ یہ سہاگن تو قیامت کی باورچن بن چکی ہیں"۔
مں کے نروس بریک ڈاون نے ساقی کے دل و دماغ کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔
"اس بہار کالونی سے جان چھوٹی جہاں دو سالہ قیام کے دوران میری بہن ناہید پیدا ہوئی اور پہلی سالگرہ سے پہلے پہلے چلی گئی۔ اماں دوسرے اور طویل نروس بریک ڈاون کے عذاب سے گزریں۔ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج خاتون ایک بار پھر ہمیشہ ہیشہ کے لئے اداسی کی جاگیر بن گئیں۔ اور ایک روح آزاد خاموشی کے سحر میں آگئیں۔
"لندن کے بن باس میں اس قسم کی محبتیں بھول چکا تھا۔ میں نے اس لمحے پہ بھی سوچا ہوگا کہ شاید ہجرت کا فیصلہ غیر دانش مندانہ تھا۔ اس رات میں نے اپنے کچھ آنسو بچالیے تھے کہ ابھی گھر پہنچنا تھا جہاں اماں میرے انتظار میں شمع کی طرح جل جل کر گیارہ بارہ برس سے پگھل رہی تھیں۔
۱۹۵۴ء کے اوآخر میں ساقی فاروقی اپنی ادبی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ اصل نام قاضی شمشاد نبی پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ماردھاڑ سے بھرے ساقی منظر پر اُبھرتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ ابتدا ہی سے کلشے "Diche " کا قائل نہ تھا۔ اس کی شاعری اور نثر عام پامال راہوں سے الگ تھی۔ کلشے کے خلاف یہ جہاد انتہائی دشوار فیصلہ تھا لیکن ساقی کی بنیادی فطرت و مزاج کا تقاضہ ہی تھا۔ اس تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے اس نے مروجہ استعارات، ملائم، الفاظ و محاورات اور اردو شاعری کے روایتی ڈکشن کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔ اپنی خودنوشت میں بھی اپنی منفرد وضع کو برقرار رکھا چنانچہ غالب ہو یا میر، فیض ہو یا راشد، حبیب جالب ہو یا جمیل الدین عالی ہر ایک کے بارے میں کھری اور دوٹوک رائے دی۔ دوستی اپنی جگہ پر حق کو حق کہنے میں کوئی تامل و تاویل نہیں۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
(۱) انیس اور اقبال پھریگانہ اور راشد کے مصرعوں کا صوتیاتی نظام مجھے بہت پسند تھا کہ میرے مزاج سے لگا کھاتا تھا۔ میر کی لہکتی ہوئی اور غالب کی دہکتی ہوئی آواز نے پریشان کر رکھا تھا۔
I mean the better meer and the better Ghalib.
اس لیے کہ ان کے ہاں بھی سخنِ فضول کی کمی نہیں"
سلیم احمد جو ان کے قریبی دوست تھے، ان کی شاعری اور تنقید پر بے لاگ رائے اہمیت رکھتی ہے۔ "سلیم احمد نزاعی بھی تھے اور نزاعی وہ ہوتا ہے جو حال کے بہتے ہوئے دھارے کی مخالف سمت میں چلتا ہے۔ حال سے بے اطمینانی اسے ماضی کی طرف لے جاتی ہے اور مستقبل کی طرف بھی۔ مجھے دکھ ہے کہ سلیم احمد، اکبر آلہ آبادی اور محمد حسن عسکری کی طرح آخر آخر میں حرف ماضی کی طرف لوٹ کر رہ گئے اور انہوں نے ماضی سے مستقبل کشید کرنے کا ہنر نہیں سیکھا افسوس کہ بعد میں یہی حال شمس الرحمٰن فاروقی کا بھی ہوا۔
جمیل الدین عالی جو انہں بے حد عزیز رکھتے ہیں اور خود ساقی بھی ان کے حسن سلوک، شاہ خرچی اور دوستی کے معترف ہیں لیکن جب بات فن پر ہو تو ساقی کا روپ الگ ہو جاتا ہے۔
