پاکستان ٹیلی وژن ،فلم اور اسٹیج کے معروف اداکار ، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ڈاکٹر خالد سعید بٹ کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے پر ان کا طویل اور کئی دہائیوں پر محیط فنی سفر آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔وہ بلاشبہ ایک مایہ ء ناز شخصیت کےمالک تھے۔
ڈاکٹر خالد سعید بٹ نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (پی این سی اے) کے بانی ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر جنرل لوک ورثہ، ایم ڈی این اے ایف ڈی ای سی، ڈی جی نیشنل ہجرہ کونسل کی حیثیت سے فن و ثقافت کی دنیا میں اہم خدمات انجام دیں ۔جن کے پیش ِ نظر یایوں کہیے ان خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور حکومتِ فرانس کی طرف سے آفیسر دی لورڈری ڈیس آرٹس ایٹ ڈیس لیٹریس سمیت بہت سے اعزازات سے نوازاگیا۔
میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد جن بڑی شخصیات کو اپنے گھر آتے جاتے اور گھنٹوں اور والد ِ بزرگوار کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھا ، ان میں ڈاکٹر خالد سعید بٹ بھی تھے۔ ان کے ساتھ میرے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی رفاقت کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس داستانِ رفاقت کا آغاز کب اور کیسے ہوا ؟یہ تو میرے علم میں نہیں ،البتہ یہ طویل رفاقت انتہائی قربت میں کب تبدیل ہوئی، اس کا بخوبی اندازہ ہے۔جب تک میرے والد حیات رہے ،ان دونوں میں قریبی تعلقات قائم رہے۔ مجھے یادہے۲۸جنوری ۲۰۰۴ کوانہوں نے نشتراسپتال ملتان میں داعیء اجل کو لبیک کہا تو رات کو ڈاکٹرخالدسعید بٹ صاحب نے فون پر کافی دیر گفتگوکی اور ان کے درجات کی بلندی اور ہمارے لئے صبر جمیل کی دعائیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا آپ کے والد معمولی شخصیت نہیں تھے ،وہ تعلقات عامہ کی ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے۔میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ان کے لہجے میں جو درد تھا ،وہ مجھے اب بھی محسوس ہورہاہے ۔اب دونوں ہی نہیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ڈاکَٹر خالد سعید بٹ صاحب کی رحلت نے والد بزرگوار کے بچھڑے کاغم بھی تازہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر خالد سعید بٹ ایک بڑے آدمی ، بڑے فن کار، بڑے بیوروکریٹ ، فن و ثقافت کے بڑے دلدادہ اور ایک بڑے منتظم تھے۔میں انہیں اس وقت سے جانتاہوں ، جب ان کے بچوں کو کوئی پہچان نہیں ملی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک خبر میری نظر سے گزری ہے کہ عثمان خالد بٹ پاکستانی ٹیلی ویژن ، فلم اور تھیٹر کے مشہور و مقبول اداکار ، مصنف اور کوریوگرافرکے والد ڈاکٹر خالد سعید بٹ اللہ کوپیارے ہوگئے ہیں ۔عثمان خالد بٹ معروف اور انتہائی باصلاحیت فنکار ضرور ہیں اور اس حیثیت سے تو ہم پہلے بھی ان سے بخوبی واقف تھے لیکن آج سوشل میڈیا پر ان کی ٹوئیٹ سے معلوم ہوا کہ وہ نامور اسکالر ،فن کار اور ڈرامہ نویس کے صاحبزادے ہیں اور یہ بات میرے لیے حیرت انگیزتھی کیونکہ جناب ڈاکٹر خالد سعید بٹ صاحب سے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی رحلت کے بعدفون کی حد تک ہی سہی ، رابطہ ہمیشہ استوار اوربرقرار رہا۔ میں ان سے اکثر فون پر خیریت بھی دریافت کرتا تھا اور ان کی دعاؤں سے فیضیاب بھی ہوتا تھا۔ جب میں فون میں خرابی کے باعث کانٹیکٹ نمبرز سے محروم ہوگیا تو جناب مشتاق معینی کے توسط سے ان کا نمبر دوبارہ حاصل کیا اور اس طرح ہمارا رابطہ ایک مرتبہ پھر بحال ہوگیا لیکن اسے میری نااہلی کہہ لیجے یا کچھ اور کہ میں ان سے کافی عرصے سے رابطے میں نہیں تھا۔مجھے یاد ہےجن دنوں ڈاکٹر صاحب اور میرے والد آرٹس اور ثقافت کےاداروں سے وابستہ تھے ۔ ان میں بڑا قریبی رابطہ رہا۔ اس لئے بھی کہ دونوں جڑواں شہروں میں ثقافتی اداروں کے سربراہ تھے۔فنون و ثقافت کے فروغ کیلئے خود پروگرام بناتے تھے اور ان کی کامیابی کو یقینی بناکر جی اٹھتے تھے۔ دونوں کے شعبے بھی ایک تھے۔دونوں کی سوچ میں اس حد تک ہم آہنگی تھی کہ دونوں جوہر قابل کی دریافت میں لگے رہتے تھے۔ ٹیلنٹڈ جوانوں اور فن کاروں کو تلاش کرکے ان کی فنی توانائیوں کو نکھارنے اور سنوارنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ہمیں آرٹس کونسل کی سربراہی ملی ہے تو اس کا فائدہ نسل ِ نو کو بھی پہنچنا چاہئے ۔
کئی بارڈاکٹر خالد سعید بٹ سے میری ملاقات راولپنڈی آرٹس کونسل کی کسی تقریب میں ہوئی۔ بلکہ میں نے انہی تقریبات میں ڈاکٹر خالد سعید بٹ کویہ کہتے بھی سنا کہ جب سے سید فخرالدین بلے راولپنڈی آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر بنے ہیں انہوں نے اس مردہ ادارے میں نئی جان ڈال دی ہے اور فنون و ثقافت کی بلے بلے کرادی ہے۔سیدفخرامام بھی اکثر ان تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ میں یہاں ڈاکٹر خالد سعید بٹ کو سلامی پیش کرنا چاہوں گا کہ وہ نیشنل کونسل آف دا آرٹس اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہونے کےباوجود راولپنڈی آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کو تحسینی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ کبھی حسد بھرے جذبوں کااظہار نہیں کیا بلکہ ایک تقریب میں اظہار ِ خیال کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ فنڈز ہمارے ادارہ ء ثقافت ِ پاکستان، اسلام آباد کے پاس ہیں لیکن راولپنڈی آرٹس کونسل وسائل کی کمی کے باوجود بھرپور محفلیں سجا رہی ہے ؟کیسے یہ تو ان سے تنہائی میں بیٹھ کر معلوم کرناہوگا۔
مجھے نیشنل کونسل آف دا آرٹس اسلام آباد کےزیراہتمام قومی سطح کی کئی تقریبات میں شرکت کابھی اعزاز حاصل ہوا۔مشتاق معینی صاحب سے اس ادارے اور اس کے سربراہ ڈاکٹر خالد سعید بٹ صاحب کے بارے میں جتنا کچھ سنتارہاتھا ، ان سب پر مہر ِ تصدیق ثبت ہوگئی۔ واقعی ڈاکٹر صاحب اعلیٰ پائے کی تقریبات ہی سجاتے تھے۔ایسی تقریبات کہ جن کی فضا سے باہرآنا آسان نہیں ہوتا اور اب پھریادوں کے دریچے وا ہوئے ہیں تو مجھے ایسا لگ رہاہے کہ بیتا موسم لوٹ آیا ہے اورڈاکٹر خالد سعید بٹ ابھی کچھ بولیں گے اور اپنے لب کھولیں گے۔
سید فخرالدین بلے کاتبادلہ راولپنڈی ہوگیا ۔انہیں ملتان میں ڈائریکٹر آرٹس کونسل بنادیا گیا۔یہ ۱۹۸۲کی بات ہے۔مجھے ایسا لگاکہ شاید اب اعلیٰ پائے کی تقریبات دیکھنے کو نہیں ملیں گی جوڈاکٹرخالد سعید بٹ وفاقی دارالحکومت میں اکثر سجاتے ہیں اور شاید اب ان سے ملاقاتیں بھی محدود ہوجائیں لیکن میرے یہ خدشات درست ثابت نہیں ہوئے۔انہوں نے تقریبات سجانے کاسلسلہ بھی جاری رکھا،کسی اورادارے میں تعینات ہوگئے تو وہاں بھی اپنے رنگ جماتے نظر آئے ۔ثقافتی اداروں میں ایسی باکمال شخصیات ہوں تو ہی اداروں کی اہمیت ، ضرورت اور افادیت کا لوگوں کو پتا چل پاتا ہے ورنہ ادارے سرکاری تنخواہیں لینے اور مراعات سمیٹنے ہی کیلئے کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر خالد سعید بٹ ایک زندہ دل شخصیت تھے ۔فنون و ثقافت کے فروغ کیلئے سرگرم رہے اور فن کاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے اتنی شان دار خدمات انجام دیں کہ انہیں تادیر بھلایا نہیں جاسکے گا۔
میرے والدسید فخرالدین بلے نےملتان میں آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سےمصوروں، خطاطوں، ادیبوں ، شاعروں ، اسٹیج اداکاروں، ہدایت کاروں اور ڈراما نگاروں سے رابطے تیز کردئے اور یہ محسوس کیا کہ یہ خطہ اسٹیج کےحوالے سے بھی جوہر ِ قابل سے مالامال ہے۔اور اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جشن ِ تمثیل سجانے کااعلان کردیا۔یہ اپنی نوعیت کامنفرد تجربہ تھا۔ڈائریکٹر جنرل نیشنل کونسل آف دا آرٹس ڈاکٹر خالد سعید بٹ نےاس جشن ِ تمثیل کاافتتاح کیا اور اتنے بڑے پیمانے پر ڈراما فیسٹیول سجانے پرملتان کے اسٹیج فنکاروں کی کھل کرحوصلہ افزائی کی۔یہ ڈرامافیسٹیول مسلسل ۲۵ روز جاری رہا۔
اختتامی تقریب میں انعامات بانٹے گئے اور کمشنر حسن رضا پاشا کے ساتھ ڈاکٹر خالد سعید بٹ بھی شریک ہوئے۔مجھے یاد ہے ڈاکٹر خالد سعید بٹ نے یہ بھی کہاکہ میں اسٹیج کی دنیا کاآدمی ہوں لیکن میں نے کسی ملک کیلئے یہ نہیں سنا کہ وہاں کوئی ایسا ڈراما فیسٹیول ہوا ہو ،جس میں ہر روز ایک نئی ٹیم کے ساتھ ایک نیا ڈراما اسٹیج پر پیش کیا گیا ہو۔اس لئے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ یہ کارنامہ انجام دینے کی بنیاد پر سیدفخرالدین بلے کو ۔مین آف دا اسٹیج ۔قراردوں ۔انہوں نے یہ بھی کہا اس جشن ِ تمثیل کے نتیجے میں قومی سطح پر فلم ، ٹی وی اور اسٹیج کونئے اداکار،نئے فن کار،نئےڈراما نگار ملیں گے اور پھر دنیا کو یہ پتا چلےگاکہ جشن ِ تمثیل سجاکر کتنا بڑا کارنامہ انجام دیاگیا ہے۔ کوتاہی ہوگی اگر اس امر کااعتراف نہ کیا جائے کہ اس جشن ِ تمثیل کیلئے ڈاکٹر خالد سعید بٹ صاحب نے کمپئیر مشتاق معینی کو خاص طور پراسلام آباد سے ملتان بھجوایاتھا اور وہ ہر روز اسٹیج ڈرامے کے شروع اور آخر میں اپنے مخصوص انداز میں کمپئیرنگ کرکے ماحول کوخوشگوار بنائے رکھتے تھے۔یہی نہیں اگلے روز روزنامہ امروز ملتان میں ان کا کالم بھی چھپتاتھا، جس میں جشن ِ تمثیل کے حوالے سے وہ چُٹکلے بھی چھوڑتے تھے اور چٹخارےدار جملوں سےشائقین ِ ثقافت کی خاطر تواضع کااہتمام بھی کیا کرتے تھے۔ان کی کالم نگاری کاسلسلہ ڈاکٹر خالد سعید بٹ کے تعاون کے باعث جشن ِ تمثیل کے ختم ہونے کے بعد تک جاری رہا۔اقبال ساغر صدیقی روزنامہ امروز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور جشن ِ تمثیل کی مجلس ِ مصنفین کے صدر تھے اور ان کالموں کو بڑی خوبصورتی اور اہتمام کے ساتھ روزنامہ امروز، ملتان کی زینت بنایا کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر مشتاق معینی اپنے ان کالموں کو کتابی شکل دیں تو ڈراما فیسٹیول کی ایک تاریخ محفوظ ہوسکتی ہے اور وہ بیٹھے بٹھائے ایک کتاب کے مصنف بن سکتے ہیں ۔
ڈاکٹر خالدسعید بٹ صاحب تودنیا سے چلے گئے لیکن اپنے پیچھے یادوں کا ایک جہان چھوڑ گئے ہیں ۔ان کے کارنامے وقت گزرجانے کے ساتھ مزید اجاگر ہوں گے۔جب بھی ان کا کوئی چاہنے والا قلم اٹھائےگا تو ان کی تہذیبی، ادبی، علمی اور ثقافتی خدمات باانداز ِ دگر ہمارے سامنے آئیں گی اور دنیا کو پتا چلے گا کہ ہم کتنی بڑی شخصیت کی رفاقت اور محبت سے محروم ہوگئے ہیں ۔مجھے یہاں اپنےبڑے بھائی سید عارف معین بلے کےدواشعار یاد آرہے ہیں اور انہی پر میں اپنے مضمون کوختم کررہاہوں ۔
فن کار تو اُٹھ جائیں گے، فن زندہ رہے گا
پت جھڑ میں بھی یہ رنگ ِ سخن زندہ رہے گا
اس دھرتی کو فن کاروں نے سینچاہے لہو سے
ہے مجھ کو یقیں ، میرا چمن زندہ رہے گا