مسکراتا ہوا چہرہ ، کشادہ پیشانی، کھلتا ہوا رنگ ، اپنی ذہانت ،فطانت، فراست اور لیاقت کا اعلان کرتی ہوئی بڑی بڑی چمک دار آنکھیں ۔ قد آور ، خوش مزاج اور خوش گفتار، خوش اخلاق، کم گو ، معصوم ، شریف النفس، مہذب ،اعلیٰ تعلیم یافته ، نیک سیرت، نیک صفت، خدا ترس، ادیب، محقق ، نقاد اور مبصر ۔
یہ شخصیت کسی اور کی نہیں ‘ اردو زبان وادب کے ایک محقق ڈاکٹر محمّد نواز کنول کی ہے ۔
ہر پل کچھ نیا کرنے کی لگن ۔ سوچ سمندر ذہین۔ حرف و لفظ کے پارکھ ، پرشکوہ پوشاک ، بارعب سراپا ، ہر نفس معاون و مددگار، آنکھوں میں چمک، چہرے پہ شفق، ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ۔۔۔۔۔۔۔ان کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے ۔
وضع داری، انکساری، خوش سلیقگی، خوش لباسی ، نرم و مترنم لہجہ، خلوص اور محبوبیت کے خمیر کو اگر نرگیسیت کے شبنمی آنسو میں گوندھنے کے بعد خودپسندی کی نرم دھوپ میں سکھا کر انسانیت کا کوئی پیکر تیار کیا جائے تو آپ بلا جھجک ڈاکٹر نواز کنول کو یاد کر سکتے ہیں ۔جس طرح کنول کا پھول کئی بیماریوں کے لیے فائدہ مند ہے اسی طرح کچھ لوگ اپنے خواص کے لحاظ سے دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں تقسیم کرنے کا سوچتے رہتے ہیں ۔۔کنول کا پھول اپنی بے شمار خوبیوں کی وجہ سے بڑا پرکشش اور دیدہ زیب ہوتا ہے ، اسی طرح اردو ادب کا کنول بھی اپنی خوشبوؤں سے ادب کو معطر کرتا چلا جا رہا ہے ۔
کنول کی خوشبو بے خوابی کے مرض کو دور کرتی ہے۔ کنول کے پھول کا شربت فرحت بخش ہوتا ہے اور بخار میں پیاس گھٹانے میں مدگار ثابت ہوتا ہے۔ کنول جڑ ایک بہت قوت بخش غذا ہے۔اسی طرح اردو ادب کا کنول بھی اپنی تصوف بھری تحریروں اور پیر جلال الدین رومی کے روحانی فیض سے ادب کے سنگلاخ میدانوں کو معطر کرنے کی تمام تر کوششیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔چودہ پندرہ برس کی عمر میں ان کی نثری نگارشات رسائل کی زینت بننے لگی تھیں ۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول عصر حاضر کے بہترین محقق اور نقاد ہیں ۔شاعری اور نثرنگاری سے خاص شغف رکھتے ہیں۔کئی ادبی ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں ۔ محمد نواز کنول پاکستان کے مردم خیز خطے سرگودھا کے ایک گاؤں معظم آباد میں 4/ جنوری 1971ء کو مہر محمد ریاض کے ہاں پیدا ہوئے۔۔ان کے والد پہلے پاکستان آرمی میں خدمات سرانجام دیتے رہے بعد ازاں کاشتکاری کو بطور پیشہ اپنا لیا ۔
محمد نواز کنول کے دادا مہر سلطان احمد سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے ۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول واسوآنہ ضلع جھنگ میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ مڈل سکول دودہ ضلع سرگودھا سے چھٹی ساتویں کے امتحان پاس کیے۔ہشتم کلاس کے دوران گورنمنٹ ہائی سکول
بھاگٹانوالا ضلع سرگودھا میں داخلہ لے لیا اور اسی سکول سے مڈل اور میٹرک کے امتحان پاس کیے۔۔
بعد ازاں جب اس سکول کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا گیا تو اسی ادارے سے ایف اے کی سند حاصل کی ۔بی اے پنجاب یونیورسٹی اور ایم اے اردو کی ڈگری اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے حاصل کی ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام اباد سے ایم فل اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ایم فل میں ان کے مقالے کا موضوع “عبدالعزیز خالد کی غزل گوئی” تھا ۔ایم فل اردو کے بعد محمد نواز کنول نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں پی ایچ ڈی اردو کی کلاس میں داخلہ لے لیا ۔یہاں انہوں نے شاعر ہفت زبان “عبدالعزیز خالد کی ادبی خدمات” پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈاکٹر محمد آصف اعوان کی زیر نگرانی لکھ کر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔
انہوں نے بطور لیکچرر اردو 1996ء میں گورنمنٹ اسلامیہ گریجوایٹ کالج سانگلہ ہل جوائن کیا
2010 تا حال صدر شعبہ اردو اور سنگلہ ہل کےگورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج کے مجلہ “لب جو” کے چیف ایڈیٹر اور
اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔
ان کا نثر نگاری کے ان میدان میں قلم بے تکان دوڑتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق ،تنقید،تراجم،احوال و آثار ،خالدیات،اقبالیات،رومیات
ادارت: مدیر اعلیٰ تحقیقی و تخلیقی ادبی مجلہ “لب جو”
تصانیف، ایوارڈز اور اعزازات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 عبد العزیز خالد احوال و آثار
2 عبد العزیز خالد کی غزل گوئی
3 عبد العزیز خالد کی مذہبی شاعری
4 عبد العزیز خالد کی نظم نگاری
5 عبد العزیز خالد بطور مترجم
6۔ فرہنگ کلام عبد العزیز خالد
7 دانہ ہائے ریختہ (انتخاب کلام عبد العزیز خالد سادہ گوئی کے حوالے سے)
8 اقبال بنام عطیہ فیضی
9 پریم پنتھ (عبد العزیز خالد کا پنجابی کلام)
10 اردو ناول میں مذہبی عناصر اور بانو قدسیہ
11 تصوّف اور مطالعہ تصوف
12 گلستان رومی
13 بوستان رومی
14 مولانا جلال الدین رومی ایک مطالعہ
15 رومی اور اقبال میں فکری روابط
16 تحقیقی و تنقیدی جائزے
17 شعری اصناف تعارف و تفہیم
دو درجن سے زائد مختلف رسائل و جرائد میں تحقیقی مضامین شایع ہو چکے ہیں
ان پہ ہونے والے تحقیقی کام کا اجمالی جائزہ
__________
1- ڈاکٹر محمد نواز کنول کی علمی وادارتی خدمات بحوالہ مجلہ لب جو (مقالہ برائے ایم اے اردو)
2- ڈاکٹر محمد نواز کنول بحیثیت محقق (مقالہ برائے ایم فل اردو)
3- ڈاکٹر محمد نواز کنول کی رومی شناسی (مقالہ برائے ایم فل اردو)
4- ڈاکٹر محمد نواز کنول بطور اقبال شناس (مقالہ برائے ایم فل اردو)
5- عبد العزیز خالد کی غزل گوئی از ڈاکٹر نواز کنول تجزیاتی مطالعہ (مقالہ برائے بی ایس اردو
6- عبد العزیز خالد کی نظم نگاری از ڈاکٹر نواز کنول تجزیاتی مطالعہ (مقالہ برائے بی ایس اردو)
ہنوز ایم فل اردو اور بی۔ایس اردو کے دو تحقیقی مقالات لکھوائے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول بہت خوددار اور درویش صفت انسان ہیں ۔ان کو تصوف سے خاص لگاؤ ہے ۔ان کی کتاب “تصوف اور مطالعہ تصوف” اپنی مثال آپ ہے ۔ان کی تصانیف گلستان رومی ، بوستان رومی ” مولانا جلال الدین رومی کے افکار پر مشتمل ہیں ۔یہ کتاب متلاشیان راہ حقیقت و معرفت کے لیے رشد و ہدایت کا باعث ہیں ۔یہ کتابیں ادب نوازی اور ذولسانی مطالعہ کی دلیل ہے ۔”مولانا جلال الدین رومی ایک مطالعہ” رومی شناسی کے میدان میں بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ڈاکٹر محمد نواز کنول نہایت ہی صاف دل انسان ہیں ۔ان کے دل میں سب کے لیے خیر سگالی کا جذبہ ہے ۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول زندہ دل انسان ہیں ۔ان کی باتوں سے پھول کھلتے ہیں ۔وہ خوبصورت انداز میں باتیں کرنے والی شخصیت ہیں ۔ہلکی ہلکی مسکراہٹ ہمیشہ ان کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے ۔ان کی گفتگو نہایت دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہوتی ہے ۔ہلکی ہلکی سنجیدگی کے ساتھ مزاح کی چاشنی بھی ان کی گفتگو کا خاصا ہے۔آواز میں مٹھاس ہے ۔اندرون ملک کئی سیمینار میں شرکت کر چکے ہیں ۔اکثر تقاریب میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔۔
وہ نثر و نظم سے دلچسپی رکھنے والے ادیب ہیں ۔تاہم ان کا نثری سرمایہ زیادہ ہے ۔وہ ایک ایسے فنکار ہیں جو شب و روز فکر سخن میں محو رہتے ہیں۔ان کے تحقیقی مقالات معروف تحقیقی اور تخلیقی ادبی رسائل الحمد ، ادراک زبان و ادب ، تحقیق نامہ، سیماب الحمرہ ، لب جو وغیرہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی تالیفات ان کی علمیت ، شخصیت اور ان کے علمی و ادبی ذوق کی دلالت کرتی ہیں ۔
1- گلستان رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا رومی کے حوالے سے ان کی کتاب گلستان رومی 2011ء میں منصہ شہود پر ائی ۔۔مولانا جلال الدین رومی کی شاہکار مثنوی معنوی لحاظ سے تین دفاتر پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب معرفت اور حکمت کے اسرار و رموز سے بھرپور ہیں ۔اس کتاب کی تقریظ ڈاکٹر خضر نوشاہی نے لکھی ہے ۔وہ ڈاکٹر محمد نواز کنول کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
“عہد حاضر میں ایک صاحب دل صاحب فکر اور صاحب علم نے مثنوی شریف کے بحر عمیق میں غواصی کی اور گوہر ہائے تابدار نکال کر اہل فکر و فن کے حضور پیش کر دیے۔وہ نوجوان قابل رشک اور لائق تحسین ہے۔جس نے اس پرفتن دور میں جب ہر طرف وحشت و بربریت ہے اور دین اسلام کی نئی تعبیر و تشریح میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی فکر نے نوح انسانی اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ۔اس سلگتے ہوئے ماحول میں اپنی فکر کا رخ اہل اللہ کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔وہ ہے سانگلہ ہل ڈگری کالج میں اردو کا استاد “پروفیسر نواز کنول”جس نے مثنوی کے بحر ذخائر میں غوطہ زن ہو کر راہ حق کے مسافروں کے لیے مولانا روم کی فکر سے خوشہ چینی کی اور اس سے کتابی صورت میں مرتب کر کے علمی دنیا میں
خوبصورت اضافہ کیا ہے۔”
2- عبدالعزیز خالد احوال و اثار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب اظہار سنز پبلشرز لاہور سے 2015 میں شائع ہوئی۔۔یہ کتاب عبدالعزیز خالد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے خالد شناسی کے میدان میں بنیادی حوالہ ہے ۔پروفیسر حسن عسکری عبدالعزیز خالد کے احوال و آثار (غزل گوئی اور زبان دانی) کے حوالے سے ڈاکٹر محمد نواز کنول کے بارے میں لکھتے ہیں
“ڈاکٹر محمد نواز کنول نے عبدالعزیز خالد کے احوال و اثار کے حوالے سے خالد شناسی کا باب کھولا اور زندگی بھر کے واقعات کو معتبر انداز میں بیان کر کے ادب نوازی کا حق ادا کیا ہے ۔”
عبدالعزیز خالد کو ہفت زبانی شاعر کہا جاتا ہے اسی وجہ سے ان کی شاعری عام فہم نہیں تھی بل کہ آن کی پہچان ایک مشکل پسند شاعر کے طور پر تھی.۔ ڈاکٹر نواز کنول نے فرہنگ کلام عبدالعزیز خالد مرتب کر کے اب سب کچھ آسان کر دیا ہے. ڈاکٹر نواز نے عبدالعزیز خالد کی ادبی خدمات پر مقالہ قلم بند کر کے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. لیکن اس دوران اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنے موضوع کے ضمنی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا. بلا شبہ عبدالعزیز خالد کے حوالے سے ڈاکٹر نواز کنول اب اتھارٹی بن چکے ہیں.
