ڈاکٹر لدمیلا اور ان کی دو نئی کتابیں
ڈاکٹر لدمیلا وسیلیواروس میں اردو زبان و ادب کی ممتاز اسکالر اور علمی و ادبی شخصیت ہیں۔اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ان کا نام اور کام اردو کے ادبی حلقوں میں خاصا جانا پہچاناہے۔تاہم بہت سارے لوگ شاید ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔علم شرقیات کے روس کے مرکزی تحقیقی ادارہ
Institute of Oriental Studies of the Russian Academy of Sciences in Moscow.
کے ادبیاتی شعبے کی محقق ہیں۔ڈاکٹر لدمیلا ماسکو یونیورسٹی اور رشئین سٹیٹ یونیورسٹی فار دی ہیومینیٹیز سے بھی اردوادب کی لیکچررکی حیثیت سے منسلک رہی ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۷ء میں مولانا الطاف حسین حالی پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔فیض احمد فیض جب بھی روس جاتے ڈاکٹر لدمیلا ان کی مترجم کے فرائض انجام دیتیں۔۱۹۶۷ء سے ۱۹۸۴ء تک انہوں نے یہ کام کیا۔اس دوران انہیں فیض صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان کی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے میں کافی مدد ملی۔چنانچہ انہوں فیض صاحب پرمتعدد مضامین کے علاوہ ایک کتاب’’پرورشِ لوح و قلم۔فیض احمدفیض :حیات اور تخلیقات‘‘کے عنوان سے لکھی۔ڈاکٹر لدمیلا نے فیض صاحب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے بارے میں بھی اردواور روسی دونوں زبانوں میں قابلِ ذکر کام کیا ہے۔انہوں نے غالب کے کلام کا روسی ترجمہ بھی کیا ہے۔اردو کے لیے ان کی مجموعی خدمات کے اعتراف کے طور پرڈاکٹر لدمیلا کوانڈو پاک اور بیرون برصغیر سے کئی ادبی ایوارڈ مل چکے ہیں۔انہیں صدرِ پاکستان کی جانب سے سن ۲۰۰۶ ء میں ستارہ ٔامتیاز سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر لدمیلا کے علمی و ادبی کام کی اہمیت اورقدروقیمت کا ایک زمانہ معترف ہے۔یہاں اردو کے ممتاز نقاد اور دانشورشمیم حنفی کی مختصر سی رائے پیش کر دیتا ہوں۔
’’ ڈاکٹر لُدمیلا وسیلئیوا کی اس کتاب کے سلسلے میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا موضوع اردو کے سب سے مقبول اور محبوب شاعر فیض کی زندگی اور شاعری ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا نے لکھا ہے جنھیں ہمارے زمانے کے غیر ملکی اردو اسکالرز اور مستشرقین میں بہت ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ لدمیلا اردو زبان کے محاسن اور اسالیب پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ انھوں نے حالی اور فیض پر بہت وقیع کام کیا ہے۔ ایسے کئی سوال انھوں نے اپنی تحریروں میں اٹھائے ہیں جن سے کبھی کبھی اہلِ زبان بھی سرسری گزر جاتے ہیں۔‘‘ (نئی دہلی: ۱۴ جون؍۲۰۰۶ ء شمیم حنفی)
اردو ادب کے مطالعے اور تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر لدمیلاروسی زبان میں اردو کے نثر نگاروں اور شعراء کی تخلیقات کا ترجمہ بھی کرتی ہیں۔میری خواہش تھی کہ میں ان کے ایسے سارے کام کو اپنے مضمون میں نشان زد کر سکوں لیکن ڈاکٹر لدمیلا کی کسرِ نفسی یا بے نیازی کے باعث مجھے ایسی معلومات مہیا نہ ہو سکی۔سو اس وقت ڈاکٹر لدمیلا کی روسی زبان میں دو کتابوں کا تعارف کرانے پر اکتفا کروں گا۔
