مایہ ناز سیرت نگار، زیرک معالج ،بے باک مقرر ، بے لوث خدمت گار ، انتھک محقق اور نابغہ روزگار فاضل ادیب _
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
💗اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتاز دانشور ،صدارتی ایوارڈ یافتہ سیرت نگار ، زیرک معالج ، بے باک مقرر ، معاملہ فہم کارکن ، بے لوث خدمت گار ، انتھک محقق اور اردو ادب کے یگانہ روزگار فاضل ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے سال 2020ء کے آغاز میں ہی پانچ جنوری کو زینہ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا۔ بے لوث محبت ،بے باک صداقت ، انسانی ہمدردی اور خلوص و مروت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی ، اسلامی و معاشرتی ، تحقیق و تنقید کی درخشاں روایات کا علمبردار فطین ادیب اور اسلامی اسکالر ہماری بزم وفا سے کیا اٹھا کہ وفا کے سب فسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔ان کے سینکڑوں مداح ، ہزاروں عقیدت مندان اور لاکھوں مریض اس یگانہ روزگار فاضل کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر سکتے کے عالم میں آ گئے ۔۔۔۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس شمع فروزاں کو بچھا دیا جو گزشتہ پانچ عشروں سے سر راہ گزار زیست سفاک ظلمتوں کو کافور کرکے نشان منزل دے رہی تھی ۔عجز و انکسار ، خلوص و مروت ، بے لوث محبت ، ایثار اور وفا کا پیکر ہماری بزم وفا سے اٹھ کر راہ رفتگان پر گامزن ہوگیا ۔
علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 12 فروری انیس سو اکسٹھ 1961ء اتوار کے دن فیصل آباد کے ایک قدیمی محلہ گرونانک پورہ کی گلی نمبر 12 میں فضل محمد انصاری کے گھر طلوع ہوا اور 5 فروری 2020ء کو پوری دنیا کو اپنی ضیاء پاشیوں سے منور کرنے کے بعد فیصل آباد میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔غلام محمد آباد فیصل آباد کے بڑے قبرستان نے اس لافانی ادیب کو اپنے دامن میں سمو لیا ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دل دہل گیا اور آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔ایک درجن سے زائد اپنی اسلامی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ایوارڈ یافتہ کتب سے اردو ادب اور اسلامی تاریخ کی ثروت میں اضافہ کرنے والے اس لافانی ادیب کی رحلت بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ۔۔ان سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس ہوتا تھا اور زندگی سے محبت کے جذبات کو نمو ملتی تھی ۔اسلامی تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنے والا اب ایسا کوئی ادیب دکھائی نہیں دیتا جسے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری جیسا کہا جاسکے۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری فیصل آباد کے معروف معالج ، بے لوث خدمت گار ،اہم سیرت نگار ، معاملہ فہم کارکن اور یگانہ روزگار فاضل ادیب تھے۔ ان کا تعلق انصاری برادری سے تھا ۔انہوں نے ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ اس تعلق کو برقرار رکھا ۔انہوں نے متعدد شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ وہ اپنی طبی ، ادبی ، سماجی اور فلاحی خدمات کے حوالے سے فیصل آباد کے مشاہیر میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لکھی گئی کتاب پر ملنے والا صوبائی سیرت ایوارڈ اور صدارتی سیرت ایوارڈ ان کی اور فیصل آباد کی عزت و توقیر کا ایک معتبر حوالہ بنا رہے گا ۔۔اس کتاب کو ادارہ پنجابی زبان و ثقافت لاہور کے سرپرست اور پنجابی کے عالمی سفیر اور ڈاکٹر ساجد صاحب کے گہرے دوست الیاس گھمن نے عمدہ گٹ اپ کے ساتھ شائع کیا تھا۔اس کے بعد اس کے متعدد ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت میں موجود مشرقی پنجاب سے تھا ۔یہاں کے ضلع ہوشیار پور کی ایک تحصیل اونہ کے چک ڈٹیاں میں ان کے ایک بزرگ رہائش پذیر تھے ۔یہ علاقہ آجکل ہماچل پردیش سے تعلق رکھتا ہے ۔جو کوہ ہمالیہ کا ابتدائی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے چند خاندانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں رہتے تھے ۔ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل جل کر رہنے سے غیر مسلموں کی رسمیں اور رواج مسلمانوں کی معاشرت کا حصہ بن سکتے تھے لیکن یہ خاندان دین اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم رہا ۔۔اس کی وجہ اس خاندان کے لوگوں کا بزرگان اسلام سے گہرا تعلق اور اسلامی تعلیمات پر گامزن رہنا ہے ۔اس علاقے کے بزرگوں میں سید علی معظم گیلانی نورانی آدھ گڑھ شنکر کا نام بہت معروف اور سر فہرست ہے ۔ان کے علاوہ بیرم پور شریف کے بزرگ پیر قادر بخش اور بابا خیراتی شاہ بھی مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے ۔
1947ء میں تقسیم وطن کا وقت آیا تو ہندوستان سے لاکھوں لوگ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے ۔ہجرت کا یہ سفر بے حد مشکل اور جان لیوا تھا ۔ہزارہا لوگ ہجرت کے سفر میں ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔ ان کے مظالم کا شکار ہونے والوں میں ڈاکٹر عبدالشکور ساجد انصاری کے چچا جلال الدین نے کمال جرات سے تن تنہا ان کا مقابلہ کیا ۔سکھوں کو روکے رکھا اور اپنے خاندان کے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ سڑک کے راستے کی بجائے کھیتوں اور جنگلوں میں سے چھپتے چھپاتے آگے بڑھےوہ خود تو شہید ہو گئے ۔ لیکن انہوں نے باقی خاندان والوں کو بچا لیا ۔جو ہزار ہا مصیبتوں اور بے انتہا بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئے ۔یہاں سے لائلپور چلے آئے اور موجودہ میونسپل ڈگری کالج جو پہلے خالصہ کالج تھا ان کے پاس بنے ہوئے مہاجر کیمپ میں ٹھہر گئے ۔یہاں سے یہ خاندان گرونانک پورہ کی گلی نمبر 12 کے ایک مکان میں آ کر رہنے لگا ۔اسی میں ان کے ایک بزرگ فضل محمد انصاری قادری بھی تھے جو ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے والد مکرم تھے۔۔۔۔
