ڈاکٹر کیول دھیر کا افسانہ”بد چلن“….ایک تجزیاتی مطالعہ
اردو افسانے نے ابتداء سے تاحال کئی رنگ بدلے ہیں۔اپنے شروعاتی دور میں اس نے رومانیت کو اپنے دامن میں سمویا۔ آگے چل کر اس میں حقیقت نگاری،ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے رنگ شامل ہوئے۔ اس سفر میں بلا شبہہ ہزاروںافسانہ نگار شامل ہوئے لیکن ان میںسے کم ہی ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی فکری نہج اورہنر مندی کی بدولت اس صنف میں اپنے انمِٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ڈاکٹرکیول دھیر ان میں سے ایک ہیں۔ موصوف کا ادبی سفر نصف صدی پر محیط ہے اور وہ آج پوری دنیا میں ایک مستند افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
آج میرے پیش نظر ان کا مشہور افسانہ”بد چلن“ ہے۔افسانے اور کہانی میں ایک واضح فرق ہے لہذا میں اسے افسانہ نہ کہہ کر کہانی کہنا پسند کروں گا۔ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جو مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔یہاں ہندو ،مسلم، سکھ، عیسائی سبھی مل جل کر اور شیر و شکر ہو کر رہتے ہیں۔اس سماج میں امیر بھی ہیں،غریب بھی اور متوسط طبقے کے افراد بھی۔
”جہاں میں رہتا ہوں یہ ملے جلے لوگوں کی گھنی آبادی والی بستی ہے۔امیر متوسط اور غریب سبھی طرح کے سبھی فرقوں ،مختلف قسم کے کاروباری لوگ اور ملازمین یہاں رہائش پذیر ہیں ۔گیارہ لاکھ کی آبادی کے بڑے صنعتی شہر کی اس کالونی کو کئی طرح سے اہمیت حاصل ہے ۔یہاں متعدد تعلیمی ادارے ،مندر،مسجد ،گورودوارے،گرجا گھر،ہسپتال ،سنیما ہاو
¿س کے علاوہ تھانہ بھی ہے۔کارخانے ،چھوٹے بڑے ہوٹل،بس اسٹینڈ،ریلوے اسٹیشن،پارک اور کھیل کے میدان بھی ہیں۔کئی سماجی و سیاسی سنستھاو
¿ںکے علاوہ دو صوبائی وزیروں اور آدھا درجن بڑے سیاسی لیڈر وں کی رہائش گاہیں بھی اس کالونی میں ہیں،یہ تمام سہولیات ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہیں۔ لوگوں کے بہتر سماجی معیار کی نشاندہی بھی ان سے ہوتی ہے۔“
درج بالا اقتباس میں بظاہر ایک شہر اور اس میں بسی ایک کالونی کا نقشہ کھینچا گیا ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں ہمارے ملک ہندوستان کی تصویر صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کی جتنی نشانیاں ہو سکتی ہیں سب کی سب اس میں موجود ہیں۔اور جہاں اتنا کچھ ہوتا ہے وہاں کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں۔ دیگر باتوں کے علاوہ اس میں”تھانہ“ بھی ذکر ہوا ہے اور بطور خاص ہوا ہے۔ تھانہ ایک ایسی جگہ ہے جس کا ہونا ہر مہذب سماج کے لئے از حد ضروری ہے۔ یہاں ایک تھانیدار ہوتا ہے اور اس کے ماتحت ایک بڑا عملہ ہوتا ہے جس کی سب سے بڑی ذمہ داری علاقے میں قانون کی بالا دستی قائم کرنا ہے اور اس کے لئے اسے مخصوص اختیارات بھی دیئے جاتے ہیں لیکن کیا یہ تھانے اپنی ذمہ داری پورے طور پر نبھاتے ہیں؟ شاید نہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ آج سماج میں جرائم کا گراف دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
بد چلن کی کہانی سماج کے ایک معزز شخص اور اس کی ملازماو
¿ں کے گرد گھومتی ہے۔ اس معزز شخص کا کیا عہدہ یا رتبہ ہے یہ قاری کو نہیں بتایا جاتا ۔صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص سے تھانے والے اچھی طرح واقف ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔بہر کیف! قصہ یہ ہے کہ اس معزز شخص کے یہاں ایک ادھیڑ عمر کی ملازمہ گنگا اور اس کی جوان بیٹی رادھا کام کرتی ہیں۔ ان دونوں کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جاتا ہے۔
”گنگا ایک ادھیڑ عمر کی عورت کا نام ہے جس کی جوان بیٹی رادھامیرے گھر کی ملازمہ ہے۔“آگے کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
”میں گنگا کو اچھی طرح جانتا ہوں اور رادھا کو بھی۔گنگا بہت برسوں تک میرے گھر میں ملازمہ رہی ہے ۔ تب سے، جب رادھا ابھی معصوم سی بچی تھی ۔رادھا جوان ہوئی تو گنگا نے میرے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری اسے سونپ دی تھی۔اسی وجہ رادھا کا جوان ہونا نہیںبلکہ گنگا کی علالت تھی۔“
رادھا کو مصنف اس وقت سے جانتا ہے جب وہ ابھی بچی تھی۔اور اسے بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کرتے ہوئے اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ اسے اپنی بیٹی سمجھتا ہے اور اس کے لئے ٹافیاں اور اچھے اچھے کپڑے لاتا ہے۔ در حقیقت دونوں ماں بیٹی اس گھر کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ایک روز گنگا حیران و پریشان اپنے مالک کے پاس آتی ہے اور رو رو کر اس سے کہتی ہے کہ رادھا کو پولس والے آوارگی اور بدچلنی کے الزام میں پکڑ کر تھانے لے گئے ہیں اور اسے تھانے بلایا گیا ہے مگر گنگا تھانہ نہ جا کر اپنے مالک کے پاس چلی جاتی اور اس سے اپنا دکھڑا بیان کرتی ہے۔اس کی بات سن کر وہ فوراً تھانہ جانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ نیا تھانیدار ایک نمبر کا بدمعاش اور لُچّاہے۔اس نے ایک نیا ہی دھندا شروع کر رکھا تھا۔اچھے گھر وںکی شریف لڑکیوں کو آوارہ گردی کے الزام میں پکڑوا کر تھانے بلواتا ہے اور پھر ان کے والدین سے پیسے اینٹھتا ہے۔ماں باپ بے چارے اپنی عزت کی خاطر چپ ہو رہتے ہیں۔پولس کے بارے میں مصنف یوں رقم طراز ہے۔
”رکے ہوئے میرے قدم آگے بڑھ گئے ہیں ۔کل کی ہر بات میرے من کا بوجھ بن گئی ہے ۔راہ چلتے میرے ذہن میں بہت سی باتیں آ جا رہی ہیں۔انگریز کے زمانے میں پولس اتیاچار کی باتیں عام سنتے تھے لیکن اپنے گھر کی بہو بیٹیوں کی ایسی بے حُرمتی اور غنڈہ گردی کی کوئی بات نہیں سنی تھی۔آزاد دیش کے جمہوری نظام میں تو جیسے ماحول ہی بدل گیا ہے ۔ہر زبان کہتی ہے کہ غنڈہ گردی ،چوری،ڈاکے ،قتل اور اسمگلنگ جیسی برائیوں کی جڑ یہ پولس والے ہی ہیں۔ہر ایسی واردات پولس کے پہرے میں ہوتی ہے اور واردات کا منافع پولس کی جیبوں کو گرم کرتا ہے۔تھانے نیلام ہوتے ہیں اور نیلامی کی رقم بڑے و با رسوخ لوگوں تک پہنچتی ہے….لیکن کہنے والی ہر زبان خاموش ہے۔“
درج بالا اقتباس میں صرف پولس والوں کا ہی مکروہ چہرہ سامنے نہیں آتا ہے بلکہ سماج کے ان سفید پوش لوگوں کے چہرے سے بھی نقاب اُٹھتا نظر آتا ہے جو پولس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
کہانی آگے بڑھتی ہے اور مصنف تھانہ پہنچ جاتا ہے۔ وہاں کا منظر کسی وزیر کے دربار جیسا ہے۔وہاں رادھا ایک کونے میں ڈری سہمی کھڑی ہے ۔ لیکن اس کی نظر جیسے ہی اپنے مالک پر پڑتی ہے وہ اس کی جانب لپکتی ہے۔ یہ دیکھ کر ایک سپاہی اسے نہایت بدتہذیبی کے ساتھ روکتا ہے لیکن اس کی نظر جب مصنف پر پڑتی ہے تو وہ سٹپٹا جاتا ہے اور وہ بری طرح کانپنے لگتا ہے۔ اس دوران تھانیدار ایک کھدر دھاری سے اسی طرح پکڑی گئی ایک لڑکی کے سلسلے میں معاملہ طے کر رہا ہوتاہے۔ تھانیدار اس معزز مصنف کو نہیں پہچانتا ہے لیکن جب ایک سپاہی اس کے کان میں اس کا تعارف پیش کرتا ہے تو وہ اس کے استقبال کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مصنف رادھا کے بارے میں اسے بتاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی ہے اور وہ تھانیدار سے سختی کے ساتھ پوچھتا ہے کہ اسے اس طرح تھانے لانے کی کیا وجہ ہے۔ تھانیدار نے لڑکھڑای زبان سے ابھی چند ہی جملے کہے تھے کہ دو سپاہی ایک اور لڑکی کو بدچلنی کے الزام میں پکڑ ے لئے آتے ہیں۔ اس لڑکی کو دیکھ کر تھانیدار حواس باختہ ہو جاتا ہے اور سپاہیوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تم کسے لے آئے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ یہ میری بیٹی ہے؟اس کی بات سن کر مصنف کا من شانت ہو جاتا ہے اور وہ رادھا کو لے کر اپنے گھر لوٹ جاتا ہے۔
حقیقت سے لبریز یہ ایک پُر اثر افسانہ ہے جس میں تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ڈاکٹر کیول دھیر نے اپنی بات کہنے کے لئے بھاری بھرکم الفاظ کا سہارا نہیں لیتے اور نہ ہی قاری کو کسی بھول بھلیاں کی سیر کراتے ہیں۔اس افسانے میں انہوں نے سماج میں پھیلی ایک بیماری کو نہایت سلاست اور روانی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔بیانیہ رواں دواں اور دلچسپ ہے۔اس افسانے سے ایک بات اور آشکار ہوتی ہے کہ جو دوسروں کے کے لئے جال بچھاتا ہے وہ ایک نہ ایک دن خود اس میں پھنس جاتا ہے۔افسانے کا یہ انجام چونکا دینے والا ہے اور قاری کو ایک آسودگی بخش جاتا ہے۔ ایک عمدہ افسانہ کے لئے ڈاکٹر کیول دھیرکو مبارک باد۔
٭٭٭
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“