ڈاکٹرمحمد افتخار شفیع کی تحقیقی اورتنقیدی جہات
پروفیسر افتخار شفیع کا شمار ہمارے زمانے میں نئی نسل کی ان ادبی شخصیات میں ہوتا ہے،جو ایک ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نئی سمتوں کا سراغ لانے والے نقاد بھی ہیں۔ان کی علمی،ادبی سرگرمیوں اور اشغال نے ایک معتبر تنوع کے متوازن صورت اختیار کر لی ہے۔انھوں نے مختصر عرصے میں اپنے تخلیقی اظہار کے ساتھ نثر نگاری میں بھی معتبر نام پیدا کیا ہے۔ان کے شعری اور نثری اظہار کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔افتخار شفیع آج کل ملک کی معروف تعلیمی درس گاہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں شعبہ اردو سے وابستہ ہیں اور تاحال یہیںعلمی و ادبی چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔(۱)
ان کی نثر قدیم و جدید کا سنگم ہے۔ ’’مطالعہ انسان اور فن خاکہ نگاری‘‘(۲) کا ہیولہ وہ یونان کی سرزمین سے لیتے ہیں اور آج کے جدید دور تک کے حوالے اس میں موجود ہیں۔اسی طرح ’’مولانا عظامی ہوشیار پوری‘‘ (۳) ایسا مضمون ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افتخار شفیع جہاں اردو کے قدیم ادب سے نسبت رکھتے ہیں وہاں فارسی زبان سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔ان کا ایک طویل مضمون ’’ارمغانِ حجاز فارسی۔چند نئے مباحث‘‘ (۴) بھی ان کی فارسی شناسی کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے۔
افتخار شفیع کی ادبی و علمی معرکہ آرائی ان مجموعوں کی صورت میں منظر عام پر آچکی ہے:
۱۔ پاکستانی ادب کا منظر نامہ مرتبہ؍تدوین (۲۰۰۶ء)
۲۔ آثارِ جنوں تحقیق و تدوین (۲۰۰۸ء)
۳۔ ڈاکٹر اسلم انصاری(شخصیت وفن) تحقیق و تنقید (۲۰۱۰ء)
۴۔ شہر غزل کے بعد(خاص نمبر صوت ہادی) تحقیق تدوین (۲۰۱۰ء)
۵۔ اصناف شاعری تحقیق و تنقید (۲۰۱۱ء)
۶۔ اردو ادب اور آزادی فلسطین تحقیق و تنقید (۲۰۱۱ء)
۷۔ اصنافِ نثر تحقیق و تنقید (۲۰۱۲ء)
۸۔ حفیظ الرحمن خان (فن و شخصیت) مرتبہ؍تدوین (۲۰۱۴ء)
۹۔ کلیات نثر مجید امجد مرتبہ؍تدوین (۲۰۱۶ء)
’’پاکستانی ادب کا منظر نامہ‘‘ حفیظ الرحمن کے مضامین کا مجموعہ ہے جس کو افتخار شفیع نے اپنے سیر حاصل مضمون کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
یہ افتخار شفیع کا تنقید و تحقیق کے ضمن میں پہلا قدم ہے۔ کسی کتاب کی تدوین و ترتیب اور اُس پر تنقید و تحقیق کے مراحل سے گزرنا ایک صاحبِ کمال شخصیت کے فنی و تکنیکی امور کی آگاہی کا غماز ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ ’’پاکستانی ادب کا منظر نامہ‘‘ میں افتخار شفیع نے حفیظ الرحمن کے مضامین کی ترتیب میں علمی و ادبی اور فنی مہارت سے کام لیا ہے اور اس پر مستزاد ان کا مقدمہ ’’تقدیم‘‘ ہے۔وہ ایک مصنف کی قدر و قیمت کا تعین ،محقق ،نقاد اور قاری کے رویے کے بارے میںلکھتے ہیں:
’’ایک مصنف اس وقت قابل قدر ہوتا ہے جب وہ کنواری زمین پر کاشت کرتا ہے اور جب وہ وجدانی طور پر ایسے علاقے کا انکشاف کرتا ہے جس میں منطق اور شماریات کا عمل دخل مشکل سے ہو۔ اِن حالات میں یہ جاننا کہ مصنف ٹھیک کہہ رہا ہے اوراس نے سچائی کی بنیادی اُمنگوں کو اساس میں منسلک کیا ہے کوئی آسان کام نہیں۔ شاید یہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب نقاد اور قاری کی آرا میں تصادم ہوتا ہے۔ نقاد تخلیق کار پر اپنے اپنے برانڈ کا لیبل لگا کر خود کو نمایاں کرتا ہے جبکہ عوام کی رائے مختلف ہوتی ہے۔‘‘(۵)
افتخار شفیع کے بارے میں ڈاکٹر وحیدعشرت لکھتے ہیں:
’’وہ مستقبل میں ایک اچھے نقاد بن کر سامنے آئیں گے۔ اُنہوں نے نہایت اختصار کے ساتھ بعض جدید موضوعات کو اپنے پیش لفظ میں متعارف کرایا ہے جس سے ان کی ادبی معاملات پر گہری نظر کی عکاسی ہوتی ہے پاکستانی ادب کو ایسے طاقتور نقادمل گئے تو پاکستانی ادب کی شناخت و پرداخت کا معاملہ سلجھنا کچھ دور کی بات نہیں۔ اس سے نہ صرف ہم اپنی جڑوں کا کھوج لگا سکیں گے بلکہ اپنی شناخت اور تشخص کی بھی حفاظت کر سکیں گے۔‘‘(۶)