فضل محمد انصاری کے گھر میں ڈاکٹر عبد الشکور ساجد کی پیدائش ہوئی ۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے والد فضل محمد انصاری نے اپنے چھوٹے سے گھر میں ایک چھوٹی سی کھڈی لگائی ہوئی تھی جس پر وہ دستی کپڑا بنا کرتے تھے ۔ان کی اہلیہ (ڈاکٹر ساجد کی والدہ محترمہ) زینب بی بی ایک گھریلو خاتون تھیں ،جو پورے گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں ۔یہ گھرانا کوئی امیر گھرانا نہیں تھا بس کھینچ تان کر گزارہ ہو رہا تھا۔اسی ماحول میں ڈاکٹر عبدالشکور ساجد کی 12 فروری انیس سو اکسٹھ 1961ء اتوار کے روز ولادت ہوئی ۔ تب یہ گھرانا افلاس اور غربت کا شکار تھا اس لئے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد کا بچپن تنگدستی میں گزرا ۔
اللہ تعالی نے فضل محمد انصاری کو پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا تھا ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔جن کے نام محمد بشیر ، محمد نزیر ، عبدالمجید ، عبدالغفور ، منیراں بی بی ، مجیداں بی بی ، شمیم اختر اور عبدالشکور ساجد ہیں ۔۔
حصول تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو سب سے پہلے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے لئے محلہ گرونانک پورہ کی گلی نمبر 10 کے سامنے واقع جامع مسجد غوثیہ سلطانیہ میں داخل کرایا گیا۔یہاں انہوں نے حضرت مولانا علی احمد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھا ۔اس کے بعد اردو کا قاعدہ پڑھنا ان کے لیے بہت آسان ہو گیا ۔یہی سبب تھا کہ ابتدائی تعلیم کے لیے ایم سی مڈل سکول پرتاب نگر فیصل آباد میں داخل کرایا گیا تو وہ پہلی جماعت ہی میں ذہین ترین بچوں میں شمار ہونے لگے ۔ہر کلاس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے جب انہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کر لی تو اسکول کے ایک ہونہار طالب علم کے طور پر پہچانے جاتے تھے ۔جس نے بزم ادب میں بھی اور کلاس امتحان میں بھی ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی۔پھر انہیں ایم سی ہائی سکول کوتوالی روڈ فیصل آباد میں داخل کرایا گیا۔ یہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو مطالعہ کا بچپن سے ہی بہت شوق تھا ۔اس سلسلے میں ایک جگہ ڈاکٹر ساجد رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔۔
“چھٹی جماعت سے میرا ذوق مطالعہ کے لئے مجھے نذیر بک ڈپو گرونانک پورہ فیصل آباد میں واقع ناول لائبریری میں لے گیا ۔اب روزانہ کا معمول ہوگیا کہ بچوں کے ناول اور کہانی کی کتابیں کرایہ پر لے کر جاتا اور کرایہ بچانے کی خاطر صرف ایک ہی دن میں ناول پڑھ لیتا ۔بچوں کی دنیا ، نونہال اور تعلیم وتربیت جیسے رسالے خوب پڑھے۔”
میٹرک کا امتحان سائنس مضامین کے ساتھ اچھے نمبروں میں پاس کیا پھر انہوں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخلہ لیا اور یہاں پری میڈیکل کے مضامین یعنی فزکس ، کیمسٹری اور بائیولوجی کے ساتھ ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا لیکن اس سال ان کا داخلہ ایم بی بی ایس میں نہ ہو سکا ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد اس پر کافی بد دل بھی ہوئے لیکن ان کے کچھ دوستوں خصوصی ڈاکٹر سید اعظم بخاری نے ہمت بڑھائی اور مشورہ دیا کہ انہی نمبروں کے ساتھ اگلے سیشن میں دوبارہ داخلہ کے لئے کوشش کی جائے ۔اگلے سال 1980ء میں MBBS میں ان کا داخلہ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں ہو گیا ۔کلاسیں اس سے بھی اگلے سال یعنی انیس سو اکاسی 1981ء میں شروع ہوئیں ، لیکن MBBS کی کلاسیں شروع ہونے سے پہلے کا وقت بھی انہوں نے فضول نہیں گزارا بلکہ وہ میونسپل لائبریری فیصل آباد کے باقاعدہ ممبر بنے اور اپنا وقت اس لائبریری میں بیٹھ کر گزارنے لگے ۔وہ صبح لائبریری میں آ جاتے ،سب سے پہلے اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ وہ اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی اخبارات کا مطالعہ بھی ضرور کرتے ۔اگر کوئی کتاب نکلوا کر اس کو پڑھنا شروع کر دیتے تو اس کتاب کو ختم کیے بغیر انہیں چین نہ آتا ۔ انھوں نے ادبی اور دینی کتب کا بہت غور سے مطالعہ کیا۔یہ وہی مطالعہ تھا جو عمر بھر ان کے حافظے میں محفوظ رہا اور یہی ان کی دینی و ادبی معلومات کا بنیادی ذریعہ بھی بنا ۔جب 1981ء میں ان کی MBBS کی باقاعدہ کلاسیں شروع ہوئیں تو حصول تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے ۔یہاں انہوں نے اپنی کامیابیوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایم بی بی ایس کی ہر کلاس اچھے نمبروں سے پاس کی ۔اور ایم بی بی ایس کی ڈگری ملنے تک اپنی ذہانت کے گراف کو کبھی نیچے نہیں آنے دیا ۔
غیر نصابی سرگرمیوں میں فعالیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کا گھرانہ شروع ہی سے تصوف کے قادری سلسلے میں بیعت ہے ۔اس خاندان کا تعلق اہل سنت والجماعت سے ہے ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کے عقائد اور افکار اور نظریات اس گھرانے کا عقیدہ ہیں ۔امام ابوحنیفہ کی پیروی کے باعث یہ گھرانہ حنفی، سنی ، بریلوی اور قادری گھرانا کہلاتا ہے۔ڈاکٹر عبدالشکور ساجد پر بھی اسی پاکیزہ دینی ماحول کا اثر تھا ۔یہی وجہ تھی کہ وہ زندگی بھر ایسی سرگرمیوں سے وابستہ رہے جن کا تعلق ان کے عقیدہ اور مسلک سے تھا ۔مثلاطالب علمی کے زمانے میں بھی اور طبی تعلیم حاصل کرنے کے دورانیہ میں بھی انجمن طلبہ اسلام (ATI) سے وابستہ ہوگئے تھے .اس تنظیم کا مشن عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ ہے۔لہذا وہ اس سرگرمی میں بھرپور حصہ لیتے جس کا کچھ بھی حصہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتا ۔ATI کے دفتر میں موجود لائبریری کی کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ جس سے ان کی ادبی و دینی معلومات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ۔اسی دور میں انہوں نے اسی دور کی اہم دینی اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ذاتی تعلقات بنائے۔ ان میں پیر قمر الدین سیالوی ، قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی ، مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی ، ضیاء الامت پیر کرم شاہ الازہری ، پیر سید منور حسین شاہ ، پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری ، علامہ سید ریاض حسین شاہ ، ملک محمد اکبر ساقی اور حاجی محمد حنیف طیب شامل ہیں ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ان مشاہیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
