ڈاکٹر مبارک علی کی عالمی حکومت کی کہانی ۔۔۔۔
لاہور کی پی سی ہوٹل میں رش بہت کم تھا ،لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی حیران کن طور پر رکا ہوا تھا ۔پی سی ہوٹل کی لابی کے ایک کونے پر پڑی دو کرسیوں پر ہم دونوں ملکی و عالمی سیاست پر بحث و مباحثہ کررہے تھے ۔ڈاکٹر مبارک علی کی طبعیت میں بے چینی واضح نظر آرہی تھی ۔لاہور بم حملے اور اسلام آباد میں مولویوں کے جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے وہ شدید پریشان نظر آئے ۔میں نے کہا استاد محترم جب تک یہ دنیا میں مذہبی دماغ کا راج ہے،جب تک اس دنیا میں سیاستدان اور فوجی جرنیل ہیں ،جب تک اس دنیا میں شدت پسند نظریات ہیں ،جب تک اس دنیا میں قومیت،محب وطنی ،قوم پرست ،نسل پرستی ہے تب تک ایسا ہوتا رہے گا ۔آپ پریشان نہ ہوں ۔جدید صرف سڑکیں ہو رہی ہیں ،ہوٹل ہورہے ہیں ،محلات ہورہے ہیں ،فیشن ہورہا ہے ،ٹیکنالوجی ہورہی ہے ،انسان اب بھی پتھروں والی سوچ کے ساتھ زندہ ہیں ۔انہوں نے کہا کیسے ،میں نے جواب دیا جس دن شمالی کوریا کا نفسیاتی مریض صدر پاگل ہو گیا اس دن اس دنیا کا کیا بنے گا؟ ۔ڈاکٹر مبارک علی تھوڑی دیر خاموش رہے ،پھر بولے اجمل میاں اس کا بھی ایک حل ہے ۔میں نے کہا وہ کیا؟ تو انہوں نے سگریٹ سلگایا اور میری طرف اپنی تمام توجہ مرکوز کرتے ہوئے بولے ،دوسری جنگ عظیم سے پہلے لیگ آف نیشن کی صورت میں ایک عالمی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی ،لیکن بدقسمتی سے یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ لیگ آف نیشن کو عالمی حکومت کی بجائے بحث و مباحثے کا اڈہ بنا دیا گیا ۔جب دوسری جنگ عظیم ہوئی تو لیگ آف نیشن کی حیثیت تباہ و برباد ہو گئی ۔لیگ آف نیشن کی کریڈیبلیٹی دوسری جنگ عظیم کے ملبے کے نیچے دب کر رہ گئی ۔لیکن اب بھی لیگ آف نیشن جیسے ادارے کی ضرورت تھی ۔اس لئے اقوام متحدہ معرض وجود میں آیا ۔لیکن یہ دنیا اور انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ اقوام متحدہ بھی صرف ڈیبیٹنگ کلب بن کر رہ گیا ہے ۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پاس بھی کوئی پاور نہیں ،یہ بھی ایک بے بس عالمی ادارہ بن چکا ہے ۔امریکہ روس ،چین اور برطانیہ وغیرہ کی جنگی پالیسیوں کی وجہ اس ادارے کی ساکھ کچھ نہیں رہ گئی ۔امریکہ جب چاہتا ہے اور جہاں چاہتا ہے یا خود حملہ کردیتا ہے یا اپنے حواریوں سے حملہ کرادیتا ہے ۔حکومتیں سازشوں سے بدل دی جاتی ہیں اور نقلی انقلابات برپا ہوجاتے ہیں مڈل ایسٹ اور افغانستان میں جو کچھ ہورہا ،جس قدر تباہی و بربادی ہے یہ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ۔اب بیلجئیم اور فرانس سمیت پورے یورپ اور امریکہ میں جس طرح داعش جیسی شدت پسند تنظیم دہشت گردانہ کاروائیاں کررہی ہے یہ بھی انہی طاقتور ممالک کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ۔انہی پالیسیوں کی وجہ سے شدت پسند مذہبی نظریات طاقتور ہوئے اور آج یہ مذہبی شدت پسند نظریات اپنی طاقت کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔اجمل میاں چھوڑو اس پر کبھی پھر بات ہوگی ،اصل ایشو کی طرف آتے ہیں ۔سگریٹ کے کش انجوائے کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی بولے ،یہ تو ثابت ہوگیا کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے سے جنگ و جدل ختم نہیں کرایا جاسکتا اور نہ ہی یہ ادارہ تیسری عالمی جنگ کو روک سکتا ہے ۔تیسری جنگ عظیم ہو گئی تو بہت بربادی ہوگی ،انسانیت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اقوام متحدہ کو سرگرم کرنا ہے تو اس ادارے کو عالمی حکومت کی شکل دینی ہوگی ۔اسے دنیا کے تمام ملکوں کی عالمی حکومت میں بدل دینا چاہیئے۔دنیا کے تمام ملکوں کو اس عالمی حکومت کی زیر نگرانی آنا چاہیئے۔دنیا کی تما م ملکوں کی افواج اور اسلحے کو اس عالمی حکومت کے زیر کنٹرول دیا جائے ۔جب اس دنیا میں ایک عالمی حکومت ہوگی تو کسی قسم کی فوج یا وردی والوں کی ضرورت نہیں رہے گی اور نہ ہی پاکستان اور بھارت جیسے احساس کمتری کے شکار ملک ایک دوسرے سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔اس طرح اقوام کے درمیان آپس کی جنگوں کا ماحول ختم کیا جاسکتا ہے ۔ڈاکٹر مبارک علی نے کہا ،اس وقت ہر بڑی طاقت یا بڑا ملک جیسے امریکہ چین وغیرہ ایٹمی ہتھیاروں سے مالا مال ہیں ،دنیا کے بہت سے ممالک کے پاس ایسے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ وہ اس زمین کو لاکھوں مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اس طرح کی خوفناک جنگی گیسیں ہیں کہ اس دنیا کا ہر انسان لاکھوں مرتبہ مر سکتا ہے ۔ایسی گیسیں کہ زمین سے زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔اگر ایک مرتبہ بھی اب ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی گیسیوں کا مقابلہ ہوگیا تو ہم سب انسان مر جائیں گے ۔یہ دنیا کے طاقتور فوجی جرنیل اور سیاستدان بڑے بے رحم ہیں ،خوفناک حد تک نفسیاتی مریض ہیں ،خطرناک حد تک احساس کمتری کا شکار ہیں ۔ان طاقتور لوگوں نے چہروں پر نقاب اوڑھ رکھے ہیں ۔یہ لوگ کہتے کچھ ہیں ،کرتے کچھ ہیں ۔بہت بڑے منافق ہیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ طاقتور ہیں ،کبھی بھی طاقت کا غلط استعمال ہوگیا تو دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ بن جائے گی ۔کیا ہم اب تک پانچ ہزار جنگیں نہیں دیکھ چکے ،کیا ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم نہیں گرا گیا؟کیا ان جنگوں کی وجہ سے کروڑوں انسان نہیں مارے گئے ؟کڑوروں انسانوں کی زندگی اب بھی اب کے انگوٹھے کے نیچے ہے،ان سے بٹن دب گیا تو انسانوں کی یہ خوبصورت دنیا نہیں رہے گی ۔احساس کمتری کا شکار یہ افراد دنیا کی زندگی کے لئے خطرناک ہیں ۔ان سے طاقت لینے کا وقت آگیا ہے ۔اقوام متحدہ کو ایک منظم اور حقیقی عالمی ھکومت میں بدلنا ہوگا ۔اور تمام دنیا کےملکوں کو اپنی افواج اور ہتھیاروں کو اس عالمی حکومت کے سانے سرنڈر کروانا ہوگا ۔اس طرح ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کو تخلیقی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔یہ افواج جو لاکھوں افراد پر مبنی ہیں یہ آزاد ہو جائیں گی اور پھر یہ لوگ جنگ کرنے کی بجائے دنیا کی خوبصورتی کے لئے تخلیقی روپ دھاڑیں گے ۔جنگوں کی تربیت کرنے کی بجائے یہ انسانیت کی تربیت کریں گے ۔دنیا کے تمام ایٹمی اور غیر ایٹمی سائنسدانوں پر کسی ایک ملک کا حق نہ ہو بلکہ ان کے کام اور صلاھتیں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوں ۔دنیا کو اس ایک سنگل پوائینٹ ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔دنیا کے ہر ملک کے وزیر اعظم یا صدر کو اس عالمی حکومت کے ممبران بنا دیا جائے ۔اس طرح دنیا کے تمام ممالک کے وزراء اعظم یا صدور اپنا اپنا کا م جاری رکھیں ۔ان کے پاس اب حقیقی پاور نہیں ہوگی،اس طرح یہ ایک دوسرے کے ملکوں پر حملہ آور بھی نہیں ہو سکیں گے۔یہ صدور اور وزراء اعظم اپنے ملکوں کو پی آئی ائے اور ریلویز کی طرح چلائیں گے ۔یہ بھی ہوگا کہ کچھ ممالک اس عالمی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے ایسے ملکوں کا ایسے بائیکاٹ کیا جائے جیسے یہ اس دنیا میں ہیں ہی نہیں ۔ان کے ساتھ جب ہر طرح کا رشتہ ختم ہوگا تو مجبوری میں یہ بھی اس عالمی حکومت کا حصہ بن جائیں گے ۔جب تمام ملک عزت کے ساتھ اور دنیا کے امن کی خاطر عالمی حکومت کی اطاعت قبول کرلیں گے تو پھر ان ملکوں کے اندر سیکیورٹی گاردز کی ایک فورس ہوگی جو ملکوں کے اندر کے معاملات کو درست کرے گی ۔جب نیوکلئیر ہتھیار اور نیوکلئیر پاور پلانٹ عالمی حکومت کے کنٹرول میں ہوں گے تو کم از کم انسانیت کو تحفظ کا حقیق اھساس تو ہوگا او اس طرح انسانیت قتل عام سے رک جائے گی یا کم از کم اس قتل وغارت کی رفتار تو کم ہو گی ۔عالمی حکومت کے ممبران عالمی حکومت کے صدر کو منتخب کریں گے ۔لیکن عالمی حکومت کا صدر کسی ملک کا جرنیل یا فوجی نہیں ہوگا ۔نہ وہ شمالی کوریا جیسے صدر جیسا ہوگا ،نہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہوگا ،نہ وہ مودی اور نہ نواز شریف جیسا ہوگا ۔اس کے لئے شرط ہوگی کہ وہ فلسفی ہو ،دانشور ہو ،ادیب ہو ،تاریخ دان ہو یا پھر کوئی شاعر ہو ۔اس طرح سے دنیا سے فوجی اور سیاسی طاقت کا خاتمہ ہو گا ۔یہ فوجی و سیاسی طاقت ہمیشہ سے ماضی میں تباہی و بربادی ہی اس دنیا میں لاتی رہی ہے ۔یہ کوئی اقوام متحدہ ہے جس میں چند ممالک کے پاس ویٹو پاور ہے اور یہ ویٹو پاور وہ اپنے مفادات اور دنیا کی تناہی کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔انکی ویٹو پاورکا خاتمہ بہت ضروری ہے اگر اس دنیا کو بچانا ہے ۔عالمی حکومت کی وجہ سے دنیا کا تمام پاور اسٹکچر تبدیل ہو جائےگا ۔اس کے بعد دوسرے معاملات آسانی سے حل کئے جاسکتے ہیں ۔ڈاکٹر مبارک علی نے یہاں اپنی گفتگو کی اور کہا اجمل میاں آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔اب میں نے جی سی کالج لیکچر کے لئے جانا ہے ۔آج اسی حوالے سے لیکچر ہوگا ۔ڈاکٹر مبارک علی وہاں سے چلے گئے اور میں وہاں بہت دیر تک بیٹھتا یہ سوچتا رہا ،عالمی حکومت کی کہانی تو بہت خوبصورت اور دلکش ہے ،لیکن کیا اسے عملی شکل دینا آسان ہوگا ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