1908 میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ 2002 میں امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں وفات ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی ایک بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جامعہ عثمانیہ، جرمنی میں بون یونیورسٹی اور ترکی میں پڑھاتے رہے۔ اقوام متحدہ میں حیدرآباد دکن کے سفیر متعین رہے۔ سقوط حیدرآباد دکن کے بعد، فرانس میں 1948 میں جلاوطن رہے۔
1950 میں پاکستان کے دستور کے لیے قراداد مقاصد لکھے۔ 1952 سے 1978 تک ترکی اور روم کی جامعات میں پڑھاتے رہے۔ فرانس میں قومی مرکز سائنسی تحقیق کے ادارہ سے بیس سال وابستہ رہے۔
1980 میں جامعہ بہاولپور کے طلبہ کو خطبات دیئے۔ جو بہت مشہور ہوئے ہیں۔ 1985 میں پاکستان نے سب سے اعلیٰ اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ اعزاز کے ساتھ ایک کروڈ روپے ملے۔ ڈاکٹر صاحب نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کر دیئے۔ یونیورسٹی کی لائبریری ڈاکٹر صاحب کے نام سے موسوم ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے قرآن ، حدیث ، فقہ، سیرت اور تاریخ حدیث پر بڑا علم رکھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب پندرہ بین الاقوامی زبانیں جانتے تھے لیکن مادری زبان اردو تھی۔ پندرہ زبانوں میں بےشمار کتابیں لکھیں۔
کہا جاتا ہے کہ اسی ہزار افراد نےڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ جب کوئی شخص اسلام قبول کرنے آتا۔ ڈاکٹر صاحب اسلام قبول کرنے کی وجہ ضرور پوچھتے اور رجسٹر میں لکھتے تھے۔ ایک دن فرانس کا مشہور سنگر اسلام قبول کرنے آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول وجہ پوچھی۔ سنگر نے بتایا روس میں ایک تقریب میں قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی تھی۔ سب خاموشی سے سن رہے تھے ۔ تقریب میں موجود شخص سے پوچھا، سنگر کون ہے۔ اشارہ سے مجھے خاموش رہنے کو کہا گیا ۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو مجھے بتایا۔ قرآن مجید کی تلاوت ہورہی تھی۔ چونکہ میں موسیقی کی باریکیوں کو جانتا ہوں۔ واللّٰہ یہ موسیقی انسان بنا نہیں سکتا۔ یہ موسیقی اللّٰہ ہی ترتیب دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ میں موسیقی کے رموز نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامی تعلیم کے لیے، سنگر کو قاری صاحب کے حوالے کیا۔ ایک دن قاری نے بتایا۔ سنگر کو قرآن کی سورۃ النصر کی آخری آیات پڑھا رہا تھا۔ سنگر نے کہا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قاری صاحب سے کہا ۔ مجھے آیات پڑھ کر سناؤ۔ ڈاکٹر صاحب کو بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ بچپن میں انہی دو آیات کو ایسے ہی پڑھا ۔ قاری صاحب غصہ میں آ گئے ، مجھے مار بھی پڑی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے قاری کو کہا ، میں آیات سناتا ہوں۔آپ سنگر کو صحیح قرات پڑھائیں۔ جب ڈاکٹر صاحب نے آیات پڑھیں تو سنگر نے دوڑ کر ڈاکٹر صاحب کو اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور ناچنے لگا۔ بار بار کہتا ، واللّٰہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے۔ واللہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے۔
ڈاکٹر صاحب بہت سادہ ،خودار اور قناعت پسند انسان تھے۔ ایک دن بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے اچھی طرح چیک کر کے بتایا۔ ڈاکٹر صاحب بیمار نہیں ہیں۔کئی دنوں کے فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہونے ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا ڈاکٹر صاحب کو کھانا کھلاؤ۔
صدر ضیاء الحق کو ڈاکٹر صاحب کے مالی حالات کا علم ہوا تو ڈاکٹر صاحب کا وظیفہ مقرر کرنا چاہا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے وظیفہ لینے سے انکار کر دیا۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی