کچھ ادیب و شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی خداداد صلاحیتوں کو شمار کرنا بھی مشکل پڑ جاتا ہے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس صنف میں زیادہ کامیاب ہے یا زیادہ مہارت رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر لبنی آصف صاحبہ کا شمار بھی ایسے ہی انسانوں میں کیا جا سکتا ہے ۔وہ بہ یک وقت ادیبہ،شاعرہ،ڈاکٹر، پروفیسر اور ماہر تعلیم ہیں ۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بہت خوب لکھتی ہیں ۔ ان کی خوش قسمتی کی ایک بڑی وجہ علمی اور ادبی گھرانے میں جنم لینا بھی ہے ۔ وہ 12 فروری 1976 کو پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم خالد صاحب کے گھر میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا نام لبنی رکھا گیا ۔ انہوں نے میٹرک بورڈ ٹاپ کیا فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے گولڈ میڈل کےساتھ ایم بی بی ایس کا کورس مکمل کیا ۔ شیخ زید ہسپتال لاہور سے اسپلائیزیشن سے اور ایف بی جی ایم آئی سے کی اور گولڈ میڈل حاصل کئے ۔ انہوں نے ڈی سی پی، ایم فل ایف سی پی ایس پارٹ ون الفریڈ میڈیکل سے کیا ۔
ڈاکٹر لبنی صاحبہ نے بچپن سے ہی 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی ۔ ڈاکٹر آصف مغل صاحب کے ساتھ ازدواجی زندگی میں منسلک ہونے کے بعد وہ لبنی آصف بن گئیں اور یہی ان کا قلمی نام ٹھہرا۔ انہوں نے ادب کے تمام اصناف سخن میں خوب طبع آزمائی کی ہے جن میں نظم،نثر، ہائیکو، ناول، افسانہ، افسانچہ، اور کہانیاں شامل ہیں ان کی تخلیقات ملک و بیرون ممالک کے رسائل اور جرائد میں شایع ہوتے ریے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کی یے ۔ شاعری میں وہ اپنے خاوند محترم ڈاکٹر آصف علی مغل صاحب کی شاگرد ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اب تک انگلش میں 4 کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں پہلی کتاب The Divinity misunderstood دوسری An imprint of my soul – Poetry تیسری کتاب Neither a kid nor on sane _ Autobiography اور چوتھی Cardrac Troponin T as an early marker of MI _ M phil thesis ہے جبکہ اردو میں ان کی 9 کتابیں زیر طبع ہیں جن میں 1 ہوائے شام / غزلیات 2 ان کہی / منظوم شاعری 3 پرندے آج کیوں چپ ہیں/ ہائیکو 4 دبستان کی ہوا / خاکے 5 چلو کچھ تو کہیں/ یاد داشتیں 6 تنقید اردو سے موجودہ دور تک 7 ہمسفر/ ناول 8 خلش/ کہانیاں 9 ونی / سچی کہانیاں شامل ہیں ۔
ڈاکٹر صاحبہ کے پسندیدہ شعراء میں مرزا غالب، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز اور عدیم ہاشمی جبکہ ادیبوں میں اشفاق احمد اور ممتاز مفتی شامل ہیں ۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں شیخ زید ہسپتال لاہور میں اسپیشلسٹ ڈاکٹر، ایف پی جی ایم آئی میں تدریسی عہدوں اور چیف میڈیکل آفیسر کے عہدوں پر فائز رہی ہیں اس وقت ےاسکندریہ ہسپتال کی انچارج آفیسر ہیں ۔ انہوں نے مختلف اداروں سے اپنی بہترین خدمات کی بنا پر ادبی اور سول ایوارڈز گولڈ میڈل وغیرہ حاصل کئے ہیں جن میں بہترین ٹیچر، بہترین شاعرہ، بہترین خاتون، بہترین ماں ، بہترین ادیبہ اور بہترین ڈاکٹر کے ایوارڈز شامل ہیں ۔ ان اعزازات میں قائداعظم گولڈ میڈل، شاہ لطیف گولڈ میڈل اور صدارتی تمغہ وغیرہ شامل ہیں ۔ جبکہ وہ مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں کی عہدیدار بھی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ شاعر اور ادیب معاشرے کو اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے تبدیل کر کے بہترین ماحول بنا سکتے ہیں ۔ادب اور ادیب کا براہ راست معاشرے سے تعلق ہے وہ معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس لیئے ادباء اور شعراء کو بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے کی ہر دور میں ضرورت پڑتی ہے ۔
ماشاءاللہ ڈاکٹر صاحبہ کی ہر لحاظ سے بہتر زندگی گزر رہی ہے وہ گھر میں خواہ گھر سے باہر دونوں جگہ ادبی ماحول میں رہتی ہیں ۔ خود بھی شاعرہ اور خاوند محترم بھی شاعر اور پیشے کے لحاظ سے دونوں ڈاکٹر ہیں اس لئے وہ اس شعر پر پورا اترتے ہیں کہ ۔
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
مجھے ڈاکٹر لبنی صاحبہ کے احوال زیست سے کچھ آگاہی حاصل کرتےہوئے دو دلچسپ پہلو میرے سامنے آئے اول یہ کہ ان کے پسندیدہ ادباء اور شعراء کی فہرست میں کوئی عورت شامل نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ میرے خیال میں پاکستان کی مشہور ادیبہ اور شاعرات میں سے ڈاکٹر صاحبہ واحد خاتون ہیں جو اپنی تصویر کی اشاعت ہرگز پسند نہیں کرتیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تعارف کے ساتھ ان کی یہ تصویر شامل غیر واضح ہے ۔ آخر میں ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری سے ایک نمونہ کلام اور 2 منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔
غزل
ابر برسا یہاں بارش بھی ہوئی دیر تلک
اور اک شمع دریچے میں جلی دیر تلک
اس کو آنا ہے، نہیں وہ آنے والا
ذہن و دل میں بھی یہی بحث رہی دیر تلک
آب وافر بھی میسر ہو مگر بعض اوقات
ساتھ رہتی ہے کوئی تشنہ لبی دیر تلک
سانحہ کیا تھا کہ وہ ڈوبتا سورج ہر روز
دیکھتی رہتی ہے اب چھت پہ کھڑی دیر تلک
ایک پل کے لیے آتا ہے اگر یاد کوئی
آنکھ کا نم نہیں جاتا ہے بڑی دیر تلک
پیڑ تو ساتھ نہیں جانے کے لبنی آصف
سر پہ چھاؤں بھی کسی کے نہ رہی دیر تلک
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات یہ کیسا نکلا چاند
آدھا بادل آدھا چاند
پیڑ کی شاخیں بھیگی ہیں
جیسے چھپ کر رویا چاند
ہاتھ چھڑا کر ڈوب گیا
جھیل میں رفتہ رفتہ چاند
میں نے اکثر دیکھا ہے
ٹھنڈی آگ میں جلتا چاند
نیند سے آنکھیں بوجھل ہیں
مدت سے نہیں سویا چاند
پنکھڑیوں پر موتی پھیلے
رات کو اتنا رویا چاند
لبنی کیسا لگتا ہے
کھڑکی پر یہ ٹھہرا چاند
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوندھی گئی تھی میں جو کبھی آب نرم سے
سانچوں کےساتھ ساتھ ہی ڈھلنا پڑا مجھے
ڈاکٹر لبنی آصف