شعورِ انسانی کی سب سے قدیم اور لامتناہی جستجو یعنی خُدا کے حوالے سے اس بسیط و عمیق اور ضخیم تحقیق کو معروف بزرگ شاعر جناب سرور انبالوی کے صاحبزادے، دورِ حاضر کے نامور اقبال شناس، استادِ محترم جناب قمر اقبال صاحب (صدر شعبہء اردو – فوجی فاؤنڈیشن کالج کہ جو راقم الحروف کی مادرِ علمی ہے) نے بہت عرق ریزی کے بعد جس سلیقہ مندی سے مکمل کیا ہے، انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ ماشاءاللہ و سبحان اللہ۔
یہ کتاب اس اہم موضوع پر اقبال کے مفصّل اور مدلّل نقطہء نظر کا بہت جامع انداز میں بخوبی احاطہ کرتی ہے۔ میرے خیال میں یہ مکالہ اس اہم ترین موضوع پر ایک بہت اہم کام ہے جس کا مطالعہ اربابِ نقد و نظر کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کتاب کی مشمولات قاری کو عجیب و لطیف کیفیت میں لے جاتے ہوئے فلسفہ کے دقیق نکات کو بھی سہولت کے ساتھ کھولتی نظر آتیں ہیں۔ 660 صفحات پر مشتمل اس گرانقدر تصنیف کو ادارہء ثقافتِ اسلامیہ، لاہور نے اکادمی ادبیات پاکستان اور حکومتِ پنجاب کے تعاون سے 2017 میں شائع کیا۔
بلاشبہ قمر اقبال صاحب نے اقبالیات کے اس اہم ترین موضوع پر، اب تک ناپید، ایک باقاعدہ، مستقل اور بھرپور تحقیق عمل میں لا کر حقیقتِ مطلق – اللّہ رب العزت اور حضرتِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی محبت اور عقیدت کا حق ادا کیا ہے۔ اقبال کے ورثہ (legacy) کے ساتھ آپ کی وفا دیدنی ہے۔ موصوف بزمِ فکرِ اقبال کے روح رواں بھی ہیں اور آجکل راولپنڈی میں متواتر لیکچرز کے ذریعے اہلیانِ جستجو بالخصوص نوجوانوں کو اقبال کے حیات بخش پیغام سے روشناس کرانے میں بھی مصروف ہیں۔ زیرِ نظر تحقیق میں آپ نے اقبال کے کلام اور فکر و فلسفے کی روشنی خود میں بخوبی جذب کرنے کے بعد جس زبردست طریقے سے منعکس کی ہے، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ محترم قمر اقبال صاحب یقیناً 'قمرِ اقبال' کہلائے جانے کے لائق ہیں، اور ہیں بھی۔ ان کی تابانی پر یقیناً اقبال بھی نازاں ہوں گے۔
پہلا باب – تصوّرِ حقیقتِ مطلق، گویا کہ اس تحقیق کا مقدمہ ہے جو 52 صفحات پر مبنی ہے۔ اس میں قدیم فلاسفہ کے تصورات، متنوع نظریات، مختلف الہامی و غیر الہامی مذاہب کے اعتقادات، جدید فلاسفہ کے نظریات اور حقیقتِ مطلق کے اثبات اور ابطال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نیز اقبال کے تصورِ حقیقتِ مطلق کے حوالے سے محققین کی مختلف اور متضاد آراء کا مختصر مگر جامع ذکر کر کے اقبال کے تصوّر حقیقتِ مطلق کے ایک بھرپور تجزیہ اور سیر حاصل تحقیق کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
دوسرا باب حقیقتِ مطلق کے متعلق اقبال کے تصوّرات اور نظریات کی تحقیق اور توضیح پر مشتمل ہے۔ اس میں وحدت الوجود، وجدان، زمان و مکان، جبر و قدر، صفاتِ باری تعالیٰ بشمول آزاد تخلیقی ارادہ و قدرتِ کاملہ، انائے کامل و خودی کا تصور اور توحید جیسے موضوعات پر متعلقہ بنیادی اور متعدد ثانوی مآخذ کا استعمال کرتے ہوئے، اقبال کے تصورِ حقیقتِ مطلق کے درست اور مکمل خدوخال سامنے لانے اور انہیں قرآن و حدیث، اسلامی فلسفیانہ روایت اور اسلامی تصوف کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
روایتی وحدت الوجود (pantheism) کے حق میں اقبال کے ابتدائی افکار، جیسے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک یے
حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ہو
سے لے کر
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر جگہ بے چگوں، بے نظیر
تک اقبال کے فکری ارتقا کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور یہ عیاں کیا گیا ہے کہ تقریباً 1908 تک اقبال نوفلاطونی، ویدانتی اور شنکر اچاریہ کے نظریہ وحدت الوجود کے قریب دکھائی دیتے ہیں البتہ آپ ذاتِ باری کو کائنات میں جاری و ساری تو مانتے ہیں مگر حلول و اتحاد کے قائل نہیں ہوئے اور ماورائیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ آپ انسانی انا کی انائے مطلق میں فنا کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ہر صورت میں انائے انسانی کی بقا پر زور دیتے تھے۔
علاوہ ازیں حقیقتِ سرمدی کے ادراک کے لیے وجدان جیسی شاندار بلاواسطہ، کُلی، ناقابلِ تقسیم اور گہری علمی صلاحیت کے حق میں اقبال کے دلائل کا بیان ہے۔ اقبال وجدان کے ذریعے سے حاصل کردہ علم بھی ٹھوس، حقیقی اور معتبر ہے۔ اقبال یہ نہیں مانتے کہ روحانی یا مذہبی تجربہ (وجدان) ناقابلِ ابلاغ ہوتے ہوئے بھی علمِ عامہ کا سرچشمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ وجدان کو قلبی و روحانی بصیرت اور عشق سے تعبیر کرتے ہیں، کہ
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
اقبال کے مطابق کانٹ اور غزالی دونوں یہ نہیں جان سکے کہ حصولِ علم کے دوران فکر اپنی متناہیت سے تجاوز کرتا جاتا ہے۔ البتہ غزالی نے تجزیاتی فکر سے ناامید ہو کر صوفیانہ تجربہ کی طرف رجوع کیا اور یوں مذہب کے لیے ایک الگ دائرہ (تصوف) دریافت کر لیا۔
اقبال اس امر میں برگساں سے متفق ہیں کہ یہ زمان زمانِ حقیقی نہیں۔ زمان بھی اضافی ہے۔ یہاں انسانی زمان و مکان سے الٰہی زمان و مکان کے سفر کا تذکرہ بھی ملتاہے کہ
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
مزید یہ کہ
مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکاں
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ
اور
زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لا تسبّو الدّھر فرمانِ نبی است
شامل ہیں۔
اس کے بعد نیوٹن کا مکان کو خلائے مطلق کہنے اور پروفیسر وائٹ ہیڈ کا یہ کہنا کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں جو ایک غیر متحرک خلا میں موجود ہے بلکہ واقعات کا ایک ایسا مربوط نظام ہے جو مسلسل تخلیقی بہاؤ کی صفت رکھتا ہے اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافت اور مکانِ مطلق کے رد کرنے کا بیان ہے۔
آگے چل کر انسانی خودی کی دریافت اور تکمیل کے حوالے سے دلچسپ بحث کی گئی ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
ہاتھ ہے اللّہ کا بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا و کارساز
البتہ یہ بات وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ خودی خدا سے قرب و اتصال حاصل کر سکتی ہے نہ کہ اتحاد و حلول، شامل ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور درحقیقت قرآن مجید کے نیابتِ الٰہی کے تصور کا آئینہ ہے۔
اقبال کے نزدیک دعا اپنی اصل میں جبلّی ہے اور اپنی انتہا میں مجرّد تفکر ہے۔ دعا دراصل انسان کی اس خواہش کا نام ہے کہ کائنات کی اس خوفناک خاموشی میں کوئی اس کی پکار سنے اور اس کا جواب دے۔
آگے چل کر جبر و قدر پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ قدر کی تائید میں متعدد قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ یہاں مجھے میر کا ایک لازوال شعر بھی یاد آیا کہ
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
اقبال کے نزدیک کائنات ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے اور زمانے کا ہی دوسرا نام تقدیر ہے۔ زمان کا عمل ایک پہلے سے ہی کھینچی ہوئی لکیر کی طرح نہیں بلکہ ایک ایسی لکیر جو کھینچی جا رہی ہو، جو کھلے امکانات کو وقوعات میں لاتی ہو۔ میر داماد اور ملا باقر کے مطابق عمل تخلیق کے ساتھ ہی وقت بھی معرض وجود میں آتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
تو اپنی سر نوشت آپ اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہء حق نے تری جبیں
مزید یہ کہ
چنیں فرمودہء سلطانِ بدر است
کہ ایماں درمیانِ جبر و قدر است
اقبال کے نزدیک خدا کی لامحدودیت و لاانتہائیت خود اس کے اندر ہے نہ کہ اس کے باہر۔ خدا کے باہر تو کوئی ماسوا ہے ہی نہیں جو اس کو محدود کر سکے۔
تیسرے باب میں اقبال اور معروف مغربی فلاسفہ کا تقابل کر کے یہ جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کا تصور خدا مغربی مفکرین سے مستعار ہے یا قرآن و حدیث سے مستنیر۔۔۔
اقبال کے نزدیک عقلِ استدلالی اور حسی تجربے کی عام سطح سے بلند تر وجدانی تجربہ سے حقیقتِ اصلیہ تک رسائی ممکن ہے۔ بقول محی الدین ابن عربی
الحق محسوس والخلق معقول
یعنی
"خدا محسوس و مشہود اور کائنات معقول ہے "
اس کے علاوہ نطشے اور اقبال کے تصورِ خودی میں فرق کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ لا کی منزل ہی کھو کر رہ جاتا ہے اور الا اللہ تک نہیں پہنچ پاتا۔
اقبال کو افسوس ہے کہ روحانیت اور وجدان سے تہی دامنی کے باعث نطشے حقیقت سے بے خبر رہا اور اس نے خدا کی موت کا اعلان کر دیا۔ یہاں اقبال
اور برگساں کے تصورِ وجدان میں مماثلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے بقول برگساں
وجدان عقل ہی کی ایک برتر صورت ہے۔
برگساں کے نزدیک وجدان جوشِ حیات کا احاطہ کرتا ہے جبکہ اقبال اسے انائے مطلق تک رسائی کا وسیلہ گردانتے ہیں۔ اقبال برگساں کے اس حیاتی لہر کو ہی غایتِ حقیقی اور اور عقل کی تحدید سے اتفاق نہیں کرتے۔
