اُردو زبان کے نامور شاعر،نقاد، ماہرِ تعلیم اور مدیر محمد دین تاثیر (پیدائش: 28 فروری 1902ء۔ وفات: 30 نومبر 1950ء) قصبہ اجنالہ ضلع امرتسر(ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔پیدائش کے دو سال بعد 1904ء میں پہلے والداورکچھ عرصہ بعد والدہ کا طاعون کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔خالو میاں نظام الدین نے ان کی پرورش کی۔ ایم اے فورمین کرسچن کالج لاہور سے 1926ء میںکیا ۔ اسی سال اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ 1928ء میں دوبارہ اسلامیہ کالج آ گئے۔
محمد دین تاثیر علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ ان کو علامہ اقبالؒ نے سفارشی خط بھی دیا تھا۔وہ 1933ء میں لندن پہنچے اور پیم بروک یونیورسٹی کیمرج سے ایم لِٹ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان ’’ 1924ء تک انگریزی ادب میں ہندوستان اور مشرقِ قریب کا حصہ‘‘تھا ۔ ان کے ریسرچ سپروائزر آرتھر کوئلر کاؤچ نے یونیورسٹی سے کہا کہ وہ تاثیر کو ایم لِٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے ۔ تاثیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔1935 ء کے آخر میںمحمد دین تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل اور 1941 ء میں ڈاکٹرمحمد دین تاثیر سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقرررہے ۔ 1942 ء میں وہ امر سنگھ کالج کے بانی پرنسپل بن گئے۔ 1948ء میںڈاکٹر محمد دین تاثیر اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک ا سی کالج سے وابستہ رہے۔
اکتوبر 1947 ء میں حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر محمد دین تاثیر کو فیض احمد فیض کے ساتھ شیخ عبداللہ کے ہاں بھیجا جو اس وقت جموں اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما تھے۔ان دونوں شخصیا ت کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ شیخ عبداللہ کو پاکستان میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ شیخ عبداللہ کو اس وقت مہاراجہ کی حکومت نے قید سے رہا کیا تھا۔ شیخ عبداللہ قائل نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا تو ان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو کپور تھلہ کے ساتھ ہوا۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ مذہبی اقلیتوں کو ہلاک کر دیا جائے گا یا اُنہیں بھگا دیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق ڈاکٹر تاثیر نے اُنہیں بتایا اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوا پھر انہیں ’’دوسرے راستوں‘‘ پر غور کرنا ہوگا۔1937ء میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر ایک برطانوی خاتون کرسٹوبل جارج کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ وہ بھی کیمرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ 1938ء میں دونوں کی شادی ہو گئی۔ کرسٹو بل نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام بلقیس تاثیر رکھا گیا۔ کرسٹو بل کی بہن ایلس نے فیض احمد فیض سے شادی کی۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن ہی میں ہو گیا تھا۔ کالج میں ان صلاحیتوں نے مزید جلا پائی اور 1924ء تک ادبی دنیا میں خاصے معروف ہو گئے۔ انھی دنوں ’’نیرنگِ خیال‘‘ لاہور کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر ترقی پسند تحریک کے سرخیل ‘رسالہ’’کارواں‘‘ کے مدیر،انگلینڈ سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے برصغیر کے پہلے ادیب محمد دین تاثیر اُردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے شاعری کے علاوہ ادبی، سماجی اور تہذیبی موضوعات پر گہری فکری وابستگی کے ساتھ مضامین بھی لکھے۔ وہ’ ’نیرنگِ خیال‘ ‘اور ترقی پسند تحریک کے آرگن رسالے’ ’کارواں‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے تھے۔لیکن ان کی تخلیقی فکر نے جلد ہی اُنہیں ترقی پسند نظریاتی جبر سے نکال لیا اور وہ حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ ہوگئے۔ حلقے کے تخلیق کاروں اور ان کے نظریات سے متاثر ہوکر انہوں نے آزاد نظمیں کہیں جو بے پناہ تخلیقی امکانات کی حامل ہیں۔
ڈاکٹرمحمد دین تاثیر نے رومانوی شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ان کی غزل کا اپنا ایک آہنگ ہے۔ چھوٹی بحر میں انہوں نے کمال کی غزلیں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری کا دوسرا اہم وصف سادگی اور سلاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے نام کی طرح پُرتاثیر ہے جو فوری طور پر قاری کو متاثر کرتی ہے۔ پھر ان کی شاعری میں لطافت بھی ہے۔ سہلِ ممتنع کی شاعری بھی ملتی ہے۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔جن میں(1)آتش کدہ (شعری مجموعہ، صفحات: 220)،(2) نثرِ تاثیر ( نثری مضامین و خاکے، 1963ء، ناشر: اُردو اکادمی بہاول پور، صفحات: 282)شامل ہے ۔
