پاکستان سے ایک ڈاکٹر لڑکی نے مجھے پچھلے ہفتہ دوستی پر لکھنے کی گزارش کی ۔ کچھ اور موضوعات کی ترجیح کی وجہ سے دیر سے اس بچی کی خواہش پوری کر رہا ہوں ۔ یقیناً یہ بھی بہت ہی اہم اور دلچسپ موضوع ہے اور صدیوں سے انسانوں کو ستاتا رہا ہے ۔
اصل میں دوستی صرف روح کی ہوتی ہے جسے unrequited love بھی کہا جاتا ہے اور جو مادھو اور لعل حسین کی بھی تھی ۔ ان روحانی دوستیوں پر ہی شاہ لطیف کا شاہ جو رسالہ ہے اور دنبورہ پر سارے شاہ جو رسالہ کے راگ انہیں روحانی دوستیوں پر ہیں جو آج بھی شاہ لطیف کے مزار پر فقیر ادا کر رہے ہیں ، ضرور جائیے گا ضرور سنیے گا ۔
اس کے علاوہ ساری کی ساری دوستیاں دنیا داری کی دوستیاں ہیں جو اصل میں دشمنیاں ہوتی ہیں ۔ اور ان کے کئ رنگ اور مختلف ڈھنگ ۔ مطلب ہو تو دوست ، پورا ہوجائے تو دشمن ۔ ان پر مجھے جانے کی تفصیل میں زیادہ اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ آپ ہر روز اس طرح کی ہزاروں دوستیاں دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کا انجام بُگھت بھی رہے ہیں ۔
میری الحمد للّٰہ ساری دوستیاں روحانی ہی رہی ہیں سوائے میرے والدین سے ۔ والدہ سے ضرور روحانی دوستی تھی والد محترم سے دنیا داری والی ۔ میرے اس دنیا میں صرف دو تین دوست ہیں اور ان کے ساتھ بھی میری صرف اور صرف روحانی دوستی ہے ۔ روحانی دوستیوں میں یہ فائیدہ ہے کہ یہ لافانی ہوتی ہیں ۔ میری کچھ ایسی روحانی دوستیاں بھی ہیں جو جسمانی طور پر اس دنیا سے رخصت ہو چُکے ہیں۔ چند درختوں سے ، جانوروں سے اور ریگستان کے اونٹوں سے بھی میری بہت دوستی ہے ۔ سمندر کی لہروں سے ، تیز ہوا کے جھونکوں سے اور برف باری سے ۔ بارش میں کپڑے اتار کر نہاتا ہوں ، اور چاندنی راتوں میں قمیض اتار کر چاندنی کی انرجی سے لُطف انداز ہوتا ہوں ۔ دراصل یہ ساری انرجی کی دوستیاں ہیں جو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہیں ۔ میری ماں کو انتقال ہوئے ۱۲ برس بیت گئے لیکن روحانی ملاقات روز ہو جاتی ہے، اس کی روح سے میری شدید دوستی ہے ۔ بہت منور روح ۔
آج سے کچھ سال پہلے ایک امریکی لکھاری اور نامور فلم پروڈیوسر گارتھ اسٹین نے ایک ناول
The Art of Racing in the Rain
کے نام سے لکھا ۔ یہ ناول اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ اس کو مزہبی اور روحانی طبقوں میں بھی شدید پزیرائ ملی ۔ کچھ نے بہت تنقید کی ، خاص طور پر ہندوؤں نے جن کے نزدیک ان کے reincarnation کہ بیانیہ پر کو اسٹین نے بہت توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ہندو پنڈت کی دوکانداری متاثر ہوئ ۔ بڑی مشکل سے اسٹین نے اسے فکشن ناول کہ کر جان چُھڑوائ ۔ اس ناول میں اسٹین کتے کی روح سے دوستی کا بیانیہ ہیش کرتا ہے اور مرکزی کردار کو اس سے ہی ہم کلام رکھتا ہے ۔ مزید اس کتے کی روح کی انرجی کی سابقہ زندگیوں کے تجربات کا تزکرہ ۔ Enzo نامی کتا ایک ریسنگ ڈرائیور ڈینی سوفٹ کا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ کل کے بلاگ میں سینا ایک ریسنگ ڈرائیور کا میں نے لکھا تھا جو ۳۴ سال کی عمر میں کار کریش میں انتقال کر گیا لیکن اس کے قول ایک بہت بڑے روحانی شخص کے قول سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ ریسنگ ڈرائیور بھی دراصل ریس اور اسپیڈ کے نشہ میں ٹائم اور اسپیس سے باہر نکل کر altered consciousness میں چلے جاتے ہیں ۔ اسی ستمبر میں اسی ناول پر یہاں امریکہ میں ہی فلم بھی ریلیز ہو رہی ہے ، دیکھنا نہ بھولیے ، بلکہ ہو سکے تو یہ ناول بھی ضرور پڑھیں اور جانیے کس طرح روحوں کے جسموں میں سابقہ تجربات حال کی زندگیوں کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ کائنات کے لافانی رقص کی نشاندہی اور شہادت دیتے ہیں ۔
دوستیاں صرف اور صرف روحانی ہی ہونی چاہییں چاہے کتے یا بلے کے ساتھ ہو ۔ میں جب سِمبا کو pet کلینک پر لے کہ جاتا ہوں ، چند خواتین اپنے پالتو جانوروں کے بارے میں ڈاکٹر کو اتنی زیادہ تشویش بتاتی ہیں کہ رو رو کر کہتی ہیں اسے کچھ ہو گیا تو وہ بھی مر جائیں گیں ۔ دراصل روحوں کی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی ، لافانی ہے ۔ سوچ ، خیال اور محبت اس انرجی کو کہیں سے بھی پکڑ سکتی ہے اور نہ صرف ہم کلام ہو سکتی ہے بلکہ اس کا حصہ بن سکتی ہے ۔
میں روحوں کا نہ معالج ہوں نہ ماہر ، صرف اتنا جانتا ہوں کے اس انرجی فیلڈ میں جانے کے لیے چار چیزوں سے پرہیز لازمی ہے ۔ مقابلہ ، حسد ، غصہ اور نفرت ۔ روحیں صرف دو چیزوں کی محتاج ہوتی ہیں محبت اور شلرگزاری کی ۔ روحیں ہی صرف کائنات کے رقص کا حصہ ہیں جسم تو ایک dense اور opaque ہستی ہے جو fog کی طرح روح کی روشنی کو مدھم کر دیتی ہے ۔ اوپر سے مقابلہ ، نفرت اور حسد تو روح کو جیتے جی جسم سے پرواز کروا دیتے ہیں ۔ ہمارے پاکستان کے تمام حکمران ماشاء اللہ بغیر روح کے جسم ہیں۔ یہ سارے اس کوٹ کی مانند ہیں جسے اس کا مالک ہوٹل میں اس لیے چھوڑ جاتا ہے کہ ہوٹل کا کرایہ نہ دینا پڑے ۔ اس سے زیادہ میں مزید کچھ نہیں بیان کر سکتا ۔
میں آپ سب کا روحانی طور پر نیو جرسی ، امریکہ میں منتظر رہوں گا ۔ آپ جہاں بھی ہیں صرف آنکھیں بند کریں ، اور altered consciousness میں جا کر میرے پہلو میں آ کر بیٹھ جائیں ۔ اور پھر “جانیں کی ضد نہ کریں “۔ میں تو جہاں بیٹھ گیا سو بیٹھ گیا ، بقول داغ دہلوی ؛
“اور ہوں گے تیری محفل سے ابھرنے والے
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے “
آپ سب کو بہت محبت بھرا پیار ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...