تحریک پاکستان کے رہ نما سردار عبدالرب نشتر کے استاد شیخ عطا اللہ جنوںفارسی(۱۸۹۳ء۔۱۹۶۱ء)فارسی و اردو شاعری میں نمایاں مقام رکھتے تھے مگر گردش ایّام نے ان کے سرمایہ شاعری کو گم گشتہ بنا دیا۔۱۹۶۱ء میں شیخ جنوں کا انتقال ہوا اس کے چار سال بعد ضلعی انتظامیہ نے ان کی شاعری کو تلاش کرنے کے لیے پوری تگ و دو کی فارسی کی چند غزلیںتو ملیں مگر اُن کے اردو کلام کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔جو کام جنوں کی وفات کے چار سال بعدحکومتی مشینری انجام نہ دے سکی وہ نصف صدی کے بعد تن تنہا افتخار شفیع نے سر انجام دیا۔’’آثار جنوں‘‘ میں شیخ عطااللہ جنوں کا تفصیلی سوانحی خاکہ اور ان کے فارسی و اردو کلام کو پیش کیا گیا ہے۔افتخار شفیع نے جس کاوشِ کوہ کنی سے جنوںپر تحقیق کرنے کے بعد اس کی تدوین و ترتیب کی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ ’’آثار جنوں‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں:
’’میں پروفیسر محمد افتخار شفیع کی ان مساعی پر ان کی خدمت میں ہدئیہ تبریک پیش کرتا ہوں جو انہوں نے ایک با کمال ذولسانی شاعر کے کلام کو محفوظ کرنے اور اس شخصیت کو طاقِ نسیاں سے اتار کر اہلِ ذوق سے متعارف کرانے میں انجام دی ہیں۔‘‘(۷)
ڈاکٹر اسلم انصاری نہ صرف اردو زبان پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ فارسی اور انگریزی زبان پر ان کو عبور حاصل ہے۔ اسلم انصاری ایک خوبصورت شاعر، دقیق محقق اور اعلیٰ اقبال شناس شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت خود میں ایک دبستانِ ادب ہے۔ ان کی ادبی خدمات پرمشاہیرِ اردو ادب نے اُن کو خوب سہرا ہے۔بقول احمد ندیم قاسمی’’اسلم انصاری اپنے عہد کی صداقتوں کے شاعر ہے۔‘‘(۸)
ایک قد آور شخصیت کو پرکھنا اس کے کام کی نوعیت اور اس کے فن پر بحث کرنا آسان نہیں۔اسلم انصاری کے متعلق محمد افتخار شفیع نے اس کام کو خوب نبھایا ہے۔کتاب کی تقسیم میں ہر موضوع پر الگ الگ بحث کی گئی ہے۔ ’’ڈاکٹر اسلم انصاری کا خاندانی پس منظر‘‘ جس میں روایتی انداز سے بغاوت کرتے ہوئے افتخار شفیع نے افسانوی انداز اپنایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’بہار رخصت ہو چکی تھی، آم کے درختوں پر کوئل کی نغمہ سرائی کا موسم آنے والا تھا۔ پیرانہ سالی کے دکھوں کی ماری فصیل شہر خود کو پھر سے موسموں کی شدتوں کو سہنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ بہاالدین زکریاؒ کے روضے کی جالیوں سے باہر جھانکنے والی کرنوں سے سورج باربار آ کرمنہ دھوتا تھا۔اسی دوران ۳۰ اپریل ۱۹۳۹ء کے ایک خوشگوار دن، بیرون پاک گیٹ(ملتان) کے ایک پرانی طرز کے مکان میں حاجی قاسم علی کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا۔ نو مولود کا نام محمد اسلم رکھا گیا، یہی محمد اسلم بعد میںڈاکٹر اسلم انصاری کے نام سے علمی اور ادبی حلقوں میں معروف ہوا۔‘‘(۹)
دوسرے باب میں اسلم انصاری کے سوانحی خاکہ کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔جس میں نام، والد، والدہ کا نام، تعلیم، کتب، ملازمت، اعزازات اور مقالہ جات وغیرہ شامل ہیں۔ تیسرے باب میں’’ڈاکٹر اسلم انصاری کی کتابیں۔ ایک تعارف‘‘ ہے جس میں اسلم انصاری کی کتابوں کا سیر حاصل تعارف پیش کیا گیا ہے۔’’خواب و آگہی‘‘ اسلم انصاری کا شعری مجموعہ ہے جس پر افتخار شفیع تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’خواب و آگہی اونچے اونچے بالا خانوں پر مشتمل ایک ایسا شہر ہے جس کے ارد گرد کی فصیل بھی دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔ اس ’شہر غزل ونظم‘ میں داخل ہونے کے کئی راستے ہیں لیکن وہاں سے پلٹنا شاید ناممکن ہے۔ یہ لفظوں کا ایک ایسا طلسمِ ہوش ربا ہے جس میں ’صدیوں کا سفر‘ کرنے کے بعد بھی قاری وہیں آ کے رکتا ہے جہاں سے اس نے سفر کیا تھا۔‘‘(۱۰)
