ڈاکٹر انور سدید : 4 ۔ دسمبر۔1928 ۔۔۔۔ 20 ۔ مارچ۔2016
ڈاکٹر انورسدید اردو کا ممتاز ترین ناقدین ۔ محققین اور مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ پاک و ہند کی ممتاز اور مقتدر ادبی شخصیات کی جانب سے انہیں بلا تردد دنیاۓ ادب کا بے تاج بادشاہ قرار دیا گیاہے۔ڈاکٹر انور سدید ایک باکمال نقاد اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا کے نفیس انسان تھے ۔ ملازمت اور پیشے کے اعتبار سے انجینیر ضرور تھے لیکن پیشہ ورانہ مہارت میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ چار دسمبر سن انیس سو اٹھاسی تک اریگیشن محکمے سے وابستہ رہے اور وہ بھی اپنے محکمے میں دیانت داری کی سب سے اعلی مثال بن کر۔ ہم اس بات کا ذکر تفصیل کے ساتھ اس یادگار مضمون میں بھی کرچکے ہیں کہ جو ہم نے ڈاکٹر انورسدید کی ساٹھویں سالگرہ اور ان کی ریٹایرمینٹ کے موقع پر سن انیس سو اٹھاسی میں نواۓ وقت راولپنڈی کے ادبی ایڈیشن کے انچارج جناب انوار فیروز صاحب کی خواہش اور مطالبے پر تحریر کیا تھا اور جسے انوار فیروز صاحب نے اہتمام کے ساتھ ادبی ایڈیشن کی زینت بنایا تھا۔
ڈاکٹر انورسدید ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور ہم تمام برادران کے قدردانوں اور مداحوں میں سے تھے۔ وہ عمر میں ہمارے والد گرامی سے کم و بیش دو برس بڑے تھے۔ سرگودھا میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی پوسٹنگ کے دوران پروفیسر غلام جیلانی اصغر۔ ڈاکٹر وزیر آغا ۔ مررضی برلاس ۔ شیخ رشید صاحب ۔ پرویز بزمی ۔ ایم۔اے۔لطیف ۔ انجم نیازی اور۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب کے علاوہ متعدد شخصیات سے حد درجہ قربت رہی۔ اگر ہم ڈاکٹر انورسدید اور سید فخرالدین بلے داستانِ رفاقت کا جازہ لیں تو یہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ ڈاکٹر انورسدید نے اس تعلق اور پر خلوص دوستانے کے رشتے کو تادمِ مرگ خوب بنھایا اور ہم یہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ بیس مارچ سال دوہزار سولہ کہ جو ڈاکٹر انور سدید صاحب کی تاریخ وفات ہے سے قبل بھی اور جب سے آج تک بھی ڈاکٹر انور سیدید کے فرزند ارجمند جناب مسعود انور صاحب نے ہم دونوں گھرنوں کی تعلق داری کو نا صرف یہ کہ برقرار رکھا بلکہ مضبوط اور مستحکم کیا ۔ برادر محترم مسعود انور صاحب کے توسط سے ہم ڈاکٹر انورسدید صاحب کی خیریت اور علالت سے مسلسل باخبر رہے۔ برادرم مسعود انور صاحب ہم سے بڑے ہیں قابل احترام اور ایک بڑے باپ کے وسیٕع القب اور وسیع الزہن اور خدمت گزار فرزند ہیں۔
جب ڈاکٹر انور سدید صاحب شدید علیل تھے تو مسعود انور صاحب نے خدمت گاری کا حق ادا کیا۔
لاہور کی ادبی روایات میں جب والد گرامی کی قام کردہ ادبی تنظیم قافلہ کے ماہانہ پڑاٶ ڈالنے کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر وزیر آغا کہ جو اکثر ہر مہینے کے وسط میں چند روز کےلیے سرگودھا سے لاہور آیا کرتے تھے اور سرور روڈ ۔ لاہور کینٹ میں اپنی اقامت گاہ پر چند روز گزار کر واپس چلے جایا کرتے تھے تو