پہلی کتاب اردوغزل کے ابتدائی دور سے متعلق ہے۔"The formation of Urdu ghazal: the origins of the genre" ۔۔’’اُردو غزل بحیثیت صنف کاآغاز اور تشکیل ‘‘ ۔یہ کتاب ۳۸۲ صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں پانچ باقاعدہ ابواب اورایک تعارف اور ایک اختتامیہ شامل ہیں۔ان کی ہلکی سی جھلک ان ابواب کے عناوین اور ذیلی عناوین میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تعارف:ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی تناظر میں اردو غزل۔صنف کے اعتبار سے غزل کی خصوصیات اور ’’غزل کی دنیا‘‘ ۔مطالعہ غزل کی خبر۔
باب اول:وقت کی رَواور اُردو زبان:
اردو زبان کیا ہے؟جغرافیائی پھیلاؤ اور اردو زبان کا ارتقا۔شمال سے جنوب کی طرف اور واپس شمال کی طرف اردو کا سفر۔اردو لفظ کے معانی۔ اشعارمیں محفوظ ،تاریخی حافظہ۔ رسم الخط پرکچھ باتیں۔
یورپ والے اور اردو۔فورٹ ولیم کالج، جان گلکرسٹ اور اردو۔ہندی،ہندوستانی اور اردو۔دورِ حاضرہ اور اردو۔بھارت،پاکستان اور دنیا۔
باب دوم: اردو غزل کا ابتدائی دور:
گیارویں تا چودھویں صدی میں شمالی ہندوستان بطور ایک ثقافتی خطہ۔اردو غزل کے آغازسے متعلق:مفروضات۔امیر خسرو دہلوی۔ اردو غزل پرشعریات ِ امیر خسروکا اثر۔ریختہ غزل۔صدیوں پرانی بچ جانے والی ایک ابتدائی غزل۔اردو غزل کی’’ ماقبل تاریخ‘‘ کے بعض نتائج۔
باب سوم:اردو غزل کا بچپن
جنوب کی طرف سفر۔پہلے پہلے دکنی شعرا اور ان کی غزلیں۔فیروز بیداری،حسن شوقی،محمود دکنی،محمد قلی قطب شاہ۔
دکنی میں فارسی غزل کا پہلا ترجمہ۔یوسفِ گم گشتہ۔دکن میں درباری غزل۔بعض نتائج۔
باب چہارم: عبوری دور
۱۷ ویں صدی کے آخر میں اورنگ آباد، دکن کا ثقافتی مرکز۔ولیؔ نام کا ایک شاعر۔موجودہ غزل کا بنیاد گزار ولیؔ۔ابتدائی غزل کی دکنی صفات اور فارسی مثالوں کی روشنی میں ولیؔ کے شعری پیکروں میں آمیزش و اختلاط۔صوفیانہ غزل۔سراج اورنگ آبادی۔
باب پنجم:اردو غزل کا شباب
اورنگ زیب کی حکومت کا خاتمہ اور دہلی کے ادبی حلقے۔مرزا بیدل اور دوسرے ۔بعد ازولیؔکی دلّی۔محمد شاہ کا دور۔ریختہ شاعری کا دھماکہ۔ادبی استادی اورشاگردی کی روایت ۔خان ِ آرزو کا شیخ علی ہزین کے ساتھ ادبی معرکہ۔ایہام گوئی کی تحریک:آبروؔ اور دوسرے۔فیض دہلوی۔آرزو کی اصلاحات اور اردو معلی۔صاف گوئی۔مرزا جان جہاں مظہر۔کلاسیکی عہد کی آمد آمد۔
اختتامیہ۔ہندوستانی مشاعرہ:صوفیا کی خانقاہیں۔شاہی دربار۔شہر کے چوک۔
مشاعرہ کیا ہے؟تاریخ پر ایک سرسری نظر،عربوں کے قدیم زمانے سے ہندوستان کے عہدِ قدیم تک۔ہندوستان کے ابتدائی مشاعرے ۔کلاسیکی مشاعرے۔ایک ’’شاہی مشاعرہ‘‘۔بیسویں اور اکیسویں صدی میں مشاعرے۔ایک جدید جھلک۔آج کل کی غزل اور مشاعرہ۔۔۔