دوسری کتاب ’’اقبال عہد آفریں‘‘ ہے۔ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے افتخار شفیع نے اسلم انصاری کی علمیت اور فکریت کے اُن پہلوئوں کا ذکر کیا ہے جو اسلم انصاری کے اقبال پر مضامین رقم کیے گئے ہیں۔
مختصراً افتخار شفیع نے اسلم انصاری کی کتابوں’’نقشِ عہد وصال کا‘‘(شعری مجموعہ)، ’’فیضان اقبال‘‘ (منظوم اقبالیات)، ’’چراغ لالہ ‘‘(فارسی مثنوی)،"Lotus and The Sandwaves" (Poem & Plays) ’’ای بشر ای ستارہ غم ناک‘‘(فارسی مثنوی)، ’’شعرو فکر اقبال‘‘(اقبالیات)، ’’تکلمات‘‘ (ادبی فکری اور تہذیبی کالم)، ’’نگار خاطر‘‘(فارسی مثنوی)، ’’ادبیات عالم میں سیر افلاک کی روایت‘‘ (تحقیق وتنقید)، ’’چودھری افضل حق اور ان کی تصنیف زندگی‘‘ (تحقیق وتنقید)اور ’’اردو شاعری میں المیہ تصورات‘‘(تحقیق وتنقید) شامل ہیںکا تعارف مفصل انداز میں کرایا ہے۔
اگلا باب ’’ڈاکٹر اسلم انصاری کی غزل‘‘ ہے جس میں افتخار شفیع نے اسلم انصاری کی غزل پر مدبرانہ بحث کی ہے۔ جس میںاسلم انصار ی کے موضوعات، اسلوب، جذباتی میلانات،داخلیت و خارجیت اور فکری سوچوں کا مطالعہ پیش کیا ہے۔وہ اسلم انصاری کی غزل کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر اسلم انصاری نے غزل میں ایک ایسا لہجہ متعارف کرایا ہے جو بڑے لا محسوس طریقے سے معاشرے میں پھیلے سیاسی، معاشرتی اور معاشی جبر کو بے نقاب کرتا ہے، فرق یہ ہے کہ انہوں نے دیگر غزل گو شعرا کے برخلاف اس موضوع کو غزل کے پیش کردہ علامتی اور ماورائی انداز میں تخلیق کا جزو بنایا ہے۔ ‘‘(۱۱)
اگلے دو ابواب میں ڈاکٹر اسلم انصاری کی نظم اور رباعی کی بات کی گئی ہے۔ نظم کے معاملے میں افتخار شفیع نے ایک طرف تواسلم انصاری کو میرا جی ، ن۔م۔راشد، مجید امجد اور اخترالایمان کے قبیل کاباشند گردانا ہے تو دوسری طرف ان کا ناطہ بیدل اوراور اقبال کی فکری سوچوں سے جوڑا ہے۔وہ صرف زبانی جمع تفریق کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس بات کو مثالوں سے واضح بھی کرتے ہیں۔رباعی میں بھی اسلم انصاری نے نیا تجربہ کیا ہے جسے افتخار شفیع نے’’رباعیاتِ معریٰ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ یعنی اسلم انصاری نے قافیے کی قید سے آزاد رباعی بھی لکھی ہے۔
اگلے ابواب میں ڈاکٹر اسلم انصاری کی فارسی شاعری،انگریزی شاعری، تنقیدی شعور،اقبال شناسی،ادبی کالم نگاری اور اسلم انصاری کو ناقدین کی آرا میں دیکھا ہے۔اسلم انصاری کی فارسی شاعری کے حوالے سے افتخار شفیع لکھتے ہیں کہ ڈاکٹراسلم انصاری کی فارسی شاعری میں آسمانی مذاہب کی معروف تلمیحات و تواریخ کا استعمال بھی دکھائی دیتا ہے۔جبکہ انگریزی شاعری کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر اسلم انصاری کی انگریزی نظموں کا اسلوب (ان کے اپنے محاوراتی اجتہاد کے علاوہ) روایتی انگریزی نظم کا پرتو ہے لیکن ان کے موضوعات زیادہ تر مشرقی علوم اور ان سے منسلک مشاہیر کے افکار و تصورات کا آئینہ ہیں۔ ’مشرق‘ ان کے لیے خاص روحانیت سے معمور زندگی کا استعارہ ہے۔ اور علوم مشرق ایسے سورج کی مانند ہیں جو’مشرق‘ سے طلوع ہوتا ہے۔اور دعوت نظارہ دیتا ہے۔ ‘‘(۱۲)
تنقیدی شعور کے متعلق افتخار شفیع لکھتے ہیں کہ اسلم انصاری کی تنقیدی بصیرت میں تحقیقی رجحان کی موجودگی کو تنقید کے مشکل جزیروں کی تلاش کا نام دیا ہے۔اس حوالے سے افتخار شفیع اسلم انصاری کے مختلف مضامین زیر بحث لائے ہیں۔ اہم ترین مضامین میں ’’ادبیات عالم میں سیر افلاک کی روایت‘‘،’’ابن رشد اور اس کے افکار‘‘اور ان کا تحقیقی مقالہ ’’اردو شاعری میں المیہ تصورات‘‘اسلم انصاری کے تنقید و تحقیقی شعور کے غماز ہیں۔افتخار شفیع اسلم انصاری کے فن اور اقبال شناسی کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر اسلم انصاری نے بطور شاعر ، نقاد اور ماہر اقبالیات اپنے مزاج کی جمالیاتی کیفیت تخلیقی پس منظر، عالمانہ نقطہ نظرکی بنیاد پر خود کو علمی ، ادبی اور تہذیبی دنیا میں بھر پور انداز سے متعارف کروایا ہے۔‘‘(۱۳)
اردو ادب میںغالب اور اقبال اس قدر غالب آگئے کہ ان کے لیے الگ الگ مکتب فکر بن گئے ہیں۔ یہاں تک کے اقبالیات کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اس کے مزیدذیلی شعبوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔افتخار شفیع نے اسلم انصاری کے ان افکار کی کشور کشائی کرنے کی کوشش کی ہے جو انھوں نے فکرِ اقبال کے حوالے سے زینت ِ قرطاس کیے ہیں۔’’اقبال عہد آفریں‘‘اور ’’شعر و فکر اقبال‘‘اسلم انصاری کے اقبال کے متعلق خیالات و افکار کا پرتو ہیں۔
’’شہرِ غزل‘‘ ساہیوال کی ادبی تاریخ میں ایک کلیدی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے جو محسنِ ساہیوال جناب مجید امجد کی شبانہ روز محنت سے ۱۹۵۹ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں ساہیوال کے اُس وقت تک کے قدیم و جدید شعراکے کلام کا انتخاب کیا گیا تھا۔انتخاب کلام کے ساتھ ساتھ مختصرترین تعارف اورشعرا کی تصاویر بھی تھیں۔اُس دور میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔
نصف صدی گزرنے کے بعد’’ادارہ صوت ہادی‘‘ نے حضرت مجید امجد کی اس روایت کو زندہ کیا اور ’’شہرِ غزل کے بعد‘‘ کے نام سے ساہیوال کے شعرا کے کلام کا انتخاب کیا۔اس تحقیقی کام میں محمد افتخارشفیع اور سیّد سید علی گیلانی نے خوب محنت اور دیانتداری سے ’’صوت ہادی‘‘ کے اس نمبر کو تاریخی و دستاویزی مقام دے دیا۔ ’’شہرِ غزل کے بعد‘‘ میں ہر شاعر کا تفصیلی تعارف بھی دیا ہے۔ ’’شہرِ غزل کے بعد‘‘ ادارہ ’’صوتِ ہادی ساہیوال‘‘ کے ادبی ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’یہ مجموعہ قدیم و جدید رنگ سے مرصع، توانا شاعری کا مرقع اور ساہی وال کے شاعرانہ مزاج و رجحانات کا عکاس ہے۔‘‘(۱۴)
افتخار شفیع کالکھا دیباچہ’’ادب کی موت کا اعلان کب ہو گا؟‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں اپنی کار گزاری کے متعلق تفصیل بتاتے ہیں اور ادب میں پائے جانے والے رخنوں اور عداوتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کی نفی کرتے ہیں اور رواداری کے قائل نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’ہم ادب میں ادعائیت، جانب داری اور گروہ بندی کو’سرطان‘ کی طرح مضر گردانتے ہیں، ادب میں رواداری کے قائل ہیں۔ اس میں نہ تو کوئی حرف آخر ہوتا ہے اور نہ مطلقیت، بل کہ مختلف آراء ادب کو زیادہ پروقار اور وسعت پزیر بنا دیتی ہیں۔‘‘(۱۵)
’’شہر غزل کے بعد‘‘ کے بارے میں ایک معروف ادبی نام ڈاکٹر محمد امین رقم کرتے ہیں:
’’محمد افتخار شفیع جو ذہین نوجوان شاعر، نقاد اور محقق ہیں، نے اس مجموعے کو ترتیب دیا ہے۔۔۔۔شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تنقیدی بصیرت اور تحقیقی ریاضت کے حامل ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں ایک سو ساٹھ شعرا کا کلام شامل ہے۔ چھ مضامین اس کے علاوہ ہیں۔ اتنے شعراء کا کلام جمع کرنا اور ان کا انتخاب کرنا بہت محنت کا کام ہے اور پھر ہر شاعر کا مختصر تعارف لکھنا۔ یہ مختصر تعارف اختصار کے ساتھ جامعیت رکھتا ہے۔ جس میں شاعر کی شخصیت اور فن کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس کے شخصی و فنی محاسن سمٹ آئے ہیں۔‘‘(۱۶)
’’شہرِ غزل کے بعد‘‘ کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ ’’رفتگانِ شہر‘‘ کے تحت اُن شعرا کو رکھا گیا ہے جو اپنی زندگی کا سفر پورا کر چکے ہیں۔ ’’شعلہ ھائے مستعجل‘‘ میں بھی وفات شدگان کا ذکر ہے مگر یہ اپنی نوجوانی کی عمر میں ہم سے بچھڑ گئے۔’’ہنگامہ شہر‘‘ وہ حضرات ہیں جو اِس دور کے نمائندہ شاعر ہیںجبکہ ’’سایہ ابر‘‘ وہ شعرا ہیں جو اپنے مختصر قیام کے بعد ساہیوال کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گئے۔
