قصور کے شاعر صابر علی صابر نے ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب کا پنجابی ترجمہ کیا جسے سانجھ پبلیکیشنز کے امجد علی نے بغیر کریڈٹ مینشن کیے پبلش کر دیا. اس کتاب پر صابر علی صابر کو انعام سے بھی نوازا گیا. مگر یہ کتاب درحقیقت ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا ترجمہ ہے. شاعر صابر علی صابر نے بیشک ترجمہ کرنے میں محنت کی مگر خیالات ڈاکٹر صاحب کے ہیں جنھیں ہو بہو کاپی کیا گیا. اور بغیر کریڈٹ اور بغیر رائلٹی آگے پرنٹ کیا گیا. اس سے پہلے بھی سانجھ پبلیکیشنز والے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کی ایک لاکھ روپے کی رائلٹی ہڑپ کر چکے ہیں. ڈاکٹر صاحب بزرگ تاریخ دان اور ہمارا سرمایہ ہیں اور اس وقت نہ صرف ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب وہ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے خود اکیلے مزید کام بھی نہیں کر پا رہے. آپ چاہے ڈاکٹر صاحب کی تحقیقات یا تھیسز سے متفق ہوں نہ ہوں مگر وہ پاکستان کے تاریخ دانوں میں سب سے قدر آور شخصیت ہیں انکے ساتھ یہ دھوکہ دہی انتہائی قابل مذمت ہے.
میری سب دوستوں سے اپیل ہے کہ اس ضمن میں سانجھ پبلیکیشنز پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں یا اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئر کریں تاکہ دھوکہ دینے والوں کا احتساب ممکن بنایا جا سکے. میری شاعر صابر علی صابر سے بھی گزارش ہے کہ وہ سامنے آئیں اور شہادت کے طور پر ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کروائیں اور اس میں ڈاکٹر صاحب کا کے کریڈٹ کا اعتراف کریں ورنہ انکی کتاب "وسیب دی کہانی" کو ڈاکٹر صاحب کی پہلے سے اشاعت شدہ کتاب سامنے رکھ کر آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے. انھیں چاہیے کہ وہ اسکا اقرار خود کریں تاکہ انکی ساکھ بھی بحال رہ سکے. آپ سب سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ بزرگ historian کی مدد کریں (جو اسوقت تقریباً بینائی سے محروم ہو چکے ہیں) انھیں اس بات پر شدید صدمہ پہنچا ہے اور یہ بلا شبہ سانجھ پبلیکیشنز کیطرف سے انتہائی گھٹیا حرکت ہے!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