(Last Updated On: )
ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی دور جدید کے نامور ادیب و قلمکار ہیں۔ اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کو عام کرنے میں ان کی خدمات عالمی سطح پر مقبول ہیں۔سوشل میڈیا کو فروغ اردو کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنے تخلیقات مختلف ادبی رسائل‘اخبارات ‘ویب پورٹلس اور اپنے بلاگ پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ اردو میں تحقیقی ‘ تنقیدی و معلوماتی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی اب تک سات(7) کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں اور قارئین میں مقبول ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے بلاگ پر یہ ساری کتابیں عالمی قارئین کے مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ ان کی کتابیں اردو کتب کے اہم آن لائن ذخیرہ ریختہ پر بھی دستیاب ہیں۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو کے ’’سائبر ادیب‘‘ ہیں۔ ان کی آٹھویں کتاب’’ اردو کی منتخب نظمیں ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہورہی ہے۔ ان کی سابقہ کتابوںکی طرح یہ کتاب بھی اپنے موضوع سے بھر پور انصاف کرتی ہے اور ادب نواز قارئین کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔
ادب کی دو جہات ہیں۔ ایک نظم دوسرے نثر۔ نظم کی کئی اصناف جیسے مثنوی ‘مرثیہ‘غزل‘نظم‘قصیدہ‘رباعی وغیرہ مقبول ہیں۔ بہ حیثیت صنف نظم بھی انیسویں صدی کے اواخر سے اردو ادب میں مقبول رہی ہے۔ انجمن پنجاب کے زیر اثر آزاد‘حالی وغیرہ نے غزل کے مقابل نظم کو فروغ دیا ۔ کسی موضوع پر مسلسل اظہار خیال کے لیے نظم سے اچھی کوئی اور صنف نہیں۔اقبال‘چکبست‘اکبر‘جانثار اختر‘اخترالایمان‘ساحرلدھیانوی‘حفیظ جالندھری وغیرہ اردو نظم کے مقبول شاعر گزرے ہیں۔زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اردو نصاب کا حصہ رہیں کچھ منتخب نظموں کی تفہیم پیش کی ہے۔ نظم کی تعریف‘شاعر کے احوال‘نظم کا متن اور نظم کی تشریح و تفہیم کے ساتھ نظم کا مرکزی خیال بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلباء اور اردو تدریس سے وابستہ اساتذہ کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی جانب سے پیش کردہ نظموں کی تفہیم کا یہ خوبصورت گلدستہ یقینا کارآمد ثابت ہوگا۔ اور یہ کتاب اردو نظم کی تفہیم کے سلسلے میں ایک اہم اضافہ تصور کی جائے گی۔
نظم کے معنی دھاگے میں موتی پرونے کے ہیں۔اصطلاح شاعری میںکسی موضوع پر مسلسل اشعار کی پیشکشی کو نظم کہتے ہیں۔نظم میں تسلسل اور ربط ہوتا ہے۔اور ایک مرکزی خیال پایا جاتاہے۔نظم کے لیے کئی ہئتیں ہیں جیسے پابند نظم‘معریٰ نظم‘آزاد نظم وغیرہ ۔اردو میں موضوعاتی نظمیں مقبول ہیں۔اس کے علاوہ نیچرل نظم‘قومی نظم‘جدید نظم‘نثری نظم‘علامتی نظم وغیرہ بھی لکھی جاتی رہی ہیں۔جب کہ ہئیت کے اعتبار سے نظموں کی اقسام میں دوہا ‘ماہیا‘ہائیکو‘گیت‘ترائلے‘مثلث‘وغیرہ بھی مشہور ہیں۔
جہاں تک اس کتاب میں شامل نظموں اور ان کے پیغام کا معاملہ ہے تو نظم’’ مناجات‘‘ از قلی قطب شاہ میںاس بات کا اشارہ کیا گیاہے کہ بادشاہ ہو یا فقیرہر ایک بندے کو اپنے مالک حقیقی خدائے وحدہ لاشریک سے دعا مانگتے رہنا چاہئے اور اسی رب العالمین سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ قلی قطب شاہ نے اپنی بیشتر نظموں میںاللہ سے مدد طلب کی ہے۔نظم ’’توحید‘‘ از نظیر اکبر آبادی میںشاعر نے خدا کے سچے عاشق بندے سے کہا ہے کہ وہ خدا کو اس کائنات میں موجود بے شمار تخلیقات اور انسانی زندگی کی اونچ نیچ سے پہچانے کہ دنیا میںجو کچھ ہورہاہے وہ سب کچھ اسی بڑی قدرت والے کے اشارے سے ہورہا ہے۔انسان جب اپنے خالق کو پہچانے گا تو اس کے بنائے ہوئے نظام کو بھی سمجھے گا اور اس کی کہی ہوئی باتوں کو مانے گا۔دنیا میں جاری خیر و شر کاسلسلہ اسی حق کی پہچان کو ظاہر کرتا ہے۔نظیر نے’’ شہر آشوب‘‘ میں اپنے دور میںشہر آگرہ کی بدحالی کا ذکر بڑے ہی جذباتی انداز میں کیا ہے۔اس طرح کے شہر آشوب لکھنے کی موجودہ زمانے میں بھی ضرورت ہے۔نظم ’’مستقبل‘‘ میں اکبر الہ آبادی نے آنے والے دور کے تہذیبی زوال کے جو نقشے کھینچے تھے وہ موجودہ زمانے میں سچ ثابت ہوئے جب کہ مغربی تہذیب کے اثرات اہل ہند پر نمایاں ہیں۔نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں اقبال نے انسانوں کو حرکت عمل کی تلقین کی ہے اور اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ زندگی کا سفر عشق پر مبنی ہے اور اس سفر میں حرکت و عمل کے ذریعے مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنانا ہے۔