ڈاکٹر فوزیہ تبسم کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں. دن کا کافی حصہ تیزاب اور الکلی کی پہچان اور عناصر کی ترتیب پڑھاتے یا ناگوار گیسوں کے درمیان گزرتا ہے. لیکن افسانوں کے ایک مجموعے، بچوں کیلئے پنجابی شاعری کی کتاب کے بعد اب اردو شاعری کا مجموعہ" لیکن جانا پار تو ہے" بھی آگیا ہے. بچوں کیلئے دو تین ٹی وی ڈرامہ سیریز بھی لکھہ چکی ہیں.ٹوٹ بٹوٹ کے کردار کے ساتھ ڈرامے خود بھی سٹیج کرتی ہیں.
کبھی وقت نکلتا ہے تو پینٹنگ بھی کرلیتی ہیں. وہ بھی اچھی خاصی کہ مصوری استاد اللہ بخش سے سیکھی.
اب ایک سائنسدان یہ سب کچھہ کرتی ہے تو یہ جینیاتی مجبوری بھی ہوسکتی ہے کہ آخر صوفی تبسم کی پوتی اور صوفی گلزار کی بیٹی ہیں. بشریٰ رحمٰن یونہی تو نہیں کہتیں کہ شاعری فوزیہ کرتی نہیں، شاعری فوزیہ سے ہوجاتی ہے.
ان کی کتاب کے بارے میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ پنجاب یونیورسٹی نے شائع کی ہے. اور بھی شائع کی ہوں گی، لیکن میں نے پہلی بار دیکھی ہے.
دیکھیں فوزیہ تبسم کے کچھہ شعر
باندھنا آتا ہےآنچل میں مجھے بادل کو
کیوں مری آنکھہ میں پانی سا بکھر جاتا ہے
چلتے چلتے رک جاتی ہوں
جیسے کوئی روک رہا ہے
انہی لوگوں میں رہنا ہے مجھے بھی
میں جن لوگوں کے اب درمیاں ہوں
بخدا آپ سے شدت کی محبت کی ہے
مگر کیا کروں کہتے ہوئے حیا آتی ہے
رستے میں دیوار تو ہے
لیکن جانا پار تو ہے
منظر دھواں ہونے لگا
گم آسماں ہونے لگا
شعر میں اکثر کہتی ہوں
دل اپنا بہلانے کو
دل تک وہ مجھے اپنی رسائی نہیں دیتا
آنکھوں میں تو رہتا ہے دکھائی نہیں دیتا
کوئی حرفِ یقیں ہوں یا گماں
اسی اک کشمکش کے درمیاں ہوں
آتی ہیں بہاریں بھی کھلتے ہیں شگوفے بھی
اب دل کو مگر ان سے کچھہ کام نہیں ہوتا
“