” . . میں نے ان بزرگوں کی زیارت کی ، ان کی بصیرت افروز باتیں لکھیں اور سنیں __ بعض کے ساتھ گھنٹوں نشستیں رہیں اور بعض کے ساتھ کھانا بھی کھانے کا شرف حاصل رہا۔”
ملازمت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1987ء میں سروسز ہسپتال لاہور میں ہاؤس جاب شروع کیا۔ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل ہونے اور ڈگری ملنے کے بعد 1988ء میں فیصل آباد چلے آئے، جہاں انہوں نے سول ہسپتال فیصل آباد میں بطور میڈیکل آفیسر شعبہ امراض جلد میں سرکاری نوکری کا آغاز کیا اور فیصل آباد نیز ارد گرد کے مختلف ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں مثلا فیصل آباد کے سول ہسپتال الائیڈ ہسپتال ، جنرل ہسپتال غلام محمد آباد ، کے علاوہ چک نامدار (جڑانوالہ) ،اور ملاں پور کے ابتدائی طبی مراکز میں بھی طبی ڈیوٹی سر انجام دیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے علاقہ مکوآنہ کے پولیس سینٹر میں بطور میڈیکل آفیسر اپنی خدمات سرانجام دیں ۔
شادی اور آل اولاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی 1987ء میں شادی ہوئی ۔ان کی اہلیہ ایک تعلیم یافتہ ،نیک دل اور بہادر خاتون ہیں ۔ان کی اہلیہ محترمہ نے اپنے آپ کو اپنے شوہر کی عمر بھر مزاج آشنا اور بہت معاونت کرنے والی خاتون ثابت کیا ۔ڈاکٹر صاحب کو پرسکون گھریلو ماحول فراہم کرنے اور ڈاکٹر صاحب کے مہمانوں کے لئے ما حضر پیش کرنے نیز گھر میں منعقدہ محافل کے لیے خدمات سرانجام دینے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ۔اس گھریلو حوالے سے بھی کبھی ان کے دوستوں سے گپ شپ ہوتی تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے کہ اللہ تعالی نے انہیں زندگی کا ہم سفر ان کے مزاج ہی کا عطا کیا ہے
اولاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے ڈاکٹر عبدالشکور ساجد نصاری کو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے ۔جن میں ان کا بڑا بیٹا ڈاکٹر محمد بلال شکور جس نے جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے 2016ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ماحولیاتی سائنسز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔بڑی بیٹی میمونہ شکور نے ایم اے ہسٹری اور ایم اے سیاسیات کیا ہوا ہے۔ ان کی شادی ڈاکٹر عاصم جیلانی کے ساتھ ہوئی ہے جنہوں نے 2007 میں فزکس کے شعبہ مٹیریل سائنس میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں انہوں نے فزکس کے شعبہ مٹیریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ۔وہ اپنے خاوند کے ساتھ جدہ سعودی عرب میں رہائش پذیر ہے ۔
دوسری بیٹی مریم شکور’ جنہوں نے 2017ء میں پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور آج کل سیول ہسپتال فیصل آباد میں بطور میڈیکل آفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کے شوہر ڈاکٹر اویس حفیظ بھی جنرل فزیشن ہیں۔
دوسرے بیٹے ڈاکٹر محمد جنید شکور جنہوں نے انڈیپنڈنٹ میڈیکل کالج فیصل آباد سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی اور آج کل ہاؤس جاب کر رہے ہیں ۔
سب سے چھوٹے بیٹے محمد حسان مشکور ہیں جنہوں نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بی ایس آنرز کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی اور آجکل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے فیصل آباد کیمپس میں ایم فل کیمسٹری کر رہے ہیں ۔۔۔۔اور اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد ان کی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔سب گھر والوں نے اور ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے سبھی تعلق داروں نے ڈاکٹر ساجد کے مشن کے حوالے سے انہیں ہی ان کا جانشین مقرر کیا ہے۔یہ ڈاکٹر صاحب کے بعد ان کے دینی اور رفاہی مصروفیت خود ادا کرتے ہیں ۔
حج ، عمرہ کی سعادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو شروع ہی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بے حد عشق تھا ۔اللہ تعالی نے بھی انہیں خوب خوب نوازا ۔وہ جب موقع ملتا ، عمرہ کی غرض سے حرم پاک میں حاضر ہو جاتے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنی آنکھوں اور دل کو منور کرتے ۔ان کے بیٹے حسان شکور کے بقول ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں ایک بار حج کی سعادت حاصل کی اور 16 مرتبہ انہیں عمرہ کی گھر سے اس مقدس سفر پر جانے کے مواقع نصیب ہوئے ۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے “لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے اپنا سفر نامہ حج بھی لکھا ہے جس میں حج کے واقعات بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجلیات کے بیان میں دلکش اور پر اثر انداز بیان اختیار کیا ہے ۔
ادبی مصروفیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔وہ چیف ایڈیٹر “سیرت رنگ ” کتاب لڑی میگزین فیصل آباد تھے ۔
2۔وہ “المصطفی مگزین” صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیصل آباد کے مدیر بھی تھے ۔
3۔وہ ماہنامہ ” سوک رپورٹ” فیصل آباد کی ایک طویل عرصہ تک کالم نگار بھی رہے ۔
4۔انہیں مجلہ “سیماب” انٹر میڈیکل کالجیٹ کونسل پاکستان کا چیف ایڈیٹر بھی مقرر کیا گیا تھا ۔
دینی ،علمی ،سماجی، ادبی، اور سماجی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے کر معاشرے میں ایک منفرد مقام حاصل کیا تھا۔ میڈیکل کے شعبے سے وابستگی ہونے کے باوجود ان کا علمی ، دینی اور سماجی خدمات سرانجام دینا نہایت قابل ذکر ہے ۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی مختلف شعبہ جات میں خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی مختلف شعبہ جات میں خدمات کے سلسلے میں پورا شہر معترف اور چشم دید گواہ ہے ۔
دینی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے ختم نبوت سیمینار کے سالانہ بنیادوں پر انعقاد کا پروگرام شروع کیا ۔
2۔ انہوں نے ماہانہ بنیادوں پر درس قرآن مجید کا سلسلہ شروع کیا جو چودہ برس تک تسلسل سے جاری رہا ۔
3- ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی عادت تھی کہ وہ ہر برس قرآن مجید مع ترجمہ (کنزالایمان از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی) اور تفسیر (خزائن العرفان از مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی) کا مختلف اداروں اور اہم شخصیات کو تحفہ پیش کرتے۔
4۔ہر خاص دینی تہواروں پر اپنے گھر میں محفل میلاد منعقد کراتے اور شرکاء کی ضیافت کا بھی اہتمام کرتے۔
5۔انجمن طلباء اسلام (ATI)
کے ممبران کی ہر لحاظ سے امداد کرتے ان کی طرف سے جب بھی انہیں بلایا جاتا تو ضرور تشریف لے جاتے۔ ان کے اجلاسوں اور دیگر تقریبات میں لازمی شرکت کے لیے جاتے ۔یوں میمبران کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش رہتے تھے ۔
6۔وہ شہر بھر کی مذہبی تقریبات میں شرکت کی ہر ممکن کوشش کرتے ان کے دوست ڈاکٹر زاہد رشید کے کلینک پر منعقدہ محفل ہو یا دوسرے دوستوں کے ہاں دینی اجلاس وہ شرکت کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے ۔
7۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے اپنے دوستوں کا ایک حلقہ بنایا ہوا تھا اس حلقے کے ہر ممبر کے گھر کسی نہ کسی مہینے شیڈول کے مطابق صبح کے وقت ناشتے کا پروگرام ہوتا ناشتہ تو ایک بہانہ ہوتا البتہ زبردست محفل میلاد ضرور منعقد ہوتی جس میں تلاوت قرآن مجید ، نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کسی جید عالم سے خطاب بھی کرایا جاتا ۔
8۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری اپنے گھر میں ہر سال بہت بڑی اور عظیم الشان محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ۔ہر برس اس میں بڑے بڑے قاری صاحبان، نعت خواں حضرات ، شعرائے کرام اور علمائے عظام کو مدعو کیا جاتا ۔اس موقع پر وسیع اور شاندار لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا۔اگلے برس کے پروگرام تک اس محفل کی یادیں روح کو تازہ کرتی رہتیں۔
9۔ انہوں نے دینی مشاہیر اور علماء کی صحبت اور ان سے مشاورت کا سلسلہ عمر بھر جاری رکھا ۔اور اپنے اس تعلق کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیا ۔
10۔دینی کتب کی اشاعت کے حوالے سے ان کی درجن سے زائد کتب منصہ شہود پر آئیں جس نےلوگوں کے دلوں اور روح کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے ملا مال کیا ۔۔
علمی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمی خدمات سر انجام دینے کے لیے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز سے اپنا رابطہ ہمیشہ قائم رکھا۔
2/ہمیشہ خالص علمی تصانیف کی اشاعت میں ہمت دکھائیں /
3۔اہل علم سے ذاتی تعلقات استوار رکھے ۔
4۔علمی مجالس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہتے ۔
سماجی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماجی خدمات میں بھرپور حصہ لینے کے لیے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کے کئی خوبصورت پہلو قابل ذکر ہیں ۔
1۔ان کے کلینک گھر میں کوئی بھی بیمار بیوہ آجاتی تو نہ صرف یہ کہ اس سے کسی قسم کی فیس لیتے بلکہ اپنے پاس سے اسے ادویات بھی دیتے اور مالی مدد بھی کرتے ۔اس کے لیے انہیں کسی قسم کی شفارش کی ضرورت محسوس نہ ہوئی ، کسی خاتون کا خود کو بیوہ کہہ دینا ہی ان کے لئے کافی ہوتا تھا۔
2۔وہ ماہانہ بنیادوں پر بہت سی بیوہ خواتین اور یتیم بچیوں کی کفالت کرتے اور اپنے اس اقدام کو ہمیشہ چھپا کر رکھتے ۔شہر بھر میں مستحق افراد
کی امداد میں بہت کوشش کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کی بعض خفیہ مہربانیوں کا پتہ ان کے گھر والوں کو ان کی وفات کے بعد ہوا ۔
3۔۔انہوں نے مستحقین کی اجتماعی شادیوں کے پروگراموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایسے پروگراموں میں ہمیشہ دل کھول کر مالی معاونت پیش کی۔
4۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے مختلف سماجی تنظیموں کے ساتھ گہرے تعلقات ہمیشہ استوار رکھے اور انہیں اپنے مفید مشوروں سے نوازا
5۔شہر کی میلاد کمیٹی میں فعال کردار ادا کر کے سماجی خدمات سرانجام دیں ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سالانہ جلوس ہو یا مختلف تقاریب کا انعقاد’ ڈاکٹر عبد
الشکور ساجد انصاری نے ہمیشہ منیر احمد نورانی صاحب کے شانہ بشانہ اپنی خدمات پیش کیں ۔
6۔۔وہ بعض قریب گھرانوں کو ماہانہ بنیاد پر راشن بھی فراہم کیا کرتے تھے ۔
7۔۔وہ المصطفی رمضان المبارک افطار دسترخوان کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے جس سے بہت سے لوگوں کا روزہ افطار کرایا جاتا اس موقع پر کی جانے والی دعائیں بہت رقت آمیز ہوتیں ۔۔
ادبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری وقت ملنے پر کچھ ادبی محفلوں میں شرکت کرتے اور خود بھی ایسی محفلیں اپنی ہاں منعقد کرتے ۔
2۔فیصل آباد شہر اور ملک کے دوسرے خطوں کے اہم مشاہیر ،ادیبوں اور شاعروں سے ان کے ذاتی مراسم قائم تھے اور وہ ان ادبی مجالس میں شرکت کی کوشش بھی کرتے ۔
3۔۔ڈاکٹر عبدالشکور ساجد انصاری کی خالص ادبی تالیف جیسے “نکہت مدینہ” قابل ذکر ہے جس کی وجہ سے اہل علاقہ بزرگ شاعر مرزا شکور بیگ کی زبردست نعت گوئی سے متعارف ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کا سفرنامہ حج
“لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “بھی قابل ذکر ہے۔
طبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔انہوں نے طبی خدمات کے حوالے سے ہسپتال اور ذاتی کلینک میں مریضوں کے ساتھ ہمیشہ ہمدردانہ رویہ اختیار کیے رکھا ۔
2۔۔وہ مستحق افراد کو مفت طبی امداد کی فراہمی میں ہمیشہ کوشاں رہے ۔
3۔۔انہوں نے مختلف طبی تنظیمات کے ساتھ اپنی وابستگی کو ہمیشہ برقرار رکھا ۔
4۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے اپنی زندگی میں مفت طبی کیمپ لگا کر عوام الناس کی خدمات سرانجام دیں خصوصا اپریل پیر خانے دربار عالیہ قادریہ حضرت بابا جلال الدین قادری چک 297 ج ب گوجرہ میں ہر برس تین بار میڈیکل کیمپ لگاتے رہے یہاں ڈاکٹروں کی کثیر تعداد مریضوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کرتی تھی ۔
بعض اہم اعزازات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو بعض اہم اور قابل ذکر اعزازات سے بھی نوازا ہوا تھا۔جن میں سے کچھ کی نشاندہی درج ذیل ہے ۔
1۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی سیرت النبی پر مبنی کتاب “خیرالبشر”(پنجابی ایڈیشن ) پہلی بار 2005ء میں شائع ہوئی۔2006 میں اسے صوبائی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
22007 میں یہی کتاب خیرالبشر پنجابی ایڈیشن وفاقی حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ اور مبلغ ۔/25000 روپیہ اعزازیہ کی مستحق قرار دی گئی جس سے ڈاکٹر صاحب کی شہرت ملک گیر ہوگی ۔یہ کتاب ادارہ پنجابی زبان تے ثقافت لاہور کے چیئرمین اور پنجابی زبان کے عالمی سفیر الیاس گھمن نے اپنے ادارہ سے شائع کروائی تھی ۔
3۔۔جب انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تو فیصل آباد کے تاجران کی طرف سے ان کی تاج پوشی کی گئی اس موقع پر ان کے سر پر سونے کا خوبصورت تاج رکھا گیا۔
4ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ چینل 92 کے مشہور دینی اور روحانی پروگرام کا نام “صبح نور” انہوں نے رکھا تھا۔علامہ مولانا عطاء المصطفی نوری کی فرمائش پر ڈاکٹر صاحب نے یہ نام تجویز کیا تھا جسے متعلقین نے بہت پسند کیا ۔
5۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے بہت سی دینی کانفرنسوں ، ریفرنسوں اور سیمینارز کا آغاز کیا ۔خصوصا فیصل آباد میں میلاد کمیٹی کی طرف سے بڑے بڑے نعتیہ مشاعروں کے انعقاد میں آپ کے مشورے اور تشویق کا بہت عمل دخل ہے ۔
6۔۔آپ کو شہر فیصل آباد اور کچھ بیرونی شہروں کی ادبی ، دینی اور طبی تنظیمات کی طرف سے شیلڈز بھی عطا ہوئیں. مثلا ۔۔۔۔۔
1۔۔المصطفی تھنکرز فورم فیصل آباد کی طرف سے کتاب “خیرالبشر” کی اشاعت پر شیلڈ سے نوازا گیا ۔
2۔سٹیفن فارماسٹیکل کمپنی پاکستان کی طرف سے بارہویں، ششماہی کانفرنس آف ڈرماٹالوجی میں آپ کو آپ کی طبی خدمات کے صلے میں ایک خوبصورت شیلڈ سے نوازا گیا ۔
3۔۔ریکٹر یونیورسٹی آف فیصل آباد کی طرف سے انہیں شیڈ عطا کی گئی ۔
4۔۔26 ویں پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹالوجسٹس اور پانچویں SARAD Conference of Dermatology Lahore , Pakistan کی طرف سے شیلڈ پیش کی گئی ۔
5۔29 ویں کانفرنس آف پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولجسٹ فیصل آباد پاکستان کی طرف سے Sifran کی طرف سے شیلڈ پیش کی گئی ۔
6۔۔31 ویں کانفرنس آپ ڈرماٹالوجسٹ لاہور پاکستان کی طرف سے میں آپ کی طبی خدمات کے صلہ میں شیلڈ پیش کی گئی ۔
7۔مرکزی میلاد کمیٹی فیصل آباد کی طرف سے انہیں 2020ء میں حسن کارکردگی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی خدمت میں پیش کی جانے والی شیلڈز اور دیگر اعزازات کی تفصیل یقینا اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم حالیہ تفصیل ان کے گھر کی بیٹھک میں سجی ہوئی شیلڈز کو دیکھ کر تیار کی گئی ہے ۔
علالت اور وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو جوانی ہی سے ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کی تکلیف تھی ۔2001ء میں جب دل کی تکلیف بڑھ گئی تو انہیں سول ہسپتال فیصل آباد میں داخل ہوکر باقاعدہ علاج کرانا پڑا اور صحت یاب ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر دینی، ادبی اور سماجی خدمات میں مصروف ہوگئے ۔جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل کی تکلیف بھی بڑھتی گئی تو دل کا عارضہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ۔2011ء میں انہیں دوسری مرتبہ ہارٹ اٹیک ہوا ۔انہیں FIC میں داخل کرایا گیا یہاں کچھ دن زیر علاج رہے لیکن طبی بنیادوں پر (دل کی تین بڑی شریانوں کے بالکل بند ہونے کے باعث)کیونکہ اوپن ہارٹ سرجری ممکن نہ تھی لہذا انہیں ادویات کے استعمال پر ہی زور دیا گیا ۔باقی عمر ڈاکٹر صاحب باقاعدگی سے ادویات لیتے رہے لیکن دل کی تکلیف بہرحال موجود رہی جس کی وجہ سے ۔۔۔
@ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق بیماری درد اور بے چینی کا باعث بننے لگی ۔ان کی ریٹائرمنٹ (60 سال کی عمر پوری ہونے پر)2021کو ہونا تھی لیکن عارضہ قلب کی وجہ سے جب ان کی صحت زیادہ خراب ہو گئی اور چلنا پھرنا بھی مشکل ہونے لگا تو انہوں نے 2013ء میں طبی بنیادوں پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ۔ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر وقت گھر میں گزارتے یا شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک میں چلے جاتے۔سماجی مصروفیت بہت کم ہوگئی تھیں۔بالآخر بیماری سے مقابلہ کرتے کرتے2020ء پانچ جنوری اتوار کے روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ان کی وفات کے تیسرے دن 7 جنوری بروز منگل ان کی نماز جنازہ غلام محمد آباد فیصل آباد کے بڑے قبرستان کے مین گیٹ کے سامنے سڑک کے پار گورنمنٹ ہائی سکول گلشن کالونی گراؤنڈ میں پڑھائی گئی اور ان کی نماز جنازہ حضرت بابا پیر فضا دستگیر قادری نے پڑھائی ۔۔۔۔نماز جنازہ میں شہر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی دوسرے شہروں سے بھی ایک بڑی تعداد نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ای دینی ادبی سماجی اور طبی شخصیات کی ایک کثیر تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔اس موقع پر فنا فی النعت ، عاشق مدینہ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جدائی میں ہر آنکھ اشک بار تھی ۔
دینی ، ادبی و طبی آثار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو بچپن ہی سے نصابی کتابوں کے علاوہ غیر نصابی کتب و رسائل کے مطالعہ کا شوق تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ ذوق مطالعہ بڑھتا چلا گیا۔ انہوں نے بہت سے اخبارات اور رسائل و جرائد کے علاوہ بے شمار دینی علمی اور ادبی کتب کا مطالعہ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مطالعے کی اس دین میں خود بھی لکھنے کی تحریک پیدا کی بچپن میں ان کی ادبی زندگی کا پہلا مضمون اقبال سے ایک انٹرویو ماہنامہ “نونہال” میں شائع ہوا تھا۔عمر کے ساتھ پڑھنے اور لکھنے کا یہ سلسلہ تا دم مرگ جاری رہا ۔انہوں نے 20 سے زائد کتب اور کتابچے ادب کی جھولی میں ڈالے ۔۔ان کی نگارشات کو دین ، ادب اور سائنس (طب ) کے خانوں میں باآسانی بانٹا جا سکتا ہے ۔ سونیا باری نے اپنے ایم فل کے تحقیقی مقالے “ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری بحثییت سیرت نگار” میں ڈاکٹر صاحب کی ان پانچ کتب کا ذکر کیا ہے۔
1۔ پیکر جمال ، 2۔۔خوشبوئے قرآن 3۔۔نماز’ ہماری معراج 4۔۔ ماہ ولایت 5۔۔قندیل حرم
نیز سیرت سے متعلق درج ذیل آٹھ کتب کا تعارف و تذکرہ پیش کیا ہے ۔
1۔لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 2۔۔خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 3۔سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 4۔۔فیضان حرا 5۔۔صبح فروزاں 6۔۔تحفظ ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 7۔۔انوار ختم نبوت 8۔۔باران نور
اس طرح ان کی مطبوعہ کتب کی فہرست پانچ + آٹھ … تیرہ (13)بنتی ہے ۔اس کے علاوہ سونیا باری نے ڈاکٹر صاحب کے درج ذیل رسائل و جرائد کا ذکر بھی کیا ہے ۔
1۔سیماب میگزین انٹر میڈیکل کالجیٹ کونسل پاکستان)
2۔۔المصطفی میگزین 3۔۔سیرت رنگین میگزین 4۔۔آئینہ جلد کا ذکر بھی کیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی تصانیف کی تعداد یقیناً اس سے زیادہ ہے ۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی دینی ادبی اور طبی نگارشات کی ایک فہرست درج ذیل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔ سیرت رنگ ۔۔(سلسلہ نمبر 1)
2۔۔سیرت رنگ ( سلسلہ نمبر 2 )
3۔ نکہت مدینہ
4۔۔ماہ ولایت . (اشاعت اول )
5۔۔باران نور
6۔۔خیرالبشر (اشاعت اول) پنجابی زبان میں
7۔۔پیکر جمال (اشاعت اول)
8۔۔۔سیرت رنگ (سلسلہ نمبر 3 ) صبح سعادت
9۔۔تحفظ ناموس رسالت (اشاعت اول)
10۔۔انوار ختم نبوت
11۔محفل نعت کے آداب
12۔صبح فروزاں
13۔۔لبیک یا رسول اللہ
14۔تحفظ ناموس رسالت (اشاعت دوم)
15۔۔قندیل حرم
16۔۔پیکر جمال (دوسرا توسیع ایڈیشن)
17۔سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم
18۔۔خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم (اردو زبان میں)
19۔۔فیضان حرا
20۔۔ماہ عرب
21۔۔ماہ و لایت (دوسرا توسیع ایڈیشن )
22۔۔نماز’ ہماری معراج
23۔۔خوشبوئے قرآن
24۔۔روزہ روحانی برکات اور طبی فوائد
25۔۔جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
26۔۔میلاد خیرالوریٰ
27۔افضل اللرسل سید العالمین کی فضیلت و عظمت
28۔۔۔انعمت علیہم (بعد از اشاعت وفات مصنف )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے مستقل تصانیف و تالیفات کے علاوہ بھی مضامین نویسی کا سلسلہ جاری رکھا ۔
**وہ دینی تقاریب اور ملی تہواروں کے لئے اپنے دوستوں عزیزوں نیز کچھ مدارس کے طلبہ کو تقاریر لکھ کر دیا کرتے تھے ایسے ہی مضامین پر مشتمل ان کی کتاب بھی موجود ہے لیکن بہت سی تقاریر کا ریکارڈ محفوظ نہیں رہ سکا ۔
**مختلف موضوعات پر ان کے مضامین کالم اور مقالات مختلف اخبارات و جرائد میں مختلف اوقات میں شائع ہوتے رہے ۔ان کا تعلق سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے اور دینj کے دیگر موضوعات سے بھی یہ تب سے متعلق بھی ہیں اور سماجییات سے بھی۔۔۔ غرض یہ کہ رنگا رنگ موضوعات کا خوبصورت گلدستہ ہے جو مختلف اخبارات نیز رسائل و جرائد میں موجود ہے ۔۔
پروفیسر ڈاکٹر جعفر قمر سیالوی’ ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی شخصیت اور تصانیف کے حوالے سے رقم طراز ہیں ۔
“”ڈاکٹر عبدالشکور ساجد انصاری فیصل آباد ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ رزم ہو یا بزم’ وہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے۔
@نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
چاہے میڈیکل سائنسز میں ان کے شعبہ جلد کا میدان ہو یا دینی خدمات کا میدان وہ دونوں کے شاہ سوار تھے۔ اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی کا معاملہ ہو یا دنیاوی یا دینی تنظیمی کام ان کا مقصد ہمیشہ اللہ کی رضا کے لئے خدمت خلق اور ذوق و شوق سے ادا کرتے تھے کہ کوئی کمی نہ رہ گئی تھی ان کی تحریر کا انداز انتہائی سادہ اور زبان بہت سلیس ہے جو دور جدید کی اہم ضرورت ہے ۔۔محققانہ بحثوں اور دلائل کے انبار میں کھوئے بغیر وہ قاری کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پہنچا دیتے تھے اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے نیک کاموں کا اجر عطا فرمائے۔ آمین “”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔” (اول ایڈیشن پنجابی زبان میں )۔۔۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب دو زبانوں میں شائع ہوئی ہے۔ ایک ایڈیشن پنجابی میں اور دوسرا ایڈیشن اردو زبان میں ۔۔۔اس کتاب کا اصل اور پہلا ایڈیشن پنجابی میں ادارہ پنجابی زبان تے ثقافت لاہور کی طرف سے 2005ء میں شائع ہوا۔اس کے 287 صفحات ہیں ۔اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن پنجابی سے اردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ یہ حق پبلی کیشنز لاہور کی طرف سے شائع ہوا ۔اس کا سنہ اشاعت 2013ء ہے ۔یہ کتاب 294 صفحات پر مشتمل ہے ۔۔
پنجابی زبان کے عالمی سفیر محمد الیاس گھمن نے خیرالبشر کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب لکھنا نہایت ذمہ داری کا کام ہے اسے وہی شخص انجام دے سکتا ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے گہرا مطالعہ رکھتا ہو۔ ان کا لکھنا ہے کہ
