معروف شاعر، فلسفی اور اسکالر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اردو اور فارسی کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کوشاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے “مرزا غالب” کے عنوان سے ایک شاہکار نظم لکھی ہے جو ان کی کتاب بانگ درا میں شامل ہے۔ یہ نظم مرزا اسد اللہ خان غالب کی اردو ادب میں خدمات اور شاعری کی دنیا پر ان کے گہرے اثرات کے اعتراف پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نظم “مرزا غالب” کا بنیادی موضوع مرزا غالب کی ادبی صلاحیتوں اور انسانی عقل کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی ان کی منفرد ادبی صلاحیت کا اعتراف اور اقبال کی طرف سے مرزا غالب کو خراج عقیدت ہے۔ اقبال کی نظم اس خیال کو اجاگر کرتا ہے کہ مرزا غالب کی شاعری اور ان کے فکر انگیز افکار و خیالات نے گہری سچائیوں اور بصیرت افروز شاعرانہ اظہار کو آشکار کیا ہے، مرزا غالب اپنی لازوال اردو اور فارسی شاعری کی وجہ سے روشن خیالی کا ایک مینار بن گئے۔ علامہ اقبال کی نظم ”مرزا غالب” غالب کی شخصیت و فن اور ان کی پیچیدہ شاعری کو سمجھنے میں فکری کھوج اور تخلیقی اظہار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم “مرزا غالب” کئی قافیوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک میں ایک متواتر شاعری کی ترتیب کے ساتھ اشعار شامل ہیں۔ یہ روایتی اردو شاعرانہ شکل نظم کی جمالیاتی کشش کو بڑھاتی ہے اور اسے موسیقی کی خوبی عطا کرتی ہے۔ اقبال کی نظمیہ شاعری کی شکل کا بہترین لفظوں میں استعمال، اردو شاعری کی ایک مقبول شخصیت مرزا اسد اللہ خان غالب کے اپنے منفرد اسلوب کی آئینہ دار ہے، علامہ اقبال نے مرزا اسد اللہ خان غالب کی تعریف کرکے اسے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
علامہ محمد اقبال نے مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری اور شخصیت کو فن کے مختلف عناصر سے تشبیہ دینے کے لیے بہترین استعارے بھی استعمال کیے ہیں۔ اقبال غالب کی شاعری کی دل سے قدر کرتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ غالب اپنی شاعری میں ” خوبصورتی” کا مشاہدہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو انسانی وجود کی گہری سمجھ کی علامت ہے۔
اقبال کی نظم ”مرزا غالب” بہترین امیجری سے مالا مال ہے۔ اقبال نے غالب کے تخیل کا موازنہ ایک ایسے باغ سے کیا ہے جو کائنات کو خوشبو بخشتا ہے اور ان کے افکار کا ان کھیتوں سے موازنہ کیا ہے جو گھاس کے میدانوں کی طرح اگتے نظر آتے ہیں۔اقبال کی یہ منظر نگاری غالب کی تخلیقی صلاحیتوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔
اقبال مختلف ادبی اور تاریخی شخصیات کا حوالہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے ثریا اور شیراز کا گلاب وغیرہ، یہ اشارے غالب کو عظیم شاعروں اور ادیبوں کے سلسلے سے جوڑتے ہیں اور ان کی حیثیت کو مزید بلند کرتے ہیں۔
اقبال کی اس نظم کا آغاز غالب کی فکری شراکت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہوتا ہے، جس نے انہیں اپنی شاعری کے ذریعے بے شمار الجھنوں کو کھولنے کی کلید کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہ اس خیال پر زور دیتا ہے کہ غالب کی شاعرانہ اور فکری تخیل بے مثال اور لاجواب ہے۔
اس کے بعد کے مصرعے غالب کی ادبی ذہانت کے ہمہ جہتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کی شاعری کو ایک “شاہکار” کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو “اردو شاعری” کو تقویت بخشتا ہے اور “بانسری” کی طرح پہاڑوں کی خاموشی کو بھر دیتا ہے۔ یہ منظر نگاری ادب کی دنیا میں غالب کے تبدیلی کردار کو واضح کرتی ہے۔
نظم ”مرزا غالب” میں غالب کے تخیل کے باغ کو اس کے کام کی آفاقی کشش کو اجاگر کرتے ہوئے کائنات کو جلال بخشتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اقبال غالب کی زبان و بیان کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کے الفاظ میں تصویروں کو زندہ کرنے کی طاقت موجود ہے۔ غالب کے اسلوب کو ثریا سے تشبیہ دی گئی ہے، جس نے ادبی دنیا میں ان کا مقام مزید بلند کیا۔
اس نظم کا اختتام ملک کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے، غالب کے عہد کی فکری وسعت کو عصری حالات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیاگیا ہے۔ ” سرزمین” اور “تعلیم اور فن کا گہوارہ” کا حوالہ قاری کو اس وراثت کی یاد دلاتا ہے جو غالب نے چھوڑا اور ان کے کام کی مسلسل مطابقت کو شاعری میں شامل کیا گیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نظم ”مرزا غالب” ممتاز شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی ادبی ذہانت کے اعتراف کے طور پر اقبال کی طرف سے خراج تحسین پر مبنی شاعری ہے۔ یہ غالب کی شاعری کے دیرپا اثر اور اس کی لازوال اہمیت کی عکاسی کرتا ہے، یہاں تک کہ یہ بدلتے وقت، حالات اور فکری احیاء کی ضرورت پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ یہ نظم ایک شاندار تہنیتی شاعری ہے جو اردو ادب کی سب سے مشہور شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اقبال کی اس شاہکار نظم کا چترال، مٹلتان کالام اور گلگت بلتستان کی وادی غذر میں بولی جانے والی زبان کھوار میں راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) نے ترجمہ کیا ہے ۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اقبال کی نظم ”مرزا غالب” اور اس کے کھوار (چترالی)تراجم پیش خدمت ہیں۔
”مرزا غالب”
فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا
کھوار:علامہ محمد اقبال ہمی شیغرا مرزا غالبو سوم مخاطب بیتی ران کہ تہ وجود انسانی فکرو سورا ہیہ لوو واضح آریر کہ خیالاتن بوئیکرہ بو ݱانگیا پت پرواز کوریکو بوئے ۔ یعنی تہ تخیلو ݱانگیا پت توریکو بچے انتہائی اعلی فکران ضرورت شیر۔
تھا سراپا روح تو، بزمِ سخن پیکر ترا
زیبِ محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
کھوار: شاعریو بزمہ تہ ذات تہ روحو غون تان سارئیران وا تہ وجود ہے میلسو رونق دی بہچی شیر وا ہیہ معنیا ہے میلساری کھوشت دی سارئیران لیکن تہ سوم ہمسال روئے لوڑین کی ہوئے تہ شاعرانہ عظمتہ پت رسائی حاصل کوریکو نو بیتانی۔
دید تیری آنکھ کو اس حُسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
کھوار:تہ غیچھ تان خوشو چستیو وولٹی لاڑینیان کہ تہ حسن کائناتو ہر اشناریا زندگیو حرارتو غون کھوشت غیچھی گویان۔
محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار
کھوار:کیہ قسمہ کی ݱانگیار یو گیاوا بشئیاک گولوغ زومان خاموشیا ہواز پیدا کورویان ہے قسمہ تان ہیہ کائناتہ تہ تخیل دی اہل ذوق رویان آوانان حکمت اوچے دانشاری ٹیپ کوری شیر۔
تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ زار
