ہمیں معلوم نہیں کہ کھاتے رکھنے کی ایجاد کرنے والا کون تھا۔ لیکن یہ فن عرب سے وینس پہنچا تھا۔ وینس نے رومن ہندسوں کا نظام ترک کر کے عرب ہندسوں کو اپنایا تھا۔ اسی طرح کھاتے رکھنے کا نظام بھی۔ اور ڈبل انٹری سسٹم کی ایجاد اسی سے ہوئی۔
ڈبل انٹری سسٹم ایک پیچیدہ اور نفیس طریقہ ہے۔ اس کے شروع ہونے سے پہلے کھاتے رکھنا سادہ کام تھا۔ قرونِ وسطیٰ کے عام تاجر کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا بٹوہ بھرا ہے یا خالی؟ اس کو چیک کر لینا کافی تھا۔ فیوڈل نظام میں کھاتوں کی ضرورت تھی لیکن اس کے لئے زیادہ پیچیدہ سسٹم کی ضرورت نہیں تھی۔ کسی کو جاگیر کے کسی حصے کا انتظام دے دیا جاتا۔ سب کیسا چل رہا ہے؟ خرچہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کام زبانی کلامی چلتا تھا۔ زبانی گواہان اس کے لئے کافی تھی۔ ان گواہان کو Auditor کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا اصل مطلب “سننے والا” کے ہیں۔ انگریزی زبان کا یہ لفظ ہمیں پرانی زبانی روایت کا بتاتا ہے۔ چین میں تحریری اکاونٹ کا سسٹم موجود تھا لیکن چینیوں کی مہارت تجارت نہیں، بیوروکریسی تھی۔ لین دین، ادھار، ادائیگیاں ۔۔۔ جب تک آپ کو ان مسائل سے واسطہ نہیں پڑتا، اکاوٗنٹننگ کا فائدہ نہیں۔ اس وجہ سے یہ تجارت والے کلچرز کی ایجاد ہے۔
اطالوی شہری ریاستوں کی کمرشل انٹرپرائز کے عروج نے قرضے، کرنسی کی تجارت جیسی جدتوں کو جنم دیا اور ساتھ ساتھ ان کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت کو بھی۔ اور اس میں ہمارے پاس فلورنس کے قریب رہنے والے تاجر ڈاٹینی کا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ ابتدائی طور پر فائننشل ڈائری تھی لیکن جس طرح کاروبار بڑھتا گیا، انہیں بہتر کی ضرورت تھی۔
مثال کے طور پر: 1394 میں ڈاٹینی نے ہسپانیہ کے ساحل کے قریب ماجورکا سے اون کا آرڈر دیا۔ اس سے چھ ماہ بعد بھیڑوں سے اون اتاری گئی۔ اس سے کچھ ماہ بعد اون کے انتیس تھیلے بارسلونا سے ہوتے ہوئے پیسا پہنچے۔ اس کو انتالیس گانٹھوں میں پیک کیا گیا۔ ان میں سے اکیس کو فلورنس کے کسی گاہک کو بھجوایا گیا۔ اٹھارہ کو ذخیرہ کرنے وئیر ہاوس میں۔ یہ کئے گئے آرڈر سے ایک سال سے زیادہ عرصے بعد ڈاٹینی کے وئیر ہاوس پہنچیں۔ یہاں پر ان کی دھنائی ہوئی، کنگھی ہوئی، دبایا گیا، گھمایا گیا، رنگا گیا اور تہیں بنیں۔ ان میں سو سے زیادہ مزدوروں نے کام کیا۔ اس سے بننے والے اونی کپڑے کے چھ تھان وینس کے راستے واپس ماجورکا بھجوا دئے گئے۔ ان کی فروخت وہں پر نہیں ہوئی تو انہیں آگے ویلینسیا اور افریقہ بھیج دیا گیا۔ ان میں سے آخری فروخت 1398 کو ہوئی۔ اس وقت تک ڈاٹینی کے آرڈر کو تقریباً چار سال گزر چکے تھے۔
یہ وہ وجہ تھی کہ ڈاٹینی کو اپنے سامان، اثاثوں اور واجبات کا اچھا ریکارڈ چاہیے تھا۔ اور اس سب میں ڈاٹینی خود نہیں الجھ گئے تھے۔ کیونکہ اس سے دس سال پہلے انہوں نے کھاتے رکھنے کا یہ نظام اپنا لیا تھا۔ اس کو آلا وینیزیانا کہا جاتا تھا۔
ڈبل انٹری اکاونٹننگ کا بانی لوکا پاچیولی کو کہا جاتا ہے۔ لیکن وہ ڈاٹینی کے سو سال بعد آئے تھے۔ ان کے کام کی اہمیت کیا ہے؟ انہوں نے 1494 میں کتاب لکھی تھی۔ 615 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈبل انٹری بک کیپنگ کی صاف الفاظ میں وضاحت کرنے والی کتاب تھی جس میں اس سسٹم کو بہت سے مثالوں کے ساتھ سمجھایا گیا تھا۔ یہ جیومیٹری اور ریاضی کے ساتھ ساتھ ایک عملی گائیڈ بھی تھی۔ پاچیولی نے لکھا تھا، “اگر آپ اچھا حساب کتاب نہیں رکھ سکتے تو نابینا کی طرح راستہ ٹٹولتے رہیں گے اور بڑا نقصان اٹھائیں گے”۔
پاچیولی کی کتاب اتنی مشہور کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ یہ ایک نئی ٹیکنالوجی پر سواری کر سکتی تھی۔ یہ پرنٹننگ پریس تھا۔ اس کی دو ہزار کاپیاں شائع ہوئیں، ترجمہ ہوئیں اور یورپ بھر میں پھیل گئیں۔
اس کو رفتہ رفتہ اپنایا گیا۔ اس میں تربیت لینی پڑتی تھی تھی اور سادہ بزنس کے لئے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جس طرح صنعتی انقلاب آیا تو یہی والا آئیڈیا تھا جس نے اس کی کامیابی کو ممکن بنایا۔ صنعتوں کے ساتھ ساتھ یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔
لیکن یہ سسٹم تھا کیا؟ ایک ریکارڈ سامان کی فہرست کا تھا۔ اور دو کتابوں میں روزانہ کی ٹرانزیکشن رکھتی تھیں۔ اور سب سے بنیادی تیسری کتاب تھی جو ledger تھا۔ ہر ٹرانزیکشن کو دو بار ریکارڈ ہونا تھا۔ مثلاً، اگر کپڑے کو ایک سو روپے کے عوض بیچا ہے تو اس میں ایک اندراج کپڑے کے جانے کا ہو گا اور دوسرا اندراج روپے کے آنے کا۔ اس وجہ سے اس کو ڈبل انٹری سسٹم کہتے ہیں۔ ہر انٹری کو بیلنس کیا جانا ہے۔ اور اس سے کسی غلطی کو پکرنا بہت آسان ہے۔ یہ توازن، یہ سمٹری، کسی بھی ریاضی دان کے لئے بڑی پرکشش ہوتی اور اس سمٹری نے پیچیدہ کھاتے رکھنے کے مسئلے کا حل کر دیا۔
صنعتی انقلاب میں ڈبل انٹری بک کیپنگ نہ صرف ریاضی دانوں کے لئے تھی بلکہ یہ عملی کاروباری فیصلوں کی راہنما تھی۔ اس کی مثال برتن بنانے والے ویج وّڈ تھے۔ شروع میں انہوں نے اپنے بھاری منافع کے وجہ سے تفصیلی کھاتوں کے اندراج کی زیادہ پرواہ نہیں کی۔ لیکن 1772 میں یورپ شدید کسادبازاری کا شکار تھا۔ ویج وڈ کی مہنگی کراکری کی فروخت بند ہو گئی۔ ان کے مزدور بے کار ہو گئے۔ سامان سٹور میں بڑھنے لگا۔ اب کیا کریں؟
ویج وڈ نے اس کے لئے ڈبل انٹری بک کیپنگ سے مدد حاصل کی تا کہ سمجھ سکیں کہ کاروبار کا کونسا حصہ منافع بخش ہے اور کیسے اس کو استعمال کیا جائے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک برتن بنانے کی قیمت کتنی ہے اور یہ بھی کہ اگر زیادہ بنائے جائیں تو فی برتن لاگت کم ہو جائے گی۔ اس سے انہیں اس کی قیمت کم رکھ کر زیادہ گاہکوں کو بیچا جا سکتا ہے۔ ویج وڈ کا کھاتوں کی مدد سے کاروباری فیصلوں کا طریقہ خود میں نئی جدت تھی جس کو دوسروں نے اپنا اور اس نے ایک اور نئے ڈسپلن کو جنم دیا جو مینجمنٹ اکاونٹنگ تھی۔ اعداد و شمار، بنچ مارک، ٹارگٹ ۔۔ وہ جو ہمیں جدید دنیا تک لے کر آئے۔
اس جدید دنیا میں اکاونٹننگ ایک اور کردار ادار کرتی ہے۔ یہ اس چیز کو یقینی بنانے کا اوزار ہے کہ کسی بزنس کے حصہ داروں کو منصفانہ شئیر مل رہا ہے کہ نہیں۔ اور یہاں پر اس کا ٹریک ریکارڈ ابھی تک غلطیوں سے صاف نہیں۔ اکیسویں صدی کے بڑے کاروباری سکینڈل، فراڈ، غلط مینجمنٹ یہ بتاتے ہیں کہ اکاونٹس ہمیشہ شفافیت کی گارنٹی نہیں۔
اکاونٹننگ فراڈ نیا کھیل نہیں۔ سب سے پہلے بڑی سرمایہ کاری اکٹھی کرنے والے ادارے ریلوے کے تھے۔ لمبے ٹریک بچھانے کے لئے بہت سی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد ہی کسی بھی طرح کی کمائی کی جا سکتی تھی۔ یہ سرمایہ کاری چند امیر لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ بہت سے لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کیا گیا۔ اس نے “ریلوے کے پاگل پن” کی دہائیوں کو جنم دیا جس میں یورپ میں ہر کوئی ریلوے میں دھڑادھڑ سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ اس بلبلے کے پھٹنے نے بہت سے 1850 میں بہت سے لوگوں کو دیوالیہ کر دیا۔ ریلوے انفراسٹرکچر تعمیر ہو گیا۔ بہت سے لوگ مفلس ہو گئے۔
اکاونٹننگ بہت طاقتور ٹیکنالوجی ہے۔ جدید فائننشل دنیا اسی کے سہارے کھڑی ہے۔ ٹیکس کا نظام، قرض، سٹاک مارکیٹ، جدید کاروباری انتظام، بجٹ، مالیاتی سسٹم، لین دین۔ کھاتے رکھنے میں سمٹری اور توازن کی ایجاد نے ممکن بنائے ہیں۔ اگرچہ اس کے ہونے کے باجود بھی مالیاتی بدنظمی، کرپشن، فراڈ ختم نہیں ہوئے لیکن اصل بات یہ ہے کہ پیچیدہ ہوتے نظاموں کے ساتھ ایسی بے ضابطیاں پکڑ لینا بھی ممکن نہ ہوتا۔
ٹیکنالوجی اور ایجادات ہمیشہ اشیا کی نہیں ہوتیں۔ طاقتور ترین ایجادات تصورات کی ہیں۔ ڈبل انٹری اکاونٹننگ ایسا ہی ایجاد کردہ تصور ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...