ڈاکٹر لدمیلا کی ایک نئی کتاب ابھی زیرِ تحریر ہے۔یہ انڈوپاک سے باہر کے علاقوں میں اردو زبان میں تخلیق کئے جانے والے اُس ادب ،شاعری اور افسانوی ادب کا مطالعہ ہوگاجو وطن سے دور بسنے والے لوگوں کی زندگی کا آئینہ معلوم ہوتاہے۔اس میں ان کے بنیادی سماجی،اقتصادی اور نفسیاتی مسائل منعکس ہو رہے ہیں۔ان میں اپنی مادری زمین سے تعلق یا قطع تعلق اور مختلف سماجی اور تہذیبی ماحول میں اپنی نئی شناخت کی تلاش یا پرانی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش جیسے مسائل پر ڈاکٹر لدمیلا خصوصی توجہ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔اس کتاب کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق اس میں برِ صغیراور اس سے باہر کے ادب کے آپسی تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ڈائسپراکا اردو ادب پاکستان اور ہندوستان کے اردو ادب کا ایک حصہ ہے یا اس کی اپنی کوئی منفردحیثیت اور کیفیت ہے؟ان سوالات اور مسائل کا سامنا کرنے کے لیے بیرون برصغیر کے ممالک میں اردوکی ادبی تنظیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گااور اردو میں نکلنے والے ادبی جرائداور خاص طور پر بیرون برِ صغیر سے نکلنے والے ادبی رسائل کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
چونکہ اس کتاب میں بیرون برصغیر سے شائع ہونے والے ادبی رسائل کا جائزہ بھی پیش کیا جا نا ہے۔اس لیے ’’جدیدادب‘‘کے حوالے سے ڈاکٹر لدمیلا کو چند وضاحتیں درکار تھیں۔انہوں نے اس سلسلہ میں ایک ای میل کے ذریعے استفسارکیا،میرے جواب سے ہمارے درمیان برقی مراسلت چل نکلی۔یوں اس زیرِ تحریرکتاب کا علم ہوا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ڈاکٹر لدمیلا کی اردو غزل کے ابتدائی دور پر کیے گئے کام پر مشتمل ۳۸۲صفحات کی کتاب دسمبر۲۰۱۵ء میں شائع ہو چکی ہے۔ یوں مجھے روسی زبان میں ہونے والے اس کام کا علم ہوا اور اب اسے اردو دنیا کے علم میں لا رہا ہوں۔ہمارے درمیان جو برقی مراسلت ہوئی ہے،وہ میرے لیے بہت حوصلہ افزارہی۔ایک دو بارجب بھی ہماری کسی کانفرنس میں ملاقات ہوئی یامجھے ان سے کسی کتاب پر رائے لینے کے لیے کہنا پڑا،انہوں نے ہمیشہ میرے ساتھ خلوص و محبت کا سلوک کیا۔میری بے حد حوصلہ افزائی کی۔ہماری حالیہ خط و کتابت سے بھی میرے تئیں ڈاکٹر لدمیلا کے خلوص اور محبت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔’’جدیدادب ‘‘کے بارے میں ان کے محبت بھرے اور حوصلہ افزا الفاظ میرے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں ۔اسی طرح میرے ادبی کام کو انہوں نے جس طرح سراہاہے وہ خود ان کی اپنی علمی و ادبی بڑائی کا ثبوت ہے۔ان کی طرف سے یہ خبرملنا کہ وہ اپنی کتاب میں ’’جدیدادب‘‘کا ذکر کررہی ہیں اور اسے بیرون برصغیر کے ادبی رسائل میں بہت خاص اہمیت دینا۔اسی طرح میرے ادبی کام کی تحسین اور میری بعض تخلیقات کے روسی ترجمہ کی اس کتاب میں شمولیت کی خبر،یہ میرے لیے ادبی خوشی کی بہت بڑی خبریں ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اپنے سارے اردو اور روسی زبان میں کیے گئے کام کی تفصیل فراہم کرنے سے گریز،ان کی انکساری اور بے نیازی کا ثبوت ہے۔
اب ذیل میں ڈاکٹر لدمیلا کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت یہاں پیش کر رہا ہوں۔اس خط و کتابت کی اشاعت کے لیے میں نے ان سے اجازت بھی لے لی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16.09.2016, 20:52
محترم حیدر قریشی صاحب،آج کل میں ایک کام میں مصروف ہوں جس میں آپ کی تخلیقات اور ادبی سرگرمیوں کا بھی ذکر ِ خیر ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے دو،چار سوال کرنے ہیں۔ بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کچھ باتوں کی وضاحت کریں۔آپ کی شخصیت اور فن پر اپنے مقالے میں منزہ یاسمین نے لکھا کہ "جدید ادب جرمنی "کا جو پہلا شمارہ ۹۹۹۱ء دسمبر میں نکلا تھا تو اس کے دو مدیران تھے:آپ اور کرسٹینا اوسٹرہیلڈ ۔ لیکن اس کے بعد کرسٹینا کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ وہ کب تک رسالے سے منسلک رہیں؟
اسی مقالے میں یہ بھی پڑھا کہ "جدید ادب جرمنی" مئی ۲۰۰۰ء تک جاری رہا اور اس کے بعد بند کر دیا گیا اور اس کی وجوہ آپ کے الفاظ میں بتائی گئیں۔ لیکن میرے پاس ۲۰۰۵ – ۲۰۰۸ء تک کے شمارے موجود ہیں جو آپ کی مہربانی سے مجھے کتابی شکل میں ملتے رہے تھے، اس کے بعد اون لائن کے شمارے نظر آتے رہے۔ شمارہ ۷ ۱ میں جو لائی-دسمبر ۲۰۱۱ء کا ہے، اس کے اداریہ میں آپ نے "جدید ادب " کے ادوار کا ذکر کرکے "تیسرے دور کی تکمیل" کا علان کیا۔ اس سلسلے میں بھی آپ کچھ وضاحت کر یں گے؟ کیا اب "جدید ادب" نہیں نکلتا ہے؟
آپ ٹھیک ٹھیک بتائیں کہ "جدید ادب جرمنی"۱۹۹۹ء سے لے کر کب تک جاری رہا؟ کب تک کتابی شکل میں؟ کب سے اون لائن ڈالا گیا؟ آج کل اس کی کیا صورت ِحال ہے؟
اور ایک اور سوال۔ آج جرمنی میں کوئی ادبی رسالہ نکلتا ہے؟ آپ کی نظر میں برِصغیر سے باہر کہاں اورکیا رسالے نکلتے ہیں جو آپ کی نظر میں قابل ِذکر ہیں؟
آپ کی بہت مشکور رہوں گی۔
خیر اندیش، لدمیلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 1 8at 12:0 0PM
لد میلا جی
آداب
آپ کے سوالات کا مختصر سا جواب تو یوں بنتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں جدید ادب خان پور کا پہلا شمارہ شائع کیا گیا جو کتابی سائز کے ۸۰ صفحات پر مشتمل تھا۔تاہم اشاعت کے دوران وقفے آتے رہے۔ ۱۹۸۱ء تک تو ہر دو مہینے بعد رسالہ نکال لیتے تھے،لیکن پھر وسائل نہ ہونے کے باعث وقفہ وقفہ سے اسے شائع کرنا شروع کیا۔ خانپور کے دور میں عام شمارہ ۸۰ صفحات کا ہوتا تھا ،۱۶۰،۲۶۰ اور ۳۱۲ صفحات کے شمارے بھی شائع کیے گئے اوراُسی دورمیں ۵۰۰ صفحات کا ایک شمارہ بھی شائع کیا گیا۔موجودہ دور میں عموماََ ۲۵۰ صفحات کے لگ بھگ شمارہ ہوتا ہے لیکن شمارہ نمبر ۱۴ تین سو ساٹھ صفحات تک بھی چلا گیا ہے۔ جبکہ میرا جی نمبر۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں ۱۹۸۶ء تک رسالہ جیسے تیسے نکلتا رہا۔پھر بند ہو گیا۔جرمنی آنے کے بعد ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۰ء میں دو شمارے شائع کیے۔اس دور میں ڈاکٹر کرسٹینا بھی ادارت میں شامل تھیں۔لیکن جرمنی میں رہ کر پاکستان سے رسالہ چھپوانا مشکل تجربہ تھا۔رسالے کے مواد پر میری پوری کمانڈ نہ تھی،رسالہ پاکستان سے چھپتا تھا اور وہاں کے دوست اس میں بہت کچھ اپنی مرضی کا شامل کر لیتے تھے۔چنانچہ دو شماروں کے بعد اسے بند کر دیا۔
انٹرنیٹ پر متحرک ہونے کے بعد اور ان پیج کی سہولت ملنے کے بعدپھر ۲۰۰۳ء میں جدیدادب کو ششماہی رسالہ کے طور پرشائع کرنا شروع کیا۔تب سے جولائی ۲۰۱۲ء تک رسالہ جاری رہا۔اس کے ۱۹ شمارے شائع ہوئے۔۱۹واں شمارہ جو معمول سے ڈبل ضخیم ہو گیا تھا میرا جی نمبر ہے۔