ہر ماہ کی یکم تاریخ کو شام پانچ بجے سے رات دس . گیارہ بجے تک ڈالے جانے والے قافلہ پڑاٶ میں بلا تعطل شرکت فرماتے ۔ سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر ڈالے جانے قافلہ پڑاٶ کی ایک انفرادیت یہ بھی رہی کہ بہت سی ایسی شخصیات کہ جو ایک دوسرے کا چہرہ تک دیکھنے کی روادار نہ ہوتیں انہیں بھی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر قافلہ پڑاٶ میں شریک دیکھا جاسکتا تھا۔ شادمان لاہور میں واقع جی۔او۔آر۔تھری میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر منعقد ہونے والے قافلہ پڑاٶ کو ڈاکٹر انورسدید اور دیگر متعدد نامور شخصیات ادبی کانفرنس یا اردو کانفرنس کہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے سامنے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کا دولت خانہ تھا اور قریب قریب ہی ابصارعبدالعلی۔ حسن رضوی ۔ پروفیسر توصیف افضل اور دیگر ممتاز ادبی شخصیات بھی رہا کرتی تھیں۔ پھر ہر برس کے اختتام پر ڈاکٹر انورسدید اور ڈاکٹر سلیم اختر سے بطورخاص مطالبہ کرکے حسن رضوی جنگ کے ادبی ایڈیشن کے لیے سال بھر کا ادبی جا ٕ زہ لکھوایا کرتے تھے وہ بہت مفصل کہ جو نصف سے زیادہ صفحے کی زینت بنتا تھا اور تین تین اور بعض مرتبہ چار چار اقساط میں اشاعت پذیر ہوتا تھا ۔ ان ادبی تجزیوں میں قافلہ پڑاٶ کا بھی ذکر خیر ہوتا تھا اور سید فخرالدین بلے کی زیر ادارت چھپنے والے ہفت روزہ ۔ آواز ِ جرس ۔ لاہور کا بھی۔ انتظار حسین صاحب نے ڈاکٹر انورسدید صاحب خواہش ظاہر کی کہ جس طرح آپ حسن رضوی کے کہنے پر جنگ کےلیے ہر سال کا ادبی تجزیہ فرماتے ہیں اسی طرح آپ قافلہ اور قافلہ پڑاٶ کی بھی ہر سال کی مفصل تجزیاتی رپورٹ تحریر فرمایا کیجے اور آواز ِ جرس کے سال بھر کے پچاس سے زیادہ ادبی شماروں کی بھی مفصل رپورٹ تحریر فرمایا کریں ۔ اس کے بعد ڈاکٹر انور سدید صاحب نے ہر سال کی قافلہ ۔ قافلہ پڑاٶ رپورٹ اور آواز جرس کے سال بھر کے شماروں کی رپورٹ بھی بہت تسلسل کے ساتھ تحریر فرمانا شروع کردی۔
ڈاکٹر انور سدید پاکستان کے نامور مدیر ، نقاد ۔ محقق اور شاعر تھے۔ 4 دسمبر 1928ء کو انور سدید کی ولادت سرگودھا میں ہوئی تھی۔ ان کا پیدائشی نام محمد انوار الدین تھا۔ ان کے والد کا تعلق محنت کش راجپوت قبائل سے تھا۔ والد مولوی امام الدین کے نام سے جانے جاتے تھے اور وہ اقبال اور رومی کو اپنا مرشد سمجھتے تھے۔ انوار الدین المعروف انور سدید نے اسکول کی تعلیم سرگودھا میں مکمل کی۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے ادیب فاضل کیا۔ پھر ایف اے اور بی اے کے امتحانات انگریزی میں مکمل کیے۔ 1966ء میں انسٹی ٹیوٹ آف انجنئرس ڈھاکا سے سول انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے کچھ سال بعد وزیر آغا کے ایما اور خواہش پر انہوں نے ایم اے اردو کیا اور اردو ادب کی تحریکیں کے عنوان سے مقالہ لکھ کر
پی ایچ ڈی مکمل کیا۔
1954ء میں انوار الدین کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد سے آبپاشی کے محکمے میں محرر کی ملازمت اختیار کی اور ملازمت کے ساتھ ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ سول انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ محکمہ آبپاشی میں انجنئر بنے اور 1988ء میں سپرنٹنڈنٹ انجنیر کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبک دوش ہوئے۔
ادب کی دنیا میں پہلا قدم اس طرح رکھا کہ انوار الدین نے ساتویں جماعت سے شاعری شروع کی تھی مگر جلد ہی شاعری ترک کرکے انہوں نے ایک کہانی لکھی جو گلدستہ رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے قلمی نام ایم میانوی منتخب کیا تھا۔ 1942ء میں پہلا افسانہ مجبوری ایک فلمی رسالہ چِترا میں شائع ہوا۔ انور سدید کا قلمی نام وزیر آغا کی ادبی رہنمائی سے طے پایا تھا