اور حقیقی حسن یعنی دیدار الٰہی کو پانے تک مسلسل جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔بے عملی موت کی نشانی ہے اس سے انسان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجاتے ہیں۔نظم ’’نیا شوالہ‘‘ میں اقبال نے ہندو قوم کی مذہبی نشانیوں مندر‘مورت‘تیرتھ‘منتر‘پجاری‘بھگت اور مکتی جیسے اشارے استعمال کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کو اتحاد کا پیغام دیا ہے۔انہوںنے کہا کہ ہمارے مذہبی اداروں کے رہنما واعظ و پجاری اپنے حقیقی منصب پر فائز نہیں رہے اس لیے شاعر مسجد و مندر سے آزاد ہوکر لوگوں کواپنے دل کو عبادت گاہ بنانے کا مشورہ دیتا ہے۔اور اس طرح لوگوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں اقبال نے گفتگو کے انداز میں بچوں کو یہ پیغام دیا کہ دنیا میں خدا نے کسی کو چھوٹا اور بڑا نہیں بنایا خدا کی بنائی ہر شئے اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔پہاڑ ساکت و جامد ہے اور گلہری حرکت و عمل کا پیکر ہے۔ انسان کو ثابت قدمی کے ساتھ حرکت و عمل کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ نظم’’ بارش‘‘ میں شاعر ظفر علی خان نے فطرت کے پجاریوں کو بارش کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کا پیغام دیا ہے۔ نظم ’’اے شریف انسانو‘‘ میں ساحر لدھیانوی نے جنگ کے نقصانات امن کی اہمیت اور انسانی زندگی میں ترقی کے میدان میں جدوجہد کی تلقین کی ہے۔ نظم ’’گلزاور وطن‘‘ میں سرور جہاں آبادی نے ہندوستان کو خوبصورت باغ سے تشبیہ دی ہے اوریہاں رہنے والوں کو پھول قرار دے کرلوگوں کو اپنے وطن میں مل جل کر رہنے کی تلقین کی ہے۔ نظم ’’خاک ہند ‘‘میں چکبست نے لوگوں کو اپنے وطن کی مٹی سے پیار کرنے اور وطن سے محبت کے جذبے کو ابھارا ہے۔ جب لوگ وطن سے محبت رکھیں گے تو وطن کی حفاظت کریں گے اور اس کی ترقی کی کوشش کریں گے۔نظم ’’اجنبی‘‘ میں اختر الایمان نے انسانی زندگی کے بچپن اور فطرت کے حسین نظاروںکو پیش کیا ہے۔نظم’’ ترانہ دکن‘‘ میں وجد نے حیدرآباد دکن کی گنگا جمنی تہذیب‘ یہاں کی عمارات اور یہاں کی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے دکن کی تعریف کی ہے۔نظم’’ اب کے برس‘‘ میں شاعر شاذ تمکنت نے آنے والے برس انسانی زندگی کی تمنائوں کو بیان کیا ہے۔ نظم’’ تبوک آواز دے رہا ہے‘‘ میں شاعر عادل منصوری نے اس جانب اشارہ کیا کہ عرب میں صحابہؓ مال و دولت کی خاطر جنگ میں شرکت سے تاخیر کر رہے تھے اس اشارے سے یہ سبق دیا گیا ہے کہ حق کی خاطر اپنی جان و مال کی پرواہ نہیں کرنا چاہئے۔’’شاعر درماندہ‘‘ نظم میں ن م راشد نے انسان کے داخلی جذبات کو اجاگر کیا ہے۔’’پریت کا گیت ‘‘میں حفیظ جالندھری نے لوگوں میں محبت بھائی چارہ اور اخوت کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔نظم ’’چوتھا آدمی‘‘ میں ندا فاضلی نے خاندانی زندگی میں بزرگوں سے بہتر رویے کی اہمیت کو فنکاری سے پیش کیا ہے۔نظم ’’دھرتی تیرا مجھ سا روپ ‘‘میں شاعرقاضی سلیم نے منظر نگاری کے اچھے نمونے پیش کئے ہیں۔نظم ’’اہل بیت اطہار کی زندگی‘‘ میں شبلی نعمانی نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اہل خاندان کی سادگی کو واقعاتی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب میں اردو نظموں کا اچھا انتخاب شامل کیا گیا ہے جس کی سادہ لفظوں میں تفہیم کی گئی ہے اور فاضل مصنف نے نظم کا مرکزی خیال پیش کرتے ہوئے اردو ادب کے طالب علموں کو شعر فہمی میں مدد دی ہے۔
میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ان کی اس تصنیف’’اردو کی منتخب نظمیں ایک مطالعہ‘‘ کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس امید کا اظہار کرتا ہوں کہ اس کتاب کی اردو کے ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوگی۔ اس کتاب کو ہر اسکول اور کالج کے کتب خانے اور ہر اردو کے استاد کے ذخیرہ کتب میں شامل ہونا چاہئے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اچھی شاعری کم ہورہی ہے اردو کی منتخب نظموں کا یہ مطالعہ اردو نظم پر لکھی گئی کتابوں میں اہم اضافہ ہوگا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی یہ تصنیف ان کے بلاگhttps://draslamfaroquiurdublog.blogspot.com/ پر پی ڈی ایف کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے یا مصنف سے ان کے ای میل [email protected]پر رابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