مجموعی طور پرخانپور کے دور میں ۱۷ شمارے،جرمنی میں پہلے دور میں دو شمارے،اور دوسرے دور میں ۱۹ شمارے چھپ چکے ہیں۔ میرا جی نمبر کے بعد رسالہ بند کر دیا تھا۔وجہ بہت سادہ سی ہے۔انڈوپاک دونوں ملکوں میں کتابوں کی ترسیل بے حد مہنگی کر دی گئی ہے۔رسالے پر جتنی لاگت آتی تھی ڈاک خرچ اس سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ایسے حالات میں رسالہ بند کردینا ہی مناسب لگا۔
میرا خیال ہے کہ جدید ادب سے متعلق آپ کے سارے سوالوں کا جواب اس خط میں آگیا ہے۔میں سعید شباب کی مرتب کردہ کتاب’’انٹرویوز‘‘کی ان پیج فائل بھی بھیج رہا ہوں۔اس کے صفحہ نمبر ۱۹۸ سے آخر تک عاصم بٹ،عزیز نبیل اور سعیدالرحمن کے لیے ہوئے تین انٹرویوز میں بھی شاید آپ کو کچھ مطلوبہ مواد مل جائے۔چاہیں تو دیکھ لیں۔ان پیج فائل کھول نہ سکیں تو اس کی پی ڈی ایف فائل فراہم کر دوں گا۔
جرمنی سے فی الوقت تو کوئی ادبی رسالہ نہیں نکل رہا۔مغربی دنیا میں مختلف اوقات میں مختلف رسائل نکلتے رہے ہیں۔ان میں بعض معیاری تھے اور بعض بہت ہی سطحی سے تھے۔اس وقت بھی یہی منظر نامہ ہے۔
مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں۔
والسلام
آپ کا مخلص حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 1 9at 9:5 6PM
محترم حیدر قریشی صاحب،
آپ کے تفصیل جواب کے لیے بیحد شکریہ۔
جہاں تک 'جدید ادب" کے خانپور کے دور کی بات ہے تو اس کی پوری داستان مجھے معلوم ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا اور دوسرے اہل ِادب سے آپ کے روابط ، مالی سمیت وہ ساری مشکلات بھی جوآ پ کو رسالہ نکالنے کی راہ میں عبور کرنا پڑیں اور آپ کی اَن دیکھی قوت ِارادی اور استقلال، سب معلوم، اور اس سب کچھ سے میں بہت ہی متاثر ہوئی ہوں۔ برِ صغیرسے باہرشائع ہونیوالے جریدوں پر، جو سترکے عشرے سے لے کر آج تک نکالے جاتے تھے ، میرے مطالعہ، جائزہ میں آپ کا کردار اور آپ کا "جدید ادب" مرکز ِ توجہ ہے۔ آپ کا ایک مثالی فقرہ جو "جدید ادب" کے شمارہ نمبر ۷ ۱، ۲۰۱۱ء کے اداریہ میں درج ہے، آپکی ادبی سرگرمیوں کی بہترین وضاحت ہے ،جس پر خاص زور دئیے بغیر نہیں رہا جا تا ہے کہ "میں کوئی ادبی خدمت نہیں کر رہا بس اپنی زندگی اور ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں"۔ کیا خوب آپ نے کہا۔
آپ نے میرے سب سوالوں کے جواب دئے۔ ایک اور سوال اٹھا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان سے رسالہ بھیجنے بھجوانے کی مشکلات کی بات تو واضح ہے، لیکن کیا انٹرنیٹ پر ہی رسالہ جاری رکھنا بھی مشکل تھا؟ اس معاملے میں میری معلومات صفر ہیں لیکن یہ سنا کہ بعض رسالے انٹرنیٹ پر ہی پڑھے جاتے ہیں۔ "جدید ادب" کا پوری طرح بند ہونا اردو دنیا کے لیے نہایت افسوس ناک بات معلوم ہوتی ہے۔
سب حوالوں کے لیے بہت شکریہ۔ وہ سب اچھی طرح کھل جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی سارے میں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔ افسوس کہ سعید شباب کی مرتب کردہ کتاب’’انٹرویوز‘‘کی ان پیج فائل نہیں کھل پائی ہے۔ اس پر آتا ہے:
Attachments in this email may contain harmful content and cannot be downloaded.
اگر پی ڈی ایف فائل فراہم کرنے میں زیادہ مشکل نہ ہو تومجھے بھیج دیں، بہت مہربانی ہوگی۔
آپکی شکر گزار اور خیر اندیش،
لدمیلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 1 9at 10:2 8PM
لدمیلاجی
آپ کی ای میل میرے تئیں آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی کی غماز ہے ، اس کے لیے آپ کا بے حد شکرگزارہوں۔جدیدادب کو انٹرنیٹ پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن مجھے کتابی صورت کے بغیرانٹرنیٹ ایڈیشن میں بہت ادھورا پن محسوس ہوتا ہے .دوسرے رسائل کا اپنا معاملہ ہے
کتاب انٹرویوز بھیج رہا ہوں .یہ پی ڈی ایف فایل ہے ۔ویسے یہ کتاب اور اس نوعیت کی بعض دوسری کتابیں اس لنک پر دستیاب ہیں شاید یہ لنک آپ کے علم میں ہو۔
http://work-on-haiderqureshi.blogspot.de/
والسلام
آپ کا مخلص
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 2 0at 7:3 1AM
آپ کے ادبی اور تعلیمی کام کی تفصیل کوایف کی صورت میں موجود ہو تو عنایت کردیں۔
شاید مجھے آپ کے کام کے حوالے سے ایک مضمون لکھنے کی توفیق مل جائے ۔
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 2 0at 9:1 3PM
محترم حیدرقریشی صاحب،
آپ کے دونوں ای۔ میل ملے ہیں ، شکرگزار تو میں آپ کی ہوں۔ اب میرے پاس انٹرویوزکی کتاب بھی ہے، بہت شکریہ۔
عامرسہیل نے مجھے اپنی کتاب اس کے نکلتے ہی بھیجی تھی، مجھے خوشی ہے کہ ان کو میری تحریر، جو فلیپ پرآئی ہے، پسند آئی۔
انٹرنیٹ ایڈیشن میں ادھورا پن آپ کومحسوس ہوگا سہی لیکن پورا نہ ہونے پر ادھورا بھی شاید برا نہیں۔ خیر، یہ تو آپ ہی جانیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس قدر معیاری رسالہ تاریخ کے طاق پر آیا ہے۔ لیکن جس کے پاس اس رسالے کے کتابی شمارے ہیں اس نے ضرور گھر کی لائبریری میں ان کوایک نمایاں جگہ پر رکھا ہو گا۔ کم از کم میں اپنی بات بتا رہی ہوں۔ جب کچھ پڑھنے کو جی چاہتا ہے اکثر "جدید ادب "کا کوئی شمارہ اٹھا لیتی ہوں۔ اپنے کام کے لیے بھی کافی مواد ملتا ہے۔
آپ نے لکھا کہ" دوسرے رسائل کا اپنا معاملہ ہے"۔ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ کوئی اور رسالہ نکالتے ہیں یا؟ ‘‘
جہاں تک میرے کام کی بات ہے تو یہی ہماری مصیبت ہے کہ یہاں سارا کا سارا کام اپنی روسی زبان میں ہوتا ہے۔ جب کبھی کسی باہر کے رسالے یا مجموعے کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش آتی ہے تو اسی صورت میں الگ سے وقت نکال کر دوسری زبان میں لکھنا یا کسی اپنے روسی مضمون کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے تو اردو دنیا ہمارے کام سے تقریباَ بے خبر رہتی ہے۔ یہ نہ صرف اردو کا مسئلہ ہے،بلکہ سب روسی ادیبوں، تحقیق کاروں وغیرہ کا مسئلہ بھی ہے۔ بلکہ ہر ملک کا جس میں صرف اپنی زبان چلتی ہے۔
ابھی حال ہی میں اردو غزل کے ابتدائی دور پر میری کتاب شائع ہوئی ہے۔وہ ۳۸۲صفحات کی ہے۔ یہاں جن لوگوں نے پڑھی کافی پسند کی کیونکہ روس کے لیے یہ بالکل نیا مضمون ہے۔ لیکن اس کتاب کے سچے قدردان اردووالے ہی ہو سکتے ہیں۔ کتاب اردو یا انگریزی میں ترجمہ کی جائے تو وہ منظر ِعام پرآ ئیگی ۔ لیکن کتاب کا ترجمہ بہت وقت طلب کام ہے۔ کون کریگا؟۔۔۔ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو اس کے انگریزی میں مختصر سے کوایف اور ابواب کی فہرست دیکھیں۔ اورسرورق کی تصویربھی بھیج رہی ہوں، اس پر نظر ڈالیں۔
