14مارچ کی صبح چائے پیتے ہوئے میں نے اپنی شریک حیات ریما گوئندی سے کہا کہ ڈاکٹر مبشر حسن کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، آج اُن سے ملنے لازمی جائوں گا۔ چند منٹ بعد لندن میں مقیم میرے دوست جناب ثقلین امام کا پیغام موصول ہوا کہ ’’ڈاکٹر مبشر کا انتقال ہوگیا‘‘۔
ڈاکٹر مبشر حسن سے میری دوستی جدوجہد کی دوستی ہے۔ صرف اُن کی بیٹھک میں بیٹھ کر گپ شپ تک محدود نہیں۔ چار دہائیوں پر محیط ’’جہد کی دوستی‘‘ کوئی معمولی بات نہیں۔ میں ہمیشہ ہی اس حوالے سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ سکول کے زمانے میں جن کو دیکھنے، سننے اور جاننے کی خواہش ہوئی تھی ، کالج پہنچنے تک وہ لوگ میرے دوست بن چکے تھے، جیسے ملک معراج خالد، حنیف رامے، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید سے لے کر ترکی کے عظیم رہبر اور وزیراعظم بلند ایجوت تک۔ یہ دوستی Selfie کے دَور سے پہلے کی ہے۔ دوستی میں تعلق کی وجہ نظریاتی جدوجہد ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن بھی اسی حوالے سے میرے دوست تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور شہر میں بابائے سوشلزم شیخ رشید اور ڈاکٹر مبشر حسن، پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے ترقی پسند شناخت رکھنے والی دو مختلف شخصیات تھیں۔ بابائے سوشلزم پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر بائیں بازو کے دھڑے کے باقاعدہ قائد تھے جو اس حوالے سے مرتے دم تک جانے جاتے رہے اور ڈاکٹر مبشر حسن اپنے انداز میں پی پی پی کے اندر اور باہر اپنی ترقی پسندانہ شناخت کے حامل تھے۔ لوگوں سے دوستی نبھانے کا فن راقم نے عملی زندگی میں ایسا سیکھا اور اپنایا کہ اب خود حیران ہوتا ہوں۔ شیخ محمد رشید اور ڈاکٹر مبشر حسن درحقیقت دو مختلف سیاسی دھارے تھے۔ عملی زندگی نے ایسے اپنے آداب سکھائے کہ میں ان دونوں دھاروں کے رہبروں کے نہایت قریب رہا۔
سیاست میں قربت کے حوالے سے ایک تعریف میں پچھلے بیس برسوں سے کرتا آرہا ہوں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ میں فلاں سیاسی رہبر کے قریب ہوں تو اس کا پیمانہ ہے کہ وہ سیاسی رہبر مجھے اپنے سیاسی فیصلوں اور حکمت عملی میں اپنا رازداں سمجھتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں جس قدر شیخ محمد رشید مرحوم کے قریب تھا، اسی قدر ڈاکٹر مبشر حسن کے بھی۔ جب کبھی شیخ محمد رشید، ڈاکٹر مبشر حسن کے حوالے سے میرے ساتھ بات کرتے تو وہ یہ جملہ کہتے، ’’سہیل بیٹے، آپ کے دانشور دوست ڈاکٹر مبشر حسن یہ کہہ رہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح ڈاکٹر مبشر حسن سے جب بھی میں شیخ محمد رشید صاحب کے حوالے سے بات کرتا تو وہ اپنی خاص مسکراہٹ اور مخصوص پانی پتی لہجے میں کہتے، ’’چھوڑو فرخ، شیخ صاحب کا پیچھا، تم نے ابھی تلک اُن سے جان نہیں چھڑائی۔‘‘ دونوں میرے دوست تھے، جی ہاں دوست، مگر دونوں کے ساتھ میں نے اپنا تعلق ایمان داری سے نبھایا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ کتاب لکھ سکتا ہوں، اور اب دل چاہتا ہے کہ ضرور لکھوں کہ پاپولسٹ سیاست کے بت پرست کس طرح تنقید کرتے ہوئے کبھی ڈاکٹر مبشر حسن کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی شیخ محمد رشید کو۔حتیٰ کہ وہ کٹر مارکسٹ بھی جن کا پی پی پی سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی جنہوں نے کبھی پی پی پی کے عظیم مارکسٹ شیخ محمد رشید کا کبھی اپنے قلم، تحریر اور زبان سے ذکر کیا۔ یہ دونوں شخصیات سیاسی جدوجہد کا ایک باب ہی نہیں بلکہ پوری کتاب ہیں۔
ایک ہفتہ قبل میری ہی منصوبہ بندی پر لاہور کے نوجوان ترقی پسندوں کا ایک وفد بلاول بھٹو زرداری سے ملا۔ اس کے بعد میں نے چوہدری منظور صاحب کو یا د دلایا کہ وہ کہیں تو بلاول بھٹو کی پرانی خواہش پوری کروں؟ یعنی بلاول بھٹو زرداری کی ڈاکٹر مبشر حسن سے ملاقات۔ چوہدری منظور نے اس حوالے سے اپنے کچھ تحفظات بیان کیے۔ دوسال قبل میں بیرون ملک تھا، جب چوہدری اعتزاز احسن کا بار بار فون آرہا تھا۔ میں نے کال ریسیو کی تو اعتزاز احسن صاحب نے کہا، ’’گوئندی جی، واپس کب آنا ہے۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ چوہدری اعتزاز صاحب کوئی خاص ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا، جی حکم؟ اعتزاز صاحب نے کہا کہ ’’ایک میٹنگ میں طے ہورہا تھا کہ بلاول بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں جائیں، جن کے گھر پیپلزپارٹی بنی، تو میں نے کہا کہ اگر بلاول آپ ڈاکٹر مبشر حسن سے ملنا چاہتے ہیں تو فرخ سہیل گوئندی کے ہمراہ جائیں۔‘ ‘ میں نے وطن واپسی پر ڈاکٹر مبشر حسن سے پوچھا تو انہوں نے کہا، ’’ضرور آئے میرے ہاں۔‘‘ مگر افسوس یہ ملاقات سیاسی دربار کے سازشیوں کی نذر ہوگئی۔
ڈاکٹر مبشر حسن ہمارے کٹر مارکسٹوں جیسے نہیں تھے۔ مگر کٹر مارکسسٹوں سے ہزاروں گنا زیادہ طبقاتی جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان میں انقلاب برپا کرگئے۔ 1967ء میں انہی کے ہاں پیپلزپارٹی جیسی طبقاتی جماعت بنی۔ پاکستان میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جو صنعتی، اقتصادی اور معاشی اصلاحات کیں، وہ اصلاحات ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی کی یادگار ہیں، جن میں پاسپورٹ کو عام آدمی کو فراہم کرنے سے لے کر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا تک شامل ہیں۔ انہوں نے ملٹی پارٹی سسٹم میں رہ کر پاکستان کو عملاً سوشلسٹ اصلاحات سے متعارف کروایا جو کہ مذاق نہیں۔ اس کی مختصر تفصیل اُن کی کتاب The Mirage of Power میں پڑھی جاسکتی ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 1977ء میں پاکستان میں غربت کی شرح بڑھنے کی بجائے رک گئی۔ بڑے بڑے بینکار اور صنعت کار مرتے دن تک ان کا نام سننے پر نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے حکومت میں رہ کر عملاً سوشلزم کے نفاذ کا کام کیا۔ چائے کی پیالیوں پر اور کتابوں میں اپنی تحریروں کے ذریعے دوسروں پر سوشلسٹ نہ ہونے پر فتوے صادر نہیں کیے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جس رات ہم نے پاکستان کے تمام بینک قومیانے تھے، اس رات انہوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے اُن تمام بینکاروں کو اپنے ہاں ڈنر پر بلا رکھا تھا۔ جب تمام بینکار، وزیراعظم کا ڈنر کھا کر گھر واپس لوٹے تو بینک قومی تحویل میں لیے جاچکے تھے۔ جنرل گُل حسن کی بحیثیت آرمی چیف ریٹائرمنٹ کی رُوداد تو ہالی ووڈ کی فلمی کہانی لگتی ہے جو انہوں نے کئی بار مجھے سنائی کہ کیسے جنرل گُل حسن کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہاں ڈنر پر بلایا، سرکاری سٹینوگرافر بھی گھر بھیج دئیے اور بھٹو صاحب نے جنرل گُل حسن کے Dismissal اور جنرل ٹکا خان کی تعیناتی کے آرڈر خود ٹائپ کیے، اس لیے کہ سٹینو بھی مخبر ہوسکتے ہیں۔ اس رات آرمی چیف، ایئرچیف اور نیول چیف تینوں کھانے پر مدعو تھے اور وہاں موجود مصطفی کھر، مصطفی جتوئی اور ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی پتلونوں میں پستولیں لگا رکھی تھیں۔ Dismissal کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن ہی خصوصی طیارے اور پھر عام جیپ میں سوار ہوکر ٹکا خان کو ساہیوال سے تلاش کرکے دارالحکومت لائے اور انہیں پاکستان کا آرمی چیف نامزد کیا۔ یہ سارا عمل چند گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ یہ کہانی ہالی ووڈ کی کسی فلم سے زیادہ دلچسپ انقلابی کہانی ہے۔
میں نے اُن سے حکمرانی اور سیاست کی کہانیاں صرف سنی ہی نہیں بلکہ کئی بار ان فلمی یا انقلابی کہانیوں کا کردار بھی بنا۔ جیسے جنرل پرویز مشرف کے دورِحکمرانی میں ہونے والے انتخابات میں ’’اوپر‘‘ سے حمایت اور پھر حکومت میں شامل ہونے کی دعوتِ شیراز ملی۔ 2002ء کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف نے جہاں مسلم لیگ (ق) کا قیام کروایا اور پیپلزپارٹی کے بطن سے رائو سکندر اقبال کی قیادت میں پی پی پی پیٹریاٹ بنوائی، اس کے ساتھ یہ بھی برابر طے کیا کہ عمران خان کی تحریک انصاف، ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک، فاروق لغاری کی ملت پارٹی، آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کی سرکاری سرپرستی میں مالی مدد کی جائے اور اخبارات میں ان کی اشتہاری مہم کی بھی مالی سرپرستی کی جائے اور ان کے مابین ایک اتحاد بھی کیا جائے۔ اس حوالے سے ’’اعلیٰ حکام‘‘ غلام مصطفی جتوئی کے ذریعے سے ڈاکٹر مبشر حسن سے رابطے میں تھے۔ راقم اس وقت پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات تھا۔ پارٹی کی کور کمیٹی چار افراد پر مشتمل تھی، غنویٰ بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین اور راقم۔ اس دوران جب ہم نے اپنی سینٹرل کمیٹی میں تجویز پیش کی تو اکثر لوگ الیکشن میں حکومتی سرپرستی اور بعد از الیکشن حکومت میں حصے داری کی حمایت میں تھے، جس کے مطابق سینیٹ میں ایک یا دو سیٹیں، قومی اسمبلی میں سات آٹھ سیٹیں اور سندھ اسمبلی میں دس بارہ سیٹوں کے ساتھ مرکز میں ایک وزارت کے ’’مشرف پیکیج‘‘ کی پیشکش تھی۔ مرکزی کمیٹی میں جب میں باربار فوجی حکمران کے اس پیکیج کی مخالفت کرتا تو اکثر دوست میرے موقف کی مخالفت کرتے کہ نہیں ہمیں حکومت میں شامل ہونا چاہیے جبکہ ڈاکٹر مبشر حسن، غنویٰ بھٹو اور خود میں اس پیشکش کے سخت مخالف تھے۔ کئی ساتھیوں نے کہا کہ تم ہاں کرو تو کچھ ہم بھی حکومت کے مزے لوٹیں۔ ایک شخص اپنے آپ کو وزیر سمجھے بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے بلند آواز میں کہا، ’’سنو سب، ہم حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ اور اگر ہوئے تو صرف ایک شخص جائے گا۔‘‘
ساری میٹنگ میں سناٹا چھا گیا۔ وہ سمجھے کہ ڈاکٹر صاحب اُسی شخص کے بارے میں کہیں گے جو اندر کھاتے وزارت کے قلم دان کی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہے۔
’’بس ایک شخص، اور وہ ہی وزارت کے فن کو جانتا ہے۔ بس ایک فرخ گوئندی ہماری طرف سے وزیر ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا۔
بس پھر کیا تھا، مزید سناٹا! اور میں نے بلند آواز میں کہا، ’’ہم میں سے کوئی بھی فوجی آمریت کا ساتھ نہیں دے گا، بشمول میرے۔‘‘
میٹنگ ختم ہوئی تو حکومت کے خواہاں ساتھی مجھ پر پَل پڑے۔ ’’کیوں ٹھکرا رہے ہو، اگر تم وزیر ہوگئے تو ہمارے بھی دروازے کھل جائیں گے۔‘‘
ڈاکٹر مبشر حسن اس سارے کھیل سے آگاہ ہوگئے کہ ہماری پارٹی کے اندر کون کون کہاں کہاں کھڑا ہے۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے ایک بار مجھے بتایا، ’’یہ جو ایٹم بم کی بات کرتے ہیں، فرخ مجھے سب سے پہلے اس کام کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور میں بھٹو صاحب کے فیصلے کے مطابق سعودی عرب گیا اور شاہ فیصل سے ملا اور ایک خطیر رقم وہاں سے لے کر آیا۔‘‘ دہائیوں کی عملی جدوجہد میں بہت کچھ کیا اور سنا بھی۔جب ذوالفقار علی بھٹو ، لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے آئے تو اس نرم خو شخص نے جو منصوبہ بنایا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے رہبر سے کس قدر مخلص تھے ۔ انہوں نے کوٹ لکھپت جیل سے ہائی کورٹ تک پولیس کی نگرانی میں قیدی کے طور پر جاتے ذوالفقار علی بھٹو کو چھڑوانے کی مکمل منصوبہ بندی کرلی۔ ایک مکمل پلان تیار کیا اور اس کی ریہرسل بھی کی۔ جب سارا منصوبہ بن گیا اور عدالت میں پیشی کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو اس سے مطلع کیا تو انہوں نے اجازت نہ دی۔ جنرل ضیاالحق سے ملاقات کے لیے اُن کا اسلام آباد میں ہفتوں کا قیام اور پھر ناکام لوٹنا کہ وہ جنرل ضیاالحق سے مسٹر بھٹو کی رہائی کے لیے درخواست کرنا چاہتے تھے اور پھر یہ ملاقات لاہور کور ہیڈکوارٹر میں پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل سوار خان کے دفتر میں ہوئی۔
4اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے چند روز قبل شاید 28مارچ کو، ڈاکٹر مبشر حسن نے جنرل ضیا سے کہا، ’’آپ بھٹو صاحب کو چھوڑ دیں، میں انہیں بیرون ملک لے جائوں گا۔ ترکی لے جائوں گا اور اگر آپ کہیں تو انہیں قائل کرلوں گا کہ وہ دس سال تک سیاست میں بھی حصہ نہیں لیں گے۔ ‘‘
جنرل ضیا نے ڈاکٹر مبشر حسن کو ورغلانے کے لیے کہا، ’’آپ کو معلوم ہے کہ مسٹر بھٹو آپ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، دکھائوں وہ فائلیں؟‘‘ یہ جنرل ضیا کا خاص حربہ تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا، ’’مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ آپ اُن کی سزا معاف کریں۔‘‘
یہ ایک تاریخی ملاقات تھی۔ اس کی تفصیل میں نے ریکارڈ کررکھی ہے جو جلد ہی سوشل میڈیا پر عام کروں گا۔ جب جنرل ضیاالحق ٹس سے مس نہ ہوا تو ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا، ’’جنرل صاحب، آپ کو معلوم ہے کہ اگر آپ نے مسٹر بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا تو تیسری طاقتیں آپ سے ناراض ہوجائیں گی۔‘‘
جنرل ضیا نے کہا، ’’ اس حوالے سے معاملہ طے ہوچکا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مبشر حسن نے مجھ سے کہاتو تب مجھے یقین ہوا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے کہاں تک طے ہوئے تھے۔
میں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے ہمراہ درجنوں تنظیموں اور تحریکوں میں عملاً حصہ لیا ، آزاد پاکستان، دوست، سویرا اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔
آخری بار چند ہفتے قبل ملنے گیا تو وہ لاہور لیفٹ فرنٹ کی کامیاب سرگرمیوں پر بہت خوش تھے۔ تفصیل سے پوچھتے رہے، کہا، اور سنائو کیا کیا کارنامے سرانجام دے رہے ہو۔ انہیں اپنے نئے فورم ’’جُمہوری خلق پاکستان‘‘ کی تشکیل اور حکمت عملی کے بارے میں بتایا تو اُن کا چہرہ کھل اٹھا۔ محفل میں موجود کچھ احباب مخل ہوئے تو انہوں نے انہیں سختی سے روک کر کہا:
’’فرخ، تفصیل بتائو۔‘‘
اس ملاقات کے دوران جناب آئی اے رحمان بھی تشریف لائے اور میری روانگی سے پہلے چلے گئے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن سے پوچھا، ’’ڈاکٹر صاحب،ا ٓپ اور عاصمہ جہانگیر نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا بھی تو فیصلہ کیا تھا۔‘‘
سوچ کر کہنے لگے، ’’شاید۔‘‘
آئی اے رحمان نے مزید یاد دلایا تو انہیں یاد آیا۔ ’’ہاں ہاں، سویرا۔ اس کا منشور لکھا تھا کہ آئو مل کر جماعت بنائیں، لوگوں نے دلچسپی نہیں لی تو ہم دونوں پارٹی نہ بنا پائے۔‘‘
میں نے آئی اے رحمان صاحب سے عرض کی کہ کیا وہ منشور مجھے مل سکتا ہے۔ تین چار روز بعد دفتر پہنچا تو میری میز پر موجود ڈاک میں ایک خط آئی اے رحمان صاحب کی جانب سے تھا۔ کھول کر دیکھا تو وہ ’’سویرا‘‘ کا منشور تھا۔ جناب آئی اے رحمان کے میرے نام لکھے نوٹ کے ساتھ۔
14مارچ کو جب میں ڈاکٹر مبشر حسن کے کمرے میں داخل ہوا تو چند احباب وہ پلنگ اٹھا رہے تھے جس پر ڈاکٹر مبشر حسن ایک سال سے زائد عرصے سے لیٹے لیٹے سیاسی عمل میں اپنی رائے دیتے رہے۔
ایک کونے میں ڈاکٹر زینت حسن کھڑی تھیں۔ مجھ پر نظریں پڑیں، خاموش سلام کے ساتھ۔
اور پھر ڈاکٹر مبشر حسن وہاں سے رخصت ہوگئے۔۔۔
“