ڈاکٹر خضر یٰسین، ایک تعارف۔ اور تہذیب و تمدن میں فرق
۔۔۔۔۔
پرسوں لاہور سے عالمِ بے بدل جناب ڈاکٹرخضریٰسین کی کال آئی کہ وہ اسلام آباد تشریف لارہے ہیں۔ میں اداس تھا یکلخت خوش ہوگیا۔ اورپھر کل جب ڈاکٹر صاحب اپنے تین احباب کے ہمراہ ناچیز کے غریب خانے پر تشریف لائے تو مجھے جگہ نہ ملتی تھی کہ اتنے قیمتی مہمانوں کو کہاں بِٹھاؤں۔ ڈاکٹرخضریٰسین کے ہمراہ تشریف لانے والے تینوں احباب انجنیئرز بھی تھے اور علومِ اسلامی کے فاضل بھی، جن میں جناب محمدعلی مخدوم تو بطورِ خاص دستگاہ و نگاہ سے مالامال نہایت خوبرُو جوان ہیں۔ غرض ڈاکٹرخضریٰسین اوراُن کے احباب نے صرف مجھے ہی نہیں میرے گھرکو بھی مستنیرکیا۔
ڈاکٹرخضریٰسین ایوانِ اقبال لاہور میں غالباً ڈائریکٹرکے عہدے پرفائز ہیں لیکن یہ عہدہ ان کی اصل پہچان نہیں۔ اصل پہچان ہوتی تو مجھے اُن کے عہدے کا ٹھیک ٹھیک نام آتا۔ اُن کی اصل پہچان ہے ’’قرانِ کریم‘‘۔ ڈاکٹرخضریاسین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اُن کا شمار معروف مسلم مفکر، نقاد اور ادیب ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کے چیدہ چیدہ شاگردوں میں ہوتا۔ برہان احمد فاروقی کون ہیں؟ ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کے نام سے عام لوگ علامہ طاہرالقادری کی وجہ سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ علامہ طاہرالقادری نے اپنی تقاریر اور تصنیفات میں اس بات کا متعدد مرتبہ ذکرکیاہےکہ وہ ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کے افکارونظریات کے داعی اور پرچارک ہیں۔ ڈاکٹرفارقی علامہ اقبال کے قریبی تعلق داروں میں سے تھے ۔ سن 1906میں امروہہ میں پیدا ہوئے اور1995 میں لاہور میں وفات پائی۔علامہ اقبال کے کہنے پر ہی آپ نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مجددالفِ ثانی شیخ احمدسرہندی کے نظریہ ٔ توحید پر لکھا۔ آپ کی کئی تصنیفات میں ’’منہاج القران‘‘ سب سے معروف ہے اور اِسی کتاب کے نام پر علامہ طاہرالقادری نے اپنے ادارےاورشمارے کا نام بھی ، اپنے استاد کی نسبت سے رکھ چھوڑاہے۔ ڈاکٹرخضریاسین بھی ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کے شاگرد ہیں لیکن طاہرالقادری سے قطعی مختلف نظریات کے حامل ہیں۔
کل ڈاکٹرصاحب نے مجھے اپنی تالیف، ’’منہاج الفرقان‘‘ بھی ہدیہ فرمائی اور ہم نے آئندہ کبھی ، انشااللہ استادِ محترم جنابِ جلیل عالی سے ملنے کا پروگرام بھی بنایا۔جنابِ جلیل عالی دوبارہ گلگت گئے ہوئے ہیں، اس لیے فوری طورپر ہم ان سے نہ مل سکتے تھے۔ خیر! ڈاکٹرخضریاسین اور جناب محمدعلی مخدوم صاحب کی گفتگو نہایت عالمانہ تھی جس کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ کیا جانا چاہیے تھا لیکن مجھے خیال آنے کے باوجود بھی جسارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ابتدا میں ہی ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ وہ اپنے استاد ڈاکٹربرہان احمد فاروقی سے پہلی بار ملنے گئے تو کس طرح استادِ محترم نے اُنہیں مابعدالطبیعات کو عقل سے الگ رکھنے کا سلیقہ سمجھایا۔ عقل کا مواد حسیات سے وصول شدہ ہے اور حسیات کا اطلاق اجزأ پر ممکن ہے۔ عقل شئے کا مکمل احاطہ بطورشمہِ فِکر کے کرلیتی ہے جبکہ حِس کے لیے کسی شئے کو مکمل دیکھنا ممکن نہیں۔ ہم سامنے رکھے ایک موبائل کو دیکھیں تو اس کا سامنے کا حصہ دکھائی دے گا۔ ہاتھ سے چھوئیں تو اس کا کوئی اور حصہ محسوس کرینگے۔ گھنٹی سنیں تو وہ صرف اس میں موجود سپیکر کا پتہ دے گی۔ لیکن جب ہم فقط خیال میں موبائل کے بارے میں سوچنا چاہیں تو موبائل کا جس قدر کُل ہمارے اپنے ادراک کی طاقت سہار سکتی ہے، اتنا کُل ہم ایک ہی لمحے میں جانتے ہونگے۔ اس دوران مجھے جان لاک کی یاد آئی، برکلے کی یاد آئی اور سب سے بڑھ کر ڈیوڈ ہیوم کی بھی بہت یاد آئی لیکن میں ڈاکٹرصاحب کی بات سننے میں اس قدر محو تھا کہ درمیان میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔
کل کی گفتگو نہایت معنی خیز اور مفید تھی لیکن میں حافظے کے سہارے لکھوں تو اسے جگہ جگہ سے خراب کر بیٹھونگا۔ اس کی ایک وجہ تو ڈاکٹرصاحب کی کمال یاداشت اور لفاظی ہے اور دوسری وجہ گفتگو کے اہم اور نازک موضوعات ہیں۔ البتہ میں یہ پوسٹ ختم کرنے سے پہلے ایک بات ضرور شیئر کرونگا۔
ڈاکٹرصاحب نے کل جب تہذیب و تمدن کا فرق بتایا تو میں دِل میں عش عش کراُٹھا۔ ہوا یوں کہ میں انہیں مسلم انسٹی ٹیوٹ کی کانفرنس میں ہونے والی بات چیت کی بابت واقعاتی انداز میں بتا رہا تھا تومیں نے سابق ڈائریکٹر ایوانِ اقبال اور ممتاز ماہرِ اقبال جنابِ سہیل عمر کا ذکر کیا۔ میں نے بتایا کہ جنابِ سہیل عمر نے جب ایک سوال کے جواب میں کہاکہ وہ عقلِ انسانی کے مزید ارتقأ کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کے بقول رسول ِاطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عقل سے زیادہ ارتقأ یافتہ عقل پیدا ہونا ناممکن ہے تو سیمینار میں موجود سائنس کے کچھ طلبہ کو بے چینی سی ہوگئی۔ میں خود بھی اپنی نشست پر بس کسمسا کر رہ گیا۔ گویا سہیل عمر یہ کہہ رہے ہیں کہ وحی جو رسالتمآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر نازل ہونے والا خداوند تعالیٰ کا کلام ہے، وہ رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کامل عقل کی کارستانی ہے۔ میرے ذہن کے مطابق، وحی تو وحی ہے اور چونکہ وہ ماہیت اور نوعیت میں عقلِ انسانی کے مواد سے مختلف جبکہ فہم و ترسیل میں عقلِ انسانی کے مطابق فقط کلامِ خداوندی ہے سو یوں کہہ دینا کہ وحی کا ارتقأ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ضرور درست ہوگا لیکن یوں کہنا کہ عقل جو دماغ جیسے عضو کی صحت کی وجہ سے بہتر یا بدتر ہونے والی شئے ہے اُس کا ارتقا رُک گیا نہایت غیر عقلی سی بات ہے۔ عقل کیونکر آئندہ مزید بہتریا بدتر نہیں ہوسکتی؟ یہ تو یوں ہوگا کہ کل کلاں اگر ’’قد‘‘ کو عظمت کی علامت سمجھ لیا جائے تو کوئی کہہ دے گا، ’فلاں شخص کا قد چونکہ فُلاں نبی سے بلند تھا اِس لیے فلاں شخص عظمت میں فُلاں نبی سے بلند ہے‘۔ چنانچہ عقل کا ارتقأ کیسے رُک سکتاہے؟
میں نے جب یہ بات بتائی تو ڈاکٹرخضر یاسین نے مُسکراتے ہوئے کہا،
’’دراصل یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم تہذیب و تمدن کے درمیان موجود فرق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ تہذیب اور چیز ہے اور تمدن بالکل اور چیز ہے۔ کوئی شخص رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زیادہ متمدن تو ہوسکتاہے لیکن آپ سے زیادہ مہذب نہیں ہوسکتا۔ تمدن کا تعلق نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے بدلتے ہوئے بڑے بڑے شہروں اور ان کی زندگی سے ہے۔ لیکن تہذب کا تعلق اس سے نہیں۔ ایک امیر کبیر شخص جو بے شک بی ایم ڈبلیو میں بیٹھاہو اور نہایت اعلیٰ لباس پہن کر بیٹھاہو وہ متمدن تو ہوسکتاہے لیکن مہذب ہونے میں شاید ایک شخص جو گدھا گاڑی چلا رہاہے اس سے زیادہ مہذب ہو۔ آج تک کی تمام تر ترقی تمدن کی ترقی ہے۔ دنیا کے سب سے متمدن ملک امریکہ نے خود کو ہمیشہ دنیا کا سب سے غیر مہذب ملک ثابت کیا ہے۔ جاپان پر جب بم گرایا گیا تو جاپان کو بم گرانے سے پہلے فقط ایک چھوٹی سی وارننگ دی گئی اور اس کے بھی جواب کا ٹھیک سے انتظار نہ کیاگیا اور بم گرا دیا گیا۔ پھر ایک دن کے وقفے سے دوبارہ بم گرا دیا گیا اور گرانے والا ملک یہ جانتا تھا کہ اس سے لاکھوں انسان آنِ واحد میں ہلاک ہوجائیں گے لیکن وہ ملک چونکہ مہذب نہیں تھا اس لیے تہذیب سے ناواقف، آداب سے خالی، اقدار سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے اسے ادراک تک نہ ہوا کہ یہ اخلاقی طورپر بدترین حرکت ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائےگی اور ہمیشہ اِسے امریکہ کا سب سے غیر مہذب ہونا ہی سمجھا جائےگا‘‘
میرے ذہن میں رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں اللہ تعالیٰ کے نعتیہ کلمات یاد آگئے۔ ’’انکّ لعلیٰ خلقٍ عظیم جس کا ترجمہ ہے کہ ’بے شک آپ مکارمِ اخلاق کے سب سے بلند مقام پر فائز ہیں‘۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“