"خراج اور خوش پوشاک بھی۔ کاش یہ خراچی اور خوش پوشا کی ان کی پچھلی تیس سالہ شاعری اور نثر میں بھی نظر آتی۔ ان کی پہلی کتاب مجھے بہت پسند آئی تھی اس کے بعد ان کے ادب کا گراف نیچے ہی نیچے کی طرف سرکتا چلا گیا"۔
لیکن صرف سیاہی نہیں کہ انہیں اردو شعر اور معاصرین میں صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ معاصرین میں اکثر شعراء کو دل کھول کر داد دی ہے۔ شمیم احمد، جمال پانی پتی، نگار صہبائی، قمر جمیل، اطہر نفیس، سلیم احمد کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ معاصرین شعراء میں سے پروین شاکر، عبیداللہ علیم، ثروت حسین، رئیس فروغ اور جمال احسانی کی بے وقت موت نے انہیں بہت اداس کیا۔ سلیم احمد کو منظوم خراج پیش کیا گیا ہے۔ یہ منظوم خراج اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ساقی کی کسی کتاب میں شامل نہیں۔ انہوں نے اسے اپنی خودنوشت کا حصہ بنایا ہے۔ کراچی میں ساقی نے تقریباً تمام اہم معاصر شعرا کی صحبت پائی۔ ناموں کی اس فہرست سے ان کثیر احباب ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بہزاد لکھنوی، ارم لکھنوی، نظر حیدر آبادی، تابش دہلوی، شاعر لکھنوی، ادیب سہارن پوری، شمس زبیری، صبا آکبر آبادی، آلِ رضا، ذوالفقار علی بخاری، فضل احمد کریم فضلی، محشر بدایونی، شاہد عشقی، قمر ہاشمی، حبیب جالب، رسا جغتائی غرض ایک وقت میں یہی لوگ ان کی دنیا تھے۔ شاعری کے اسرار و رموز ہوں یا زبان کے داوبیچ ساقی نے یہاں بہت کچھ پایا۔
"میں صحیح معنوں میں کثیر الاحباب تھا۔ وہاں کے تمام نہیں تو بیش تر ادیبوں سے (جو بعد میں معتبر یا اہم بنے کا بنتے بنتے رہ گئے یا بھلا دیئے گئے) صاحب سلامت تھی / ملاقات تھی / یارانے تھے"۔
اس طرح اس خودنوشت میں ایک خاص وقت کی ادبی تاریخ دیکھی جاسکتی ہے لیکن اس بھیڑ یں مصنف کو اپنی انفرادیت کا پورا احساس ہے۔ ساقی کے مطابق جو باتیں اس نے لکھی ہیں وہ اردو کا کوئی دوسرا ادیب نہیں لکھ پایا۔
"مجھے یقین ہے کہ اردو کے مرحومین اور "موجودین" ادیبوں میں شاید میں واحد آدمی ہوں جس نے مذہب اور جنس کے مسائل پر بلا خوف و خطر نہایت تفصیل سے خاطر جمعی سے اپنے سوچ بچار کی روشنی میں اپنی آرا کا تحریر اظہار کیا ہے۔ ورنہ تقریراً و فیشناً (واہ کیا اچھا لفظ ایجاد کیا ہے) تو میرے کئی ہم عصر کراچی، لاہور دلی اور ممبئی کے مجلّہ خانوں میں (توبہ توبہ زبان سے غلط لفظ نکل گیا۔ کہنا قہوہ خانو چاہتا تھا) مذہب کے بارے میں نازیبا باتیں کرتے رہتے ہیں"۔
