(Last Updated On: )
بچوں کی ذہنی غذا کے لیے صالح فکر کی نظموں، حمدوں، نعتوں، اور دعاؤں کی تلاش شروع کی کہ انہیں نصاب میںشامل کروں تو سب سے زیادہ صالح ادب کا خزانہ حافظؔ کرناٹکی کی کتابوں سے ملا : حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ندوی
۶ جنوری ۲۰۲۲ء کو جمعرات کی شب میں گلشن زبیدہ میں ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی ننانویں کتاب ’’ہمارے سپہ سالار‘‘ کی پروقار اجرائی تقریب منعقد کی گئی، جس میں بین الاقوامی شخصیت کے مالک حضرت مولانا محمدالیاس ندوی صاحب بہ نفس نفیس شرکت کی اور ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی کتاب ’’ہمارے سپہ سالار‘‘ کا اجرا کیا۔ اس اجرائی تقریب میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے مہتمم حضرت مولانا مقبول احمد صاحب ندوی، مولانا اسامہ صدیقی صاحب ندوی، مولانا بشیر احمد صاحب ندوی، مولانا ابرار احمد صاحب ندوی، اور سی، اے جناب عبدالشکور صاحب کے علاوہ بھی بہت سارے علماء اور شعراء وادبا شریک تھے۔
مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے اپنی اجرائی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو ادب اطفال کے لیے جو قومی ایوارڈ ملا ہے میں سب سے پہلے اس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ صرف ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو نہیں ملا ہے، بلکہ پوری علما برادری کو ملا ہے۔ مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے کہا کہ حافظؔ کرناٹکی کو ملنے والا ایوارڈ ایک پیغام ہے۔ کہ ہم چاہیں تو اپنا تشخص قائم رکھتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اور اپنی لیاقت اور قابلیت سے قومی ایوارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو میں برسوں سے جانتا ہوں، جب میں نے اسلامیات کو عصری اسکولوں میںشامل کرنے کا ارادہ کیا اور اس حوالے سے ادارہ چلانے والوں کے تعاون کی خواہش ظاہر کی تو لوگ سوچتے رہ گئے اور حافظؔ کرناٹکی نے سب سے پہلے میرے خیال کی تائید کی۔ حالاں کہ ابھی اسلامیات کا نصاب تیار بھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے جب بچوں کے لیے اسلامیات کی تدوین و ترتیب کا کام شروع کیا اور’’ بچوں کی ذہنی غذا کے لیے صالح فکر کی نظموں، حمدوں، نعتوں، اور دعاؤں کی تلاش شروع کی کہ انہیں نصاب میںشامل کروں تو سب سے زیادہ صالح ادب کا خزانہ حافظؔ کرناٹکی کی کتابوں سے ملا۔‘‘ اور میں نے ان کی نظموں، حمدوں اور نعتوں کو نصاب میںشامل کیا۔ آج اسلامیات ملک اور بیرون ملک کے بہت سارے عصری اسکولوں میں پڑھایاجاتا ہے۔ ’’اسلامیات‘‘ کا ترجمہ چودہ ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اس میں شامل حافظؔ کرناٹکی کی نظمیں، حمدیں، نعتیں اور دعائیں بھی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ حافظؔ کرناٹکی نے ان تمام چیزوں کو ادب اطفال کا حصّہ بنادیاہے جس کے بارے میں ہم سوچتے تھے۔ لوگ ایک دو کتابیں تصنیف کرنے میں زندگی لگادیتے ہیں۔ حافظؔ کرناٹکی سوویں کتاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اللہ ان کے حوصلوں کو بلند رکھے۔ اس موقع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ میں اسے اپنی سعادت سمجھتا ہوں کہ میری ننانویں کتاب کا اجرا ایک نہایت جید عالم کے ہاتھوں ہوا۔ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب بین الاقوامی شخصیت کے مالک ایک زبردست عالم با عمل ہیں۔ وہ ایک زبردست اسلامی اسکالر ہیں تو اسلامی اور عالمی تاریخ کی روح کے رمز شناس بھی ہیں۔ وہ جغرافیائی صورت حال اور کیفیات کے واقف کار ہیں تو عصری اور دینی تعلیم کی آمیزش کی خوبیوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ وہ اپنے آپ میںایک تحریک کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اگر ساری چیزوں کو سمیٹا جائے توایک دفتر تیار ہوجائے گا۔ وہ ایک اچھے محدث ہیں تو بہترین اور بصیرت میں اضافہ کرنے والے مفسر قرآن بھی ہیں۔ انہوں نے جہاں اسلامیات کے توسط سے قوم کے نونہالوں کی روح میں اسلام کی روح کی پاکیزہ خوشبو کو بسانے کی کامیاب کوشش کی ہے، وہیں انہوں نے عصری علوم کے مثبت پہلوؤں کو بچوں کے ذہن پر ثبت کرنے کی بھی بھرپور کاوش کی ہے۔ انہوں نے مولانا ابوالحسن علی اکیڈمی قائم کرکے اسلامی تعلیمات اور افکار کو گھر گھر پہونچایا ہے تو ’’ارمغان‘‘ جیسا معتبر رسالہ نکال کر عوام و خواص کی ذہن سازی میں بھی اہم رول ادا کیا۔ ان کے عملی کاموں میں علی ایجوکیشنل ٹرسٹ بھٹکل تاریخ کی پیشانی کا درخشاں ماہتاب ہے۔ بے شمار علی پبلک اسکول ملک اور بیرون ملک میںقائم ہوچکے ہیں جو ملّت کے نونہالوں کی اسلامی نہج پر علمی اور فکری تربیت کررہے ہیں۔ وہ اپنے کالجوں میں بھی اسلامی ماحول بنائے رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ ان کی کتابیں بھی وقت کی اہم ترین ضرورتوں کو پوری کرتی ہیں۔ ان کی کتابوں میں مسرت کا جتنا سامان ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ بصیرت کاسامان ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اخلاص، محبت اور دین داری کے خمیر سے تیار ہوئی ہے۔ اتنی ہمہ گیر، ہر دل عزیز، علم و عمل کی پیکر شخصیت کا ہمارے درمیان آنا ہماری سرفرازی کاباعث ہے۔ میںان کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے ہمارے لیے اپنا قیمتی وقت نکالا اور میری ننانویں کتاب ’’ہمارے سپہ سالار‘‘ کے اجراکے لیے خوشی بہ خوشی تیار ہوئے۔ آج میں ان کا اعزاز کرتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں کہ ایسے معزز انسان کا اعزاز کرنے کا اللہ نے شرف بخشا۔ ہمارے درمیان موجود سبھی علماء کرام اپنی خوبیوں کی وجہ سے انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان سبھوں کا اعزاز میرے لیے باعث مسرت و انبساط ہے۔
اس موقع سے اپنے تأثرات پیش کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد مقبول احمد صاحب ندوی مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل نے کہا کہ؛ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو جب قومی ادب اطفال ایوارڈ ملا تو ہم نے انہیں بار بار بھٹکل بلایا تا کہ ہم ان کا اعزاز کرکے علماء برادری کے اعزاز کی توقیر کا سامان مہیّا کریں۔ مگر ان کی فروتنی دیکھیے کہ وہ اعزاز سے گریزاں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ حافظؔ قرآن ہیں۔ آپ کے سینے سے جو کچھ بھی نکلے گا اس میں قرآن کی ترجمانی کی خوشبو ضرور ہوگی۔ آپ نے ’’ہمارے سپہ سالار‘‘ کے نام سے جو کتاب شائع کی ہے وہ قابل قدر ہے۔ مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ آپ بذات خود ایک سپہ سالار کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کے کاموں اور کارناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اللہ آپ کو مزید خدمت کرنے کا موقع عطا کرے۔
مولانا اسامہ صدیقی ندوی صاحب، مولانا بشیراحمد ندوی صاحب، مولانا ابراراحمد ندوی صاحب، اور سی، اے جناب عبدالشکور صاحب نے بھی ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو مبارکبادیاں دیں۔ اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
