"افسانہ نگاری ایک مقبول ترین پسندیدہ صنف ادب ہے' یعنی یہ ایک ایسافنی عمل ہے جو مخصوص ہیئتی اور تکنیکی لوازمات کا حامل ہے۔بیشتر افسانے سماجی موضوعات اور مسائل کی تخلیقی عکاسی کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ افسانے کسی بھی سماج کی سیاسی' سماجی'معاشی اور ثقافتی نشیب وفراز کی ادبی تاریخ بن جاتے ہیں اور اگر کوئی افسانہ نگار اپنے خطے یا اپنے سماجی ماحول کو افسانوی فن کے قالب میں ڈھالتا ہے تو وہ اس خطے یا سماج کی ایک جیتی جاگتی کہانی بیان کرتا ہے اور ایک باشعور و ذمہ دار فرد کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔ راقم افسانہ لکھنے کے دوران ان باتوں کا خاص رکھتا ہے اس لئے میرے بیشتر افسانے کشمیر کی داستان سناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کشمیر سے باہر کے لوگ انہیں پسند بھی کرتے ہیں.
مذکورہ اقتباس ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کے خیالات سے ماخوذ ہے۔۔۔افسانہ نگاری ادب کا ایک ایسا جز بن چکا ہے جس سے اب فرار کی راہ تلاش کرنا ایک لایعنی کام ہی قرار دیا جاسکتاہے۔ افسانہ نگاری کا یہ سفر انسان کی فکر و افکار کے ارتقاء کے ساتھ پروان چڑھتا رہتاہے جس سماج اور معاشرے سے افسانہ نگار وابستہ ہوگا تو وہاں کے سماجی و معاشرتی مسائل و موضوعات اس کے افسانوں کے حصہ بن جائیں گے۔ فن افسانہ نگاری ایک الگ موضوع ہے'مجھے اس سے بحث نہیں کرنی 'ہاں ہم ضرور اس بات کی اور توجہ دے سکتے ہیں کہ افسانہ نگاری کیونکر وجود میں آئی یا آتی ہے ۔ یہ ایک تخلیقی کام ہے جو انسان کی سوچ کے ساتھ محو پرواز ہوکر انسانی معاشرے کی فنی عکاسی کرتا ہے ۔ میں نے آج تک کئی افسانے پڑھے ہیں اورجن افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ان میں کشمیر سے تعلق رکھنے والےعہد حاضر کے افسانہ نگار نور شاہ جناب 'نذیر مشتاق پرویز مانوس 'طارق شبنم 'راجہ یوسف وغیرہ قابل ذکر ہیں' جو پوری علمی و ادبی فکر سے اپنے فن میں رنگ بھرتے رہتے ہیں اور وادی کشمیر کے ادبی افق کے یہ اہم تخلیق کار ایک درخشاں مستقبل کے لئے کوشاں و متفکر ہیں جو ان کی تخلیقات سے مترشح ہے ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اہل علم و ادب ہیں جو اپنی افسانہ نویسی سے امید سحر کی نوید سناتے ہیں ۔
سفیر مسکراہٹ
سوشل میڈیا پر ایک بارمیری ایک پوسٹ کے کمنٹ کے نیچے مسکراہٹ لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں اس اسٹائل سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اورکمنٹ کرنے والےسے دوستی کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوش دلی سے قبول کیا۔ ان کی اکثر تحریریں سوشل میڈیا پر مسکراہٹ پر ختم ہوجاتی ہیں۔ ہر لمحہ لبوں پر مسکراہٹ پھیلائے یہ صاحب کوئی اور نہیں ہماری وادی کشمیر کے ایک خوبصورت علاقہ ہندواڑہ کی ایک بستی وڑی پورہ کے رہنے والےہیں ۔ ان کی نشو و نما جس زرخیز زمین میں ہوئی ہے وہ ازخود قابل ستائش ہے (میری مراد ان فضاوں اور ماحول سے ہےاور ان بہتے پانی کے پیارے چشموں سے ہے جو اس بستی کے لئے قدرت کا انمول تحفہ ہے میں اکثر ان علاقوں سے بے حد محبت و عقیدت رکھتا ہوں جو قدرت کے حسین نظارے پیش کرتے ہیں اور جنہیں قدرت نے خوب سنوارا ہے ایسی ہی بستیوں سے اکثر صاحب قلم و ادب اٹھتے ہیں کیوں کہ ان بستیوں کی مٹی یا پانی میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے ) تو ایسی ہی حسین و دلکش بستی سے ہم سب کو اپنی مسکراہٹ کے تحفے سے نوازنے والے ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کا تعلق ہے جو اردو ادب کے فروغ میں کافی متحرک اور ممتاز مقام کے ساتھ سفیر ادب کا حق ادا کررہےہیں۔ ان سے تعلق کا اصل سبب سوشل میڈیا ہی بنا پھر کبھی کبھی ان سے فون پر بھی مختصرگفتگو ہوتی۔ 24اگست 2020 کو ان کی طرف سے دو کتابوں کا ایک تحفہ ملا . اس تحفہ سے بے حد خوشی و مسرت کا احساس ہوا جس کے لئے میں ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔ ان دو کتابوں میں ایک افسانوی مجموعہ ""کالے پیڑوں کا جنگل اور کالے دیووں کا سایہ. مجلد"بھی ہے جس پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کا خواہستگار ہوں ۔
وادی کشمیر سے ہم سب واقف ہیں ۔ یہاں کے حالات یہاں کی غربت یہاں کی مجبوریاں تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ علم و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہوں وہ بھلا کیونکر ان حالات سے لاتعلق رہیں گے۔ ایسے ہی ادبی افق میں افسانہ نگار بھی ہیں جو اپنی تخلیقات کے ساتھ اپنی قوم و ملت کی خیر خواہی کے ہی متمنی ہوتے ہیں اور یہ ہمیشہ سے دیکھنے میں آیا ہے کہ ادبی دنیا سے تعلق بنائے رکھنے والے اصحاب علم نے ہمیشہ اپنی قوم و ملت کے غم اور خوشی کو تخلیق کیا۔ اسی تناظر میں جس کی قوم و ملت کو حاجت تھی۔ ایسے ہی ہمارے پیارے اور ہر دل عزیزافسانہ نگار ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری نے اپنی تخلیقات میں اپنی قوم وملت کے حال کو افسانوں کا حصہ بنایا ہے۔ کتاب کا نام "کالے پیڑوں کا جنگل' کالے دیوؤں کا سایہ" ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ کتابیں ہیں جن کی تاریخ اور سنہ اشاعت بھی الگ الگ ہیں۔ کتابوں کی مارکیٹ میں عدم دستیابی کے سبب اور ارباب علم اور شائقین ادب کے تقاضوں کے پیش نظر دونوں کتابوں کو ایک ساتھ شائع کیاگیا ہے. مطلب ایک ہی کتاب کی صورت میں اور یوں یہ کتاب مارکیٹ میں آئی اور چھا گئی ۔ کتاب کی آپ جونہی ہی ورق گردانی کریں گے تو صفحہ نمبر چھ پر جلی حروف میں لکھا انتساب پڑھنے کو ملے گا. میرے خیال میں مصنف محترم نے پوری کتاب کا تعارف انتساب میں ہی پیش کیا ہے اگر کوئی صاحب ادب اس جانب تھوڑی سی بھی توجہ دے تو بہ آسانی پوری کتاب کے افسانوں کانچوڑ سامنے آۓ گا:
"وادی گلپوش کے ان ریشم مزاج بلبلوں کے نام
جو کالے پیڑوں کے جنگل کے درمیان کالے
دیوؤں کے سایوں میں بھی چہچہاتے رہتے ہیں. "
میں ان الفاظ کی معنویت پر غور کرتارہا ۔پہلے کچھ سمجھ نہ آیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ پریوں کی کہانیاں ہوں گیں یا دیؤؤں کے قصے تخیل پر میری سوچیں محو پرواز تھیں کہ مصنف کی تخلیق انہیں کہانیوں کے آس پاس گھومتی ہوں گئیں۔ جو ہم زمانے سے اپنے بڑوں سے سنا کرتے تھے 'جہاں پریوں کے گیت اور دیؤؤں کا جبر ہوا کرتا تھا اور اک مظلوم انسان ان کے ہاتھ آکر اپنی دنیا کو ویران پوتے دیکھا کرتا تھا لیکن کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جوں ہی پہلے افسانے ماں کو پڑھا تو نگاہ کے کناروں پر نمی سی آگئی تاہم میری سوچ پر وہی مہیب چھایا ہوا تھا جسے میں نے اپنے تخیل میں بسائے ہوئے رکھا تھا ۔ اچانک کتاب کے ابتدائیہ جو ریاض توحیدی صاحب کے زور قلم کا ہی کمال ہے 'کی طرف دھیان چلا گیا۔ جس کی ابتدا اس شعر سے ہوئی ہے:
مجھے پریوں کی یہ جھوٹی کہانی مت سناؤ تم
میں اپنی آنکھ کے اندر کئی کوہ قاف رکھتا ہوں
مجھے اس علامتی شعر نے کتاب کا تھوڑا ساہلکا پھلکا اور افسانوں کے موضوعات کی طرف اشارہ کیاکہ موصوف پریوں یا دیؤؤں کی نہیں بلکہ اپنی وادی کشمیر کے ان بلبلوں کی باتیں ان پر ڈھائے ظلم وستم' ان کی مجبوریاں اور ان کی بے بسی کو تخلیقی پیرائے میں پیش کررہے ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کے سامنے جہاں خوشیاں اور غم ایک ساتھ رقص کر رہی ہیں 'جہاں مسکراہٹیں تو دم توڑ رہی ہیں پر ہچکیاں محو پرواز ہیں' جہاں آہوں اور سسکیوں کی اک بڑی دنیا آباد ہوکر بھی ویرانے کا منظرپیش کر رہی ہیں۔ میرے لئے اس کتاب کے مطالعے کے دوران عجب احساس یہ تھا کہ یہ تمام کہانیاں معاشرے کے آس پاس ہی ہورہے حالات کے عکاس ہیں ۔ لیکن یہاں پر مقامی موضوعات کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کی کہانیاں بھی موجود ہیں۔ اس کتاب کے جن افسانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا' درجہ ذیل ہیں:
گلوبل جھوٹ گمشدہ قبرستان ' قتل قاتل مقتول 'کشمیر نواز کالے پیڑوں کا جنگل' ہائی جیک' کالے دیوؤں کا سایہ' زہریلے ناخدا ' وطن کی عصمت وغیرہ' جن کے پڑھنے کے دوران آپ یقین کریں کہ آپ کی آنکھیں بھیگ جائیں گیں۔ کتاب کے بقیہ افسانے بھی بہت ہی اعلی ہیں جو ہمارے لئے ایک تحریک کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے کے لئے ہم ملتمس ہیں کہ اس ادبی روشنی کو بکھیرنے کے لئے آپ کوشش کریں تاکہ آپ اپنے سماج اور سوسائٹی کی خدمت کرسکیں۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ قلم اٹھا کر لکھنے بیٹھ جائیں بلکہ ہم بہترین کوششوں کا استقبال بھی کرسکتے ہیں۔ اور یہ کارہائے نمایاں ہم کبھی انجام دے سکتے ہیں جس کے لئے اصحاب علم و ادب کی تخلیقات کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں تک بھی صحیح کتابوں کے ذریعہ پہنچا جائے۔
ادب کی دنیا سے منسلک ارباب علم و ادب بخوبی جانتے ہیں کہ ادب افسانہ نگاری یا شاعری ہو' ہر صنف کے نام پر زیادہ تربے حیائی' بے شرمی اور برائی کو عام کیا جارہا ہے۔ نئے ادیب جو مغربی افکار و نظریات کی چکا چوند سے متاثر ہیں' وہ آئے روز کچھ نہ کچھ تخلیق کر ہی لیتے ہیں یا سرقہ بازی کرکے مختلف ادیب و دانشور حضرات کے ادبی شہہ پارے چرا کر نوجوان نسل کو تباہی کی اور لے جارہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اکثر محبوب و معشوق ہی نکلتے ہیں' سوائے اس کے انہیں سماج میں کیا کچھ ہورہا ہے نظر نہیں آتا ۔ ہمیں اس بلا سے چھٹکارا پانے کے لئے لازم ہے کہ بہتر ادب اور ادیب کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ صالح اور پاکیزہ ادب ہی منصئہ شہود پر پر آتا رہے اورڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری جیسے انقلابی اور تحریک ساز افسانہ نگاروں کی کتابوں کا، مطالعہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