مقالاتِ تاثیر کے نام سے720صفحات پرمشتمل ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے لکھے ہوئے تحقیقی مضامین اور مقالات‘ مجلسِ ترقی ادب لاہو رنے 1978ء میں شائع کیے جسے ممتاز اختر مرزا نے ترتیب دیا ۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی بیٹی سلمیٰ محمود نے اپنے والد کی یادداشتیں ’’دی ونگز آف ٹائم‘‘ کے عنوان سے شائع کیں۔
30 نومبر 1950ء اُردو کے نامور شاعر ڈاکٹر محمد دین تاثیرکا لاہور میں انتقال ہوا۔ وہ پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد تھے۔غازی علم دین شہید کے جسدِ مبارک کے لیے صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا۔
محمد دین تاثیر کی مشہور غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
وہ ملے تو بے تکلف، نہ ملے تو بے ارادہ
نہ طریقِ آشنائی نہ رسومِ جام و بادہ
تری نیم کش نگاہیں ترا زیرِ لب تبسم
یونہی اک اَدائے مستی یونہی اک فریب سادہ
وہ کچھ اس طرح سے آئے مجھے اس طرح سے دیکھا
مری آرزو سے کم تر مری تاب سے زیادہ
یہ دلیلِ خوش دلی ہے، مرے واسطے نہیں ہے
وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ
وہ قدم قدم پہ لغزش وہ نگاہِ مست ساقی
یہ تراش زلفِ سرکش یہ کلاہِ کج نہادہ
٭
غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں
کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں
عافیت کوش مسافر جنہیں منزل سمجھیں
عشق کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں
اب مرے عشق پہ تہمت ہے ہوس کاری کی
مسکراتے ہوئے اب وہ لبِ بام آتے ہیں
واعظِ شہر کی محفل ہے کہ ہے بزمِ نشاط
حوضِ کوثر سے چھلکتے ہوئے جام آتے ہیں
یہ رہِ شوق رہِ عشق ہے اے اہلِ ہوس
منزلیں آتی ہیں اس میں نہ مقام آتے ہیں
اب نئے رنگ کے صیاد ہیں اس گلشن میں
صید کے ساتھ جو بڑھ کر تہِ دام آتے ہیں
داورِ حشر! مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
جن کو خلوت میں بھی تاثیرؔ نہ دیکھا تھا کبھی
محفلِ غیر میں اب وہ سرِ عام آتے ہیں
٭
میری وفائیں یاد کرو گے
روؤ گے، فریاد کرو گے
مجھ کو تو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
ہم بھی ہنسیں گے تم پر اِک دن
تم بھی کبھی فریاد کرو گے
محفل کی محفل ہے غمگیں
کس کس کا دل شاد کرو گے
دشمن تک کو بھول گئے ہو
مجھ کو تم کیا یاد کرو گے
ختم ہوئی دُشنام طرازی
یا کچھ اور ارشاد کرو گے
جا کر بھی ناشاد کیا تھا
آ کر بھی ناشاد کرو گے
چھوڑو بھی تاثیرؔ کی باتیں
کب تک اس کو یاد کرو گے
٭
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک نظر ایک دل بھی ایک سہی
معاملات من و تو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقام جنبش ابرو نکل ہی آتے ہیں
ھنا ناخن پا ہو کہ حلقہء سر زلف
چھپاؤ بھی تو یہ جادو نکل ہی آتے ہیں
جناب شیخ وضو کے لیے سہی لیکن
کسی بہانے لب جو نکل ہی آتے ہیں
متاع عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے
زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں
٭
داغ سینے پہ جو ہمارے ہیں
گل کھلا ہو تمھارے ہیں
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
کوئی جدت نہیں حسینوں میں
سب نے نقشے ترے اُتارے ہیں
تیری باتیں ہیں کس قدر شیریں
تیرے لب کیسے پیارے پیارے ہیں
جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں
اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں
٭
نظم
رس بھرے ہونٹ
پھول سے ہلکے
جیسے بلور کی صراحی میں
بادہء آتشیں نفس چھلکے
جیسے نرگس کی گول آنکھوں سے
ایک شبنم کا ارغواں قطرہ
شفق صبح سے درخشندہ
دھیرے دھیرے سنبھل سنبھل ڈھلکے
رس بھرے ہونٹ یوں لرزتے ہیں!
یوں لرزتے ہیں جس طرح کوئی
رات دن کا تھکا ہوا راہی
پاؤں چھلنی نگاہ متزلزل
وقت صحرٔ ا بیکراں کہ جہاں
سنگ منزل نما نہ آج نہ کل
دفعتاً دور، دور، آنکھ سے دور
شفق شام کی ساہی میں
قلب کی آرزو نگاہی میں
فرش سے عرش تک جھلک اٹھے
ایک دھوکا، سراب، منبع نور!
رس بھرے ہونٹ دیکھ کر تاثیرؔ
رات دن کے تھکے ہوئے راہی
یوں ترستے ہیں، یوں لرزتے ہیں!
٭
چند منتخب اشعار
ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں
کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح
٭
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
٭
یہ ڈر ہے قافلے والو کہیں نہ گم کر دے
مرا ہی اپنا اٹھایا ہوا غبار مجھے
٭
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
٭
یہ دلیل خوش دلی ہے مرے واسطے نہیں ہے
وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ
٭
یہ رہِ شوق رہِ عشق ہے اے اہلِ ہوس
منزلیں آتی ہیں اس میں نہ مقام آتے ہیں
٭
موسمِ گُل ہے کہ طوفانِ نمو ہے یارب
رخنے شاخون نے کئے باغ کی دیواروں میں
٭
اب مسافت تری محدود نظر آتی ہے
دیکھ وہ منزلِ مقصود نظر آتی ہے
٭
سر پہ سفید بال ہیں یعنی سحر قریب ہے
خوابِ گراں کا زور ہے، وقتِ سفر قریب ہے
٭
خوش بے حجابیوں سے ہوں اپنی یہ خو نہیں
نیچی کرو نگاہ یہ ہم ہیں عدو نہیں
٭
دل کی تھی ساز باز پہلے سے
دیکھ لینا تو اک بہانہ ہوا
٭
یہ بھی رہے خیال ستانے کے ساتھ ساتھ
ہم بھی بدل رہے ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ
رُک رُک کے ہو رہے ہیں ادا حرفِ معذرت
کچھ کچھ غرور بھی ہے بہانے کے ساتھ ساتھ
٭
(ماخذ : ریختہ، وِیکی پیڈیا، اُردوئے معلی )
٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...