کتاب کے آخر میں مضامین ’’ایک یاد گار مشاعرہ ‘‘ از حمید اختر، ’’ دبستان ساہیوال کے یادگار لمحات‘‘ از سید علی ثانی، ’’شہر غزل کا مرتب کون؟‘‘ از ندیم عباس اشرف، ’’ساہیوال میں اردو شاعری کے نمایاں رجحانات‘‘ از محمد افتخار شفیع اور ’’ساہیوال میں فارسی شاعری کے گمشدہ نقوش‘‘ از محمدافتخار شفیع شامل ہیں۔ ان مضامین سے ساہیوال کی ادبی تاریخ کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں جو اردو ادب میں اپنی تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر افتخار شفیع نے ادب کے طالب علموں کے لیے ’’اصنافِ شاعری‘‘ تالیف کر کے آسانی پیدا کر دی ہے۔ جملہ ’’اصناف شاعری‘‘ کو تحقیقی حوالوں سے یکجا کرنا ایک بہت کھٹن کام ہے۔ یوں سمجھ لیں افتخار شفیع نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔افتخار شفیع نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں اصناف شاعری کو بہ لحاظ موضوع، باب دوم میں بہ لحاظ ہیئت، باب سوم میں غیر ملکی اصناف جبکہ باب چہارم میں متعلقاتِ شاعری پر بحث کی ہے۔
بہ لحاظ موضوع جن اصناف کو رکھا گیا ہے اُن میں حمد، مناجات، نعت، معراج نامہ، منقبت، غزل، قصیدہ، مرثیہ، شہرآشوب، واسوخت، ریختی، دوہا، پیروڈی، اردو ماہیا، گیت سہرا، آزاد غزل اور کافی شامل ہیں۔حمد ، مناجات ، نعت، معراج نامہ اور منقبت کا تعلق مذہب سے ہے۔ افتخار شفیع نے تحقیقی، فنی اور ہیئتی امور کو پیش نظررکھتے ہوئے ان کے درمیان حد فاصل قائم کی ہے۔ ہر ایک کی جدا جدا تعریف کی ہے۔ماہرین ادب کی آرا مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ ان کی ابتدا، ارتقا، اور اردو میں ان کی روایت کو مختصراً مگر جامع انداز میں بیان کیا ہے۔
غزل اردو شاعری میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تقریباً ہر شاعر نے اپنی شعری تسکین کی شروعات غزل سے کی ہیں۔ یہ اور بات ہے جب اُڑنا سیکھ لیا تو غزل کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر لیا۔غزل کے حامی بھی رہے اور اس کے خلاف بادِ مخالف بھی چلی۔ بقول رشید احمد صدیقی’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے لیکن اسے بے آبرو کرنے کی کوشش بارہا ہوچکی ہے۔‘‘ جبکہ کلیم الدین احمد کی نظر میںیہ’’نیم وحشی صنفِ سخن‘‘ ہے۔الغرض کچھ بھی ہو جب تک دنیا میں شاعری باقی ہے غزل کا نام زندہ ہے۔
غزل کے بارے میں افتخار شفیع نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے۔ غزل کی ہئیت، اس کی بحر،قافیہ اور ردیف کی حدود و قیود کو بیان کیا ہے۔ غزل کے موضوعات ’’صنف نازک‘‘ کے متعلق تھے مگر اب اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس کے بارے میں افتخار شفیع رقم طراز ہیں:
’’آج کی اردو غزل میں وصفِ عشق اور عورتوں سے اظہار محبت کے علاوہ مذہبی، فلسفیانہ، حکیمانہ، سائنسی، اخلاقی اور تہذیبی موضوعات بھی زیر بحث آتے ہیں۔‘‘(۱۷)
اس باب میں دیگر جن اصناف کا ذکر کیا ہے ان میں قصیدہ، مرثیہ، شہر آشوب، واسوخت، ریختی، دوہا، پیروڈی، اردو ماہیا، گیت، سہرا، آزاد غزل، اور کافی شامل ہیں۔جن کو افتخار شفیع نے محنت شاقہ کا ثبوت دیتے ہوئے کلاسیکی مواد سے عرق کشید کر کے منظر عام پر لایا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب بہ لحاظ ہیئت ہے جس میں اصناف شاعری کی ہیئتی اصناف پر بحث کی گئی ہے۔ مثنوی کا ماخذ،اس کی اقسام اور اردو کی اہم مثنویوں کا ذکر کیا ہے۔ بعدازاں رباعی کے بارے میں افتخار شفیع اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رباعی ایک حکیمانہ قسم کی صنف سخن ہے۔ یہ سیرت کے لحاظ سے مختصر نظم ہے اور صورت کے اعتبار سے مختصر غزل ۔ اپنی جامع حیثیت کی وجہ سے اسے ادب کی ایک مسحور کن صنف سمجھا جاتا ہے۔ یہ شاعری تو ہے ہی لیکن زحافات و تغیرات کی کثرت اسے نثر کے قریب کر دیتی ہے۔ رباعی شاید وہ واحد صنف ہے جس میں نثر اور نظم، دونوں کے خوب صورت پہلو سمٹ آئے ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے محدود سے الفاظ کی اس عمارت میں ایک جہان رنگ و بو آباد ہوتا ہے۔‘‘(۱۸)
رباعی کیسے وجود میں آئی اس کے پس منظر میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے:
