ڈاکٹر اشفاق احمد اردو فکشن کا ایک جانا پہچانا نام ہے ۔بناوٹ اور تصنع سے پاک سیدھا سادہ بچوں کے ذہن کو ایڈریس کرتا ہوا انداز بیان جہاں ہم تصوراتی اور خیالی یوٹو پیاUtopia سے الگ ایک ایسی دنیا دیکھتے ہیں جو جانا پہچانا، اپنی ثقافت سے جڑا ملتا ہے۔ اس ألودہ ہوتی ثقا فت ،زندگی کے صالح قدروں کے باقیات ، پر تعمیر کے ٹولزTools لۓ، شب ووز کے چواراہے پر زندگی کے ایک
سبز شاخ کے فلیگ کے ساتھ کڑھتامسکارتا زندگی کے تار رباب پر اخلاقی نغمے بکھیرتا مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ایک بار پھر اطفال ادب پر ایک سبز شاخ کے ساتھ حاضر ہیں۔
سبز شاخ کتاب کا عنوان بھی بچوں کو اپنے ساتھ باندھے رکھنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کی ایک مقنا طیسی کشش بھی رکھتا ہے۔ جس میں بائو لوجیکل شعور بھی ہے اور ماحولیات کا شوخ رنگ بھی ۔ماحولیات آلودگی کی شکار زندگی اپنے ارد گرد ہریالی ،اور شادابی کی ہمیشہ طا لب رہی ہے۔ ماحول میں پرورش پانے والی نئی نسل کو ان عوامل سے باخبر اور سبز شاخ کی اہمیت اور زندگی کے عملی نظام میں اتارنے کی ضرورت پر دعوت فکر دیتا ہوا عنوان ہے۔
اشفاق احمد اپنی بات آسان اور دلچسپ انداز میں ان کے ذہن میں اتارنے کے لئے پہلے بچوں سے بڑے پیارے انداز سے مخاطب ہوتے ہیں۔
عزیز بچوں سے مخاطب دراصل ایک. Rapport building ہے قاری سے فطری ساتھ پر جڑ نے کی۔اپنی بات پہنچانے سے پہلے کمیونیکیشن کے لیے ذہنی ربط بنانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔یہ دراصل ترسیل سے پہلے کا عمل ہے ۔سائکولوجیکل کاؤنسلنگPsychological counseling میں بھی اس حکمت عملی کو تھراپی سے پہلے listener کو مانوس کرنے کے لۓ تھراپسٹ اختیار کرتاہے۔
لہذا اپنی مدعا، اپنا درس، اپنی اخلاقی تھراپی سے پہلے کے لئے ایک ذہنی رابطہ سامعین کی سوچ کی اس سطح پر رہکر تخلیق کی جاتی ہے تاکہ توجہ، مواد سامعین اور متکلم کے درمیان ایک فطر ی بہاؤ اور flow رہے تاکہ ترسیل میں آسانی ہو۔
ڈاکٹر اشفاق صاحب نے بھی اس بات کا خصوصی خیال رکھا ہے۔ اس لیے باقاعدہ تدریسی اصول بھی سامنے آگیا ہے نئی بات جاننے سے پہلے پچھلے سبق کا اعادہ اور ذہنی آمادگی اور رابطے کی کڑی بنا سکے ۔
تحصیل اور ترسیل کے اگلے پڑاؤ پرصداقت کا اعلان قاری کے لئے ایک مثبت فیڈبیکFeed back اود authenticity of matter قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ کہانی زندگی کی سچی تصویریں ہیں۔ ایک صداقت بھرا اعلان کہانی شروع کرنے سے پہلے ۔ آپ جو کہانی پڑھنے جا رہے ہیں اس میں آپ اپنی زندگی کی وہ تصویریں ہیں جس کے آئینے میں آپ اپنی فکر اور کردار کے گیسو سنوار سکتے ہیں۔
سبز شاخ کے بینر تلے جمع سماجی ننھا سپاہی اپنے Thinking attitude کے ساتھ کسی فوجی کی طرح attention کے حا لت میں حساس فکر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ایسے میں مصنف اعلان کرتا ہے کہ ہمارا مقصد اپنے کردار کو سنوارنا ہے اور ایک اچھا شہری بننا ہے۔
مصنف عزیزوں سے مخاطب ہو کر کہانی کا مواد _صداقت اور مقصد کو واضح کردیا ۔
