سکول اور کالج ہو یا کوئی اور محفل، انسان تعلق بنانے کے لئے اپنی جیسی خاصیت رکھنے والوں کی ترجیح دیتا ہے۔ اپنے ملک سے باہر جا کر بھی اپنے ہم وطن اور اپنے 'گرائیں' کی تلاش رہتی ہے۔ اپنے جیسی خاصیتوں میں اپنے ملک کے علاوہ عمر، رنگ، نسل، مذہب، پیشہ، ذات، آمدنی کا لیول وغیرہ جیسے فیکٹرز ہیں۔
یہ غیرشعوری ہے۔۔ کبھی کہیں بڑی مجلس میں اجنبی اکٹھے ہوں تو جلد ہی اس میں بھی اسی طرح کے گروپ بن جائیں گے۔ اسکی وجہ ہے۔ اپنے جیسے لوگوں میں باتوں کے اپنے ٹاپک اور اپنے جیسے خیالات مل جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے والدین آپس میں بچوں کی بات کر سکتے ہیں۔ ایک جیسے پسِ منظر والے اپنے رسم و رواج پر بات کی جا سکتی ہے۔ اپنے ہم پیشہ افراد سے اپنے پیشے کے متعلق تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔
اس عام سی لگنے والی بات کی سائنسی اصطلاح ہوموفِلی ہے۔ اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے اور اس سے ہونے والے نتائج کی پیشگوئی بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ سوشل سائنس کا ایک بہت ہی بنیادی تصور ہے۔
ایک ہائی سکول کے ہر طالب علم سے پوچھا گیا کہ ان کے دوست کون ہیں۔۔ اس سے جو نتیجہ نکلا، وہ ساتھ لگے گراف میں۔ ایک نقطہ ایک طالب علم ہے، مختلف نسلوں کے لئے مختلف رنگ ہیں اور لکیریں ان کی دوستیاں ہیں۔ یہاں پر واضح ہے کہ ان کی دوستیاں اپنے جیسوں میں ہی زیادہ ہیں جبکہ دوسروں کے ساتھ ملانے والی لکیریں کم ہیں۔ سبز رنگ اور پیلے رنگ یہاں پر الگ الگ نمایاں ہیں۔ گلابی رنگ کے نقطوں کی کہانی دلچسپ ہے لیکن اس پر ابھی آخر میں۔
دنیا میں کئی مسائل کو سمجھنے کے لئے ہوموفلی کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر یہ سمجھنا ہو کہ لوگ جرائم پیشہ گروہ کیوں جوائن کرتے ہیں۔ پرتشدد تنظیموں یا دہشت گرد گروپس میں کیوں جاتے ہیں۔ نوجوان کم عمری میں نفرتوں کی بھینٹ کیوں چڑھ جاتے ہیں تو وجہ ان کی سوشل کنکشن ہیں۔ عام تاثر ہے کے برعکس یہ کم عقل یا کم تعلیم رکھنے والے نہیں، بہت ذہین اور قابل لوگ بھی اسی ڈگر چل پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ اپنے سوشل نیٹ ورک کے خیالات سے لیا گیا اثر ہے۔
اس کی اہمیت کیا ہے؟ ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو منطقی اور سوچ رکھنے والا سمجھتا ہیں اور اس کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ ہم بھی باقی سب جیسے ہی ہیں۔ اپنے سوشل نیٹ ورک کی سوچ سے مختلف سوچ رکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو دنیا میں پاگل، خبطی، عقل سے پیدل، انتہاپسند، جھوٹے، چالباز لوگ نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی ایک فہرست بنائیں اور کاغذ پر لکھ لیں۔ اب ان کا تجزیہ کریں۔ یہ تمام لوگ، قومیں اور گروہ وہ ہوں گے جن کی شناخت آپ سے مختلف ہے۔ فرق ملک کے، فرق مذہب کے، فرق سیاسی وابستگی والے، فرق سوچ رکھنے والے۔ اور جب ان دوسرے گروہوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں تو اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں بچتا کہ ہم ان کو سمجھ بھی سکیں۔
ہوموفِلی کی ایک اور خطرناک تاریک سائڈ سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔ ہم اپنے ہم خیالوں میں رہنا پسند کرتے ہیں تو اپنے جیسوں کے ساتھ روابط بناتے ہیں۔ یہ ہماری اپنی کو شناخت مضبوط تر کرنتا ہے لیکن یہ مضبوطی کی قیمت مختلف شناخت رکھنے والوں کو کمتر انسان سمجھنے سے چکائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا سے اجتماعی طور پر تنگ نظری کا فروغ کیسے ہو رہا ہے؟ اس پر آرٹیکل نیچے دئے گئے لنک میں۔
اب واپس ڈایاگرام پر۔ یہاں پر مختلف رنگوں کی آپس میں لکیروں کی تعداد کم ہے یعنی کم لوگ اپنے گروپ کے باہر دوستیاں بنا سکتے ہیں۔ سوشل سائنس میں ان کو کنکٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ قیمتی لوگ ہیں جو اپنے سے فرق لوگوں سے مل جل کر کام کر سکتے ہیں اور اس بڑے نیٹ ورک کی مضبوطی ان لوگوں سے ان کی بنائی گئی لکیروں سے ہے۔
گلابی رنگ کے نقطے وہ ہیں جو یہاں پر چھوٹی نسلی اقلیت ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام نیٹ ورک میں بکھرے نظر آ رہے ہیں۔ چھوٹی اقلیت کو اپنی کم تعداد کی وجہ سے آپسی تعلقات کے ساتھ دوسروں سے تعلقات رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے یہ ہر طرف بکھرے یہں۔ اس چھوٹی اقلیت کا اس نیٹ ورک کو مضبوط رکھنے میں کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی مثال ہمیں سوشل نیٹ ورک انیلیسز کے علاوہ تاریخ سے بھی ملتی ہے۔ جب کسی نیٹ ورک سے چھوٹی اقلیت کو الگ کر دیا جائے تو بڑا نیٹ ورک خود ہی سب سے زیادہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ اگر سب کے ساتھ رہیں تو یہی اس پورے نیٹ ورک کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔
ہوموفِلی صرف انسانوں میں نہیں جانوروں میں بھی اسی طرح نظر آتی ہے۔ بائیولوجی میں اس کا ٹاپک اسورٹیٹو میٹنگ ہے جس پر تفصیل نیچے دئے گئے لنک میں۔
سوشل نیٹ ورک انیلیسز پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Social_network_analysis
ہوموفِلی
https://en.wikipedia.org/wiki/Homophily
سوشل میڈیا ہمیں تنگ نظر کیسے بنا رہا ہے۔
https://www.telegraph.co.uk/…/Facebook-makes-us-more-narrow…
جانوروں میں اس پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Assortative_mating
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