پھر ولیم جیمز کا کائنات کے بارے میں "سیلِ رواں" کے نظریہ اور دیگر افکار کا اقبال کے تصوّرات کا تقابل پیش کیا گیا ہے اور اس کے بعد ڈیکارٹ کے کونیاتی، مقصدی اور وجودیاتی دلائل پر اقبال کی تنقید کا جائزہ لیا گیا ہے۔
بعدازاں وائٹ ہیڈ کے نظام فکر اور مادیت کی تردید پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پھر میک ٹیگرٹ کے دہری شخصیاتیت، اشخاص کی غیر فنائیت، لاادریت اور شر نہ ختم کر سکنے کے باعث قادرِ مطلق نہ ماننے بارے گفتگو کی گئی ہے۔ جیمز وارڈ کے خدا کو خارجی روح قرار دینے اور فطرت کو سمجھنے میں روحانیت کی افادیت کے اعتراف کا ذکر ہے۔
اقبال کثرتِ وجو میں وحدت کو دیکھتے ہوئے اس کا منبع اس انائے مطلق کو سمجھتے ہیں کہ جس سے تمام خودیوں کا صدور ہوتا ہے۔ جیمز وارڈ کی طرح اقبال بھی ذاتِ باری تعالیٰ کی ماورائیت کے قائل ہیں اور ساتھ ہی اس کے کائنات میں جاری و ساری ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ اقبال خدا اور مخلوق کے مابین دوری کے قائل نہیں کہ
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندے سے احتراز کرے
ہیگل کے خیال میں ذی حیات موجودات اور غیر حیات اشیاء سے متعلق صداقت کے یقین کے لیے ضروری ہے کہ ہر چیز کا ٹھوس تعلق اس کے مربوط کُل سے منطقی طریقہ کار کہ جسے ہیگل کے فکری نظام میں ہیگلی جدلیات کہا جاتا ہے، سے تلاشا جائے۔ ہیگل کے سمندر کو قطرے میں بند کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر کہ جس کا ذکر اقبال نے ایک مراسلہ میں کیا کہ
جہاں ہستی ہوئی محدود، لاکھوں پیچ پڑتے ہیں
عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں
اقبال کائنات کو ذاتِ باری کی تخلیقی فعالیت قرار دیتے ہوئے خدا کے ہاں فکر و عمل کو باہم مترادف مانتے ہیں۔
آخر میں پروفیسر جوشیو رائس اور اقبال کے تصوّرات کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے
چوتھے باب میں اقبال اور مسلم فلاسفہ و متصوفین کے تصورات کا موازنہ کر کے اقبال کے ردّ و قبول کے معیار کو سمجھا گیا ہے۔
مولانا روم کے نزدیک تمام تر زندگی ذاتِ باری سے سرزد ہوئی ہے اور اس کا میلان اسی قائم بالذات کی طرف رجعت ہے کہ شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ ہر وجود اپنے اندر پنہاں ممکنات اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بیقرار ہے۔ اس کا اظہار اقبال یوں کرتے ہیں کہ
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہء کائنات
رومی اور اقبال کا خدا ساری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور متناہی خودیاں اپنی ہستی کو اسی میں پاتی ہیں مگر ساتھ ہی وہ حقیقتِ مطلق کو ایک شخص مانتے ہیں جو خلاقی، ہمہ دانی اور ابدیت جیسی صفات سے مملو ہے۔ اس طرح پیر و مرید دونوں کا وحدت الوجود، اسلامی وحدت الوجود قرار پاتا ہے جو قرآن سے مستنیر ہے۔
اس کے علاوہ ابن عربی کے عقیدہ کی وضاحت خود ان کے قول سے کی گئی کہ
