ڈاکٹر مقصود جعفری کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے، آپ اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پنجابی ، پونچھی ، کشمیری زبان میں شاعری کرتے ہیں اس لیے آپ کو “شاعر ہفت زبان” بھی کہا جاتا ہے، آپ نے اپنی فصیح و بلیغ اور فلسفیانہ افکار و خیالات پر مبنی شاعری کے ذریعے انسانی جذبات اور معاشرتی فکر کی گہرائیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس مضمون میں ہم چترال، مٹلتان کالام اور گلگت-بلتستان کی وادی غذر میں بولی جانے والی زبان کھوار میں تراجم شدہ ان کے اشعار کا فنی و فکری جائزہ پیش کریں گے، اردو غزل اور کھوار کے ترجمے کی ترکیب شاعری میں ایک منفرد ثقافتی جہت کا اضافہ کرتی ہے، جس سے اسے شمالی پاکستان کے وسیع تر قارئین تک رسائی حاصل ہوگی۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی غزلیں اکثر محبت، خود شناسی، انسان دوستی، آزادی، مساوات ، امنِ عالم اور سماجی تبصرے کے موضوعات کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اپنی بہترین شاعری کے ذریعے وہ قارئین کو ان کی لاعلمی، معاشرتی مسائل اور محبت کی بوجھل نوعیت پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کھوار کے ترجمہ شدہ ورژن ان موضوعات کے جوہر کو برقرار رکھنے کی پہلی کوشش ہے، اردو سے کھوار تراجم مختلف ثقافتوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا اور دونوں زبانوں میں شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ ثقافتی اقدار کو فروغ دے گا۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری کی ساخت اور پیغام کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی غزلوں کا ڈھانچہ روایتی غزل کی بہترین شکل پر قائم دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی اردو شاعرانہ عناصر بھی موجود ہیں جیسے استعارات اور علامتوں کا استعمال، مجموعی ساخت کو تقویت بخشتا ہے۔ راقم الحروف کے کھوار (چترالی) تراجم بھی ساختی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے مقامی زبان کھوار میں اردو کے ذائقے کو برقرار رکھتے ہیں، جس سے دو لسانی دنیاؤں کا ہم آہنگ امتزاج نظر آتا ہے۔
اچھی شاعری کی خوبی خوبصورت ادبی لوازمات، استعارات، تلمیحات اور تشبیہات پر منحصر ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری میں بھی اِن ادبی خصوصیّات کا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ آپ کی شاعری میں استعارات و تلمیحات کا استعمال واضح نظر آتا ہے کیونکہ شاعر معاشرتی مسائل کو طوفان سے تشبیہ دیتا ہے جس سے جہاز کے ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ گریز کی تکرار شاعر کے پیغام پر زور دیتی ہے اور ایک خوبصورت تال میل پیدا کرتی ہے۔ راقم الحروف نے اردو سے کیے گئے اپنے کھوار تراجم میں مہارت اور احتیاط کے ساتھ ان ادبی لوازمات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، ترجمے میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ شاعر کی ادبی اور تخلیقی خوبصورتی کو لسانی حدود میں رہتے ہوئے برقرار رکھا جائے۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کا معاشرتی اصولوں اور جابر حکمرانوں سے عدم اطمینان کا شدید اظہار ان سطور میں واضح نظر آرہا ہے جیسے کہ وہ ایک شعر میں کہتے ہیں
ہر دور کے آمر سے لڑائی رہی میری
ہاتھوں میں اِن کا گریبان رہے گا
یہاں شاعر ظلم اور جبر کے خلاف ان کی طاقت کا مقابلہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کھوار زبان میں ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری کا ترجمہ شاعر کے ان جذبات کی کشش کو برقرار رکھنے کی پہلی کوشش ہے اور شاعر کے اصل الفاظ، افکار و خیالات اور ان کے جذبے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔کہتے ہیں
یہ بارشِ الہام تو ہوتی ہی رہے گی
جب تک میرے اشعار میں وجدان رہے گا
بارش کا استعاراتی حوالہ ڈاکٹر مقصود جعفری کے فنی اظہار کی لازوال طاقت پر یقین کو واضح کرتا ہے۔ کھوار زبان میں ان کی شاعری کا ترجمہ اس استعارے کو سمیٹتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ثقافتی باریکیاں لسانی منتقلی میں ضائع نہ ہوں۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی غزل کے اختتامی سطروں میں ان کی خود داری کا پہلوبھی واضح طور پر نظر آرہا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو محض ایک “دربان” کے طور پر مسترد کرتے ہیں۔ راقم الحروف کے کھوار زبان میں کیے گئے ترجمے میں مزاجِ شاعر کو برقرار رکھتے ہوئے اور ثقافتی مناسبت کا اضافہ کرتے ہوئے، “دربار کے دربان” کو ایک استعارہ میں تبدیل کیا گیا ہے جو کھوار بولنے والے کمیونٹی کو بھی پسند آئے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر مقصود جعفری کی اردو غزل اور راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کے کھوار تراجم کے درمیان اشتراک جذبات، فلسفہ اور معاشرتی تنقید کے دائروں میں ایک ثقافتی اشتراک کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اردو اور کھوار زبان کی یہ لسانی ہم آہنگی ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری کے لازوال جوہر کو سمیٹتی ہے، جو دونوں زبانوں کے قارئین کو لسانی اور ثقافتی مناظر میں اظہار کی خوبصورتی کو تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ڈاکٹر مقصود جعفری کی غزل اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
***
غزل
***
کب تک رہِ اُلفت پہ تُو نادان رہے گا؟
اِس رہ پہ چلے گا تو پریشان رہے گا
کھوار:کلہ پت اُلفتو راہا تو نادان بہچوس؟
ہیہ راہا کی چولیتاؤ تھے پریشان بہچوس؟
اب بارِ محّبت کو سفینے سے اتارو
ورنہ یہ سفینہ تہہِ طوفان رہے گا
کھوار: ہنیسے محبتو باران کھشٹیاری یو خاماوے
ورنہ ہیہ کھشٹی تہہِ طوفان بہچور
ہر دور کے آمر سے لڑائی رہی میری
ہاتھوں میں مرے اِن کا گریبان رہے گا
کھوار: ہر زمانو آمرو سوم جنجال بہچیتائے مه
ہوستہ مه ہتو گیروان بہچور
اِن دین فروشوں میں ہے اوہام پرستی
اِنساں کی اسیری میں ہی اِنسان رہے گا
کھوار:ہمی دین بیزیماکان موژا شیر اوہام پرستی
انسانو بندی گریا تان انسان بہچور
یہ بارشِ الہام تو ہوتی ہی رہے گی
جب تک میرے اشعار میں وجدان رہے گا
کھوار: ہیہ الہامو بوشیک تھے باشیر تان
کلہ پت کی مه شاعریا وجدان بہچور
کیا اہلِ جُنوں عقل و خرد کے ہوۓ دشمن ؟
کیا کلبۂ ادراک بھی سُنسان رہے گا؟
کھوار: کیہ اہلِ جُنوں عقل اوچے خردو ہونیا دشمان؟
کیہ کلبۂ ادراک دی سُنسان بہچورا؟
دربانی مجھے آتی نہیں جعفری صاحب
دربار کا دربان ہی دربان رہے گا
کھوار:دربانی متے گوئے تان نو جعفری صائیب
دربارو دربان تان دربان بہچور۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...