خود اپنے مسلک کے بارے میں ساقی فاروقی نے کافی تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے نزدیک چونکہ مذہب جسن اور ادب تینوں محاذوں پر ان پر شدید جاہلانہ حملے ہوئے ہیں۔ اس لئے خودنوشت سوانح لکھتے ہوئے یہ موقع ملا ہے کہ اپنے مذہب و مسلک کے بارے میں تمام غلط فہمیوں کے دور کیا جائے۔ سب سے پہلے ساقی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے مذہب کا مطالعہ فلسفی طور پر نہیں بلک ایک سوچنے والے ادیب کی طرح کیا ہے۔ یعنی اقرار، انکار اور تشکیک کے بارے میں میرا رویہ صرف فکری نہیں ہے بلکہ جبلی بھی ہے۔ تاریخ گواہ کہ مغرب ہوکہ مشرق، شمالی ہو کہ جنوب، جب جہاں اور جس صدی میں آزاد خیالی کا اکھوا پھوٹا ہے بنیاد پرست رجعتی جھکڑ کی طرح چلے ہیں۔ شر ہے کتے بھونکتے رہے اور قافلے چلتے رہے۔ ورنہ ہم آج بھی پتھر کے زمانے میں ہوتے۔ نہ آریائی برہمن گوتم کے ریلوے کو روک سکے نہ فطرت پرست حضرت موسٰی کے سیلاب کو، نہ موسائی یہودی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آندھی کو روک سکے نہ عیسائی اور یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طوفان کو۔ اس لیے کہ ایک کے بعد آنے والا پہلے سے زیادہ روشن خیال تھا۔ اس لیے کہ زمانے ترقی کرتے گئے اور ان کے ماننے والے بہتر سے بہتر کی توقعات کے خواہش مند رہے۔ اسی لیے مذہبی جنونیوں کے لئے ان کے دل میں تنفرہی تنفر ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ساقی فاروقی کو ملعون سلمان رشدی سے جوڑنے کی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ساقی فاروقی نے بتایا ہے کہ وہ سلمان رشدی سے کھبی نہیں ملے اور ان کی اتنی ہی مذمت کرتے ہیں جتنا کہ کوئی انسان اور مسلمان کرسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
"جہاں تک پیغمبروں کا چاہے (وہ اصلی ہوں یاد یومالائی) تعلق ہے۔ نہ اُن کے خلاف بات کہہ سکتا ہوں نہ سن سکتا ہوں۔ اس لیے کہ میں (Socialist Humanist ) ہوں۔ پھر شاعر ہونے کے ناتے مجھے یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ کھرے مذہبوں کو روک دوں، ہاں کھوٹے منافقین کی بیخ کنی ضروری سمجھتا ہوں۔ یہی نہیں مختلف مذاہب کی مقدس خواتین (مثلاً ستا مثلاً ہاجرہ، مثلاً مریم مثلاً آمنہ) کے خلاف بھی کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا۔
پاپ بیتی میں شامل ایک دلچسپ واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ساقی فاروقی دراصل افسانہ نگار بننا چاہتے تھے مگر شومئی قسمت ایک مہربان نے ان کے سارے افسانے چوری کر لیے۔ کافی عرصے کے بعد اس شخص نے چوری کا اقرار کرتے ہوئے وہ مخربِ اخلاق افسانے لوٹانے کا عندیہ دیا تو اب پلوں کے نیچے بہت پانی گزر چکا تھا۔ ساقی کو ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بیس سال پہلے کی لکھی ہوئے کہانیوں سے ساقی کا سمبندھ جڑنا مشکل ہوگیا تھا۔ مگر اس سے ایک فائدہ ہوا، نثر لکھنے کی مشق اور فقروں کی ساخت سے آشنائی پیدا ہوگئی۔ ساقی فاروقی ۱۹۵۲ء سے دسمبر ۱۹۶۳ء تک کراچی میں رہے۔ تقریباً ساڑھے گیارہ سال۔ ان کی ادبی تربیت اسی شہر میں ہوئی۔ ۱۹۵۵ء سے ان کی شاعری امروز، لیل و نہار، ادب لطیف، سویرا، فنون، افکار، ساقی، مشرق، جنگ، نیادور میں شائع ہونے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں انہوں نے ریڈیو کے لئے گیت اور نغمے بھی لکھے اور بچوں کے لئے بھی عمدہ شاعر کی۔
