نامور ادیب، صحافی ڈاکٹر انورسدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھاکے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سکولوں میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ ان کا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن والدین سائنس کی تعلیم دلا کر انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دیا۔ اس وقت ان کے افسانے رسالہ بیسوی صدی، نیرنگ خیال اور ہمایوں میں چھپنے لگے تھے۔ عملی زندگی کی ابتدا محکمہ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔
بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ سکول رسول(منڈی بہائو الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست1948ء میں اول آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر کی ملازمت پر فائز ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ناآسودگی محسوس کی تو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دئیے۔ ایم سے فرسٹ کلاس حاصل کی اور خارجہ طلبہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
انور سدیدنے’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگران راہنما وزیر آغا تھے، پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر شمس الحسن صدیقی کو ان کا ممتحن مقرر کیا۔دونوں نے ان کے مقالے کو نظیر قرار دیا جو آئندہ طلبہ کو راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کےاب تک نو اڈیشن چھپ چکے ہیں -اس دوران انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔
محکمہ آبپاشی پنجاب سے ایگز یکٹو انجینئر کے عہدے سے 60 برس کی عمر پوری ہونے پر دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ ‘‘ہفت روزہ’’زندگی‘‘ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور میں چند سال کام کرنے کے بعد وہ ملک کے نظریاتی اخبار’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شامل ہو گئے، اس ادارے سے انہوں نے’’دوسری ریٹائرمنٹ‘‘جولائی2003ء میں حاصل کی لیکن مجید نظامی چیف ایڈیٹر’’نوائے وقت ‘‘ نے انہیں ریٹائر کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا – تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری ان کے اظہار کی چند اہم اصناف ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے اپنے بچپن میں ہی ادب کو زندگی کی ایک بامعنی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا تھا، ابتدا بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھنے سے کی، افسانے کی طرف آئے تو اس کے دور کے ممتاز ادبی رسالہ’’ہمایوں‘‘ میں چھپنے لگے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے’’اوراق‘‘ جاری کیا تو انہیں تنقید لکھنے کی ترغیب دی اور اپنے مطالعے کو کام میں لانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رسالہ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا کے پس پردہ مدیر کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ’’اوراق‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’حریت‘‘، ’’امروز‘‘، ’’ زندگی‘‘، ’’قومی زبان‘‘اور ’’خبریں ‘‘ میں ان کے کالم متعدد ناموں اور عنوانات سے چھپتے رہے۔ ’’دی سٹیٹسمن‘‘اور ’’دی پاکستان ٹائمز‘‘میں انگریزی میں ادبی کالم لکھے۔ انہیں تعلیمی زندگی میں تین طلائی تمغے عطا کیے گئے۔ ادبی کتابوں میں سے ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘اور ’’اردو میں حج ناموں کی روایت‘‘پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے انہیں بہترین کالم نگار کا اے پی این ایس ایوارڈ عطا کیا۔ ٢٠٠٩ میں ادبی خدمات پر صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا .
اب تک انور سدید نے٨٨کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں، چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
۱۔’’فکرو خیال‘‘، ۲۔’’اختلافات‘‘، ۳۔ ’’کھردرے مضامین‘‘، ۴۔’’اردو افسانے کی کروٹیں‘‘، ۵۔’’موضوعات‘‘، ۶۔ ’’بر سبیل تنقید‘‘، ۷۔’’شمع اردو کا سفر‘‘، ۸۔’’نئے ادبی جائزے‘‘، ۹۔‘’’میر انیس کی اقلم سخن‘‘، ۱۰۔’’محترم چہرے‘‘، ۱۱۔’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ۱۲۔’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘، ۱۳۔’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ۱۴۔’’اردو ادب میں سفر نامہ‘‘، ۱۵۔’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘، ۱۶۔’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ۱۷۔ ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،۱۸۔’’؟‘‘، ۱۹۔’’ غالب کے نئے خطوط‘‘، ۲۰۔’’ دلاور فگاریاں‘‘، ۲۱۔’’ قلم کے لوگ‘‘، ۲۲۔’’ادیبان رفتہ‘‘، ۲۳۔’’آسمان میں پتنگیں‘‘، ۲۴۔’’دلی دور نہیں‘‘، ۲۵۔ ’’ادب کہانی 1996ء‘‘، ۲۶۔’’ادب کہانی 1997ء‘‘، ۲۷۔’’اردو افسانہ: عہد بہ عہد‘‘، ۲۸۔’’میر انیس کی قلمرو‘‘، ۲۹۔’’ وزیر آغا ایک مطالعہ‘‘، ۳۰۔’’ مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت‘‘، ۳۱۔’’حکیم عنایت اللہ سہروردی، حالات و آثار‘‘۔ ۳۲۔ ’’ جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ‘‘، ۳۳۔’’کچھ وقت کتابوں کے ساتھ‘‘، ۳۴۔’’مزید ادبی جائزے‘‘۔
ڈاکٹر انور سدید کی چند کتابوں مثلاً ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘،’’ پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘ کو موضوع کے اعتبار سے اولین تصنیف ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ انور سدید ان دنوں ’’نوائے وقت‘‘ سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے ایک سال میں 225کتابوں پر تبصرے لکھ کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انور سدید کے فن اور شخصیت پر پروفیسر سید سجاد نقوی نے ایک کتاب’’گرم دم جستجو‘‘ شائع کی ہے۔ رسالہ ’’اوراق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’ـ’ارتکاز‘‘، ’’جدید ادب‘‘، ’’ کو ہسار جرنل‘‘، ’’ چار سو‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ میں ان پر گوشے چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی بیشتر کتابیں کالج اور یونیورسٹی طلبا کے علاوہ اعلیٰ ملازمین کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی معاونت کرتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے اردو نصاب میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی چار تصنیفات اور بھی ہیں، یہ ان کے چار بیٹے سعود، امتیاز، انس او ر ندیم ہیں ، جنہیں وہ اپنے انشائیے تصور کرتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ڈاکٹر اور دو انجینئر ہیں۔ ان کے ہاں فیملی سسٹم خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کو اپنا محسن تصور کرتے اور کہتے کہ ان دونوں نے انہیں ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