ڈاکٹر محمد نواز کنول کے تحقیقی کام کو علمی و ادبی اور تحقیقی حلقوں میں بہت تیزیرائی ملی ۔اس حوالے سے پروفیسر حسن عسکری یوں رقم طراز ہیں ۔
“بحیثیت محقق ڈاکٹر محمد نواز کنول نے عبدالعزیز خالد کی زندگی کے بیشتر قابل ذکر واقعات کا احاطہ کیا ہے ۔حالانکہ وہ صوبائی مرکز سے دور سانگلہ ہل ننکانہ صاحب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج کے شعبہ اردو کے استاد ہیں ۔وہاں انہوں نے اردو ادب کی بھاری بھرکم اور علوم و فنون میں نابغہ روزگار شخصیت کے لازوال کارناموں کو سراحت سے بیان کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔یہ کار ہنر وہ ہے جسے انجام دینے کی ضرورت تھی مگر دوسروں نے اس پتھر کو چوم کر رکھا اور بعض تنگ نظر اور خود پرست ہم سر قلم کار ایسے تھے جو عبدالعزیز خالد کی المیت سے مرعوب تھے لیکن اپنی کم نظری کے باعث ایک جملہ اچھالتے رہے کہ عبدالعزیز خالد۔۔۔ اردو زبان کا والد”
3عبدالعزیز خالد بطور مترجم –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب بھی اظہار سنز پبلشر سے 2015 میں شائع ہوئی ۔اس میں منظوم تمثیلات اور نثری سرمائے کو اردو ترجمے میں ڈھالا گیا ہے ۔
4-عبدالعزیز خالد کی مذہبی شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ تصنیف بھی اظہار سنز پبلشر سے 2015 میں منظر عام پر ائی ۔اس میں نعت اور مناقب کے حوالے سے عبدالعزیز خالد کی شاعری پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔
5-عبدالعزیز خالد کی غزل گوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب اظہار سنز پبلشر سے 2015 میں منظر یہاں پر آئی ۔اس کتاب کے حوالے سے پروفیسر حسن عسکری رقم طراز ہیں ۔
*عبدالعزیز خالد کی غزل گوئی پر ڈاکٹر محمد نواز کنول کا تنقیدی اسلوب ان کے تصور عشق اور شعری صداقت کے حسین امتزاج کا ائینہ ہے،”
6-بوستان رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب “بوستان رومی “مثال پبلشرز فیصل اباد سے 2015 میں شائع ہوئی ۔یہ کتاب مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی معنوی کے اسرار حقیقت وامورفت اور رموز فخر کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے ۔اس کی تقریر ڈاکٹر خضر نوشاہی نے تحریر کی ہے ۔اس حوالے سے وہ رقم طراز ہیں ۔
“ہمارے فاضل نوجوان نے ہمت کر کے پیر رومی کی شمع کو روشن کر کے ظلمت کدہ میں اجالے کی امید پیدا کر دی ہے ۔یہ ہے عہد حاضر کے ایک انتہائی حساس طبیعت جواں عزم نوجوان ڈاکٹر محمد نواز کنول جو ایک عرصہ سے تعلیم و تعلم کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔سانگلہ ہل ڈگری کالج میں اردو کے استاد ہیں اور حال ہی میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔انہوں نے افکار رومی کے بحر بہ کنار میں غوطہ لگا کر اس کی گہرائی سے چند جواہر نکالے ہیں جو دور حاضر کے پریشان حال صاحبان علم و دانش کی فکری رہنمائی کے لیے انمول تحفہ ہیں ”
7مولانا جلال الدین رومی ایک مطالعہ –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب مولانا جلال الدین رومی کی حیات و افکار کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔یہ کتاب خوشی محمد پبلشرز لاہور سے 2016 میں شائع ہوئی ۔
8- تصوف اور مطالعہ تصوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کا تعلق چونکہ سلسلہ چشتیہ نظامیہ سے ہے ،اس لیے تصوف ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔یہ کتاب بھی خوشی محمد پبلشرز لاہور سے 2017 میں شائع ہوئی ۔اس کتاب کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے ۔۔تصوف اور صوفیاء کرام بزرگان دین سلسلہ تصوف، پیران عظام جن میں محبوب سبحانی حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی ،امام الاولیاء حضرت عثمان ہارونی ،سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز محمد معین الدین چشتی اجمیری ،سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ،حضرت شاہ رکن عالم ، حضرت سیدنا علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری ،حضرت حاجی نوشہ گنج بخش ،حضرت مجدد الف ثانی ،شامل ہیں ۔وحدت الوجود اور تحریک پاکستان میں مشائخ چشت اور مشائخ نقش ہند کے کردار کے حوالے سے مباحث موجود ہیں ۔
9اردو ناول میں مذہبی عناصر اور بانو قدسیہ –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد سے 2018 میں شائع ہوئی ۔اس میں بانو قدسیہ کے ناولوں میں مذہب بطور زندگی اور مذہبی عناصر پر عمومی مباحث ہیں ۔
10-تحقیق و تنقیدی جائز ے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنول کی یہ تحقیق کی و تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب مثال پبلشر سے 2018 میں شائع ہوئی ۔اس کتاب میں تنقید ، تحقیق ، تخلیق مغربی اور مشرقی نقادوں کے حوالے سے تنقیدی نظریات پر بحث کی گئی ہے ۔ڈاکٹر محمد آصف اعوان اس کتاب کے حوالے سے فلیپ پر یوں رقم طراز ہیں ۔
“ڈاکٹر محمد نواز کنول عصر حاضر کے ابھرتے ہوئے نقاد اور محقق ہیں ۔تحقیقی و تنقیدی جائزے ڈاکٹر نواز کی تازہ مضامین کا مجموعہ ہے ۔یہ مضامین اپنے موضوعات کے حوالے سے تنوع رکھتے ہیں ۔ان مضامین میں یہاں مغربی ناقدین کے تنقیدی نظریات کا عمیق مطالعہ ملتا ہے وہاں اردو تنقید کے نمائندہ اور رجحان ساز ناقدین کے تصورات کا محققانہ اور ناقدانہ تجزیہ بھی موجود ہے۔”
11-اقبال بہ نام عطیہ فیضی –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نواز کنول کی یہ کتاب اقبال کے عطیہ بیگم کے نام خطوط کے تراجم ہیں ۔جنہیں عبدالعزیز خالد نے 1975 میں کتابی صورت دی تھی ۔اب اس ناپید ہوتی ہوئی کتاب کو دوبارہ ڈاکٹر نواز کنول نے بے اہتمام دیباچہ حواشی اور اشاریہ کے اظہار سنز پبلشر لاہور سے 2019 میں شائع کروایا ۔۔
ڈاکٹر محمد نواز کنون کا فنی وفکری سفر ہنوز جاری ہے ۔ادبی حلقوں میں ان کے تحقیقی کام کو سرایا جا رہا ہے ۔وہ سانگلہ ہل ضلع ننکانہ صاحب کی ادبی روایات کا ایک معتبر حوالہ ہیں ۔
پروفیسر اسد سلیم شیخ ڈاکٹر نواز کنول کے بارے میں اپنی کتاب “پنجاب کا علمی و ادبی ورثہ” میں یوں رقم طراز ہیں ۔
“ادیب اور محقق ڈاکٹر نواز کنول کا تعلق سانگلہ ہل سے ہے ۔انہوں نے گلستان رومی ، بوستان رومی عبدالعزیز خالد احوال و آثار عبدالعزیز خالد کی مذہبی شاعری ، عبدالعزیز خالد بطور مترجم، مولانا جلال الدین رومی ایک مطالعہ اور تصوف اور مطالعہ تصوف لکھ کر اردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا ہے ۔
اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج سانگلہ ہل سے شائع ہونے والا تحقیقی تخلیقی ادبی مجلہ “لب جو” تحقیق کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔”لب جو” نے ادب کے فروغ کے لیے بہت عمدہ کردار ادا کیا ہے۔اس کے اغاز سے تا حال “لب جو” کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔جن سے ادب کا قاری تحقیقی میدان میں خوب استفادہ کر رہا ہے ۔اس طرح “لب جو” صرف ایک کالج میگزین ہی نہیں رہا بلکہ ایک مکمل ادبی اور تحقیقی دستاویز ہے ۔
“لب جو” کی تاریخ 54 سالوں پر محیط ہے ۔ اس صدی کے دوران “لب جو” نے صحافت اور ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں ۔مختلف پرنسپل صاحبان کے زیر نگرانی “لب جو” نے نہ صرف علمی حوالے سے ایک مقام پیدا کیا ہے بلکہ ادبی اور تحقیقی حوالوں سے شناخت قائم کر لی ہےاس کا آغاز پروفیسر سید خورشید حسین بخاری جیسی علمی شخصیت سے ہوا ۔ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے اس کی آبیاری کی ۔”لب جو” کے خاص شماروں میں سانگلہ ہل نمبر ، پاکستان گولڈن جوبلی نمبر ، سر سید نمبر ، وارث شاہ نمبر ،غالب نمبر ، قائد اعظم نمبر، اقبال نمبر ، ڈاکٹر آفتاب نقوی شہید نمبر ،سید خورشید بخاری نمبر، عبدالعزیز خالد نمبر ،تصوف نمبر اور مولانا جلال الدین رومی نمبر، غزل نمبر، نظم نمبر اور میر تقی میر نمبر شامل ہیں ۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج سانگلہ ہل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے صحافت علم اور ادب کے فروغ کے لیے “لب جو” ایسا ایک علمی ادبی تحقیقی مجلہ شائع کیا اگر ہم “لب جو” کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ “لب جو ” کا پہلا شمارہ 1969 میں منظر عام پر آیا۔
“لب جو” کے وارث غالب اور سر سید احمد خان نمبر
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجلہ “لب جو” میں وارث شاہ ،غالب اور سر سید احمد خان نمبر نے ادبی روایت کو مزید نکھارا ۔مثلا تین بڑے نابغہ روزگار ادبی اشخاص میں وارث شاہ ، غالب، سر سید احمد نمبر شائع کرنا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔
تصوف نمبر 2013
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“لب جو” 2013 خاص نمبروں کی روایت کا ایک اور سنگ میل عبور ہوا ۔ تصوف نمبر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے سابقہ خاص نمبروں نے “لب جو ” کے تحقیقی اور علمی کام کو شہرت دوام بخشی اس لیے تصوف کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا ۔
۔…………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...