نثر میں ان اسلوب بانکا اور سجیلا ہے۔ آپ بیتی کا فن دلچسپ اسلوب کا متقاضی ہے۔ خودنوشت کے فن میں تین اہم عناصر ہیں۔ لکھنے والے کی یاداشت، لکھنے والے کا اسلوب اور لکھنے والے کے اردگرد کا حلقہ رجال واحباب۔ اخفائے ذات سے انکشاف ذات کے مراحل طے کرنے کے لئے عمدہ اسلوب کو اہمیت دو گونہ ہے۔ ساقی فاروقی نے ایک ایسا اسلوب اول تا آخر اپنانے رکھا ہے کہ قاری پوری کتاب پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہیں خود اپنے فن کا احساس ہے شاعری کے ضمن میں لکھتے ہیں۔
"حرفتیں آسماں سے و دیعت نہیں ہوتیں۔ انہیں سیکھنا پڑتا ہے۔ میں نے مصرع لکھنے کی کاری گری انیس اقبال اور یگانہ اردو) ایلیٹ، آڈن اور تھامس (انگریزی) سے سیکھی افسوس کہ یہی دو زبانیں آتی ہیں اور Hopefully اس فن کو آگے بڑھایا۔
انہیں الفاظ کے انتخاب اور ترتیب الفاظ پر قدرت حاصل ہے۔ ضرب الامثال، کہاوتوں اور اشعار کے پیوند سے وہ نئی تراکیب واضع کرتے ہیں۔ اس خوبی نے ان کی خودنوشت کو مزید نکھار بخشا ہے۔ بعض الفاظ اور اشعار طبع سلیم پر گراں ضرور ہیں لیکن وہ واقعات سے مطابقت رکھتے ہیں اور موقع محل کے لحاظ سے پرزور نثر کی بہار دکھلاتے ہیں۔ چونکانے والے جملوں اور بے باکانہ پیرائے اظہار نے اس خودنوشت کو قاری کے لئے دلچسپ بنا دیا ہے۔ ان کی نثر کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت بے خوفی اور بے باکی ہے۔ وہ ہر شخص اور ہر واقعے کے بیان میں صاف گوئی سے کام لیتے ہیں۔ صاف گوئی بھی وہ جو دل آزاری کی حدو کو چھوتی ہے۔ مثلاً سلیم احمد اور ان کے بھائی شمیم احمد سے اپنے گہرا تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے مسز آفریدی کا معاشقہ سامنے لائیں ہیں۔ اگر وہ اس واقعے کو اتنے کھلے بیان کے ساتھ پیش نہ کرتے تب بھی خودنوشت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ لیکن ان کی شخصیت کی نرگسیت نے انہیں ایسا کرنے پر اُبھارا۔ وہ لکھتے ہیں:
"مسز آفریدی ایک طرف تو اپنے شوہر اور شمیم سے اپنی معصومیت کا پرچار کرتی ہیں دوسری طرف مجھ سے ہر دوسرے تیسرے روز "وصالیہ" (نیا لفظ ایجاد کیا ہے) بھی جاری رہا۔"
خود نوشت میں کئی دلچسپ واقعات شامل ہیں مگر سب سے زیادہ دلچسپ بیان معروف نقد مجتبٰی حسین سے ادبی بحث کا ہے۔ سلیم احمد کی فرمائش پر عزیز حامد مدنی اپنی غزل سنا رہے تھے۔ غزل کے اشعار عمدہ اور شاندار تھے۔ ساقی نے تعریف کی اور کہا کہ غزل عمدہ ہے مگر ایک مصرعہ وزن میں نہیں۔ اسلئے کہ "گِرہ" کو گِرہ یعنی "فعا" کی بجائے "فعل" باندھا گیا ہے۔ مجتبٰی حسین نے مداخلت کرتے ہوئے نہایت تند لہجے میں بتایا کہ مصرعہ ٹھیک ہے۔ انیس نے بھی یوں باندھا ہے۔ ساقی نی اصرار کیا کہ انیس کا شعر نسائیے۔ مجتبٰی کو شعر یاد نہ تھا۔ ساقی نہ کہا، آپ کا گھر یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر ہے رکشا لیجئے اور انیس کا مرثیہ لے آئیے۔ مجتبٰی غصے اور طیش میں تھے رکشا لیا اور یہ جاوہ جا۔ غرض چالیس پینتالیس منٹوں میں واپس آئے تو انیس کے مرثیے سے چند اشعار سنائے۔ انیس نے قافیے میں "نگہ" "گرہ" زرہ وغیرہ باندھا تھا۔ اور تمام لفظوں کو "فعا" یا "فعو" یا "فعل" کیا تھا یعنی ساقی کی تصدیق کی تھی۔ مگرمجتبٰی لڑگئے اور غصے میں کہا " سالے تمام جدید یے جاہل ہوتے ہیں۔ اس پر ساقی نے آو دیکچا نہ تاو اور ان کے منہ پر زور دار طمانچہ لگایا۔ لوگوں نے بیچ بچاو کرایا۔ اس پر بھی دل ہلکا نہ ہوا تو ساقی نے سوچا اہل زبان کو مارپیث سے نہیں صرف زبان سے ہی تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس وقعے کو گزرے ہوئی کافی وقت ہو چلا اس کی یاد اور کسک باقی رہی چنانچہ ساقی نے اس خودنوشت کا بہترین حصہ یوں لکھا ہے۔
"پیارے قاری، بیس سال تک شیکسپیئر کے میک بتھ کی طرح تاسف کے تسلے میں ہتھیلی کا خنجر دھوتا رہا۔ اس لیے کہ ہاتھاپائی، دلیل و جحت کی موت ہے۔ شاعروں ادیبو کو عوام سے گفتگو ضرور کرنی چاہیے مگر انہیں عوامی جذباتی سطح سے بلند ہونا چاہیے ورنہ وہ غلط نظیر (Bad Precedent ) کے مرتکب ہوں گے۔ قسمت کا کھیل دیکھئے۔ بیس بائیس برس بعد ہم دونوں کا (مجتبٰی اور میں) ہارٹ بائی پاس آپریشن لندن کے دو مختلف ہسپتالوں میں ایک ہی دن ہوا۔ دو تین ہفتوں بعد جب ہم دونوں اپنی اپنی قیام گاہوں میں واپس گئے تو میں اردو مرکز سے ان کا فون اور ان سے پتا حاصل کیا۔ اور ہ دونوں سینہ چاک، بوئے گل اور بادِ صبا کی طرح ملے۔ ایک سال کے بعد ان کی ناگہانی موت کی خبر آئی تو دل ایک بار پھر کٹ کے رہ گیا۔ اچھے دوست مجتبٰی، آج آپ کو ایک مضطرب روح نہایت محبت سے یاد کر رہی ہے۔ جہاں بھی رہے خوش رہیے اور ہاں ۔ ۔ ۔ گرہ میں "ر" متحرک ہے"۔
ساقی نے جس طور اس واقعے کو دہرایا ہے وہ البیلا اور پُرتاثیر انداز ہے۔ ادبی مباحث میں وہ اپنی سیٹ پر قائم رہتے ہیں اور یہ عادت روز بہ روز پختہ ہوتی چلی گئی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ یہ بات ان کے اعتماد پر دال ہے۔ انہیں اپنے مطالعہ پر بھروسہ ہے اور اسی بھروسے کی بدولت وہ بڑے بڑوں کو للکارتے ہیں۔ وہ بُت شکن ہیں ان کا کلاسیکی مطالعہ بھرپور ہے۔ میر، غالب، انیس سے لے کر اقبال فیض، ن م راشد، فراق تک سب ازبر ہیں، یہی وجہ ہے کہ جدید شاعر ہونے کے باوجود وہ روایت کے منکر نہیں ان کو احساس ہے کہ درخت جڑ کر بغیر ممکن نہیں۔ جڑ جتنی گہری ہوگی درخت اتنا ہی تناور ہوگا۔ ادبی روایت کی مثال بھی توانا درخت کی ہے۔ ساقی فاروقی کو ادبی روایت کا بے حد احساس ہے لیکن وہ اس روایت میں نئے فنکار کے اپنے حصہ کا تقاضا رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
"یہی ابتداء کا Genuine طریقہ بھی ہے کہ:
نیا لکھنے والا تھوڑی دور تک اپنے دور کی بڑی آوازوں اور پچھلوں کے نقش قدم پر چلتا ہے اور اگر اس میں جان ہے تو رفتہ رفتہ اپنی راہ الگ کر لیتا ہے ورنہ دوسری صورت میں دھیرے دھیرے ادب خود اسے اپنی راہ سے الگ کر دیتا ہے۔ یہ ادب کا کچھ ایسا فطری عمل ہے کہ آدمی دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور اس کی ساری عمر کی محنت ادبی تاریخ کو جوہڑ میں پڑی سڑی رہتی ہے"