آفاق عالم صدیقی نے اس اجرائی تقریب کے اغراض و مقاصد کی وضاحت اور استقبالیہ کی ذمہ داری اداکرتے ہوئے کہا کہ؛ علم کا ادب سے اور ادب کا علم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے نبیؐ نے فرمایا کہ مجھے معلّم بناکر بھیجا گیا ہے۔ معلّم اخلاق، اور آپ جان لیجئے کہ ادب کی بنیاد کا پہلا پتھر ہی اخلاق ہوتا ہے۔ کسی بھی علمی بات کو جب بہت اچھے انداز میں پیش کیا جاتاہے تو وہ ادب ہوجاتاہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ندوی، اور ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی یہاں موجودگی دراصل علم و ادب کا خوب صورت سنگم ہے۔ اس سنگم کی دھاراؤں میں وہ تازگی اور طراوت ہے کہ جو بھی اس سے جڑ جائے گا اس کے علم و فکر کی پیاس بجھ جائے گی۔ اس کا ذہن سیراب ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضرت مولانا محمدالیاس ندوی صاحب کی علمی کتابیں ادبیت اور ادب کی پاکیزہ روح سے خالی نہیں ہیں۔ اسی طرح حافظؔ کرناٹکی کی کتابیں علم کی سچی طلب اور تڑپ سے متبرّا نہیں ہیں۔ اردو چوں کہ صوفیا کے گودوں پلی بڑھی ہے اس لیے اس کی سرشت میں اسلام کی روح رچی بسی ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا محمدالیاس ندوی کو اپنے عہد کے ان برگزیدہ لوگوں میں شمار کیا جو علم حاصل کرکے صرف اپنے آپ کو سنوارنے اور اپنی عاقبت بنانے کے لیے نہیں استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے علم کی روشنی سے ملّت کے نونہالوں کے سینوں کو اجالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک پیغمبرانہ کام اور فریضہ ہے جسے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ندوی ادا کر رہے ہیں۔ اور اس کی توسیع میں حافظؔ کرناٹکی اپنا رول ادا کررہے ہیں۔
مولانا محمد اظہرالدّین اظہر ندوی نے اس موقع سے کہا کہ اتنی اہم بزرگ اور معتبر شخصیتوں کے درمیان بیٹھنا بھی سعادت کی بات ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اختصار سے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی کتاب ’’ہمارے سپہ سالار‘‘ کا جائزہ لیا اور کہا کہ؛ یہ بڑی بات ہے کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی ملّت کے نونہالوں کو اسلام کے ان سپہ سالاروں سے اپنی کتاب میں متعارف کرایا ہے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ یہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے سپہ سالار حضرت زیدبن ابی وقاصؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت زیدبن حارثہؓ، حضرت عمرابن العاصؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ کے کاموں اور کارناموں سے اپنے نونہالوں کو واقف کرائیں۔
ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنی اس کتاب میںان صحابہ کرامؓ کے علاوہ اسلام کے ان سپہ سالاروں سے بھی واقف کرایا ہے جن میں سے بیشتر کے ناموںکاموں اور کارناموں سے بہت سارے لوگ واقف بھی نہیں ہیں۔ مثلاً قیتبہ بن مسلم باہلی، عقبہ بن نافع، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، یزید بن مہلب اور امیرعبدالرّحمان۔ یہ پروقار محفل حضرت مولانا اسامہ صدیقی کی دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔اس مجلس کے انعقاد میں جناب انیس الرّحمان سکریٹری ایچ کے فاؤنڈیشن، انجنیر محمد شعیب، اور دوسرے بہت سارے لوگوں نے اپنا تعاون پیش کیا۔