کھوار:تہ خیالات فطرتو مظاہرانتے دی بوسونیو حوصلہ دیتی اسور ۔ صرف ہیہ تان نو بلکہ تہ شاعرانہ فکردی ہݰ ہݰ دنیا تخلیق کوری شیر کہ ہیس انسانی ذہنانتے تازگی اوچے سرشاری دیتی شیر۔
زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں
کھوار: تہ شعری تخیلاتہ حکمتو سوم جستہ جستہ ہݰ ہݰ ہردیانتے پون دیکو بݰ اشعار موجود شینی کہ ہتیت لودیکو نو باک اشناریانتے دی لودیکو طاقتو دیتی شینی ۔ مطلب ہیہ شیر کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالو نزدا مرزا غالبو شاعریا خیال اوچے فکر وا آہنگو طلسم کھوشت شینی ۔
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
کھوار:تہ زبانو تہ شونان سورا ناز شیر یعنی تہ زبان فکر انگیز کیفیت والا اشعار راک زبان شیر، ثریا استاری دی حیران اسور تہ پروازو پوشی۔
شاہدِ مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہَ دلی گلِ شیراز پر
کھوار: شاعریا تہ انداز بیان ہیہ قسمہ منفرد وا دلنشیں شیر کہ ہے سورا مضامین تنار تان قربان بیکو بچے تیار بونیان۔ تہ کلامہ ہݰ تازگی اوچے شیرینی شیر کہ ہیتان پروشٹہ شیرازو حافظ اوچے سعدیو غون لوٹ لوٹ شاعرانن رنگ دی کھور غیچھی گویان ۔ مراد ہیہ کہ غالب خور باکمال شعرا ن سار دی لوٹ شاعر اسور۔
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
کھوار:ہائے دریغا!ہیہ کندوری اپسوزو لو کہ تو ہانیسے ہیہ دھلی شہرا پوتھور بیتی اسوس وا ہیہ شیر انحطاط اوچے زوالو ای نمونہ شیر وا تخلیقی و تہذیبی اعتبارو سورا ہیہ شہر بالکل ویران بیتی شیر ۔اے غالب! تہ سوم ہمسال شاعرانن موژی عالمی سطحہ دی تہ غون لوٹ شاعر تھے جرمنیو گوئٹے اوشوئے کہ ہسے جرمنیو منشور وا زندہ شہر ”ویمرہ” پوتھور بیتی اسور۔
لطفِ گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں
کھوار: کلا پت کی کا تہ فکر و اوچے تخیلو ݱانگیاری واقف نو ہوئےتھے ہسے تہ ذاتاری کچہ بیتی واقف بوئے وا تہ انداز بیانو برابریو حقو کچہ کوری ادا کوریکو بوئے؟۔
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سرزمیں
آہ! اے نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں
کھوار: ہائے ہائے دریغا! تہ سار آچی کھیوتے ہندوستانو سرزمین تخلیقی سطحہ کو ویران ہوئے؟ وا ہانیسے ہتیرا تہ غون عظیم شاعر وا دانشور پیدا کو نو بونیان؟۔
گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ ہے
کھوار:حالانکہ لوڑین کی ہوئے تھے اردو زبان ہانیسے ترقیو ابتدائی مراحلا شیر وا ہورو ترقیو وا پروشٹی آلیکو بچے تہ غون لوٹ شاعرانن ضرورت شیر۔
اے جہان آباد! اے گہوارہَ علم و ہنر
ہیں سراپا نالہَ خاموش تیرے بام و در
کھوار: ہیہ شعرا علامہ اقبال دہلیو سوم براہ راست مخاطب بیتی ران کہ اے جہان آباد! تو شروغاری تان علم اوچے ہنرو مرکھاز اوچے تربیت گاہ اوشوو ، ہانیسے تہ ہتے عظمتوتے کیا فاقیہ ہوئے ۔ تہ گنزول اوچے کوچاہ کو حکمت اوچے دانشاری خالی غیچھی گونیان؟ ۔
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
کھوار: حالانکہ تہ ہال بیکو ژاغا بو زیات ماہرین علم و حکمت پوتھور بیتی اسونی کہ ہتیتان شہرت اوچے عظمتان ساری تہ تان وجود دی روشت شیر۔
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے
کھوار:متے ہیہ لوو دیت کہ تہ قبرستانہ مرزا غالبو غون کا لوٹ شاعر دی دفن اسورا؟ کہ ہسے علم و حکمت، تخیل اوچے شاعرانہ لطافتہ منشور اسورا؟۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...