خودنوشت کا آخری حصہ فیض احمد فیض اور ن م راشد کے لئے مختص ہے۔ اس حصے میں فیض کی موت پر پڑھے جانے والے تاثرات بھی شامل ہیں۔ فیض سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اور ان سے گہرے مراسم بے تکلف گفتگو کو موضوع بنایا ہے۔ ن م راشد سے اپنی قربت اور محبت کا بیان ملتا ہے۔ ان کی موت پر ان کے گھر والوں کے عجیب اور سرد مہر روپے کو ساقی کے حساس دل سے بُری طرح محسوس کیا ہے۔ جس کا کھلا بیان اس خودنوشت کو حصہ ہے۔
"ہائڈ پارک کا
رنر پر عبداللہ نے سگنل دیا تو میں نے کار روک لی اور اتر کر ان کی وین تک پہنچا اور ہم دونوں دیر تک اس عظیم شاعر کی موت کی آخری رسومات کی کس مپرسی اور بے حالی، شیلا (بیوی) کی بد سلیقگی اور شہر یار (بیٹا) کی اجنبیت پر کڑھتے رہے۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ لندن کے ایک روڑ لوگ گریہ کریں کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے"۔
یہ ساقی فاروقی کی آپ بیتی / پاپ بیتی کا پہلا حصہ ہے دوسرا حصہ جلد متوقع ہے۔ اس حصے میں ساقی نے اپنی زندگی کے واقعات کو بہترین یاداشت کے ذریعے پیش کیا ہے۔ ان واقعات و حالات میں ایک عہد سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک بھر پور ادبی ماحول پایا اور امن ماحول کی عکاسی بھی کی۔ خودنوشت کے اس حصے میں انہوں نے اپنی پسند و نا پسند کا برملا اظہار کیا ہے وہ بہت کم شاعروں کو مانتے ہیں اور جن کو نہیں مانتے ان کی خوب خبر لیتے ہیں۔ یہ حوصلہ یہ جرات کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ فراز سے اپنی عداوت اور فیض سے محبت کا حال یوں بیان کرتے ہیں:
"دوسرے دن انہیں (احمد فراز) کو میرے غیاب میں زہر اُگنا تھا۔ کھانا وانا کھاکے میں چلنے لگا تو وسکی بہت چڑ چکی تھی۔ اس لیے جب زہر انگاہ نے کہا کہ میں فراز کو چھوڑتا جاوں تو میں نشے کا حوالہ دیئے بغیر بہانہ کہا، بہن میں انہیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کہ جوں ہی کوئی خراب شاعر بیٹھتا ہے گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ دوسرے دن ملنے پہنچا تو فیض صاحب نے کہا "تمہارے بیٹھنے سے تمہاری گاڑی کے دو پہیے تو مستقل ہلتے ہوں گے، میں ان سے لپٹ گیا"۔
ان کے اسلوب میں ہلکا پھلکا مزاح اور طنز اپنی بہار دکھاتا ہے۔ اس آپ بیتی کو لکھنے والے نے ایک عمر گزاری ہے اور اس عمر کی قیمت ادا کی ہے۔ اس قیمت کا حاصل یہ خودنوشت ہے۔ زندگی کے سرد و گرم سہنے کے بعد جب کوئی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ مڑ کر بیتے ہوئے لمحوں سے کچھ کشید کرسکتے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں نہ ہی کس و ناکس کو اس کا حوصلہ ہے۔
بقول اصغر گونڈ وی
بارِ الم اُٹھایا رنگِ نشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