بلکل یہی ترتیب ان کی 26 کہانیوں میں بھی ہے جو بچوں کے ذہنی فریم ورک اور اس کی سطح پر آ کر لکھے گئے ہیں۔ یہاں مواد مشاہدے کی اس شکل میں ایک مخصوص عمر کےقاری کی عمر کی فکری نیٹ ورک Network سے رجوع ہوتا ہے جہاں سرورServer کے ڈاؤن ہونے اور فکری پیرنگ pairing میں دشواری نہیں ہوتی ۔
ذہن اور افکار کی اس فطری نیٹ ورکنگ ریموٹ سینسنگ کے بعد اشفاق صاحب کہانی کی چوپال پر مشرقی اور نئ مشرقیت والے عقلی رنگارنگ افکار کے غباروں کے ساتھ بچوں کے درمیاں جلوہ أفروز ہوتے ہیں ۔ شعورکے نگار خانے میں اتر ایسی عادتوں اور کردار سے متعا رف کراتے ہیں ۔جو انکے شعور کا خزانہ بن مستقبل کے کار خانہ عمل کا رویہ بن زندگی کی شاہ راہ کے لۓ زاد راہ بن جاتے ہیں۔
اپنی مشاق فکری ، بالغ تجربے،دور رس نگا ہوں کی نگرانی میں ادب اطفال کے گیسو حسن کو سنوارنے کا کام برسوں سے کر رہے ہیں۔
ایک تعمیری، تڑ پتے مچلتے ادیب کے دل کی دھڑ کن ہم صاف سن سکتے ہیں۔
زمین کی جنت" جیسی کہانی میں بھی سن لیتے ہیں جس میں کہانی پن نہ ہونے کے باوجود بھی پیڑ پودے اور شجر کاری کی اہمیت تابش ،شاداب کی فکر میں فیا ض صاحب کے حوالے سے مل جاتے ہیں۔
ان کے افسانوں میں موضوع اور بیان دونوں اعتبار سے ٹارگٹ گروپ کی ذہنی سطح سے بالا نہیں ہے۔ پرائمری اسکول کے بچوں کی ذہنی سطح کے لئے جو موضوعات پیش ہوۓ ہیں وہ ان کی فکری سطح سے نیچے کی ہیں جو جذب کرنے میں آسان ہیں ۔ لیکن ایک أدھ کہانی میں فکر کے پاؤں کے نیچے اینٹ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی اعتبار سے زبان بھی سادہ اور سلیس ہے۔ کسی ادبی یا بھاری لفظ سے بچنے کی پوری کوشش ملتی ہے۔ کہانیوں میں ایسی زبان کا بھی استعمال ہوا ہے جہاں الفاظ آسانی سے بچوں کی قرات پر چڑھ جاتے ہیں ۔ بیشتر جگہ عام شب و روز کے الفاظ اپنی جنس بدل کر أگۓ ہیں جیسے اسکول کو تانیث استعمال کیا گیا ہے۔
ایسے لفظوں سے اجتناب بھی ہے جن کو ادا کرتے وقت زبان دقت کا سا منا کرتی ہے ۔زبان کی سطح پر جتنی چوکسی اور احتیاط برتنے کی ضرورت تھی وہا ں تھوڑی غفلت بھی برتی گئ ہے ۔مصنف کی زبان اپنی سطح سے نیچے اتر کے اور بچوں کی فکر اور ان کی زبان سے اپنا رشتہ استوار تو کرتی ہی لیکن بڑے جملے ایک خاص عمر کے قاری کے لۓ اکتاہٹ کا تجربہ کہیں قراءتی عمل کے تجر بے میں در أیاہے۔
اردو میں ادب اطفال پر ایک بڑی ذمہ داری کردار سازی کی بھی عائد ہوتی ہے ۔یہاں موضوع اور کردار کے حوالے سے کہانی محنت کے پھل میں اکبر کا کردار ایک نمئاندہ کردار بن کر سامنے أتا ہے۔ مصنف کی کہانی "گلی کاسورج" میں مرکزی کردار یونس کی زندگی کے مایوسانہ ملبے سے اوپر اٹھ جد وجہد کی عکاسی بھی ہے۔ کہانی اور" گرد صاف ہوگئ "میں نگار کے ذریعہ دقیانوسی اور ضعیف اعتقاد کی دیوار ڈھا کسی واقعہ کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش بھی ہے۔
"ماں تمہارا وہ بیٹا میں ہی ہوں جسے تمہیں شادی کے دن ہی تحفہ میں والد صاحب نے دیا تھا"
اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش أنے والا وہی جوان ہے جو سوتیلی ماں کے ظالما نہ سلوک سے گھر چھوڑ أیا تھا۔
