(Last Updated On: )
ڈاکٹر مقصود جعفری کی اردو شاعری انسانی وجود، معاشرتی ناانصافیوں اور فلسفیانہ غور و فکر کی گہرائیوں پر مبنی بہترین شاعری ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری اپنی شاعری کے ذریعے انسانی حالت کی ایک واضح تصویر کشی کرتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اکثر فطرت کی خوبصورتی کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ساتھ جوڑتا ہوۓ نظر آتے ہیں۔
آپ کی شاعری میں مزاحمت بھی ہے، نصیحت بھی ہے اور معاشرتی برائیوں پر طنز بھی ہے ۔اُن کی ایک تازہ انقلابی غزل پر اجمالی تبصرہ پیشِ قارئین ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری صاحب کہتے ہیں
باغبانوں نے کیا جو کچھ گلستانوں کے ساتھ
بھیڑئیے بھی وہ نہیں کرتے بیابانوں کے ساتھ
اِس غزل میں مجموعی طور پر ڈاکٹر مقصود جعفری نے سماجی ناانصافیوں اور سیاسی بے اعتدالیوں پر باریک بینی سے تنقید کی ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح فسطائیت و آمرّیت ، انفرادیت کو دبا دیتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں گلشن اور بیابان کا امتزاج، تذکرہ اور تقابُل معاشرتی توقعات اور شخصی آزادی کے درمیان تناؤ کو واضح کرتا ہے۔ کہتے ہیں
میکدے میں آؤ مل کر جامِ انسانی پئیں
عہد و پیماں پھر سے باندھیں آج میخانوں کے ساتھ
اِس شعر میں “میخانے” کی منظر کشی انسانیت کے اجتماعی تجربے کے استعارہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری اجتماعی یادداشت اور روایت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے افراد کو مشترکہ تجربات پر متحد ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔
یہ شعر ملاحظہ ہو
پھول سے بچّوں کو کس نے خون میں نہلا دیا
ظلم ایسا کیا کرے گا کوئی حیوانوں کے ساتھ؟
اِس شعر میں شاعر نے جبر کی بربریت پر، خاص طور پر معصوموں پر انسانیت سوز مظالم کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ اس شعر کے ذریعے ڈاکٹر مقصود جعفری انسانی ظلم کی گہرائیوں اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں خود شناسی کی ترغیب دیتے ہیں۔
سنسرشپ اور جبر پر ڈاکٹر مقصود جعفری کی تنقید عیاں ہے۔ کہتے ہیں
جو زباں بھی بولتی ہے کاٹ دیتے ہیں اُسے
زندگی اِن کی گزر جاتی ہے زندانوں کے ساتھ
یہاں شاعر انفرادی اظہار اور انسانی روح پر آمرانہ حکومتوں کے دبانے والے اثرات کو اجاگر کرتا ہے اور جبر کی زندگی کو قید سے تشبیہ دیتا ہے۔ کہتے ہیں
مسندِشاہی پہ بیٹھے جتنے بھی فرعون تھے
سنگِ در پہ آج بیٹھے ہیں وہ دربانوں کے ساتھ
یہ شعر طاقت اور اختیار کی عارضی نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری تاریخی ظالموں اور عصری حکمرانوں کے درمیان مماثلتیں کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ جو لوگ ناانصافی سے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں انہیں آخرکار زوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے
الحذراز صحبتِ پیرانِ دیر و دیں فروش
کیا ضروری ہے کہ بیٹھیں جا کے شیطانوں کے ساتھ؟
اِس شعر میں ڈاکٹر مقصود جعفری ظلم اور ناانصافی کا پرچار کرنے والوں کے ساتھ تعلق کی اخلاقیات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ پیچیدگی کے تصور کو چیلنج کرتے ہیں اور معاشرتی معاملات میں اخلاقی ذمہ داری کے از سرِ نو جائزہ کا مطالبہ کرتا ہے۔وہ دین فروشوں اور مذہب کی آڑ میں منافرت پھیلانے والوں کو اخوان الشیاطین سمجھتے ہیں۔
اختتامی شعر میں غزہ/ فلسطین میں اسرائیل کے انسانیّت سوز مظالم پر احتجاج کرتے ہوۓ یوں پکار اُٹھتے ہیں
ایسے انسانوں کو انساں کیسے کہہ دوں جعفری
جو “ غزہ” میں کر رہے ہیں آج انسانوں کے ساتھ
وہ انسانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک سے مایوسی کی نشاندہی کرتے ہے ہیں ۔”غزہ” کے حوالے سے وہ مظلوم برادریوں کو درپیش جاری جدوجہد پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ وہ ہمدردی اور یکجہتی پر بھی زور دیتے ہیں۔ انصاف کے طلبگار و خواستگار ہیں اور ظالمین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری محض الفاظ سے بالاتر بہترین اصلاحی ، انقلابی اور مزاحمتی شاعری ہے، جو انسانی وجود کی پیچیدگیوں اور اکثر ناقابلِ معافی دنیا میں انصاف اور ہمدردی کی پائیدار جدوجہد پر ایک پُر اثر تبصرہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اپنے فلسفیانہ اشعار کے ذریعے، وہ قارئین کو ایک مساوی اور انسانی معاشرے کی تشکیل میں اپنے کردار پر از سرِ نو غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اہلِ ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ڈاکٹر مقصود جعفری کی یہ تازہ غزل نقّارۂ انقلاب اور آوازۂ انسانّیت ہے-