"اللّہ تعالیٰ خدائے واحد ہے اور موجود بالذات، وجودِ مطلق اور غیر مقید ہے۔ وہ نہ کسی سے معلول اور نہ وہ کسی چیز کے لیے علت ہے بلکہ معلولات اور علتوں کا وہ خالق ہے۔ عالم نہ بنفسہ یے اور نہ لنفسہ، بلکہ وجودِ حق کے ساتھ فی ذاتہ مقید الوجود ہے۔ بندہ و رب ہر ایک اپنی ذات کے کمال کے لیے وجود میں ساتھ ہیں۔ پس باوجود اس زیادتی اور کمی کے عبد ہمیشہ عبد اور رب ہمیشہ رب ہے"
لہذا ابن عربی کے ہاں ظاہر اور مظاہر میں فرق موجود ہے۔ حق نے مرتبہءخلق میں تنزل نہیں کیا اور مخلوق سے وحدت نہیں پیدا کی اور اس کا عین نہیں بنا۔ ان کا عقیدہ نوفلاطونی اور ویدانتی تصورات سے الگ ہے۔
اقبال ابن عربی کے خیال کہ خدا تعالیٰ مجرد خیال concept نہیں بلکہ مدرک و محسوس یعنی percept ہے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایک دلچسپ مکالمہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ جب ایک مرید نے حضرت بایزید بسطامی سے کہا کہ ایک ایسا لمحہء وقت تھا کہ جب خدا ہی موجود تھا اور خدا کے سوا کچھ نہ تھا۔ جواباً آپ نے فرمایا کہ اب بھی تو وہی صورت ہے جو اس وقت تھی۔
شیخ مجدد الف ثانی اللہ کی کامل ورائیت اور وحدت الشہود کے قائل تھے کہ مشاہدہ میں صرف ایک ہی ذات ہے گو باقی موجودات معدوم نہیں، جیسے سورج کی روشنی میں ستارے موجود ہونے کے باوجود بھی نظر نہیں آتے۔ مجدد الف ثانی وجدان کی افادیت بجائے ایمان بالغیب کے قائل تھے ۔ تحقیق اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود میں کوئی بنیادی فرق نہیں بلکہ لفظی نزاع ہے، یوں ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی کے نزدیک وجودِ حقیقی صرف اللّہ تعالیٰ کا ہے۔ کائنات اس کے مظاہر کا وجودِ ظلّی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہ ابن عربی کے خیال میں یہ ظل موہوم ہے جبکہ حضرت مجدد کے نزدیک موجود ہے۔
وہ جبر کی بجائے قدر کے قائل تھے کہ جو اقبال کا بھی نقطہ نظر رہا ہے۔
اقبال غزالی کے بھی قدردان تھے کہ جنہوں نے فلسفہ کا باضابطہ رد لکھا اور عقلیت کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعات کی طرف توجہ دلائی۔
علامہ اقبال حسین بن منصور حلاج کو شہید صوفی مانتے ہیں اور ان کے نعرہء انا الحق کو انسانی خودی کی پائیداری اور باطنی تجربے کی وحدت پر محمول کرتے ہیں۔ البتہ ابتدا میں اقبال ان سے حلول اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے پر نالاں تھے، مگر پھر اسلامی اور غیر اسلامی وحدت الوجود کا فرق اور منصور کے حقیقی عقائد اقبال پر واضح ہو گیا۔ بقول منصور۔۔۔
میں نے اب کہا ہے کہ حق کو نہیں پہچانتے تو اس کی علامتوں کو تو جانو، اس کی ایک علامت میں ہوں۔ اناالحق، کیونکہ میں سدا حق کے ساتھ رہا ہوں۔
اس کے علاوہ ابن رشد کے تصورات کا بھی ذکر ہے کہ انسان نہ مختارِ کل ہے نہ مجبورِ مطلق، بلکہ اسباب و اثرات کے تحت معین ہے اور اس میں خیر کا پہلو شر کی نسبت غالب ہے۔
آخر میں ابن سینا، ابن مسکویہ، ابن حزم اور جلال الدین دوانی، میر داماد اور ملا باقر کے تصورات کے حوالے سے بھی بامقصد اور مفید بحث کی گئی ہے۔
پانچویں باب میں اقبال کے تصورِ حقیقتِ مطلق کا مطالعہ دور حاضر کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ سائنس کی دریافت کہ کائنات کچھ خاص قوانینِ فطرت کے تابع ہے سے یہ سوچ جنم لینے لگی کہ علت و معلول کے اس سلسلے میں کسی خالق، قیوم یا ناظم کی ضرورت نہیں۔ نتیجتاً سائنسی مادیت (کہ کائنات سراسر ایک مادی وجود ہے) نے کئی لوگوں کو مابعد الطبیعات اور وجودِ خدا کے حوالے سے تشکیک میں مبتلا کر کے الحاد اور لا ادریت کے دروازے بھی کھولے ہیں۔
کانٹ کے ما بعد الطبیعات کے انکار، ہیکل اور نطشے کے انکارِ وجودِ خدا، آگست کامٹے کی منطقی ثبوتیت( Logical Positivism)، جولین ہکسلے کا بیان کہ مذہب انسان اور ماحول کے درمیان ایک خاص طرح کے تعامل کی پیداوار ہے، فرائڈ کا یہ کہنا کہ وحی و الہام محض لاشعور میں بچپن سے دبے ہوئے خیالات کا ایک غیر معمولی اظہار ہیں اور نیوٹن کے قانونِ تجاذب اور ڈارون کے قانونِ فطرت کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ کائناتی نظام کو کسی خدائی مفروضہ کی ضرورت نہیں، لہذا دور حاضر میں تصورِ حقیقتِ مطلق کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ اقبال نے یہ چیلنج قبول کر کے بلاشبہ ایک عظیم مفکر، فلسفی اور جدید علم الکلام کے بانی ہونے کا ثبوت دیا۔ آپ نے سائنس کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعات اور روحانی تجربات کی اہمیت پر دلائل دیتے ہوئے حقیقت کے کلی مشاہدہ پر زور دیا۔ گویا کہ آپ نے وجدان اور صوفیانہ شعور کو لا ادریت کا توڑ بتایا۔ اور اسلامی تصوف کی وقعت کا دفاع کیا۔
اقبال کے نزدیک آئن سٹائن کا نظریہء اضافت نیوٹن کے خلائے مطلق کے نظریہ اور مادیت کے روایتی تصورات کو لایعنی ثابت کر دیتا ہے۔ مکان ایک حقیقت ہے مگر کائنات کا مشاہدہ کرنے والے کے نزدیک اضافی ہے۔ قدیم طبیعیات کے نظریہ کے مطابق خود مختار مادہ نام کی کوئی شے موجود نہیں۔
معروف سائنس دان اور اقبال شناس ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں کہ نظریہ ء اضافیت اور کوانٹم تھیوری نے ثابت کر دیا ہے کہ کائنات کی ہر شے میں دوئی پائی جاتی ہے(Duality)۔ ایک ہی شے کبھی ذرے particle کے خواص کا اظہار کرتی ہے تو کبھی موج wave کے۔ مادہ اور توانائی میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ مادے کو توانائی اور توانائی کو مادے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ استدلال کہ ایک غیر مادی خالق مادی اشیاء کو کس طرح پیدا کر سکتا ہے، اب باقی نہیں رہا۔
اقبال کے نزدیک مذہب کا دائرہ سائنس اور فلسفے، دونوں سے وسیع تر اور بلند تر ہے۔ صوفیانہ مشاہدہ حقیقت کے کلی ادراک کے لیے ناگزیر ہے۔ البتہ آپ غیر اسلامی، فرسودہ اور مردہ تصوف سے نالاں تھے کہ جو عقل و فکر اور تجربی علوم کی اہمیت کا یکسر انکاری ہے۔ آپ نے ہمیشہ ذرائع علم کی جامعیت پر زور دیا۔ آپ کے نزدیک فطرت کا سائنسی مشاہدہ کرنے والا بھی ایک طرح کا صوفی ہے جو دعا میں مشغول ہے۔ مذہب اور سائنس کی منزلِ مقصُود ایک ہی ہے یعنی حقیقتِ مطلق تک رسائی۔ اقبال نے استدلال کیا کہ مذہب نہ صرف ممکن ہے بلکہ موجودہ دنیا کے لیے ازحد ضروری بھی ہے کہ یہی حتمی طور پر حقیقت یابی کا سنجیدہ ذریعہ ہے۔
آخر میں حاصلِ مطالعہ کے عنوان کے تحت اس وقیع تحقیق کے نتائج اربابِ نقد و نظر کے سامنے رکھے گئے ہیں کہ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
اقبال اپنے فکری ارتقا سے 'حُسنِ ازل' سے 'ابدی عزم' کے نظریہ تک پہنچے اور اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی روشنی میں تمام عصری تصورات کو قبول و رد کرتے ہوئے بالآخر اسلامی وحدت الوجود کی دریافت میں کامیاب ہوئے کہ جس میں خدا کائنات میں جاری و ساری ہے مگر حلول و اتحاد اور انسانی خودی کی انائے مطلق میں فنا (مکمل سریانیت) ممکن نہیں۔ خدا عالم میں ہے اور اس سے ماورا بھی مگر ماورائیت ایسی نہیں کہ وہ تخلیقِ عالم کے بعد محض ایک تماشائی بن گیا ہو۔ وہ ہمارے تجربے کی دنیا سے بالکل الگ اور لاتعلق نہیں۔ عرفان الٰہی کا وسیلہ وجدان اور عبادت ہے۔ عقل و فکر کی سیڑھی سے وجدان خانے تک رسائی ممکن ہے۔
مادہ اور زمان و مکان خدا سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتے۔ یہ خدا کی تخلیقی توانائی کے مظاہر ہیں۔ ہمارا یہ ریاضاتی مکان بھی ایک معروضی حقیقت نہیں۔ وہ زمان کو ایسی آن قرار دیتے ہیں جو ماضی، حال اور مستقبل سے آزاد ایک برتر آن ہے۔ زمانِ ایزدی و مکانِ الہی کی تفہیم لازم ہے۔
اقبال کے نزدیک اللّہ تعالیٰ ہی فردِ کامل جو لامحدود ہے کہ اس پر ہمارے یہ خارجی زمان و مکاں جو کہ اضافی ہیں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ذاتِ باری کے باہر کچھ ایسا ہے ہی نہیں جو اسے محدود کر دے۔
اقبال کے نزدیک زمانے کا ہی دوسرا نام تقدیر ہے کہ جو پہلے سے کھنچا ہوا خط نہیں بلکہ یہ تو کھینچا جا رہا ہے۔
مشیتِ ایزدی نے انسان کو عمل کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر اگرچہ باہم متضاد و متصادم ہیں تاہم ایک ہی کَل ہیں اور بالآخر نیکی بدی پر فتح پا لے گی۔
اقبال کا صفات و الہی اور توحید کے حوالے سے بھی نقطہ نظر عین اسلام کے مطابق ہے۔
الغرض اقبال کے تصورِ حقیقتِ مطلق کا پس منظر اور پیش منظر از اول تا آخر اسلامی ہے اور اس کے سوتے قرآن و حدیث، اسلامی فلسفیانہ روایت اور اسلامی تصوف سے پھوٹتے ہیں۔ یہ تصور مغربی فلاسفہ سے مستعار نہیں بلکہ قرآن و سنت سے مستنیر ہے۔ یہی اس تحقیق کا حاصل ہے۔
اس طویل بحث و تبصرہ کے بعد ذاتِ باری تعالیٰ کی تفہیم کے باب میں اپنی اتھاہ عاجزی کے اظہار کے لیے قرآن کی یہ آیت پیش کروں گا کہ
سبحان ربک رب العزت عمّا یصفون
اور آخر میں اس عظیم الشان تحقیق کے مطالعہ کے دوران اپنے ذہن و دل میں میں آنے والے دو نکات اشعار کی صورت میں پیش کر کے اجازت چاہوں گا کہ
خُدا لم یزل ہے، جہاں کو فنا ہے
جہاں کو وجودِ خدا کیسے کہہ دوں
اور
اصل تیری مختلف ہے عکس سے
جس طرح سورج سے ہیں کرنیں جدا
احقر العباد – احمد نواز