1948ء سے 1966ء تک انور سدید صاحب نے سرگودھا سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ اردو زبان کی ادارت کی۔ 1988ء سے 1992ء تک وہ وزیر آغا کی ادارت میں چھپنے والے جریدے اوراق سے وابستہ تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1990ء سے 1995ء تک قومی ڈا ٕ جسٹ کے مدیر اعلٰی تھے اور 1995ء میں روزنامہ خبریں ، لاہور کے مدیر بنے۔ اس کے بعد وہ کچھ سال روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی عملے کا حصہ بھی رہے ۔ نوائے وقت میں گفتنی کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ جبکہ ہفت روزہ آواز جرس میں ضرب ِ سدید کے عنوان سے بھی کالم لکھتے رہے ۔
ڈاکٹر انور سدید صاحب ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی نظم و نثر اور فروغ ادب و ثقافت کے حوالے سے خدمات اور کارہاۓ نمایاں کے ہمیشہ مداح اور پرستار رہے۔ ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب یزیدِ ثانی اور آمرِ اعظم ضیا الحق کی انتقامی کاروإ یوں کا نشانہ بننے کے بعد جب ہم لوگ سرگودھا کو خیرباد کہنے لگے تو پریس کلب سرگودھا ۔ اور محکمہ اطلاعات و ثقافت اور مقامی ادبی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اعزاز میں بہت سی الوداعی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ان میں سے ایک تقریب کا اہتمام جناب انجم نیازی صاحب کے گھر پر بھی کیا گیا ۔ خصوصی مقالات اور مضامین پڑھنے والوں میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ۔ خورشید رضوی صاحب ۔ انجم نیازی صاحب ۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب اور عبدالرشید اشک صاحب بھی شامل شامل چند شعراۓ کرام نے منظوم خراج پیش کیا تھا جن میں جناب پرویز بزمی صاحب بھی شامل تھے ۔ ڈاکٹر انور سدید صاحب نے اپنے مقالے میں سید فخرالدین بلے کے گھر کو آرٹس کونسل سے تعبیر کرتے ہوۓ سید انجم معین بلے کی مصوری ۔ سید فخرالدین بلے ۔ سید عارف معین بلے اور جناب آنس معین کی شاعری کا حوالہ دیا تھا۔
آنس معین کی وفات جدید غزل کی موت سمیت ڈاکٹر انورسدید صاحب نے آنس معین کی فکر انگیز شاعری کے حوالے سے کم و بیش پچیس تیس مضامین لکھے ہونگے ۔ اور سید فخرالدین بلے کی شخصیت فن اور خدمات کے حوالے سے ان کے تحریر کردہ میری نظر سے پانچ مضامین گذرے ہیں۔ والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے انتقال پر ڈاکٹر انور سیدید صاحب نے اس خبر کی فون پر صدیق فرما کر شدید جاڑے کے موسم میں بہاولپور تک کے سفر تکلیف بھی برداشت کی ۔
ڈاکٹر انور سدید کی تصانیف کی تعداد اور فہرست بہت طویل ہے ۔ ان کی اکثر کتب مقبول اکیڈمی کے زیراہتمام پبلش ہوسکیں۔ ہم حوالے کے طور پر چند کتب کا ذکر کر رہے ہیں ۔
اردو ادب میں سفر نامہ
بہترین نظمیں
غالب کے نئے خطوط
ڈاکٹر وزیر آغا
اردو ادب کی تحریکیں
میر انیس کی اقلیم سخن
مولانا صلاح الدین احمد (کتابیات)
اقبال شناسی اور ادبی دنیا
اردو افسانہ کی کروٹیں
اردو ادب کی مختصر تاریخ
اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش
ڈاکٹر انور سدید اور سید فخرالدین بلے = داستانِ رفاقت
ممتاز . اسکالر . محقق . نقاد . شاعر. افسانہ نویس. کالم نگار. مصنف . مدیر اور صحافی = ڈاکٹر انور سدید
ڈاکٹر انور سدید : 4 ۔ دسمبر۔1928 ۔۔۔۔ 20 ۔ مارچ۔2016
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری