افریقہ میں بھورے رنگ کا پرندہ آکس پیکر پایا جاتا ہے جو زرافے، بھینسے، بارہ سنگھے یا دوسرے جانوروں پر بیٹھا ملے گا۔ ان کی تصویر دیکھ کر قدرت پر رشک آئے گا کہ کس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ ان جانوروں سے جوئیں اور دوسرے طفیلی کیڑوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں۔کیا یہ دوست پرندے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ موقع پر منحصر ہے۔ اگر یہ جانور زخمی ہو جائے تو یہ ان کی زخم پرٹھونگیں مارتے ہیں۔ اس کو خراب کر دیتے ہیں۔ ان کو خون پسند ہے۔
جنوبی امریکہ میں اکیشیا کے درخت جڑی بوٹیوں، کیڑوں اور نقصان پہنچانے والے جانوروں سے حفاظت کے لئے چیونٹیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں اپنے ان باڈی گارڈز کو میٹھا سنیک اور رہنے کیلئے کھوکھلی جگہ دیتے ہیں۔ دوستی؟ یہ درخت اپنی شوگر میں ایک انزائم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے چیونٹیاں کسی اور طرح کی شوگر ہضم کرنے کے قابل ہی نہیں رہتیں۔ اس درخت کی غلام بن جاتی ہیں۔
ہیلیکوبیکٹر پائلوری، معدے میں رہنے والا بیکٹیریا، السر اور معدے کے کینسر کا سبب بن سکتا ہے، کھانے کی نالی کے کینسر سے بچاتا ہے۔
مائیٹوکونڈریا، ہمارے خلیوں میں توانائی کی فیکٹریاں۔ دو ارب سال پہلے سدھائے گئے بیکٹیریا ہیں۔ اگر چوٹ لگ جائے جس سے خلیے کو ضرر پہنچے اور یہ آزاد ہو کر خون میں شامل ہو جائیں تو ان قدیم بیکٹیریا کو دفاعی نظام تاڑ کر حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہ سمجھ کر کہ حملہ ہو گیا۔ اگر چوٹ زیادہ ہے اور زیادہ مائیٹوکونڈریا خون میں شامل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے خطرناک کنڈیشن سسٹمیٹک انفلیمیشنری ریسپانس سنڈروم ہو جاتا ہے۔
جس طرح غلط جگہ پر اگنے والا پھول ضرررساں بوٹی ہے، ویسے ہی جانداروں کا آپس میں رشتہ ہے۔ کئی بار سائنسدان بھی سمبیوسس یا اکٹھے رہنے کے رشتے کو دوستی سمجھ لیتے ہیں۔ یہ مشکل پارٹنرشپ ہیں، اچھے یا برے، مفید یا مضر، دوست یا دشمن، ہیرو یا ولن جیسے تصورات بس بچوں کی کہانیوں تک ہیں۔ کانٹیکسٹ سے بھری اصل دنیا ایسی نہیں۔ پارٹنر شپ مفت نہیں آتی۔ اپنے فائدے کا باہم تعلق ہمیشہ ٹینشن لے کر آتا ہے۔ رشتہ متوازن کرنا پڑتا ہے۔ باہمی تعاون نصاب کی کتابوں یا وائلڈ لائف ڈاکومنٹریز کی طرح خوبصورت نہیں۔
ہمارے جسم میں بیکٹیریا ہر وقت ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اگر کبھی ہمارا دفاعی نظام بند ہو جائے تو یہی بے ضرر لگنے والے جاندار ہمیں مار دیں گے۔ اگر ہم مر جائیں تو ہمیں کھا لیں گے۔
بائیولوجسٹ فارسٹ روہرر کے مطابق، “ان کو پرواہ نہیں۔ یہ تعلق محبت کا نہیں۔ بائیولوجی کا ہے۔” قدرتی دنیا بچوں کی کہانیوں کی طرح یا دل گرما دینے والی فلموں کی طرح نہیں۔ بس ایسے ہی ہے۔