میں ٹاک شوز سے بیزار ہوگیا تھا!
رات دن کے کسی حصے میں کوئی چینل بھی لگاتا تو ایک ہی منظر ہوتا۔ تین ’’عقل مند‘‘ ایک طرف بیٹھے ہوتے اور ایک ’’حد سے زیادہ عقل مند‘‘ دوسری طرف بیٹھا اُن تینوں کو آپس میں لڑا رہا ہوتا۔ ایک دن جہاز میں بیٹھا اور اس دور افتادہ جزیرے میں منتقل ہوگیا ، یہاں سے آگے کچھ نہیں۔ جنوب میں قطب جنوبی ہے۔ مشرق میں بحرالکاہل اور بحرالکاہل میں ایک اور جزیرہ نیوزی لینڈ۔
جس دن بیوی ڈش لگوا رہی تھی، میرا ماتھا ٹھنکا، ڈش سے تو یہ پاکستانی چینل دیکھے گی تو کیا یہاں بھی ٹاک شو …؟ وہ تو خدا کا شکرہے کہ وہ ڈرامے دیکھتی ہے‘ حالانکہ ہر ڈرامے میں ایک ہی کہانی ہے معاشقہ، شادی اور طلاق‘ جس طرح ہمارے مزاحیہ ’’شاعر‘‘ پڑوسن سے آگے جانے کو تیار نہیں، اسی طرح ہمارے ڈرامہ نگار عورت اور شادی کے سوا کسی موضوع پر نہیں لکھ سکتے۔
جملہ معترضہ طویل ہوگیا۔ بہرطور ٹاک شوز سے نجات ملی۔ خوبصورت جزیرے میں چین سے گزر رہی تھی لیکن …؎
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی
لو تھرائی اور تازہ بلا ٹوٹ کرگری۔ میں جزیرے میں چھپتا پھر رہا ہوں۔ کبھی اس شہر میں، کبھی اُس قصبے میں، کبھی کسی دور افتادہ ساحل پر کبھی کسی پہاڑ کے دامن میں واقع گمنام قریے میں اور سرکاری ہرکارے میرے تعاقب میں ہیں۔
اس علاقے میں تین بڑے ملک ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انڈونیشیا۔کیا آپ یقین کرینگے کہ تینوں کے وزرائے اعظم نے مجھے طلب کیا ہوا ہے۔ کہاں میں کم مایہ بے بضاعت، ایک قالین اور ایک پیالے پر حجرے میں گزر بسر کرتا ہوا، اور کہاں یہ تین عظیم الشان کشور اور اُن کے حکمران لیکن بخت سیاہ ہو اور پیشانی تنگ ہو اور ستارہ بجھا ہوا ہو تو کچھ بھی کام نہیں آتا …؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان تھا
مرے سر پہ بُوم تھا زاغ تھا میرے ہاتھ میں
بالآخر ایک گمنام گاؤں میں، جہاں میں نے ایک آسٹریلوی شاعر کی دیہی قیام گاہ میں پناہ لی ہوئی تھی مجھے گھیرے میں لے لیا گیا اور ایک سرکاری عمارت میں لے جا کر پیش خدمت کر دیا گیا۔ مجھ پر خوف طاری تھا لیکن پھر بھی سچی بات یہ ہے کہ میں متاثر نہیں ہوا۔ تین ملکوں کے حکمران اندر جلوہ افروز… اور باہر نہ پولیس، نہ فوج، نہ ریڈ زون، نہ ناکے، نہ کاروں کے جلوس۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، قصہ کوتاہ یہ کہ میں پیش ہوا … تینوں وزرائے اعظم سے باری باری گفتگو کچھ اس طرح ہوئی۔
’’ہم تمہیں اس لئے نہیں ڈھونڈ رہے تھے کہ تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ ہم تمہارے ذریعے ایک اپنا کام کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
حضور! حکم فرمائیں … میں حاضر ہوں… نظم لکھوانی ہے یا مضمون… کیونکہ میں یہی کچھ کر سکتا ہوں …
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔‘‘
’’نہیں، لکھنے لکھانے والے ہمارے ملکوں میں بہت زیادہ ہیں سو فیصد خواندگی والے ملکوں میں تمہارے لکھنے کی چنداں اہمیت نہیں… ہمیں کام یہ ہے کہ تمہارے ہاں سے ایک دو جوہر قابل درکار ہیں۔‘‘
’’میں اس ضمن میں وعدہ تو نہیں کرتا لیکن آپ حکم کریں۔‘‘
’’پہلے تو ہمیں وہ شیر مرد چاہیے جو تمہارے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے، جس نے کہا ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے وہ اصلی ہو یا جعلی اور یہ کہ جعلی ڈگریوں کا مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ میں اب بھی اپنے گھر میں رہتا ہوں اور حکومت کے بعد بھی اپنے گھر میں رہوں گا۔ وزراء کی ڈگریاں جعلی ثابت ہونے پر بھی میری حکومت کو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
ایک لمحے کو مجھے گمان گزرا کہ یہ لوگ مذاق کررہے ہیں لیکن میرا اور ان کا کوئی مذاق تو تھا ہی نہیں، اور پھر لوگ بالکل سنجیدہ تھے۔ میں نے ادب سے پوچھا کہ … وہ شیرمرد آپ حضرات کوکیوں درکار ہے؟ ان میں سے ایک یوں گویا ہوا۔