’’اس (رباعی)کی تخریج کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شاعر نے غزنی شہر کے مضافات میں گھومتے ہوئے یعقوب بن لیث صفاری کے لڑکے کو اخروٹ کھیلتے دیکھا۔ ایک اخروٹ لڑھکتے ہوئے سوراخ میں گرنے لگا تو لڑکے نے کہا:’غلطاںغلطاں ہمی رودتا سرگو‘شاعر نے اس مصرعے یا جملے کو موزوں پا کر اس پر تین اور مصرعے لگا دیے، یوں رباعی نے صورت پائی۔‘‘(۱۹)
رباعی کے بعد قطعہ، ترجیع بنداور ترکیب بند پر بحث کی گئی ہے۔وضاحت کے لیے ہر ایک کو مثالوں سے بیان کیا ہے۔ مستزاد اگرچہ شاعری میںاستعمال ہے مگر بہت کم شعرا نے اس ہیئت کو اپنایا ہے۔ مستزاد عارض و مستزاد التزام ہر دو کی وضاحت مثالوں سے کی ہے۔ اسی طرح مسمط کو بیان کرتے ہوئے تفصیلاً اس کی اقسام کو مثلث،مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع اور معشر ہر ایک کو بیان کیا ہے۔
انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوتا ہے مگر پھر معاشرہ، سماج، اور رسم و رواج کی قید میں میں چلا جاتا ہے۔ جب ایک معاشرہ دوسرے معاشرے پر مسلط و قابض ہو جاتا ہے تو مقبوضہ معاشرے کی زندگی کی ڈور قابضین کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے۔’’اُردو ادب اور آزادی فلسطین‘‘ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب ہے جو ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کا پہلا باب ’’تحریک آزادی فلسطین ۔تاریخی تناظر‘‘ جس میں مصنف نے آزادی کی تعریف میں عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے کئی ماہرین سماجیات اور ماہرین بشریات کے حوالے دیے ہیں۔
بعد ازاں فلسطین کی تاریخ پر بڑا گہر ا مطالعہ پیش کیا ہے۔ فلسطین کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لفظ ’’فلسطین‘‘ اور ’’ارض فلسطین‘‘ سے متعلق کئی راویوں کو یکجا کیا ہے۔فلسطین مسلمانوں کے نزدیک معتبر جگہ ہے۔ ارض فلسطین میں اللہ تعالیٰ کے کئی انبیا دفن ہیں۔اس باب میں مصنف نے فلسطین کی تاریخ کو عہد بہ عہد مختلف حوالوں سے بیان کیا ہے۔قبل از اسلام، اسلامی ادوار، عثمانیہ اصلاحات اور اس کے بعد موجودہ حالات تک کو بیان کیا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا باب ’’تحریک آزادی فلسطین اور اردو نثر ‘‘ ہے۔ جس میں اردو نثری ادب سے فلسطین کے حوالے سے جو ادب تخلیق ہوا ہے اس کی تحقیق کرتے ہوئے اسے زیرِ بحث لایا ہے۔افسانے میں انتظار حسین کا ’’کانا دجال‘‘اور’’ شرم الحرم‘‘، قرۃ العین کا ’’یہ تیرے پر اسرار بندے‘‘ ، مظہر الاالسلام کا ’’زمین کا اغوا‘‘سمیع آہونہ کا ’’تتلی کا جنم‘‘، خالد سہیل کا ’’تین سپاہی‘‘ ، انور خواجہ کا ’’الفتح‘‘ جمیل احمد عدیل کا ’’اے یرو شلم کی بیٹیو‘‘، مصطفی شاہد کا ’’خون‘‘ اور علی یار خان کا ’’مجاہد‘‘شامل ہیں جن میں آزادیٔ فلسطین کو موضوع بنایا گیا ۔ مصنف نے افسانوں کا فکری، فنی اور موضوعاتی تجزیہ کیا ہے۔ سفر نامے میں فلسطین اور آزادی فلسطین سے متعلق مصنف نے جن سفر ناموں کا تجزیہ کیا ہے ان میں بیگم محمود عثمان حیدر
کا ’’مشاہدات بلاد اسلامیہ‘‘، قاضی عبدالصمد صارم کا ’’سفر نامہ صارم‘‘، فیض احمد فیض کا ’’ظہر محسن کا ماتم اور یاسر عرفات کی سالگرہ ‘‘، ’’قدرت اللہ شہاب کا ’’اے بنی اسرائیل‘‘ ، مستنصر حسین تارڑ کا ’’خانہ بندوش‘‘، خالد سہیل کا ’’زمین کی دیوی‘‘، مظہراقبال کا ’’بیت المقدس کی جانب‘‘ اور مولانا وحیدالدین کا ’’سفرنامہ فلسطین‘‘ شامل ہیں۔اس طرح ’’اردو ڈراما اور تحریک آزادی فلسطین ‘‘کے عنوان سے افتخار شفیع نے ان ڈراموں کا تحقیقاتی اور تجزیاتی مطالعہ کیا ہے جن میں فلسطین کی آزادی کے عناصر موجود ہیں۔ ان ڈراموں میں مرزا ادیب کا ’’فاطمہ برناوی‘‘ اور جاوید دانش کا ’’نئی شاخ زیتون کی‘‘ شامل ہیں۔
کتاب کا تیسرا باب اردو شاعری اور تحریک آزادیٔ فلسطین‘‘ ہے جس میں مصنف نے فلسطین کی آزادی کو اردو شاعری کے تناظر میں دیکھا ہے۔ مصنف نے اردو کے معتبر شعرا کے کلام سے، جن میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ریئس امروہوی، نعیم صدیقی، ن م راشد، ابن انشا، حبیب جالب، ظہیر کشمیری، عادل منصوری، احمد فرازاور ضمیر جعفری وغیرہ شامل ہیں، ایسے عناصر کی نشان دہی کی ہے جو براہ راست فلسطین اور اس کی آزادی سے وابستہ ہیں۔
