ڈاکٹر مقصود احمد عاجز کا حوالہ نعت گوئی ہے ۔ آپ ۳ جنوری ۱۹۵۳ء کو فیصل آباد میں ملک فتح محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ہوزری کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان ۱۹۷۰ء میں پاس کیا ۔ ۱۹۷۷ء میں بی۔اے اور ۱۹۸۳ء میں ایم۔ اے کا امتحان پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ ۱۹۷۳ء میں آپ نے ایوب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد سے بطور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر اپنی سروس کا آغاز کیا اور بطور ورڈ پراسیسنگ آفیسر انفارمیشن برانچ ایوب تحقیقاتی ادارہ سے ۲۰۱۴ء کو ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا اور محمد افضل خاکسار کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ۔ ایک نعتیہ مجموعہ ‘‘وسیلہ بخشش’’ منظر عام پر آیا۔
ڈاکٹر مقصوداحمد عاجز اپنی نعتیہ شاعری کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حلیہ شریف سے کرتے ہیں اور ردیف چہرہ میں نہایت شاندار اشعار کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس میں نہایت خوب صورت تراکیب بناتے ہیں۔ گل بہشت بریں، نرم عارض بہ مثل ریشم، ہونٹ برگ گلاب ِ نازک، دانت جیسے چمکتے موتی، دراز پلکیں، جبیں کشادہ، تازہ شباب چہرہ، ابروئے پیچ دار ترکش، غزال آنکھیں سیاہ، جمال میں جمیل تر ، مبین روشن کتاب چہرہ، زیرحجاب چہرہ، ماہ تاباں، جانِ جاناں ، غموں کا درماں، دکھوں کا دارو، کیا کیا خوبیاں بیان کرد ی ہیں۔ اس سراپا نگاری کی اعلیٰ مثال میں ڈاکٹر مقصود احمد عاجز کا فن اپنے عروج کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ شاعر خود کشکول چشمِ حسرت اٹھائے خیرات دیدگی گدائی کرتا ہے۔ اسی طرح میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعتیں ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دُنیا میں آمد کے حوالے سے خوب صورت شعر کہے ہیں۔ آمدِ مصطفی ؐکی پہلی نعت میں بے سہاروں، غم کے ماروں ، جاں نثاروں، چاند تاروں، نوبہاروں اور دل فگاروں کو مبارک باد دی گئی ہے۔
عاجزؔ کی بعض نعتیں غزل مسلسل کا سا فکری آہنگ رکھتی ہیں۔ یعنی ایک خیال، جذبہ، کیفیت اور صورتِ حال کی تفصیلات کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اگرچہ ان کا بڑا حصہ غزل کی صنف میں ہے جو معنوی ریزہ کاری کی عکاس صنف ہے لیکن جب نعت غزل کی صنف میں لکھی جاتی ہے (اور فی زمانہ نعت کا قریباً ۹۰ فی صد حصہ غزل ہی کی صنف میں تخلیق ہو رہا ہے ) تو جذبات کے انسلاک اور تسلسل کی پیدا کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ ایسی نعتوں میں مقصود احمد عاجز کی ردیفیں نعت کے مفاہیم کو تسلسل بخشتی ہیں اور نعت کی ردیف اشعار کو ایک فکری وحدت میں پرو دیتی ہے۔
اُن کی نسبت کبھی ایسا نہیں ہونے دیتی
بے خیال شہہِ والا نہیں ہونے دیتی(۱۸۴)
نعت ڈاکٹر مقصود احمد عاجز کے لیے بخشش کی ضمانت ہے اور ان کے قلم و قرطاس کی طہارت ہے۔ نعت محض صنفِ سخن ہی نہیں ان کے لیے ایک ورد ہے، وظیفہ ہے اور نعت بمنزلہ درود شریف کی اردو شاعری کی شکل ہے۔ نبیؐ کے شہر کی آب وہوا ان کے لیے مہمیز ثابت ہوئی جو تجلیوں کی انتہا ہے ۔ وہ اس ایک گلشن رنگین فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدحت کے پھول کھلتے ہیں۔ انھیں ضیائے شمس و قمر سے بھی کوئی غرض نہیں وہ صرف اور صرف رخ والضحیٰ میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو یومِ حشر کی تپش سے بچانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلفِ دوتا کے سایہ میں رہنا چاہتے ہیں۔وہ بوقتِ نزع بھی لبوں پر حرف ثنا ہونے کے تمنائی ہیں۔ اسی لیے وہ تمام عمر نعت و مدحت کی التجا میں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی نعتوں کی عناصر ترکیبی میں حاضری کی تمنا، امید حضوری، نویدِ حضوری، اذنِ حاضری، آرزوئے مدینہ ، حاضری کی طلب، بوقتِ نزع ثنا کا لب پہ ہونا اور آل رسولؐ سے عقیدت شامل ہیں۔ مدینہ کی حاضری ان کی دُعاؤں کا ثمر بھی بے حاصل بھی۔ وہ صبح و شام اللہ تعالیٰ سے شہرِ نبیؐ کی حاضری مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی آرزو یہی ہے کہ وہ نعتیں سنتے سنتے ہی وقتِ آخرت بھی گزر جائیں۔ ان کے جنازے پر بھی نعت پڑھی جائے ۔ لحد میں نکیرین کے سوالوں کے جوابمیں بھی وہ انھیں نعت سُنا دیں گے۔ قبر کے اندھیروں میں روشنی کے لیے بھی نعت نبیؐ اور یادِ محمدؐ کام آئے گی۔ وہ کتنے خوش بخت اور خوش عقیدہ نعت گو شاعر ہیں جو ان حسین خیالوں کا اظہار کر رہے ہیں:
بوقتِ نزع بھی عاجزؔ کے ہو لبوں پہ ثنا
تمام عمر اُسی التجا میں رہنا ہے(۱۸۵)
وہ للکار کر اور پکار پکار کر اسی نسبت کا اظہار کرتے ہیں جو انھیں توانا رکھتی ہے۔ان کی نعتیں عجز اسلوب سادگی لیے ہوئے ہیں۔