وزارت برائے منتہائے مسرت
آج سے کچھ سال پیشتر ماسکو کے لال چوک سے عین باہر، مانیژ سکوائر کے سامنے، سابق لینن میوزیم کی جانب پہلو کیے اور دوسرا پہلو دوما یعنی روس کی قومی اسمبلی کی عمارت کو دکھاتا ہوا ایک ہوٹل تھا۔ نام اس کا تھا ہوٹل ماسکوا، ہوٹل ماسکو یا ماسکو ہوٹل نہیں۔ تھا اس لیے کہ اب اسے ڈھا کر بالکل ویسی ہی عمارت تعمیر کرکے اس کا نام "فور سیزن" رکھ دیا گیا ہے۔
تو اس ہوٹل کا فاساد یعنی ماتھا یک لخت توجہ کھینچتا تھا، اب بھی کھینچتا ہے کیونکہ اس کے درمیانی حصے کے دونوں پہلووں کی اونچائی ایک سی، بالکنیاں بھی یکساں تعداد میں مگر ڈیزائن مختلف، یوں وہ دونوں حصے درمیان کے حصے کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود اس کے حصے نہیں لگتے تھے، کم از کم کچھ عرصے تک۔ شے کو "کل" میں دیکھنے کی عادت تو بہر طور ہو ہی جاتی ہے۔ یہ ہوٹل ایسا کیوں تھا اور ایسا ہی کیوں ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سٹالن کو اس ہوٹل کے دو ڈیزائن دکھائے گئے تھے، اس نے دونوں پر منظوری کے دستخط کر دیے گئے تھے چنانچہ سٹالن کے عتاب سے بچنے کی خاطر اس کے دو حصوں کو مختلف رکھا گیا تھا، ایک ایک منظور شدہ نقشے کے مطابق اور ایک دوسرے منظور شدہ نقشے کے مطابق۔ سچ یا جھوٹ مجھے معلوم نہیں۔ ارون دھتی رائے کے دوسرے ناول "وزارت برائے منتہائے مسرت" ( مجھے نہیں معلوم کہ پروفیسر ارجمند آراء نے ناول کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے The Ministry of utmost happiness کا ترجمہ کیا کیا ہوگا )کو پڑھتے ہوئے مجھے بہرحال یہ ہوٹل یاد آ گیا۔ یونہی نہیں بلکہ اس کی وجہ ہے۔
ناول کی تلخیص تو خیر میں درج نہیں کروں گا، تاہم اگر کسی نے اس کا ابتدائی حصہ یا اس کے بارے میں کوئی مختصر تبصرہ پڑھ کر اس ناول کو مخنث انسان کی نفسیات سے متعلق ناول سمجھ لیا ہو تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ بلا شبہ اس کا ایک حصہ ( ہوٹل ماسکوا کی طرح ) اس شخص کے بچے سے متعلق ہے جو چنگیز خان کی اولاد ہونے کا دعویدار ہے اور باقاعدہ ایک شجرہ بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہے البتہ اس شخص کا نام کچھ عجیب سا ہے، ملاقت علی جو غالبا" ملاقات علی ہوگا، ایسا نام آپ میں سے کسی نے سنا ہے کیا؟ خیر وہ بچہ اپنے تمام چنگیز خانی جسمانی جمال کے باوجود مرد کے جسم میں قید عورت ہے، جو چودہ سال کی عمر میں بغاوت کرتے ہوئے عورت بن گئی یعنی جسے ہمارے ہاں آج کل پتہ نہیں کیوں خواجہ سرا کہا جانے لگا ہے۔ وہ ایک معمر شخص کے ساتھ ہندوستانی ریاست گجرات تب جاتی ہے جب نریندر مودی وہاں کا وزیر اعلٰی تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے مذہبی جنونی ہندو بلوائی پاپ کے ڈر سے اسے نہیں مارتے مگر وہاں ہوتا قتل عام دیکھ کر اس کے ذہن پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی گرو اور ساتھیوں سے اختلاف کرتے ہوئے "خواب گاہ" نام کی مشترکہ رہائش چھوڑ کر قبرستان میں ڈیرہ ڈال لیتی ہے۔
ناول کا دوسرا حصہ درحقیقت اصل ناول ہے یعنی ہوٹل ماسکوا کے فاساد کا درمیانی حصہ، اسی طرح بڑا، متاثر کن اور ہیبت خیز۔ اس حصے میں ہندوستان کے سماجی مسائل اور ان پر مودی جیسے شخص کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے انا ہزارے کی موقع پرستی کا ذکر، جس میں وہ کہتا ہے "دودھ مانگو گے کھیر دینگے، کشمیر مانگو گے چیر دینگے"۔ اناہزارے کی کرپشن کے خلاف موقتی مہم اور قوم پرستی کے نعروں کے باعث نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ظلم و جبر کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ یہاں ارون دھتی نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے اس بیباک پن کی وجہ سے انہیں غداری تک کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ وہ آج بھی متعصب لوگوں کی تنقید کا نشانہ ہیں۔
کشمیر میں جبر کی سیاہ رات کو ارون دھتی نے اپنی لکھنے کی صلاحیت کی روشنی ڈال ڈال کر جس طرح دکھایا ہے، اس سے کم از کم مجھے پہلی بار کشمیر کے عوام کی بے پناہ اذیت کا اندازہ ہوا ہے۔ اس حصے کو پڑھنا ہر اس پاکستانی پر فرض ہے جو انسانی آزادی کا قائل ہے۔ پاکستان کے ہر فوجی افسر کو اسے پڑھنا چاہیے۔ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی اسے پڑھ کر غور کرنا چاہیے کہ ان کے اعمال وہاں کی فوج اور پولیس سے کیونکر مختلف ہیں، بلوچستان کے لوگوں کو تو خیر پورا ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس میں نامور کہلانے والے صحافیوں کی دہری زندگی کا پردہ بھی چاک کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کے مسائل بھی اتنے ہی گمبھیر ہونگے مگر مجھے یہ جان کر عجیب لگا کہ پاکستان میں بھی ہندوستان کے سرکاری ہسپتالوں کی طرح ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض لٹائے گئے ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی پانچ گنا کم ہے۔ عجیب اس لیے لگا کہ میں سمجھتا تھا کہ شاید ہندوستان میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو مگر معلوم ہوا کہ اکہتر سال کی جمہوریت، جمہور کے بڑے حصے کی جمہوریت وہاں بھی نہیں ہے۔
ارون دھتی کا یہ ناول سیاسی ناول ہے اور انہوں نے اپنی پوری نفرت کے ساتھ ہندوستان کی سیاست کا پول کھولا ہے۔ جو لوگ یہ امید کیے ہوئے تھے کہ ان کا یہ ناول ان کے پہلے ناول "گاڈ آف سمال تھنگز" کی طرح جس پر انہیں بکر پرائز ملا تھا، کچھ سر ریئل ہوگا، کچھ علامتی، کچھ فلسفیانہ، انہیں اسے پڑھ کر مایوسی ہوگی۔ یہ ناول سیاست کے طالبعلموں کے لیے ہے کیونکہ یہ بہت حقیقی ناول ہے۔
ہوٹل ماسکوا کے ایک اور بے جوڑ پہلو کی طرح ناول کا تیسرا اور آخری حصہ ہے جس میں کسی طرح سیمنٹ ویمنٹ لگا کر کے عمارت کو ایک ہوتے دکھایا گیا ہے، اس میں ہندوستان میں ماؤسٹوں کی تحریک کا ذکر ہے۔ آفتاب سے انجم بن جانے والی مرد نما خاتون کی انٹرپرینیورشپ کے ساتھ ساتھ اس کی سماج سے مختلف یا سماج کو مختلف شکل دینے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ایک باہمت خاتون سے جنم لے کر بڑی ہو چکی بچی تلومتا ( تل جتنی ) کی، اپنے ہم جماعت کشمیری موسٰی کے ساتھ تعلق کی کہانی ہے جو کشمیر کی تحریک آزادی میں کمانڈر گلریز بن چکا ہوتا ہے۔
انجم باجی کے "جنت گیسٹ ہاؤس اینڈ فیونرل سروسز" کا ہر کمرہ اس کے کسی رشتے دار کی قبر کے گرد بنا ہوا ہے۔ انجم، نہیں نہیں آفتاب کو دنیا میں لانے والی مددگار دائی اہلام یا اہلم باجی ( یہ نام بھی کچھ عجیب مسلمان نام لگتا ہے ) کو بھی رشتہ دار سمجھا گیا ہے۔ اس کی قبر کے گرد بنا کمرہ تلومتا کو دیا گیا تھا جہاں موسٰی اور تلومتا آخری رات بتاتے ہیں۔ اس کے بعد موسٰی کشمیر جا کر مارا جاتا ہے اور آخر میں اس چھوٹی بچی کی ماں کا خط ہے جسے تلومتا نے چوک جنتر منتر، جہاں انا ہزارے تحریک چلا رہا تھا، سے اٹھا کر اسے موسٰی کی کشمیری بچی کے نام پر جبین دوم نام دیا ہے۔ موسٰی کی بچی جبین اور اہلیہ عارفہ بھارتی فوجی کی رائفل سے نکلی ایک ہی گولی سے ماری گئی تھیں۔ اس خط میں بچی جبین دوم کی اصل ماں اور ماؤسٹ ایکٹیوسٹ بتاتی ہے کہ کس طرح بھارتی پولیس کے چھ اہلکاروں نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی جس کے نتیجے میں یہ بچی اس دنیا میں آئی۔ اسے اس بچی سے نفرت تھی لیکن اس نے اسے نہیں مارا۔ اس کے خیال میں اب اسے پالنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے پالتا ہے۔ خط کے آخر میں وہ لکھتی ہے "ریڈ سیلیوٹ " جس کا جواب انجم " لال سلام علیکم " کہہ کر دیتی ہے۔ نستعلیق اردو بولنے والی دہلوی انجم کو غالبا" "لال وعلیکم السلام" کہنا چاہیے تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“