’’تحریک آزادیٔ فلسطین اور نثری تراجم‘‘ چوتھا باب ہے جس میںان نثری تراجم کا ذکر ہے جن میں فلسطین کی آزادی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انتظار حسین نے ’’سعید کی پراسرارزندگی‘‘ انگریزی ناول ’’The Secret Life of Saeed‘‘کا ترجمہ ہے جس کی اصل عربی ہے۔اس ’’ناول میں اسرائیلی ریاست کی منظم دہشت گردی کی داستانِ خوں چکاں یوں بیان ہوتی ہے جیسے عشق و محبت کا کوئی دل پزیر قصہ ہو۔‘‘(۲۰) افتخار شفیع نے محمد شاہد حمید کے ترجمہ کردہ ناول ’’دھوپ میں لوگ‘‘ کو بھی فلسطین کی آزادی کے تناظر میں دیکھا ہے۔اسی طرح انھوں نے آصف فرخی، امجد طفیل، مسعود اشعر، کشور ناہید، شجاعت علی، خورشید قائم خوانی اور دیگر اہم مترجمین کے تراجم سے آزادی فلسطین کے آثار تلاش کیے ہیں۔ ان کا دائرہ کار صرف ناول اور افسانہ تک محدود نہیں بلکہ سفر نامہ ، آپ بیتی اور رپوتاژ کو بھی شامل مطالعہ کیا ہے۔
باب پنجم ’’تحریک آزادی فلسطین اور شعری تراجم‘‘ ہے ۔ بہ قول افتخار شفیع عربی منظوم کلام دنیا کے تمام کلام کے برابر ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح عربی شاعری میں بھی رومانیت، رمزیت اور جدیدیت کے اثرات مرتب ہوئے۔ شاعری ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جس میں احساسیت کا جذبہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو زیادہ قریب سے سمجھتے ہیں اور اپنے احساس و جذبات کو اظہارکی صورت دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ہر دل رکھنے والی قوم میں اثر کیے ہوئے ہے اور وہ اپنی اپنی زبان میں اظہار کرتے ہیں۔اردو شعرا نے دیگر زبانوں سے تراجم کر کے اردو میں ڈھالے ہیں۔ ان میں امجد اسلام امجد، ڈاکٹر شیخ حیدر علی، ڈاکٹر اسما رشید، محمود درویش، سمیح القاسم اور حنا ابو حنا قابل ذکر ہیں۔
فی زمانہ مسلمانوں کو ہر جگہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔ چیکوسلواکیہ، کشمیر، بوسینیا، عراق، فلسطین، افغانستان،برماوغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں پر مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔ ان محرکات کے زیر اثر جہاں مقامی سطح پر اس ظلم و جبر کے خلاف اظہار ہوتا ہے وہاں اردو ادب میں بھی ایسا ادب تخلیق ہوتا ہے جو ان واقعات و حالات کی عکاسی کرتا ہے۔آزادیٔ فلسطین اور اردو شاعری کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے افتخار شفیع لکھتے ہیں:
’’اردو شاعری کا یہی ملّی مزاج نہ صرف برصغیر کی مسلم قومیت کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے بل کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانا بھی اپنے نصب العین کا حصہ سمجھتا ہے۔ مسئلہ فلسطین بہت سے اردو شعرا کو ’انماالمومنون اخوۃ‘ کے تحت اپنا مسئلہ دکھائی دیتا ہے، جب کہ ایک طبقۂ شعرااسے ملّی جذبے سے زیادہ انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھتا ہے، اس کی پسند کے ان معیارات میں فلسطینی تحریک آزادی کا سوویت یونین سے نظریاتی اشتراک بھی ایک وجہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کا اظہار، یہودی ظلم و تشدد کی منظر کشی اور مظلوم فلسطینی عربوں سے اظہار یک جہتی اردو شعرا کا پسندیدہ موضوع ہے۔‘‘(۲۱)
پروفیسر افتخار شفیع کی اس محنت شاقہ کے اعتراف میں ڈاکٹر معین الدین عقیل رقم طراز ہیں:
’’ہمارے ہاں عالم اسلام کے، اور ساتھ ہی عالمی سطح کے متعدد موضوعات ، مسائل تحریکات اور شخصیات پر اُردو کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کے مطالعے کی ایک روایت مستحکم ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں عالم اسلام کے دیگر مسائل اور خود مسئلہ فلسطین بھی کئی مطالعات اور تجزیوں کا موضوع بنا ہے، لیکن افتخار شفیع صاحب نے مسئلہ فلسطین یا تحریک آزادیٔ فلسطین پر جس طرح ایک مبسوط مطالعہ تمام متعلقہ موضوعات کو شامل کرتے ہوئے سر انجام دیا ہے، اس کی مثال تاحال موجود نہیں۔ اس لحاظ سے اپنے موضوع پر افتخار شفیع کا مطالعہ ایک جامع اور مکمل کاوش ہے، جس میں موضوع کا کل احاطہ بھی کیا گیا ہے اور تجزیہ و تنقید کا ایک پختہ شعور اور مطالعہ کی وسعت کا واضح ثبوت اور اسلوب کا سلیقہ، یہ سب بھی اس میں یکجا نظر آتے ہیں۔ ان خصوصیات کے باعث ’اُردو ادب اور آزادیٔ فلسطین‘ کا مطالعہ جامع اور پرکشش بھی ہو گیا ہے اور قابل مطالعہ بھی۔‘‘(۲۲)
اردو ادب میں اس پہلے اس مسئلے کو اس محنت، لگن اور جذبے سے کسی نے سر انجام نہیں دیا جو افتخار شفیع نے دیا ہے۔ ان کی یہ کاوش ان کے تحقیقی و نتقیدی جذبے کی غماز ہے۔
افتخار شفیع نے ’’اصنافِ نثر ‘‘کی تحقیق میںبڑی تحقیقی و تاریخی کتب کی ورق گردانی کی ہے۔ ایک ادب کے طالب کے لیے اس کتاب کو منظر عام پر لاتے ہیں جو گوہر نایاب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو ادب کی عرق ریزی کے ساتھ ساتھ ہمعصر زبانوں کے ادب سے بھی استفادہ کیا ہے۔موضوع اور نفس مضمون کے لحاظ سے تو عام سی کتاب دیکھنے میں آتی ہے مگر کتاب کا مطالعہ کرنے سے ادب کے کئی در وا ہونے لگتے ہیں۔ تہہ در تہہ ورق کھلتے جاتے ہیں اور نئے نئے بھید منکشف ہوتے جاتے ہیں۔
افتخار شفیع نے ’’اصناف نثر‘‘ کو ایک محقق کی نظر سے دیکھتے ہوئے بڑی جزئیات سے کام لیا ہے۔ پہلے باب میں افسانوی ادب پر بات کرتے ہوئے تمثیل، داستان، ناول، ناولٹ،افسانہ اور ڈراما کی ابتدا،ارتقا،ان کے لوازمات اور موجودہ صورت حال تک کے تمام مراحل سے گزرتے نظر آتے ہیں۔ ایک محقق کی حیثیت سے انھوں نے ایک موضوع پر مختلف ناقدین، ادبااور محققین کی آرا کو پرکھتے ہوئے مدلل انداز میں بیان کیا ہے اور آخر پر اپنی رائے ثبت کی ہے۔تمثیل کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تشبیہ، استعارہ،اور علامت وغیرہ محسوس و لامحسوس طریقے سے اشیا کے مشترکہ اوصاف کی دریافت کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ان سب کا ابلاغ محض ایک جملے میں ہوتا ہے لیکن ’تمثیل‘ اس کی مفصلِ ترین شکل ہے۔ اسے ’رمزیہ‘، ’تمثیلیہ‘ اور ’مجازیہ‘ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔‘‘ (۲۳)
داستان انسانی زندگی سے مربوط ہے۔ اس کا آغاز انسانی زندگی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔اس کے بارے میں وہ کتابوں کی عرق ریزی کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اردو نثر کی تاریخ میں ’داستان‘ قیمتی متاع کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نثر کی دل نشینی اور دل نوازی کی علامت ہے۔ اس نے اردو کو عظیم انشا پرداز دیے۔ یہ درست کہ داستان نے تعقل پسند سے انکار کیا، حقائق سے منہ موڑا،لیکن دل کو عقل کی پاسبانی سے ہٹ کر تنہا رہنے کا گر بھی سکھایا ہے۔‘‘(۲۴)
اسی طرح افتخار شفیع نے ناول کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی ابتدااور ماخذکے بارے میں تفصیلاً بیان کیا ہے۔مختلف ماہرین کی کی گئی تعریفوں کو سامنے رکھتے ہوئے ناول کی تعریف کی ہے۔ ناول کی اقسام،اور اس کی اجزائے ترکیبی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اردو ناول کی تاریخ پر دقیق نظر دوڑائی ہے۔ناول اور ناولٹ کے درمیان حد فاصل قائم کرتے ہوئے اردو کے چند اہم ناولٹوں کی فہرست بھی دی ہے۔ناولٹ کو مستقبل کی قبول عام صنف گردانتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ناولٹ عصر حاضر کی پیداوار ہے۔ اس کی عمر ابھی زیادہ طویل نہیں لیکن یہ بچہ اب اپنے قدموں پر چلنے لگا ہے۔ امید ہے اس پر کبھی وہ قیامت خیز جوانی بھی آجائے گی جب یہ’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘ کے مرحلے سے آگے بڑھ کر ’ہاں میں ایسا کر سکتا ہوں‘ کی منزل پر پہنچ جائے گا۔‘‘(۲۵)
افتخار شفیع نے افسانے کی وضاحت بھی بڑے مدلل انداز میںبیان کی ہے۔ ہزاروں سال پرانے قصے کہانیوں سے ہوتے ہوئے داستان