ڈاکٹر احمد سہیل کا شمار اُردو تنقید کے ان نابغہ روز گار ناقدین میں ہوتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اردو تنقید کے جدید اور مابعد جدید نظریات و تصورات پر باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔جب سوشل میڈیا کا زمانہ نہیں تھا تو اس وقت بھی وہ پاک و ہند کے اہم ادبی رسائل و جرائد میں متواتر لکھ رہے تھے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کی ہر تحریر بہت منفرد،پُرمغز اور عالمی ادبی تناظر کی حامل ہوتی ہے،آپ ہمیشہ نئے نئے موضوعات سے اردو تنقید کو ثروت مند بنانے میں مصروف رہے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ احمد سہیل نے بہت پہلے جن نئے تنقیدی ڈسپلن کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا وہ بعد ازاں جدید اور مابعد جدید تنقید کے پسندیدہ اور مقبول موضوعات بنتے چلے گئے یعنی تنقیدی کے بدلتے رجحانات اور تحریکوں کے بدلتے تیور ان سے مخفی نہیں تھے۔(ہمارے ہاں اس نوع کی علمی اور تنقیدی بصیرت کی مثالیں خال خال نظر آتی ہیں)۔سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈاکٹر احمد سہیل کے قارئین کا دائرہ اثر نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر و پاک و ہند اور شمالی جنوبی امریکہ اور یورپ تک پھیل چکا ہے۔اردو والوں کی یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر احمد سہیل کی بدولت وہ آئے دن نئے نئے تنقیدی تصورات سے واقفیت حاصل کرتے جا رہے ہیں،اس کا بڑا کریڈٹ فیس بک کو بھی جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تنقیدی مضامین،شذرات،مقالات،تبصرے اور ادبی سوال ناموں کو فیس بک وال اور ادبی گروپس کی بدولت سب پڑھنے والوں کو اپ ڈیٹ رکھا ہوا ہے۔سچ پوچھیئے تو ڈاکٹر صاحب نے جن نئے تنقیدی موضوعات کو فیس بک پر متعارف کرایا اگر کسی اور کے پاس اتنی معلومات ہوتی تو وہ ان کو باقاعدہ مقالات کی شکل دے کر بڑے بڑے ادبی رسائل میں شائع کرواتا لیکن چوں کہ یہ ایک درویش صفت مست قلندر انسان ہیں اور شہرت جیسے کاموں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں لہذا ان کا طریقِ قلندری یہی ہے کہ نام ونمود سے بے نیاز ہو کر لکھتے چلے جا رہے ہیں جس کا سب سے بڑا مقصد اردو تنقید کے کینوس کو وسعت دینا ہے۔ان کا بظاہر ایک عام سا مضمون بھی مستقل کتاب کا لطف رکھتا ہے۔مزید خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے تمام مآخذ کا ذکر مفصل کرتے ہیں تا کہ ہر قاری اپنی سہولت کے مطابق مزید پڑھنا چاہے تو اسے کوئی دقت نہ ہو۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع ہے جس کی وجہ سے وہ تنقیدی تصورات کو اس علمی وسعت اور بصیرت سے دیکھنے پر قادر ہیں جہاں ہمارے معاصر اردو ناقدین ابھی پہنچ نہیں سکے۔وہ نہ تو مغرب سے مرعوب ہیں نہ ہی اردو کی کلاسیکی تنقید سے بدظن،وہ ہر موجود فکر سے اپنی تنقیدی دانش کا چراغ روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمارے موجودہ اردو نقاد ادبی تھیوری کے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ"ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں" اس ادبی تھیوری اور ثقافتی تھیوری نے اردو تنقید میں ایسی ہلچل مچائی جس کا حاصل تاحال کنفیوژن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ڈاکٹر احمد سہیل اس وقت اردو دنیا کے وہ واحد تھیورسٹ ہیں جنھوں نے اس تھیوری کو خالص مغربی تصورات کی روشنی میں پڑھا اور سیکھا نیز ان تمام بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کی جو ادبی تھیوری کی تفہیم میں کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔اس حوالے سے ہمارا کوئی ادبی نقاد ان کی ہمسری کا دعوا نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صاحب نے ادبی تھیوری کے خدوخال واضح کرنے کے لیے جہاں سوشل میڈیا اور رسائل کا سہارا لیا وہاں ان کی کچھ مستقل تصانیف بھی اس موضوع کو واضح کرنے میں معاونت کرتی ہیں میرا اشارہ" ساختیات:تاریخ،نظریہ اور تنقید" اور تنقیدی مخاطبہ" کی طرف ہے۔یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اس وقت دنیائے ادب میں فکشن اور تھیوری کے حوالے سے جو مباحث چل رہے ہیں ڈاکٹر صاحب نہ صرف ان کے تاریخی ارتقا و مضمرات سے واقف ہیں بلکہ ان پر ایک مجتہد کی نظر بھی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