آپ کی خیر اندیش،
لدمیلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 2 0at 10:2 3PM
لدمیلا جی
ای میل ملی شکریہ
میں نے جن دوسرے رسائل کا ذکر کیا تھا ان سے مراد دوسرے ایڈیٹرز کے ادبی رسائل تھے۔ میں خود کوئی اوررسالہ نہیں نکالتا البتہ جو رسائل تعاون مانگتے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرتا ہوں۔
آپ نے اب جو غزل پر اپنی کتاب کا خلاصہ بھیجا ہے اس کا اردو ترجمہ جلد ہی ہو جائے گا اورپھر اسے سرورق سمیت بعض ویب سائٹس پر دے دوں گا۔
آپ کے کوائف جن میں آپ کے سارے کام کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ان کا منتظر رہوں گا۔ اور ہاں کیا ادبی رسائل والی کتاب بھی روسی زبان میں لکھ رہی ہیں یااردو میں ؟
آپ کے ساتھ ایک اچھی خبر شیئر کرنے لگا ہوں۔ اردو میں تو میرے کام پر ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کام ہوچکے ہیں۔ اب مصر سے ازہر یونیورسٹی میں کوئی جوان میری شاعری پر ایم اے کا مقالہ لکھ رہا ہے۔ اس کام میں اس نے میرے چار مجموعوں کا عربی ترجمہ بھی کیا ہے۔ مقالہ عربی میں ہوگا۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔
والسلام
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 2 2at 7:4 9PM
محترم حیدرقریشی صاحب، تسلیمات۔
آپ کی ای میل کا بہت شکریہ۔
بہت خوشی کی بات ہے کہ اتنے لوگوں کی توجہ آپ کی تخلیقات پر مرکوز ہیں۔ آپ کو اس پر تہہ ِدل سے مبارک باد دیتی ہوں۔
جہاں تک میری کتاب کے خلاصہ کی بات ہے تو میں نے اسے آپ کو آپکی معلومات کے لیے ہی بھیجا تھا ، اس کے ترجمے وغیرہ کا کوئی خیال میرے ذہن میں تھا ہی نہیں۔ آپ نے اس سلسلے میں ایک نیک ارادہ جو کیا ہے، بہت شکریہ۔ سچ پوچھیے تو مجھے صرف اسی بات پر خوشی ہوگی کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ روس میں بھی اردو زندہ ہے اور اس پر کام جاری ہے، بس۔ آپ کا جو میری تحریروں پر کچھ لکھنے کا نیک خیال ہے، یہ آپ کے مہربان رویے کا اظہار ہے اس کے لیے بھی آپ کی بہت مشکور ہوں۔ لیکن اس کی میرے خیال میں قطعی ضرورت نہیں۔ آپ نے فیض پرمیری کتاب پر جو تبصرہ شائع کیا وہ الگ بات ہے، کتاب اردو میں تھی، مد ِنظرتھی۔ لیکن کسی تخلیق کے مختصر سے تبصرے کی بنا پر رائے قائم کرنا؟۔۔ اگر کبھی خدا کی مرضی ہوئی کہ میری غزل پرکتاب کا یاکسی اور چیز کا ترجمہ ہو جائے تو میں خود آپ سے اس پر لکھنے کی ضرور درخواست کروں گی۔
میری نئی کتاب جو میری انسٹیٹیوٹ کے تین سالہ منصوبے میں شامل ہے ہمارے یہاں ہر کام کی طرح روسی میں ہی لکھی جا رہی ہے۔ یہ کتاب بر صغیرکے باہر اردوادب پر ہوگی یعنی جسے پہلے "نئی بستیوں کا ادب " اور اب اکثر "مہجری ادب" کہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں جاری ہونے والے اردو کے ادبی رسائل کا جائزہ میرے کام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اردو ڈَ َاسپرا کے ادبی زندگی کی ایک جھلک واضح ہے کہ آپ کی ادبی سرگرمیوں اور تخلیقات پر روشنی ڈالے بغیر یورپ میں اردو کی ادبی زندگی پر گفتگو کرنا ممکن نہیں۔ ابھی حال میں آپ کی ایک نظم کا ترجمہ کیا جو "اثبات" کے شمارہ ۴-۵ ِ میں ملا۔ غالبا ً یہ ۲۰۱۰ کا شمارہ ہوگا۔ افسوس کہ ابھی تک کئی ہندوستانی ناشروں نے اشاعت کا سال نہ لکھنے کی اپنی قدیم زمانوں سے چلی آنیوالی عادت چھوڑی نہیں۔ اس رسالے میں مجھے کچھ اور دیکھنا تھا لیکن یہ نظم جو نظر آئی، اسی پر رک گئی اور اس کا ترجمہ کیے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس کا نام ہے "درد"۔ بہت پسند آئی۔اس کو بھی آپ کی دوسری نظموں اور غزلوں کے ساتھ کتاب میں شامل کروں گی۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ میرے پاس آپ کی بہت ساری تخلیقات موجود ہیں۔ ایک بات بتاؤں؟ آپ کی مثلا" یہ نظم اورآپکی دوسری نظمیں اورغزلیں آپ کی شاعرانہ صلاحیت اورآپ کے خیالات و جذبات کے بارے میں مجھے عامر سہیل کی کتاب کے مقابلے میں بہت زیادہ بتاتی ہیں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ کسی تخلیقی کام کا، اصلی مواد کی بنا پر ہی جائزہ لینا چاہیئے۔
آئندہ بھی اگر کوئی سوال ہوگا تو آپ کی اجازت سے کروں گی۔
پر خلوص تمناؤں کے ساتھ،
لدمیلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sep 2 4at 3:3 8PM
لدمیلا جی
مصر میں ہونے والے کام پر آپ کی مبارک باد کے لیے شکر گزار ہوں۔روس میں اردو کے زندہ ہونے کا بتانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے سارے کام کی تفصیل موجود ہو۔اسی لیے اس کا تقاضا کررہا ہوں۔
آپ کی اردو غزل والی کتاب کا انگریزی تعارف نامہ شاید اگلے دوتین روز میں اردو ترجمہ بھی ہو جائے اور کسی ویب سائٹ پر شائع بھی ہو جائے۔مزید کاروائی پھر ہوتی رہے گی۔یہ سب کچھ اردو والوں کے سامنے آئے گا۔
فیض صاحب پر آپ کی کتاب پر اپنے مختصر سے تبصرہ میں ،میں نے یہ دوٹوک بات لکھی تھی:’’کاش فیض کے پاکستانی اور انڈین مداح بھی فیض پر اسی پائے کی کوئی کتاب لکھ سکیں۔‘‘
یہ’’ کاش‘‘ ابھی تک’’ کاش!‘‘ ہی ہے۔
میں توآپ کی اس خبر سے ہی خوش تھا کہ آپ برصغیر سے باہر کے ادبی رسائل پر کام کر رہی ہیں۔یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یہ کام تو صرف ایک حصہ ہے جبکہ آپ برصغیر سے باہر کی اردو دنیا پر پوری کتاب لکھ رہی ہیں۔پھر اسی حوالے سے جدید ادب کے بارے میں اور میرے تئیں آپ کی محبت اور اخلاص کا اظہار،ذکرِ خیر بھی اور شاعری کا روسی زبان میں ترجمہ بھی،اتنی خوشیاں۔۔۔۔۔سچی بات ہے میرا دامن چھوٹا پڑگیا ہے۔(میں ایسی خوشیوں پر اپنے جذبات کو چھپاتا نہیں ہوں۔ہمیشہ اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کرتا ہوں)اللہ آپ کو خوش رکھے اور صحت تندرستی والی زندگی عطا کرے۔آمین۔
امید ہے آپ صحت و عافیت سے ہوں گی۔
والسلام
آپ کا مخلص
حیدرقریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ملی جلی سی تحریرمیری طرف سے سوویت یونین اور پھر روس میں اردوزبان و ادب کی مسلسل خدمت کرنے والی علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر لدمیلا کی علمی و ادبی خدمات کا ہلکا سااعتراف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