’’ہم اُسے یہاں بلا کر تعلیم کا قلم دان سونپنا چاہتے ہیں۔ پورے کرۂ ارض پر اس شخص سے زیادہ اس منصب کا کوئی حق دار نہیں۔ ناخواندگی اورجعلی ڈگریاں ہم لوگوں کیلئے ایک رومانی داستان کی طرح ہیں اور ہم اسے پرستان کا قصہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ وزیر اعلیٰ چاہیے تاکہ ہمارے ملکوں کو ناخواندگی اور جعل سازی کے داستانوی ماحول میں لے جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام وہ بخوبی سرانجام دے گا۔‘‘
انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا،
’’ہمیں اس مرد حق کے علاوہ ایک اور صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی چاہیے، ہمارے اس خطے میں انسانی قدریں رُوبہ زوال ہیں … کوئی دوستوں کا خیال رکھتا ہے نہ رشتہ داروں کا اور نہ اُن کا جو جنم جنم کے وفادار ہیں۔ جس وزیراعلیٰ کی ہم اب بات کر رہے ہیں۔ سُنا ہے وہ دوست نوازی میں ثانی نہیں رکھتا۔ اپنے ایک وفادار کو کھپانے کیلئے اس نے تاریخ میں پہلی بار ایک صوبے میں چیف سیکرٹری کی دو اسامیاں پیدا کردی ہیں یہ کام کرۂ ارض پر پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس نے یہ تاریخی کارنامہ اس لئے سرانجام دیا ہے کہ ایک صاحب جو پہلے چیف سیکرٹری تھے اور پھر ہٹانے پڑے، اُنہیں وہی منصب دیکر انکی شان میں جو کمی واقع ہوگئی تھی پوری کردی جائے‘ اگر یہ کارنامہ قابل تقلید سمجھا جائے تو ہر صوبے میں دو دو چیف سیکرٹری ہوں گے اور ہو سکتا ہے چیف منسٹر بھی دو دو ہو جائیں ( اگرچہ ایک صوبے میں اس وقت تین چیف منسٹر بھی ہیں چھوٹا بھائی، بڑا بھائی اور چھوٹے بھائی کا صاحب زادہ) اور کیا عجب دو دو گورنر بھی عالم وجود میں آ جائیں پھر یہ رَو اگر مرکز کا رُخ کرے تو ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم بھی دو ہو جائیں اور صدر مملکت بھی دو ہوں۔‘‘
ہمیں یہ وزیر اعلیٰ اس لئے پسند ہے کہ اپنے وفاداروں کو حکومت کے خرچ پر نوازنا بہتر سمجھتا ہے۔ صوبے کے پبلک سروس کمیشن میں وفاداروں کی فوج ظفر فوج مزے اڑا رہی ہے اور طریق کار کیا ہے؟ صرف اتنا کہ جو وفادار ریٹائر ہوتا ہے (بالخصوص پولیس نے) تو ایک کہنہ مشق، ازکار رفتہ بیوروکریٹ جو وزیر اعلیٰ سے بھی بڑی ہستی کا مشیر اعلیٰ ہے اس ریٹائرڈ وفادار کو پیش خدمت کرکے دو بول سفارش کے عرض کرتا ہے اور تخت شاہی سے فرمان جاری ہو جاتا ہے اس سے بڑھ کر دوست نوازی کیا ہوگی کہ جس وزیر کیخلاف شکایات تھیں، اُسے نکالا نہیں گیا صرف محکمہ بدلا گیا اور اس پر بھی پریشانیاں لاحق ہیں اور حیرانیاں آڑے آ رہی ہیں۔
’’ہمیں یہ دوستوں کا دوست اس لئے چاہیے کہ ہم بھی اپنے خطے میں دو چیف سیکرٹری اور ہر شعبے کے دو دو سربراہ اور ہر ملک کے دو دو حکمران بنانا چاہتے ہیں بلکہ اس کا تعاون حاصل ہوگیا تو کیا عجب ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی دو کروا سکیں۔ وہ جو شیخ سعدیؒ نے کہا تھا کہ ایک گدڑی میں دس فقیر سو جاتے ہیں لیکن ایک اقلیم میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے تو اگر تنخواہ زیادہ ہو اور مراعات بے حد و بے شمار ہوں اور گاڑیوں کا پورا بیڑہ ہو اور سروں پر وزیر اعلیٰ کا ہاتھ ہو اور دلوں میں وفاداری بشرطِ استواری کا جذبہ ہو اور فنڈ، سارے عوام کے ٹیکسوں سے ہوں اور اسمبلی کے ارکان موم کے ہوں اور وزیر مُرغانِ بادنما ہوں تو دو نہیں دو سے زیادہ چیف سیکرٹری بھی بنائے جا سکتے ہیں۔میں نے وعدہ کیا کہ حکم کی تعمیل کروں گا اور جھک کر سلام کرنے کے بعد باہر نکل آیا۔
بھلا میں کہاں اور اتنے بڑے بڑے کام کہاں۔ افسوس! یہ جزیرہ بھی مجھے راس نہ آیا۔ اب میں سامان باندھ رہا ہوں اور سامان بھی کتنا ہے؟ ایک پھٹا ہوا پراناقالین اور ایک پیالہ۔ اب قطب جنوبی ہی میری پناہ گاہ ہے اور اسی طرف جا رہا ہوں۔