” ادارہ پنجابی زبان تے ثقافت بڑے مان نال اک اجیہے سیرت لکھیار دی لکھی کتاب چھاپ ریہا اے جہنے دینی تعلیم حاصل کرن دے نال نویں زمانے دے نویں علماں نوں وی چنگی طراں پڑھیا اے تے جیہدے اندر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی لؤ وی لگی ہوئی ہے ۔”
پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی شخصیت اور دینی و ادبی خدمات کے سلسلے میں رقمطراز ہیں
“”ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ایک کھرے انسان ، پرخلوص دوست اور سچے عاشق رسول تھے۔عقیدے کے پکے اور فضولیات سے دور بھاگنے والے تھے۔اپنے مسلک کا کوئی بھی آدمی زندگی کی کسی بھی منزل پر مثبت کام کرتا دکھائی دیتا تو خود اس سے جا کر ملتے اور اس کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے ۔وہ چونکہ ذاتی کوششوں سے آگے بڑھے (Self made) تھے ۔لہذا جس میں بھی محنت اور مسلسل جدوجہد کی خوشبو پاتے ، اس سے جا کر ملتے اور اسے اپنا دوست بنا لیتے ۔بہت سے پیران کرام ، علماء کرام ، نعت خوانان شیریں بیان اور مشاہیر شعراءو ادباء کے ساتھ گہرے تعلقات استوار رکھتے ۔ان کے پاس کوئی شخص بھی بیماری کے سلسلے میں مشورہ یا علاج کے لئے آتا تو اسے مہمان کی طرح پیش آتے ۔ذرا سا بھی خیال ہوتا ہے کہ یہ شخص مستحق ہے تو اس سے کوئی فیس یا معاوضہ نہ لیتے ۔اپنے دوستوں اور شاعروں نین نعت خوانان سے بھی کوئی پیسہ وصول نہ کرتے ۔۔کمال کا حوصلہ رکھتے دوسروں کی بات بڑے غور سے سنتے اور دلیل سے بات کرتے ۔ان کی زندگی بے حد مصروف تھی سرکاری نوکری کے علاوہ شام کو ذاتی کلینک کے باوجود وہ دوستوں کے دکھ سکھ میں شرکت کرتے اور دینی و ادبی محافل میں شرکت کی پوری کوشش کرتے ۔۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوبی اور ان کی سب سے بڑی شناخت تھی ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں ۔اپنے گھر میں ہر برس بڑی دھوم دھام سے محفل میلاد کا انعقاد کرتے ، جس میں بڑے بڑے علماء ، نعت خوانوں اور نعت گو شعراء کو مدعو کرتے ہر برس محفل کے اختتام پر زبردست ضیافت سے محفل کے شرکاء کی خدمت کرتے۔۔محترم اصغر علی نظامی سے خصوصی دوستی تھی ۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی کار یا موٹرسائیکل اصغر علی نظامی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوتی ۔اور ڈاکٹر ساجد صاحب انہیں اٹھا کر ہر اس جگہ لے جاتے یہاں نظامی صاحب کو جانا ہوتا ۔وہ اسی طرح اپنے سب ملنے والوں کی خدمت کرتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ عمر کے آخری حصے میں جب دل کی بیماری نے طول پکڑا تو بھی ڈاکٹر صاحب کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ لبوں کی مسکراہٹ ، آنکھوں کی چمک اور آواز کی شرینی کے ساتھ لہجے کی اپنائیت ہمیشہ برقرار رہی ۔۔۔حیرت ہے کہ اس قدر مصروفیات کے باوجود انہوں نے لکھنے پڑھنے کا کام کبھی نہ چھوڑا ۔سیرت النبی پر ملنے والا صدارتی ایوارڈ صرف ان کے لئے ہی نہیں بلکہ فیصل آباد کے لیے بھی بڑے اعزاز کی بات تھی ۔لیکن وہ اپنے ان اعزازات اور عزت و شہرت کی بلندیوں پر فائز ہونے کے باوجود ریاکاری اور تکبر سے ہمیشہ بچ کر رہتے ۔یقینا وہ ایک مسرور اور مطمئن روح تھے۔وہ میرے بھی بہت قریبی دوست تھے وہ جب بھی میرے غریب خانے پر تشریف لاتے۔ ہمیشہ سچی اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ۔ وہ فیصل آباد کے اہم ادیبوں ، رفاہی و سماجی کارکنوں اور دینی و طبی شخصیات کی فہرست میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں عظیم نوازشوں سے سرفراز فرمائے آمین بجرمت النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔””
ممتاز سماجی شخصیات اور دانشور منیر احمد نورانی رقمطراز ہیں کہ
“ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری سے میرا تعارف سب سے پہلے صاحبزادہ مولانا عطاء المصطفی نوری نے کروایا تھا ۔اس تعارف کے بعد میرا ان کے ساتھ تعلق ہمیشہ برقرار رہا ۔ان کی خدمات کے پیش نظر میں نے انہیں مرکزی میلاد کمیٹی کے ایگزیکٹو ممبر کا چیئرمین مقرر کردیا ۔(محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد کے صاحبزادے مولانا فضل احمد نے 1988ء میں میلاد کمیٹی قائم کی تھی) ۔۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی شمولیت کے بعد میلاد کمیٹی کو گویا چار چاند لگ گئے ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری نے میلاد جلوس کے حوالے سے دی جانے والی شیلڈز کے علاوہ دوسری طرف بھی توجہ دلائی ۔ہم بڑے بڑے ہوٹلوں اور بڑے بڑے ہالز میں ختم نبوت کانفرنس اور نعتیہ مشاعرے کرانے لگے ۔ڈاکٹر ساجد صاحب نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ کانفرنس ، سیمینار اور مشاعرہ کا جو بھی سلسلہ ایک بار شروع کیا جائے اس پر پھر ناغہ نہیں ہونا چاہیے خواہ پروگرام ایک کمرے ہی میں کیوں نہ ہو لیکن سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی حیثیت میرے لیے گھنی ٹھنڈی چھاؤں والے درخت جیسی تھی ۔میرے ساتھ ان کی رفاقت اس درجہ کی تھی کہ ان کے بعد اب میں خود کو ٹوٹا ہوا محسوس کرتا ہوں ۔میں ان کی محبتیں ، شفقتیں اور رفاقتیں کبھی نہیں بھلا سکتا ۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ میں انہیں یاد نہ کروں ۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔وہ اہلسنت کا بہترین اثاثہ تھے۔”
ڈاکٹر خالد شہزاد (صدر المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی فیصل آباد) ممتاز سیرت نگار اور انتھک سماجی شخصیت ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ
” المصطفی ویلفیئر سوسائٹی رجسٹرڈ فیصل آباد کے سرپرست اعلی ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کا شمار فیصل آباد کی چند گنے چنے صاحب علم و عمل افراد میں ہوتا ہے جن کی ساری زندگی دین متین اور انسانیت کی خدمت میں گزری۔المصطفی ویلفیئر سوسائٹی فیصل آباد کا قیام 1988ء میں عمل میں لایا گیا ۔الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب (بانی اے ٹی آئی) اور المصطفی ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کی خصوصی توجہ سے فیصل آباد میں صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری ، میاں محمد شریف قادری ،میاں صابر مرتضائی ، ڈاکٹر غلام قادر فیاض اور ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری جیسے عظیم لوگوں نے فیصل آباد میں اس سوسائٹی کی بنیاد رکھی ۔اول الذکر دونوں محسنوں کی وفات کے بعد متفقہ طور پر ڈاکٹر عبدالشکور ساجد صاحب کو سوسائٹی کا سرپرست اعلی بنایا گیا جو تا دم مرگ اس کے سرپرست رہے ۔آپ کے ساتھ آخرالذکر ساتھیوں کے علاوہ مجھ ڈاکٹر خالد شہزاد سمیت ڈاکٹر سعید طاہر ،
عمران مصطفٰائی ،رفیق لودھی ، تنویر ساہی اور دیگر ساتھیوں نے ہمیشہ تعاون کیا اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہا ۔آپ کی سرپرستی میں سوسائٹی کا دوسرا دور عروج شروع ہوا، جس میں غریب گھرانوں کو ماہانہ راشن فراہم کرنے کے علاوہ المصطفی لیبر سکول ، المصطفی قرآن اکیڈمی سول لائن اور مدینہ ٹاؤن ، المصطفی رمضان المبارک افطاری دسترخوان اور مدارس کے علاوہ فری میڈیکل کیمپس کے منصوبے اہم ہیں ۔جو صرف فیصل آباد ہی میں نہیں بلکہ جھنگ ،چنیوٹ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں بھی لگائے جاتے ہیں ، جن میں نہ صرف آنکھوں کے فری آپریشن کیے جاتے ہیں بلکہ ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔دس سے زائد میڈیکل کیمپس میں اب تک گیارہ سو سے زائد آنکھوں کے آپریشن ہو چکے ہیں۔المصطفی کمپلیکس مانانوالا کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ جڑانوالہ میں کمپلیکس کی تعمیر جاری ہے۔علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کے کئی سماجی خدمات کے کام جیسے خواتین کے لئے سلائی سینٹرز، اجتماعی شادیاں ، یتیموں کی کفالت کے کام جاری و ساری ہیں ۔غربت کی وجہ سے کام کرنے والے 150 بچوں کو اسکول میں نہ صرف مفت تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان کو وظیفے بھی دیئے جاتے ہیں۔ان تمام منصوبوں کے لیے ڈاکٹر صاحب نہ صرف خود خرچ کرتے تھے بلکہ دوست احباب سے بھی تعاون لے کر دیتے تھے ۔ڈاکٹر صاحب ذاتی طور پر بھی کئی بیوہ خواتین کی کفالت کرتے تھے ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد صاحب اپنی ذات میں مکمل انجمن تھے ۔ہم ایک اہم سیرت نگار ، محقق معالج ،سماجی کارکن اور سب سے بڑھ کر ایک مخلص عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عظیم انسان دوست سے محروم ہوگئے ہیں ۔انہوں نے عشاق مصطفائی کو مصطفائی برادری بنا دیا تھا۔””
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری اپنے حلقہ احباب ،دوستوں اور اپنے مریضوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھرپور سلوک کرتے۔۔ علمی ،ادبی ،تہذیبی ،ثقافتی ، طبی اور سماجی اقدار و روایات کی سر بلندی اور انسانیت کی عظمت کو اُنھوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا۔اُن کے مداحوں میں صاحبزادہ سید ہدایت رسول شاہ ، پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان ، الیاس گھمن ، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ، صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری ، منیر احمد نورانی ،ڈاکٹر شبیر احمد قادری ، پروفیسر عطاءالمصطفی ، اصغر نظامی ، حاجی محمد یاسین مدنی ، دلشاد احمد چن ، اقبال زخمی ، پروفیسر ریاض احمد قادری ، خان منیر احمد خاور ، ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ، زاہد سرفراز زاہد ، احمد شہباز خاور ، ڈاکٹر محمد اعظم بخاری ، ڈاکٹر محمد عارف مان ، ڈاکٹر حبیب اللہ بٹر ، ڈاکٹر زاہد رشید ، شیخ طالب حسین ، ڈاکٹر عامر شہزاد ، محمد رفیق چشتی ، پروفیسر جعفر قمر سیالوی ، سید محمد مسرت حسین شاہ ،ناصر نقشبندی ،ڈاکٹر تبسم صبا ،حافظ اطہر سید ، محمد شبیر انصاری ،حکیم محمد رمضان اطہر ، ڈاکٹر افضال احمد انور ، فقیر مصطفی امیر ، میاں منیر حسین منیر،سید بلال احمد بخاری ،ڈاکٹر ضیاء الحق (جدہ سعودی عرب)،ماسٹر محمد مقبول رحمانی ،حافظ اطہر سید ڈاکٹر سعید طاہر ،رفیق لودھی ، تنویر ساہی ،عمران مصطفٰائی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی یاد میں آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی ہیں۔ایسے یادگارِ زمانہ لوگ اب دنیا میں کبھی نہ آئیں گے ۔مرزا محمد رفیع سودا کے شاگرد فتح علی شیدا نے کہا تھا :
وے صورتیں الٰہی ،کِس مُلک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جِن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے تند و تیز بگولوں نے ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔ایک ایسی شمع بجھ گئی جو مسلسل پانچ عشروں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دے رہی تھی ۔حریت فکرکا ایک ایسا مجاہد رخصت ہو گیاجس نے زہر ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا ۔ سماجی اور دینی حلقوں کے علاوہ علم و ادب کا ایک دبستان ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ۔ ایک بے لوث خدمت گارہمیں دائمی مفارقت دے گیا ۔وہ دانش ور آج ہم میں موجود نہیں جس نے پوری دنیا میں تاریخ اسلام اور اردو ادب کو ایک بلند مقام عطا کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیں ۔ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری کبھی مر نہیں سکتے ۔وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان کا ابد آشنا اسلوب اور لائق صد رشک و تحسین سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تحقیقی اور رفاہی کام ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کر چکا ہے ۔ان کی یاد ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی۔ عقیدت سے لبریز آنکھیں اور خلوص سے معمور دل ان کے لیے ہمیشہ سراپا سپاس رہیں گے ۔ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہے ۔
پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز
تیری آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...