ڈاکٹرجمیل جالبی جون، 1929ء کو علی گڑھ،برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہندوستان، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا۔ میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ءمیں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کو ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیور احمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ایسے استاد ملے جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ان دنوں ان کا آئیڈیل سید جالب تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کر لیا۔
تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہاں ان کے والد صاحب ہندوستانسے ان دونوں بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم بھیجتے رہے۔ بعد ازاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اس کے بعد1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹکی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔
تعلیمی و ادبی اداروں کی سربراہی
ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان(موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے[1]۔ اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔
ادبی خدمات
جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکوتھی جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید،ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین،ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔
تصنیفات و تالیفات اور تراجم
قومی انگریزی اردو لغت، جانورستان ( جارج آرول کے ناول کا ترجمہ)، پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردوتنقید و تجربہ، نئی تنقیدادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصطلاحات، جامع عثمانیہ، میرا جی ایک مطالعہ، ن م راشد – ایک مُطالعہ، ایلیٹ کے مضامین (ترجمہ)، ارسطو سے ایلیٹ تک، حیرت ناک کہانیاں، خوجی
اعزازات
ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء، 1973ء، 1974ء اور 1975ء میںداؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل،1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا[1]۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔
وفات
ڈاکٹر جمیل جالبی نے 89 سال 10 ماہ 6 دن کی عمر میں18 اپریل 2019ء کو کراچی میں وفات پائی۔
ناقدین کی آراء
ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر جمیل جالبی کے فن و شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں:
”ڈاکٹر جمیل جالبی ایک منکسر المزاج عالم ہیں جن کی زندگی نئی نسل کے لیے قابل تقلید ہے اور جن کے ادبی کارنامے اردو کا بیش بہا خزانہ ہیں۔“
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کے مطابق:
"اور اب میری مستقل رائے ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب،حالی سے لے کر آج تک کے تمام اردو تنقید نگاروں میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔“
ممتاز شاعر، ماہر نفسیات و فلسفہ رئیس امروہوی کہتے ہیں:
”علمی تحقیقی مہمات کو سر کرنے کے لیے جس تحمل، استعداد، محنت اور منطقی ذوق کی ضرورت ہے وہ سب چیزیں ڈاکٹر جمیل جالبی کی ذات میں یکجا ہوگئی ہیں۔“
اردو کے مایہ ناز نقاد ڈاکٹر عبادت بریلوی ڈاکٹر جمیل جالبی کے فن پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:
"جالبی صاحب کی تحقیق میں بھی ایک تخلیقی رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے۔ یہ انداز اردو کے بہت کم محققوں کو نصیب ہوا ہے۔"