شاعری محض لفظوں کو سلیقے سے برتنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں نادیدہ جذبات و احساسات کی پیش کش بھی ہوتی ہے ۔شاعر محض ایک نقال نہیں ہوتاکہ وہ مصور کی طرح چیزوں اور مناظر کو ہو بہو پیش کردے بلکہ وہ دیکھی ہو ئی چیزوں میں اپنے جذبات و احساسات کو شامل کر کے اسے نئی معنویت عطا کرتا ہے ۔گویا فقط فن ِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں شاعری کا اہم ترین جزو ہیں،بہترین شاعری بہترین خیالات و افکار کی عکاسی کرتی ہے ،باکمال شاعر حالات و واقعات کا عکاس ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر منور ہاشمی کی شاعری بھی عصر حاضر کے حالات و واقعات میں ڈھلے جذبات کی ترجمان ہے اور اُس معاشرے اور ماحول کی عکاس ہے جس سے براہ ِراست و ہ نبر د آزما ہیں۔آپ کے اشعار ایسے ہی معانی کے حامل ہیںــ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہیـ‘‘ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب شدید جذبات عظیم خیالات کے سائے میں پر تاثیر زبان کی مدد سے وجود میں آتے ہیں تو معتبر شاعری ظہور میں آتی ہے ۔ڈاکٹر منور ہاشمی کے ادبی شہ پاروں کو فطری اور طبعی قوانین ،انسانی سیرت و کردار کی عظمت کے اصولوں ،حکمت و دانش سے بھرپور فلسفیانہ اور نفسیاتی حقیقتوں اور صداقتوں کے زیر اثر جانچیں تو یہ امر اظہر من الشمس ہو جاتا ہے کہ آپ کا شہ پارہ ایسی عظمت سے ہم کنار ہے جو ارفعیت (sublimity)سے مالا مال ہے۔کیوں کہ آپ کے نزدیک عظمت ِ خیال ،شدید اور قوی جذباتی تاثر اور پر وقار زبان ارفعیت کے بنیادی منابع ہیں۔آپ اپنے جذبات کی پیش کش میں اتنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ذاتی جذبات کو آفاقی قدروں کے ساتھ ملا کر اُسے ارفع و اعلیٰ بنا دیتے ہیں اور ایک عظیم شاعر کا کمال بھی یہی ہوتا ہے۔۔۔۔
مشکل زمینوں میں آسان غزل کہنا، آسان زمینوں میں مشکل غزل کا نمودار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔یہ تو شاعرکے مزاج کا بانکپن ہے ۔وہ حیران کرنا چاہتا ہے ،چونکانے پر اکتفا کرتا ہے یا پھر سنجیدگی اور انہماک سے کائنات میں پھیلے ہوئے اسرار و رموز کی پر اسراریت کو واضح کرتا ہوا، تجربوں ،مشاہدوں کی شدت کے ساتھ حکمت و دانش کی سطح پر تخلیقی ماورائی لہروں کی دھنک کو شاعرانہ خوش سلیقگی کاحصہ بناتا ہے۔یہ اظہار ِ فن کی کرشمہ سازی کا آئینہ ہے جس میں ابھرنے والے عکس کو تصویر کرنا آسان نہیں۔یہ آسانی میسر آجائے تو شاعری کا ایک نیا جہان وجود میں آتا ہے جہاں شاعر کی انفرادیت کا جادو سر چڑ ھ کر بولتا ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر منور ہاشمی ایک خوبصورت اور ذہین شاعر ہیں۔اُسے عکس کو تصویر کرنا آگیا ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس نے آواز کی تصویر کشی کا ہنر بھی سیکھ لیا ہے اور اب تو وہ دھیان کی چہرہ شناسی کے عمل سے گزر رہا ہے۔اس نے بہت سے نئے اور خوبصورت اشعار کے چراغ غزل کی منڈیروں پر رکھ دئیے ہیں جس سے ہماری شاعری کا آنگن جگمگا رہا ہے۔ڈاکٹر منور ہاشمی کے اشعار پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ عصری سچائیوں کو بھی شعری پیرائے میں بیان کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے ۔
سب دشمنوں کو دوست بنانے کے واسطے
لازم ہے سب منافقوں کو مسترد کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کی تاراجیوں کا جشن ہے برپاکہاں
بانٹتا پھرتا ہے ہر کوئی بتاشے دشت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتوں میں بھی لازم ہے اعتدال کا رنگ
خلوص حد سے بڑھا جب تو لوگ ڈر بھی گئے
’’سوچ کا صحرا‘‘ڈاکٹر منورہاشمی کے تخلیقی عمل کا شاہکار ہے ۔ان کی شاعری میں خوابوں کا لامتناہی سلسلہ موجود ہے اور یہ کیفیت اس کے غزلیہ کلام میں موجود ہے ۔ڈاکٹر منور ہاشمی کے دوسرے شعری مجموعہ ’’ کرب آگہی ‘‘میں بلند پروازی اور تخلیقی سچائی کا بھرپور عکس ملتا ہے ۔ڈاکٹر منور ہاشمی کے ہاں ایک سلیقہ ٹھہراؤ اور جدت کی کوشش نمایاں ہے ۔ان کے ہاں کسی بھی جذبے یا مشاہدے کو غورو فکر کی بھٹی میں اچھی طرح پکا کر موزوں وقت پر سپرد قرطاس کرنے کا عمل واضح دکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر منور ہاشمی کے ہاں ایک جذباتی وفور موجود ہے جو بلاشبہ شاعر کا زاد سفر ہوا کرتا ہے،یہ منفرد اور دلکش بھی ہے اور ہماری تہذیب اور روایت سے مضبوطی سے جڑا ہو ا بھی ہے۔ان کی شاعری میں نعرہ بازی کا نشاں تک نہیں ۔
’’بے ساختہ‘‘ کی شاعری سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ڈاکٹر منور ہاشمی نے اپنی روح کی سرگوشی کو سن لیا ہے۔اور وہ روح ،جسم اور کائنات کے باہمی ربط کی کھوج میں مصروف ہوں ۔’’نیند پوری نہ ہوئی ــ‘‘ شاعر موصوف نے غزل کے فن اور ہیئت کے اصول و قوانین نہ صرف نبھائے ہیں بلکہ ان کی غزلوں میں بھرپور شعریت ،ہم آہنگی اور بلند خیالی بھی موجود ہے ۔شاعر کی جدت پسندی ہر شعر،ہر لفظ کے ساتھ ساتھ گویا چھلکتی ہے۔بقول افتخار عارف:
’’غزل کہنے والوں کی بھیڑ میں کم چہرے ایسے ہیں جو پہچان میں
آتے ہیں اور وہ تو بہت ہی کم ہیں جو اس کی گزراں منظر میں اپنے
لیے کوئی مستقل جگہ بنا پاتے ہیں ۔منور ہاشمی کی شاعری میں اس
کی جذباتی زندگی کے ساتھ ساتھ عصری شعور کی جھلک قدم بہ قدم
چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ۔۔۔‘‘
ـ’’لوح بھی تو قلم بھی تو‘‘میں ڈاکٹر منور ہاشمی کانعتیہ کلام شامل ہے جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہیں ۔آپ کا شمار اُن نعت گو شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے نعت کو بحسن و خوبی اصلاح حال کے لیے استعمال کیاہے۔
ڈاکٹر منور ہاشمی خوش اخلاق ،خوش باش، ملنسار ،شفیق اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔محنت ،جفاکشی اور بلند حوصلگی آپ کی شخصیت کے نمایاں ترین پہلو ہیں۔چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ مشق سخن جاری رکھے ہوئے ہیں انتہائی دھیمے مزاج کے حامل ہیں ۔وہ دھیما مزاج جو فیض کی شخصیت کا خاصہ تھا ، یہی وجہ ہے کہ ہرکوئی آپ سے عزت آمیز محبت کرتا ہے۔
ڈاکٹر منور ہاشمی کے شعری موضوعات کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ ’’عشق حقیقی ،حب رسولﷺ، عشق مجازی،غم جاناں، غم دوراں ، اُمید پسندی اور رجائیت ،حسن محبوب،جمالیاتی پہلو، شعریت و ادبیت ،لہجے کا دھیما پن،تصور ِ انسان ،بے باکانہ انداز،حالات کی عکاسی،موسیقیت اور غنائیت،بھوک اور افلاس ،امن وآشتی کی خواہش،استحصالی قوتوں کے خلاف جنگ،رنج و الم کا بیان،حب و طن،ایما ئیت،سچے جذبات کی ترجمانی،اجتماعی شعور،زندگی میں جدوجہد،انسانی زندگی کی ترجمانی،آفاقیت ،حقیقت نگاری ،شکایت زمانہ، یاد ِ ماضی ،نیرنگی خیال،بے ساختگی ،فلسفہ زندگی،مشاہدہ ،لفظی تصویر،مشیت ایزدی،معاشرتی جبر اور گھٹن،روایت اور جدت کا متزاج ‘۔۔۔۔‘‘جیسے موضوعات آپ کی شاعری کااحاطہ کرتے ہیں۔
آپ کی شاعری ایک طرف جذبات کی فراوانی کے باوصف متانت ،سنجیدگی اور معانی آفریں کی مانند ہے تو دوسری طرف آپ کی شخصیت کا پر تو بھی ہے۔انتخاب ِ الفاظ ،تراکیب ،تشبیہات و استعارات میں اکثر جدت و خوش آہنگی کے ساتھ ساتھ واضح معنویت بھی موجود ہے ۔
چشم آہو اور ہے اس کی کہانی اور ہے
جس میں رہتا ہوں چشم ِ آسمانی اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر جا کے منورؔ ہمیں احساس ہوا
ہم اسے کہتے رہے رشک ِ قمر ایسے ہی
ڈاکٹر منور ہاشمی نے اپنے اسلوب سے شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی ۔انہوں نے پامال زمینوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ سادہ انداز میں ایسی گہری باتیں کہیں ہیں کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔انہوں نے اپنے اشعار میں دریا کو کوزے میں بندکیا ہے۔یہی ایک اچھے شاعر کی خوبی ہے اور ڈاکٹر منور ہاشمی اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