پاکستان میں اردو ادب کے منظر نامے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا شمار ممتاز ماہرین اقبالیات، محققین اور سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ 9 فروری 1940 کو مسریال چکوال میں پیدا ہوئے اور 83 سال کی عمر میں 25 جنوری 2024 کو انتقال کرگئے، آپ نے بطور اقبال شناس، نامور محقق، اور سفرنامہ نگار کے طور پر نمایان خدمات دے کے اردو ادب کو نمایاں طور پر تقویت بخشی ہے۔ بحیثیت پروفیسر، نامور مصنف اور ایڈیٹر ان کے ہمہ جہتی کیرئیر نے علوم اقبال، اردو زبان اور ادب کے میدانوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
دائین سے بائین ڈاکٹر محمود علی انجم، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر وحید الرحمان، ابو جنید عنایت علی اور رحمت عزیز خان چترالی اقبال کتاب ایوارڈ کی تقریب میں شریک ہیں اور قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی یہ آخری پروگرام میں شرکت تھی جس میں انہیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ فوٹو علامہ اقبال اسٹیمپ سوسائٹی، لاہور
9 فروری 1940 کو مسریال، ضلع چکوال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر ہاشمی نے اورینٹل کالج لاہور میں اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی تعلیمی قابلیت اس وقت نمایاں تھی جب انہوں نے 1963 میں بی اے کیا اور 1966 میں اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کیا۔ اور پنجاب یونیورسٹی سے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شخصیت و فن کی جامع تحقیق اور وضاحتی مطالعہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہوں نے علامہ اقبال پر تحقیقی مضامین اور مقالے لکھے۔
تعلیم میں ڈاکٹر ہاشمی کے شاندار کیریئر کا آغاز 1969 میں اس وقت ہوا جب انہوں نے محکمہ تعلیم پنجاب میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 1982 میں اورینٹل کالج لاہور میں ایک اعلٰی عہدہ سنبھالنے سے پہلے مختلف کالجوں میں پڑھایا۔ کئی تعلیمی اداروں میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد میں شعبہ اردو کے صدر کے طور پر ڈاکٹر ہاشمی نے خود کو علم کی ترویج کے لیے وقف کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ 2006 سے 2008 تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممتاز پروفیسر کے طور پر نمایاں خدمات انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر ہاشمی کی ادبی میراث بہت وسیع اور متنوع ہے، جو علوم اقبال، اردو زبان اور ادب کی انواع پر پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی تصانیف اور مرتب کردہ تصانیف میں اقبال کے خطوط، کتابیات اور اقبال کے فکری تجزیے شامل ہیں۔ ان کی تصانیف میں “اقبال: شخصیت اور فن”، “تیری خاک میں چھپا ہوا (سفرنامہ اندلس)” اور “سورج کی طرف دیکھو” (سفرنامہ جاپان) قابل ذکر ہیں۔ یہ تصانیف اردو اور اقبالیات کے بھرپور ادبی ورثے کو بچانے اور آگے بڑھانے کے لیے ان کی فکری گہرائی اور لگن کو ظاہر کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ہاشمی کی علمی و ادبی خدمات کا اثر ان کی زندگی بھر تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کے طالب علم خالد ندیم نے اردو، فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں ان کے مضامین کا ایک مجموعہ مرتب کیا جس کا عنوان ہے “ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی”۔ یہ کتاب علمی اور ادبی میدانوں میں ڈاکٹر ہاشمی کے اثر و رسوخ کی عالمی رسائی کا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی لگن اور فضیلت کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز اور اعزازات کے ذریعے کیا گیا ہے۔ انہیں بابائے اردو ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے قومی صدارتی اقبال ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اقبالیات کے شعبے میں ان کی شاندار خدمات کی تصدیق کے طور پر علامہ اقبال اسٹیمپ سوسائٹی کے چیرمین میاں ساجد علی کی طرف سے سال 2023 میں انہیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 2015 میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز نے ایک ممتاز علمی اور ادبی شخصیت کے طور پر ان کی علمی اور ادبی میراث کو مزید مستحکم کیا۔
پاکستانی دانشوروں خصوصاً اقبالیات کی تاریخ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ اقبالیات سے ان کی وابستگی، وسیع ادبی کاموں اور تعلیمی قیادت نے ادب پر دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی کی میراث دنیا بھر کے اسکالرز، طلباء اور اردو ادب اور اقبال کے مطالعہ کے شائقین کے لیے ایک مشعل راہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