کہانی " کیے کی سزا" بھی نہایت ہی دلچسپ اور دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے جہاں ناصر جیسے آوارہ و بدقماش لڑکے کے کردار سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے گناہوں پر اللہ کے مو اخذے اور معافی کا پڑاؤ تو آخرت میں سزا اور جزا کے دن ہی ہوگا لیکن اس دنیا میں بھی مکافات عمل بن کر فیصلے والے دن سے پہلے سامنے أسکتے ہیں۔ کہانی "قسمت کا لکھا" بھی ایک بہت ہی سنجیدہ اور سبق آموز کہانی ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ پاک ہمیں بعض دفعہ اپنے نیک اعمال کا اجر اس دنیا میں ہی نواز دیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایک اور کہانی بعنوان "انصاف کی بات" میں کاشف اور طلعت نامی کردار کے ذریعہ بچوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ زندگی میں انصاف اور Equal treatment کی کیا حیثیت ہے۔ انسانی معاملات میں انصاف اور میزان عدل کی بڑی اہمیت ہے۔ انصاف اللہ کو عزیز ترین ہے اور وہ منصف شخص کو بہت پسند کرتا ہے "سبزشاخ"کی کہانیوں کے مطالعہ کے ایک مجموعی راۓ یوں سامنے أتی ہے کہ مصنف بچوں کی زندگی کے باغیچے کا باغبان بن کر اسے تراش خراش کر خوبصورت اور أب ثقافت سے سیراب کرنا کرنا چاہتا ہے۔باد صر صر سے حفاظت بھی مقصود ہے۔ تاکہ چنار علم واخلاق کی مثبت چھاؤں میں آنے والی نسلیں سبز شاخ کی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی پہچان اور وجود برقرار رکھ سکیں۔
سبق آموز کہانیاں بھی اشفاق صاحب کی فکری زنبیل سے چھن کر أگئیں ہیں جو بچوں کو ہندستانی اور اسلامی دونوں تہذیب سے جوڑ کر رکھتی ہیں۔ یہ دراصل ادب اطفال کو ہر حال میں کردار سازی اور تہذیب سے وابستگی کا ألہ بن کر رہنے کی تڑپ ہے جو مجموعی افکار کی صورت میں سبز شاخ کے شعوری بطن میں امنڈ أیا ہے ۔
اردو اطفال کے حوالے سے اپنی نسل کی تہذیب وتزئین کی ذمہ داری کا تقاضا یہ تھا کہ سیرت اور کردار دونوں پر اطفال کے ادب میں یکساں زور دیا جاتا۔
یہ رنگ ان کی کہانیوں میں گہرا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ بچوں کا ادب بڑوں کے لئے لکھا جا رہا ہے۔ادب اطفال کے لئے سائنسی ادب لکھنے کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن ایسے نام بہت کم ہیں جو صرف اور صرف بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ادب اطفال کے لئے سائنس ادب اور کہانیوں کا اچھا نمونہ شاہ تاج خان کی کہانیوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ڈاکٹر اشفاق کا بھی شمار ایسے ہی افسانہ نگار میں کیا جاسکتا ہے جن کی کہانیوں میں عقل کو چرکا لگانے والی کوہ قاف کی پریاں مشرقی ربن بانھے نہیں اترتیں اور نہ ہی حیرت کے پہاڑ پر کوئی مافوق الافطرت کردار عقل کو چکما دینے أتاہے بلکہ یہاں عقل کی دسترس میں أنے والے کردار ہی ملتے ہیں جو زندگی کے قریب ہیں جن کی سانسو ں کی گرمی قاری محسوس کرتاہے۔ ایسے ہی عنوانات قائم کر کے سبق آموز اور تحریک بخش کہانیاں لکھ کر ڈاکٹر اشفاق اپنے عہد کا فرض پورا کررہے ہیں۔
معصوم ذہنوں کو زندگی کی اعلی قدروں سے آگاہی اور ہم آہنگی انکے ادب اطفال کی اصل روح ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...